’’باڈی لینگویج‘‘

| تحریر: لال خان |

پیرس میں ’ماحولیاتی آلودگی‘ پر ہونے والی عالمی کانفرنس میں بہت سے سربراہان مملکت نے شرکت کی۔ آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر اس طرح کے اجلاس اور کانفرنسیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔ آلودگی منافع کی ہوس پر مبنی سرمایہ داری کی پیداوار ہے اور یہ مسئلہ اس نظام میں حل ہونے والا نہیں۔ آج آلودگی سے پاک توانائی کی تمام تر ٹیکنالوجی اور ذرائع موجود ہیں لیکن مسئلہ تیل اور دوسرے فاسل فیولز سے وابستہ دیوہیکل ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعوں کا ہے جو اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
کانفرنس کے موضوع اور اغراض و مقاصد سے قطع نظر، کارپوریٹ میڈیا کی زیادہ تر توجہ اس کانفرنس میں شریک حکمرانوں کی حرکات و سکنات پر مرکوز رہی۔ جب کسی مسئلے کا حل ہی موجود نہ ہو تو پھر اسی قسم کی کوریج سے عوام کا گزارا کرانا پڑتا ہے۔اس ضمن میں ایک روایتی لطیفہ بہت مشہور ہے۔ کوئی چرواہا جنگل میں اپنے مویشی چرایا کرتا تھا، ایک روز ریوڑ کے ساتھ جنگل میں گھوم رہا تھا کہ ضروری کام سے قریبی دیہات جانا پڑ گیا۔ اب مویشی کس کے حوالے کرتا؟ مجبوراً ایک گلہری سے درخواست کی کہ دھیان رکھے اور وہ کچھ ہی دیر میں واپس آ جائے گا، گلہری نے حامی بھر لی۔ کچھ دیر بعد گاؤں سے واپس جنگل آیا تو مویشیوں کا دور دور تک کوئی نشان نہ تھا۔ گلہری کبھی درخت کے اوپر چڑھتی کبھی نیچے اترتی۔ چرواہے نے مویشیوں بارے دریافت کیا تو گلہری کھسیانی ہو کے بولی ’’مویشیوں کو چھوڑو، بس میری آنیاں جانیاں دیکھو!‘‘آج اس بحران زدہ نظام کے نمائندہ حکمرانوں کا حال بھی اس گلہری والا ہی ہے۔ انسانوں کی وسیع اکثریت بھوک، بیماری، بے روزگاری اور جنگوں میں غرق ہو رہی ہے، پورا سیارہ آلودگی سے برباد ہو رہا ہے اور یہ اپنی آنیوں جانیوں میں عوام کو محو رکھنے کی کوشش میں ہیں۔
ایسی کانفرنسوں میں حکمرانوں کی ’’باڈی لینگویج‘‘ پر میڈیا کا بڑا فوکس ہوتا ہے۔ میڈیا میں اب تفریح اور خبروں میں فرق مٹتا جا رہا ہے۔ جب سیاست حقیقی ایشوز سے عاری ہو جائے اور کسی انقلابی تحریک کی عدم موجودگی میں سماج جمود کا شکار ہو تو حکمرانوں کی شادیاں اور طلاقیں، جنسی سکینڈل، گالی گلوچ اور رنگ برنگ کے ناٹک ہی موضوعات بن جاتے ہیں۔ ان کی ملاقاتوں اور عشق معاشقوں پر ’’نیوز چینل‘‘ گیت فلماتے ہیں اور المیے ’’انٹر ٹینمنٹ‘‘ بنا کر پیش کئے جاتے ہیں۔ اگر ان حکمرانوں کے مظالم اتنے بھیانک اور سماج کی حالت اتنی نازک نہ ہوتو واقعی یہ حکمران کسی فلاپ فلم کے گھٹیا مسخرے ہی لگیں۔ لیکن ان کا نظام جس طرح انسانیت کو گھائل کر رہا ہے ایسے میں کسی با شعور انسان کو ان کی حرکتوں سے کراہت ہی آ سکتی ہے۔
پیرس کی اس کانفرنس میں دو ملاقاتیں خصوصی اہمیت کی حامل تھیں جہاں ’باڈی لینگویج‘ واقعی بہت کچھ بے نقاب کر رہی تھی۔ تعلقات کی نوعیت اور مشکلات خوب عیاں تھیں۔
obama putin paris climate summitپہلی ملاقات اوباما اور پیوٹن کی تھی۔ یہ آمنا سامنا بہت کچھ بتا گیا۔ کانفرنس میں اوباما اور پیوٹن کی ساتھ رکھی کرسیوں پر بیٹھنے کے کچھ لمحات کے بعد پیوٹن نے اوباما کی طرف دیکھا، اوباما نے فوراًاپنا انگوٹھا کھڑا کر کے خوش آمدی کا اظہار کیا۔ پیوٹن نے ہلکی سے ’سمائل‘ دی تو اوباما فوراً اپنی کرسی گھسیٹ کر اس کے قریب لے آیا اور تابعداری کے انداز میں گفتگو کرنے لگا۔ اوباما کی یہ حرکت بنیادی طور پر ترکی کی جانب سے روسی طیارہ مار گرانے پر ’نیٹو‘ کی معذرت کا اظہار تھا(ترکی نیٹو کا ممبر ہے)۔ پیوٹن کے سامنے اوباما کی یہ عاجزی واضح کرتی ہے شام میں امریکی سامراج اپنی فیصلہ کن مداخلت کی سکت کھو چکا ہے۔ روس کی شام میں براہ راست عسکری مداخلت کے خلاف مغربی میڈیا کے تمام تر پراپیگنڈا کے باوجود ، حقیقت یہ ہے کہ شام کے پیچیدہ حالات کو سنبھالنے کے لئے مغربی سامراجیوں کے پاس آخری سہارا روس ہی رہ گیا ہے۔ اس ملاقات میں پیوٹن کی بے نیازی اور نیم بے رخی بتاتی ہے کہ وہ امریکیوں کی بے بسی سے خوب واقف ہے اور اپنی دھونس بڑھا رہا ہے۔
دوسری اہم ملاقات ،جس کا چرچا بالخصوص جنوب ایشیا کے میڈیا پر خوب ہوا ، نواز شریف اور نریندر مودی کے درمیان تھی۔ مودی نے خاصی گرمجوشی دکھائی تاہم میاں صاحب اس معاملے میں تھوڑا اجتناب برت کر بھارتی ریاست کے تضحیک آمیز رویے کا گلہ کر رہے تھے۔ تاہم ان کے چہرے کی سنجیدگی میں بھی عیاں تھا کہ دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں۔ آخر دنیا کی ’’سب سے بڑ ی جمہوریت‘‘ کاسخت گیر سربراہ خود چل کر ان کے پاس آیا تھا، ایسے میں سنجیدگی کا نقاب اوڑھ کر میاں صاحب ’’شیر‘‘ ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ چند منٹ کی اس ملاقات میں بھلا کیا طے پانا تھا، بہرحال حکومت اور میاں صاحب کی میڈیا ٹیم نے اسے سفارتکاری کی کامیابی بنا کر پیش کرنے کی خوب کوشش کی۔
nawaz modi paris climate summitمیاں صاحب نے اس ملاقات کے دوران اور بعد میں جس طرح اپنی خوشی کو چھپایا اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جس غیر معمولی احتیاط سے الفاظ کا چناؤ کیا ، وہ ’’کسی اور‘‘ قوت سے ان کے خوف کا غماز تھا۔ ایسے میں نظر آیا کہ میاں صاحب کا اقتدار کس کا مرہون منت ہے اور ہزاروں میل دور بھی وہ اپنے پاکستان کے شاہی محل سے چند کلومیٹر دور کچھ بیرکوں سے کتنے پریشان رہتے ہیں۔ بھاری اکثریت سے برسر اقتدار آنے کے ابتدائی کچھ دنوں میں میاں صاحب نے ہندوستان سے متعلق کچھ لاپرواہی کی تھی، اپنے کاروباری مفادات کے تحت دورہ دہلی کے دوران کچھ زیادہ ہی گرمجوشی دکھا دی تھی جس کا خمیازہ انہیں جلد ہی بھگتنا پڑ گیا۔ جب اقتدار ہچکولے کھانے لگا تو میاں صاحب بھی توبہ تائب ہو گئے اور اب خصوصاً ہندوستان کے معاملے میں پھونک پھونک کے قدم رکھتے ہیں۔ بھاری مینڈیٹ والا مودی بھی اپنے کارپوریٹ آقاؤں کے آگے خاصا بے بس ہے۔ بھارتی ریاست اور سیاست کے کئی دھڑے اسے بھی میاں صاحب کی طرح ہی پریشان رکھتے ہیں۔
ایسی سرسری ملاقاتوں اور مذاکرات کے تسلسل میں، پاکستان اور ہندوستان کے حکمرانوں کے درمیان بلی چوہے کا یہ کھیل گزشتہ 68 سالوں سے ہی چل رہا ہے۔ کبھی دوستی اور امن و آشتی کے گیت گائے جاتے ہیں، تحائف کے تبادلے ہوتے ہیں، کرکٹ ڈپلومیسی جاری ہوتی ہے اور ’’خفیہ مذاکرات‘‘ کی بھی اتنی تشہیر ہوتی ہے کہ اتنی کوریج معمول کے مذاکرات کو نہیں ملتی۔ لیکن ابھی مذاکرات ایک سلسلہ بھی مکمل نہیں ہوتا کہ کوئی واقعہ یا سرحدی جھڑپ اس پورے عمل کو الٹ دیتے ہیں۔ پھر یہی حکمران ایک دوسرے کے خلاف آگ اگلتے ہیں، سماج میں دشمنی اور نفرت کا زہر انڈیل دیا جاتا ہے، عوام میں قومی شاونزم اور مذہبی منافرت ابھارنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔کبھی ’لبرل‘ حکمرانوں کے برسر اقتدار آنے سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں تو کبھی یہ کہا جاتا ہے دونوں ممالک میں سخت گیر دائیں بازو کی حکومتیں ہی تلخ تنازعات اور مسائل کو حل کر سکتی ہیں۔ ان ’دشمن‘ ممالک کے حکمرانوں کی اتنی مفاداتی سانجھ ہے کہ دشمنی کے ناٹک بھی دونوں اطراف سیاسی طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔
محبت اور نفرت کے یہ تماشے میڈیا پر چلتے رہتے ہیں لیکن حکمرانوں کی دوستی اور دشمنی کی یہ ’’باڈی لینگویج‘‘ برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کو کوئی آسودگی دینے قاصر ہے۔ ایسی وارداتیں اس استحصالی نظام کے تحفظ اور بقا کے لئے ہی جاری رہتی ہیں۔ دونوں ممالک میں غربت اور محرومی اتنی اذیت ناک ہو چکی ہے کہ ریڈ کلف لائن کے دونوں اطراف انقلابی بغاوت کا خطرہ اب ہر وقت منڈلاتا رہتا ہے۔ اس کو دبانے اور حقیقی ایشوز کو نان ایشوز تلے دبانے کے لئے امن، جنگی جنون، تناؤ اور مذاکرات کا یہ گھن چکر یہاں کے حکمرانوں کی مستقل پالیسی بن چکا ہے۔ یہ امن قائم کر سکتے ہیں نہ کھلی جنگ لڑ سکتے ہیں۔لیکن یہ کھلواڑ ہمیشہ جاری رہ سکتا ہے نہ خلق کی آواز صدا دبائی جا سکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انقلاب کے طوفان سرحدوں کا احترام نہیں کیا کرتے!

متعلقہ:

تابکاری، سفارتکاری اور عیاری