| رپورٹ: PTUDC بلوچستان |
یکم نومبر 2016ء کی صبح گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کے یارڈ نمبر 54 میں کھڑے آئل ٹینکر میں ہونے والے پے درپے دھماکوں کے نتیجے میں کم از کم 16 محنت کش اب تک ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 70 سے زائد شدید زخمی ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق ابتدائی دھماکہ پرانے سلنڈر کے پھٹنے کی وجہ سے ہوا۔ دھماکے کے وقت سینکڑوں محنت کش متعلقہ جگہ پر کام کر رہے تھے۔ ہلاکتوں کی تعداد ابھی تک غیر مصدقہ ہے اور اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حکام کے مطابق 30 محنت کش اب تک ’لاپتہ‘ ہیں۔ کئی محنت کشوں نے جہاز سے سمندر میں کود جانیں بچائیں جبکہ کئی دوسرے ابھی تک جہاز کے اندر پھنسے ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق آئل ٹینکر میں آٹھ دھماکے ہوئے جن کی وجہ گیس ویلڈنگ بتائی جا رہی ہے۔ حکمرانوں کے بیہودہ تماشوں کی خبریں گزشتہ کئی دن سے مسلسل چلانے والے میڈیا پر اس اندوہناک خبر کا بلیک آؤٹ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ صرف دو دن پہلے ہی گڈانی یارڈ کے محنت کشوں نے سیفٹی کے انتظامات کی عدم موجودگی اور کام کے انتہائی تلخ حالات کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے نمائندے ناصر منصور کے مطابق ’’دھماکہ اتنا شدید تھا کہ دھات کے ٹکڑے کئی کلومیٹر دور جا کر گرے۔‘‘ یکم نومبر کی رات 11 بجے تک آنے والی اطلاعات کے مطابق آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے بلکہ اس کے پھیلاؤ اور مزید دھماکوں کے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں جس سے ریاستی اداروں کی نا اہلی اور بھی عیاں ہوتی ہے۔ سیفٹی کے انتظامات نہ ہونے کے باعث گڈانی میں ایسے حادثات معمول بن چکے ہیں۔ یہاں کام کرنے والے محنت کشوں کو مناسب جوتے، لیدر کے دستانے، ہیلمٹ اور آگ بجھانے کا سامان بھی دستیاب نہیں ہے۔ گڈانی دنیا کے سب سے بڑے شپ بریکنگ یارڈز میں سے ایک ہے لیکن یہاں کام کرنے والے محنت کشوں کو سوشل سکیورٹی سمیت انتہائی بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔ یہاں کام کے حالات اب کانکنی کی صنعت سے بھی بدتر ہو چکے ہیں۔
پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے مرکزی چیئرمین نذر مینگل نے اس واقعے پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ محنت کشوں کے قتل کا مقدمہ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ بلوچستان اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کے حکام کے خلاف درج کیا جائے اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے۔