[تحریر: لال خان]
حکومت مفلوج اور بے بس ہے، حکومت مخالف لانگ مارچ اور دھرنے کسی اندھی وادی میں بھٹک رہے ہیں اور عوام اسلام آباد میں جاری اس سرکس سے لا تعلق ہیں۔ ٹیلیوژن چینلوں کا جعلی ’سسپنس‘ بھی اب بوریت میں تبدیل ہو گیا ہے۔ عجیب طوفانی جمود ہے۔ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔ بہت کچھ ہورہا ہے اور کچھ بھی نہیں ہورہا۔ بھاری مینڈیٹ لے کر ’قومی رہنما‘ بننے کا میاں صاحب کا خواب بھی چکنا چور ہو گیا ہے۔ مذاکرات کا عمل آغاز اور پھر تعطل کے چکر میں گھوم رہا ہے۔ سامراجی بھی پریشان ہیں کہ پہلے سے غیر مستحکم ملک میں یہ نیا انتشار کہیں قابو سے باہر ہی نہ ہوجائے۔
عمران خان اور قادری تادم تحریر وزیر اعظم کے استعفیٰ کے مطالبے پر کم از کم بظاہر بضد ہیں۔ نواز لیگ ششدر ہے کہ پچھلے سال کے انتخابات کی عظیم الشان فتح اور پارلیمان میں اکثریت کس قدر بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ حکومت ہی کی طرح کنفیوز اپوزیشن جماعتیں اپنی مراعات اور مال بنانے کے مواقع کو بچانے کے لئے حالیہ سیاسی سیٹ اپ کی حمایت کر رہی ہیں۔ لیکن پارلیمانی سیاست کی شعبدہ بازیاں اور قراردادیں عرصہ پہلے عوام میں مقبولیت اور اعتماد کھو چکی ہیں۔ سرمائے کی جمہوریت اور اس جمہوریت کے علمبرداروں کی اصلیت کب کی بے نقاب ہو چکی ہے۔
میاں صاحب کی ایک آزاد، ’’خود مختیار‘‘ اور طاقتور وزیر اعظم کے طور پر اپنا تشخص ابھارنے کی ساری تگ و دو کو فوج نے ناکام و نامراد کر دیا ہے۔ سیاست اور سفارت کے حقیقی فیصلے آج بھی وہاں ہی ہوتے ہیں جہاں ہمیشہ سے ہوتے آئے ہیں۔ بدھ کو شائع ہونے والی رائٹرز کی رپورٹ بڑی دلچسپ تھی جس میں ’’اندر‘‘ کے ایک بندے کے یہ الفاظ نقل کئے گئے کہ ’’اقتدار پر قبضہ کرنے کا فوج کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن۔ ۔ ۔ اگر حکومت نے اپنے مسائل سے چھٹکارہ پانا ہے اور اگلے چار سال گزارنے ہیں تو اسے اہم معاملات میں فوج کی شراکت داری تسلیم کرنا ہو گی۔‘‘ یہاں ’’شراکت داری‘‘ کا صاف مطلب یہ ہے کہ ’’جمہوری‘‘ حکومت صرف داخلی سیاست کے ثانوی معاملات پر فوکس کرے اور اسٹریٹجک پالیسی جیسے ہم معاملات میں ٹانگ نہ اڑائے۔ سویلین حکمران اصطلاح کے ان معنوں سے ہمیشہ واقف رہے ہیں بصورت دیگر واقفیت کروا دی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ نواز شریف نے برسر اقتدار آنے کے بعد ہندوستان سے پاک بھارت تعلقات میں بہتری اور دو طرفہ تجارت کے آغاز کا عندیہ دیا تھا۔ نواز شریف کے ایک قریبی ساتھی کے مطابق ’’سیاست میں ایک فیصلہ کن عنصر کے طور پر عمران خان کے ابھار سے خوفزدہ ہوکر نے نواز شریف نے فوج کے سامنے سر تسلیم خم کردیاہے۔ ’انہوں‘ نے نواز شریف کے کردار کو بادشاہ جیسے وزیر اعظم سے گھٹا کر ایک ڈپٹی کمشنر جیسے عہدے تک محدود کر دیا ہے جس کا کام ملک کے روز مرہ معاملات کو دیکھنا ہے، جبکہ افغانستان اور ہندوستان جیسے اہم معاملات کا فیصلہ ’وہ‘ کریں گے۔‘‘
پاکستان کی سیاست اور ریاست کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ انکشافات کوئی اتنے حیران کن بھی نہیں ہیں۔ تاہم پچھلی دو سے تین دہائیوں کے دوران ریاست میں بڑے پیمانے پر کالے دھن کی سرایت، بدعنوانی اور معاشی بحران کے باعث میڈیا، مذہبی گروہوں اور دوسرے ’نان اسٹیٹ ایکٹرز‘ پر ریاستی ایجنسیوں کی گرفت ڈھیلی پڑچکی ہے۔ اسلامی دہشت گردوں کے مختلف گروہ سامراجی اور مقامی آقاؤں کے قابو سے باہر ہوکر در سر بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سیاست اور میڈیا کے کچھ دھڑوں کی جانب سے وفاداریاں بدلنے، ریاست کے فیصلہ کن حصوں پر غالب آنے یا آزادانہ کردار ادا کرنے کی کوششوں نے بھی کئی نئے تضادات کو جنم دیا ہے۔ موجودہ صورتحال بھی انہیں تضادات کی پیداوار معلوم ہوتی ہے۔ ریاست کے حاوی دھڑے کی آشیر آباد اور تعاون سے اس سیاسی مقام پر پہنچنے والے عمران خان اور طاہر القادری مقررہ حدود سے کافی تجاوز کر چکے ہیں اور ساری منصوبہ بندی کھٹائی میں پڑ گئی ہے۔ لانگ مارچ ’کروانے‘ والوں کے مقاصد بڑی حد تک پورے ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے یہ دو ’فرنٹ مین‘خاصی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ آگے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا اور پیچھے ہٹنا اتنا آسان نہیں!
موجودہ صورتحال کا ایک اور اہم پہلو افغانستان سے امریکہ کا ممکنہ انخلاء اور پاکستانی ریاست کی ’’اسٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ کی پالیسی ہے۔ امریکی انخلا کے بعد ’گریٹ گیم‘ کا نیا معرکہ شروع ہو گا۔ لوٹ مار اور کشت و خون میں ملوث مختلف علاقائی اور عالمی طاقتوں کی خطے میں مداخلت کم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گی۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن اور سویلین حکومت کی ’’سرزنش‘‘ دراصل مغرب میں تزویراتی گہرائی کی پالیسی کو ازسر نو ترترتیب دے کر زیادہ ٹھوس کرنے کے اقدامات ہیں۔ بھارت سے امن مذاکرات کا آغاز سے پہلے ہی اختتام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ہندو بنیاد پرست بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ویسے بھی دونوں ممالک میں ریاستوں کے قدامت پرست دھڑوں اور مذہبی بنیاد پرستوں کیلئے تعصب اور نفرت کی سیاست کرنا آسان ہو گیا ہے۔ جعلی دشمنی، کشیدگی اور پراکسی جنگوں کی آگ میں یہ پورا خطہ جل رہا ہے جو کبھی رنگون سے لے کر کابل تک ایک ملک ہوا کرتا تھا۔ لیکن عداوت اور عناد کی سیاست جب تجوریوں کو پیسے سے بھرتی چلی جارہی ہو تو کون پروا کرتا ہے؟
اسلام آباد میں جاری دھرنوں کا انت جو بھی ہو، نواز لیگ کو لگنے والی چوٹ جان لیوا نہ سہی، گہری ضرور ہے۔ سرمایہ داروں کی یہ حکومت ڈیڑھ سال میں ہی اپنی نامرادی کو بے نقاب کر بیٹھی ہے۔ دائیں بازو کی لچھے دار لفاظی، دعووں اور وعدوں پر سے چھوٹے کاروباری حضرات اور تاجر طبقے (جو نواز لیگ کی روایتی سماجی و سیاسی بنیاد ہیں) کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ عمران خان کے ’’آزادی مارچ‘‘ کے پاس عوام کو بیروزگاری، غربت اور مہنگائی سے آزاد کروانے کو کوئی پروگرام اور لائحہ عمل نہیں ہے۔ قادری کا انقلاب ویسے ہی بے نام ہے جس کے بے بنیاد اور ہوائی ایجنڈے کے نکات بدلتے رہتے ہیں۔ تحریک انصاف دراصل ایچی سن سے فارغ اتحصیل اشرافیہ کا اکٹھ ہے۔ ’’یکساں نظام تعلیم‘‘ کی بات کرنے والے یہ حضرات کبھی برطانوی سامراج کے قائم کردہ اس ادارے کو قومی تحویل میں لینے کا مطالبہ نہیں کریں جس کا مقصد ہی نوآبادیاتی اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے مقامی حکمران طبقے کی عیار اور تعلیم یافتہ پرت کو پروان چڑھانا تھا۔ یہ کام تو بھٹو بھی نہیں کر سکا تھا۔ بھلا غریب اور ’’جاہل‘‘ عوام کے میلے کچیلے بچوں کی کیا جرات کہ اس تاریخی ادارے کی شاہانہ غلام گردشوں میں قدم بھی رکھ سکیں؟ یہ جاہ وجلال تو اس سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقے کی اولاد کے لئے مخصوص ہے جسے انگریز اپنے استحصالی سامراجی نظام کی حفاظت کے لئے پیچھے چھوڑ گئے تھے۔
منشیات اور اغوا برائے تاوان کے بعد تعلیم اور علاج اس ملک کے سب سے منافع بخش کاروبار ہیں۔ اسلام آباد کے دونوں ’’انقلابی‘‘ بنیادی انسانی حقوق کے ان دھندوں کی طرف اشارہ کرنے کی جرات بھی نہیں رکھتے۔ ان سرمایہ داروں اور سامراجی اجارہ داریوں کی مالی حمایت اور ’’فنڈ‘‘ کے بغیر یہ کارپوریٹ دھرنے ایک دن بھی نہیں چل سکتے۔ اس ملک کی سیاست پر براجمان تمام بڑی سیاسی جماعتیں سفید، سیاہ یا ’’سرمئی‘‘ سرمائے کے مختلف دھڑوں کی نمائندہ ہیں۔ یہ ’’آزادی‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ مارچ نیچے سے ابھرنے والی ایک حقیقی انقلابی تحریک کودبانے اور بد ظن کرنے کی بھونڈی کوشش ہے۔ حکمران طبقہ کے سنجیدہ پالیسی ساز سماج کی سطح کی نیچے پنپنے والی بے چینی اور خلفشار کی حدت کو بخوبی محسوس کر سکتے ہیں۔ حقیقی انقلاب سے خوفزہ ہو کر وہ جعلی انقلاب کرواتے پھر رہے ہیں۔ لیکن کیا یہ لوگ تاریخ کا دھارا موڑ سکتے ہیں؟ان بیہودہ تماشوں اور تھیٹروں کے ذریعے محرومی، ذلت اور استحصال کو محنت کش عوام پر ہمیشہ کے لئے مسلط رکھ سکتے ہیں؟ کیا انسانیت سرمایہ داری کی ذلتوں میں ہمیشہ سسک سکتی ہے؟ انقلاب کے یہ ڈرامے حکمران طبقے کو بہت مہنگے پڑیں گے۔ تاریخ کا جمود ٹوٹے گا۔ عوام جب انقلابی تحریک میں اٹھیں گے تو ایک انقلابی قیادت خود تراشیں گے اوراستحصال پر مبنی طبقاتی نظام کو اس کے سیاسی مداریوں سمیت نیست و نابود کر دیں گے۔
متعلقہ:
لانگ مارچ: افلاس سے بے مہر ٹکراؤ!
انقلاب آخر ہوتا کیا ہے؟
کیسا آزادی مارچ؟
یہ کیا ہو رہا ہے؟
لانگ مارچ اور ’’تبدیلی‘‘ کی حقیقت