گوجرانوالہ :بدر 313 فیکٹری میں ناقص حفاظتی انتظامات کی وجہ سے محنت کشوں کی ہلاکتیں

| PTUDC گوجرانوالہ |

گوجرانوالہ کے نواحی علاقہ گکھڑ منڈی جی ٹی روڈ پر واقع چکن فیڈ اور کوکنگ آئل بنانے والی فیکٹری بدر 313 میں مورخہ 5 ستمبر کو اچانک کام کے دوران بوائلر پھٹنے سے زوردار دھماکہ ہوا۔ اس دھماکہ کی گونج اتنی شدید تھی کہ قریب کی فیکٹریوں میں بھی اس کی شدت محسوس کی گئی، اس سلسلے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بوائلر سے منسلک گیس پائپ لائن پھٹ گئی، جس کے دھماکہ سے فیکٹری کی چھت زمین بوس ہو گئی جبکہ فیکٹری میں آگ لگ گئی، بیشتر مزدور ملبے تلے دب گئے۔

Ghakar Mandi Accident 2حادثے کے وقت یہاں 80 مزدور کام کررہے تھے، دھماکے کے بعد 33 مزدور فیکٹری کے ملبے تلے دب گئے جن میں سے 27 زخمی مزدوروں کو نکالا گیا، 3 لاشیں بھی ملبے سے نکالی گئیں، 3 مزدور بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے اس طرح ہلاکتوں کی تعداد 6 ہوگئی۔ ہلاک ہونے والوں میں 28 سالہ امانت علی، 25 سالہ امجد علی، 32 سالہ شاہد، شہباز، شہزاد، راشد شامل ہیں دیگر زخمیوں کو ڈی ایچ کیو ہسپتال منتقل کردیا گیا جہاں سے 21 زخمیوں کو لاہور ہسپتال میں منتقل کردیا گیا ہے، جن میں تنظیم، منور، رشید، احسن، عابد، حمزہ، لقمان، زبیر، امجد، یاسر، رشید، مجاہد، افضل، عاشق، شاہد، تہذیب، یاسر، شاہد، اسحاق، جمشید، افضل، فیاض و دیگر شامل ہیں۔ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کی جانب سے کامریڈ ابوبکر جائے وقوعہ پر پہنچے اور نہ صر ف امدادی کامو ں میں حصہ لیا بلکہ محنت کشو ں کے حوصلے بلند کرتے رہے۔ پاکستان میں فیکٹریوں میں ناقص حفاظتی انتظامات اور محنت کشو ں کے لئے کام کے مناسب ماحول نہ ہونے کی وجہ سے ایسے حادثات معمول بن چکے ہیں جہاں پر اپنے منافعوں کے لئے محنت کشو ں کی زندگی سے کھیلنا معمول بن چکا ہے۔ ان حالات کے علاوہ اس فیکٹری میں محنت کشوں کا بد ترین استحصال کیا جاتاہے جہاں پر فقط 8000 تا 12000 تنخواہ پر محنت کش کام کرنے پر مجبور ہیں۔ یہاں مستقل ملازمت کا تصور بھی موجود نہیں بلکہ محنت کشو ں سے 12سے 14گھنٹے کام لینا معمول کی بات ہے۔ قلیل اجرتوں اور سخت حالات کے باوجود یہ محنت کش فیکٹری مالکان کے لئے منافع کما کر دیتے رہے۔ اس سے پہلے متعدد مرتبہ محنت کش مالکان کو بوسیدہ مشنری اور خستہ حالت عمارت کے بارے میں بتا چکے ہیں لیکن بجائے کسی ایکشن کے ان کو چپ کروایا گیا ہے۔ حفاظتی انتظامات کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ خطرناک کیمیکلز مثلاً کاسٹک سوڈا، چونا اور تیزاب کھلے عام رکھے گئے تھے اس حادثہ کے بعد ہر طرف کیمیکلز جابجا بکھرا پڑے تھے۔ اسی وجہ سے فائر بریگیڈ کی طرف سے آگ بجھانے کے لئے پھینکا جانے والا پانی بھی وبال جان بن گیا جہاں کیمیکلزکے ری ایکشن سے مزید ہلاکتیں اور دم گھٹنے سے بھی ہلاکتیں ہوئیں۔ اس حادثہ کے بعد ضلعی انتظامیہ نے بھی حرکت کی جس میں پولیس نے فیکٹری کے مالک میجر (ر) الطاف چیمہ کے بیٹے شعیب الطاف چیمہ(جو کہ مسلم لیگ ن کا ضلعی سیکرٹری انفارمیشن بھی ہے ) اور فیکٹری کے منیجر الیاس کو حراست میں لے لیا ہے ڈی سی او عامر جان نے جائے حادثہ کا دورہ کیا اور بتایا کہ فیکٹری میں سکیورٹی انتظامات نہ کئے گئے تھے۔ لیکن یہ فیکٹری ایک عرصہ دراز سے انہی محکمو ں کے زیر سایہ کام کر رہی تھی کسی نے بھی اس وقت ایکشن لینا مناسب نہیں سمجھا۔ سرکاری محکموں کے مابین اس کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کا عمل شروع کر دیا ہے دوسری طرف بورژوامیڈیا نے پہلے تو اس واقعہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جب ضلعی افسران نے جائے وقوعہ کو وزٹ کیا تو پھر انہوں نے کوریج دینا مناسب سمجھی۔ زخمی مزدوروں کی عیادت کے لئے پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے کامریڈ صبغت وائیں، کامریڈ محمد ابن ثنا و دیگر پر مشتمل دفد ڈی ایچ کیو ہسپتال گوجرانوالہ گئے، جہاں پر ہسپتال میں زخمی محنت کشوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ انتظامیہ کی طرف سے زخمیوں اور ہلاک مزدوروں کے لواحقین سے کسی قسم کا تعاون نہیں کیا گیا جن مزدوروں کو لاہور ریفر کیا گیا ان کی تفصیلات بتانے سے بھی گریز کیا گیا صرف شرفاء شہر کی آمد پر محض فوٹو سیشن کا انعقاد کیا گیا۔ فیکٹری کے ایک 48 سالہ مزدور عاشر کھوکھر نے کے وفد سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ خوش قسمتی سے دھماکہ کے مقام سے چند فاصلے دور پر تھا جس کی وجہ سے وہ بچ گیا۔ مالکان کی بے حسی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 9 سال قبل بھی ایسا حادثہ ہوا تھا جس میں بھی کئی مزدور جھلس کر زخمی ہوئے تھے لیکن فیکٹری انتظامیہ نے اس کی کوئی پروا ہ نہ کی‘ خود میں بھی کئی ماہ ہسپتالو ں کے دھکے کھاتا رہا اور پھر جینے کے قابل ہوا۔ فیکٹری مالکان ن لیگ کے عہدے دار ہونے کے ساتھ ساتھ وزیر اعلٰی شہباز شریف کے دست راست ہیں، جس کی وجہ سے ہمیشہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی، بلکہ ہر بار ملبہ کسی اور پر ڈال کر معاملہ دفن کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپیئن محنت کشوں کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انصاف ملنے تک تحریک چلانے کا اعلان کرتی ہے جس میں تمام ترقی پسند قوتوں کو ساتھ دینے کی اپیل کرتے ہوئے اس لڑائی کو منطقی انجام تک لڑنے کا عہد کرتی ہے۔

مطالبات
1۔ ہر ہلاک مزدور کے لواحقین کو 50 لاکھ اور زخمی مزدور کو 25 لاکھ ہرجانہ کے طور پر ادا کئے جائیں۔ 2۔ فیکٹری مالکان مالک میجر (ر) الطاف چیمہ اور اسکے بیٹے شعیب الطاف چیمہ کو سزائے موت دی جائے، 3۔ مالکان کی سرپرستی کرنے والے حکومتی افسران کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔ 4۔ تمام مزدوروں کو مستقل اور مہنگائی کے تناسب سے ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔ 5۔ تمام مزدور دشمن عناصر کو عبرت کا نشان بنایا جائے۔