5 جولائی: چار دہائیوں پر محیط یومِ سیاہ

[تحریر: قمرالزماں خاں]
پاکستان کی تاریخ میں 5 جولائی 1977ء کا منحوس دن‘ اس المیے کا خالق ہے جس کی وحشت سے پاکستان کے عوام سینتیس سال گزرجانے کے بعد بھی نہیں نکل سکے۔ 5 جولائی1977ء کو جنرل ضیاالحق نے صرف جمہوریت کا گلا ہی نہیں گھونٹا تھا بلکہ اس نے پاکستان کے زندہ سماج کی رگوں میں وحشت، دیوانگی، بنیاد پرستی، قتل وغارتگری اور دہشت کا اندھیر ا داخل کردیا تھا۔ پاکستان کا حکمران طبقہ پچا س اور ساٹھ کی دھائیوں میں بھی امریکی سامراج کا اطاعت گزار اور کرائے کا غلام رہا تھا، مگر ضیاالحق کی سربراہی میں سامراجی غلامی کے خونی مضمرات اگلی کئی نسلوں کو بھگتنے پڑرہے ہیں۔
اگرچہ آج کے زوال پذیر سرمایہ داری نظام کے تحت کسی بھی سماج کو جنت نظیر میں نہیں بدلا جاسکتا۔ مگر اس ہلاکت آفرینی کا آغاز اس فوجی شب خون سے ہوا جس کے لئے تیاری 1976ء کے وسط میں مکمل ہوچکی تھی۔ یہ دلیل کہ ’’قومی اتحاد‘‘ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین مذاکرات کے تمام نقاط پر اتفاق ہوچکا تھا مگر 4 اور5 جولائی کی شب کو غیر ضروری طور پر مارشل لاء لگا دیا گیا تاریخی طور پر بالکل غلط اور معصومانہ استدلال ہے۔ مارشل لاء لگنے سے ایک سال قبل ایک سوچی سمجھی تحریک (جس کو نظام مصطفی کی تحریک کہا گیا) کے شروع کرنے کا عندیہ 1976ء کے وسط میں ہی امریکہ نواز دائیں بازو کے راہنما ائیر مارشل اصغر خان نے ظاہر کردیا تھا۔ انہوں نے تو بھٹو کو کوہالہ کے پل پر لٹکانے کا وعدہ کیا تھا اور کہا تھا کہ عام انتخابات کے نتائج اگر انکی مرضی کے خلاف نکلے تو پھر بھٹو حکومت کے خلاف تحریک چلائی جائے گی۔ یہی وجہ تھی کہ مختلف الخیال اور تضادات سے بھرپور سیاسی و دینی نظریات کی حامل جماعتوں پر مبنی ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ تشکیل دیا گیا۔ اس اتحاد کو اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے ساتھ سعودی عرب اور امریکہ کی مالی، انتظامی اور بعد ازاں سفارتی حمائت حاصل تھی۔ الیکشن کے انعقاد کے اعلان سے ہی شیطانی طاقتیں مجتمع ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ کسی طبقاتی سماج میں کوئی بھی الیکشن منصفانہ اور آزادانہ نہیں ہوتا۔ مگر1977ء کے الیکشن میں اگر چند سیٹوں پر دھاندلی نہ بھی کی جاتی تو تب بھی ذوالفقار علی بھٹو کی بھاری اکثریت میں جیت واضح تھی، چونکہ سکرپٹ کے مطابق تحریک چلانے کا جواز حاصل کرنا تھا، اسلئے پاکستان پیپلز پارٹی میں موجود اسٹبلیشمنٹ کے کارندوں، خالد کھرل جیسے دوہرے ایجنٹوں نے سوچی سمجھی نیت کے ساتھ اور عوام کے خلاف اقدامات کرنے والے وڈیروں نے اپنے خوف کے تحت چند سیٹوں پر اس انداز میں من مانی کی کہ دھاندلی، دھاندلی کا شور مچانے کا جواز پیدا ہوگیا۔ قومی اتحاد نام کی اپوزیشن نے حکومت کے خلاف جو تحریک چلائی اسکا نام انہوں نے ’’تحریک نظام مصطفی‘‘ قرار دیا۔ اس مبہم نام سے ہی واضح تھا کہ تحریک کا مقصد انتخابی دھاندلی کے خلاف ریلیف لینا نہیں بلکہ تحریک کو لمبا کرتے ہوئے ہر حال میں بھٹو حکومت کا خاتمہ اور رجعتیت کا قیام تھا، اس تحریک کو دنیا ’’پیٹروڈالر‘‘ تحریک کے نام سے جانتی ہے کیونکہ اس تحریک کو چلانے کے لئے کروڑوں ڈالر اور کروڑوں ریال امریکہ اور سعودی عرب سے آرہے تھے۔ چنانچہ طے شدہ منصوبے کے تحت امریکی سامراج کی آشیر باد سے پاکستانی فوج نے پاکستان کی پہلی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹوکو ایک قتل کی اعانت کرنے کے الزام میں ایک مشکوک اور غیر منصفانہ عدالتی سماعت کے بعد 4 اپریل1979ء کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا کراصغر خاں کی 1976ء میں لگائی جانے والی بڑھک کو عملی جامہ پہنادیا گیا۔
اس کہانی کے سیاق وسباق اور پیش منظر کو سمجھے بغیر 5 جولائی 1977ء کے مارشل لاء کی حقیقت کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ بغیر کسی تبصرے کے، پھانسی کی کوٹھڑی میں اپنی موت کا انتظار کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کے تجزیے کو دیکھا جائے تو وہ اپنی کتاب اگر مجھے قتل کیا گیا میں لکھتے ہیں ’’میں نے اس ملک کے شکستہ ڈھانچے (1971ء کی بدترین فوجی شکست اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد) کو جوڑنے کے لئے دو متضاد مفادات کے حامل طبقوں کے درمیان ایک آبرومندانہ مصالحت کرانے کی کوشش کی تھی، مگر 5 جولائی کا سبق ہے کہ متضاد مفادات کے حامل طبقات کے درمیان مصالحت ‘ایک یوٹوپیائی خواب ہے۔ فوجی بغاوت سے سبق ملتا ہے کہ اس ملک میں ایک طبقاتی لڑائی ناگزیر ہے، جس میں ایک طبقہ برباد ہوگا اور دوسرا فتح یاب‘‘۔ بھٹو نے جس ’’طبقاتی مفاہمت ‘‘ کا خمیازہ موت کی شکل میں بھگتا تھا، یہ موت ایک شخص یا لیڈر کی موت سے آگے بڑھ کر پورے پاکستان کے لئے ایک قیامت صغریٰ ثابت ہوئی۔ بھٹوکو4 اپریل 1979ء میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، پھر اصل کہانی شروع ہوگئی۔ پاکستان کو سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے ’’فرنٹ اسٹیٹ‘‘ بنا کر کرائے کے قاتل کا کردار نبھانا شروع کیا گیا۔
افغانستان میں ثورانقلاب نے پاکستان اور دنیا بھر کے رجعتی اور عوام دشمن حکمران طبقے کی راتوں کی نیندیں اڑا دی تھیں۔ اگر ’’ثورانقلاب‘‘ درست نظریات، لائحہ عمل اورعالمی مارکسی نقطہ نظر سے آگے بڑھایا جاتا تو پھر اس انقلاب کو برپا تو افغان انقلابی کرتے مگر اسکا تحفظ ایران، پاکستان، ہندوستان اور دیگر ممالک کے محنت کش طبقے کا فریضہ بن جاتا۔ مگر سوویت کے جی بی کی جانب سے نورمحمد ترکئی اور بعد ازاں حفیظ اللہ امین کا قتل، فوجی مداخلت اور ایک ملک کے اندر سوشلزم کی گمراہ کن پالیسی کی وجہ سے ثور انقلاب تو درکار حمائت نہ حاصل کرسکا مگر رجعتی اور عوام دشمن قوتیں یکجا اور یک جان ہوگئیں۔ انقلاب دشمن محاذ کا ہیڈ کوارٹر، جنرل ضیاالحق کا پاکستان بنا۔ اسامہ بن لادن سمیت دنیا بھر کے غنڈے، قاتل اور دہشت گردپاکستان میں جمع کرکے انکو پاکستانی ایجنسیوں اور سی آئی اے کے مشترکہ ٹریننگ سنٹروں سے قتل وغارت گری کی تربیت دی گئی اور افغانستان میں مداخلت کو ’’جہاد افغانستان‘‘ قراردیا گیا۔ ان ہزاروں دہشت گردوں کی امریکی، چینی، سعودی، ہندوستانی اور دنیا بھر کے سرمایہ دارممالک کے سرمائے اور اسلحے سے اعانت کی گئی اور پھر انکو اپنے فنڈز خود پیدا کرنے کے لئے سی آئی نے اپنا معروف طریقہ کاراپنایا، یعنی پوست سے ہیروین بنانے کی فیکٹریاں لگانے کی ٹریننگ اور تکنیک فراہم کی گئی۔ اسلحہ کی بھرمار نے ’’اسلامی مجاہدین‘‘ کو اسلحے کی فروختگی کی ترغیب دی۔ اس طرح پاکستانی سماج میں کلاشنکوف اور ہیروین کا زہر سرائیت کرگیا۔ افغان فساد ابھی تک چالیس سالوں سے مختلف شکلیں بدل کر جاری ہے، افغانستان میں بیسیوں لاکھ بے گناہوں کے قتل کے ساتھ ساتھ پاکستان کا ہر شہر مقتل گاہ بنتاگیا۔ دوسری طرف پاکستان میں فوجی جنتا کے خلاف بے پناہ نفرت کا علاج کرنے کے لئے ملک میں لسانی سیاست اور قوم پرستی کی سرپرستی کی گئی تاکہ پیپلز پارٹی کے مدمقابل ’’ریاستی سیاسی پارٹیاں یا گروہ‘‘ تشکیل دیے جاسکیں، اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ بیک وقت شیعہ اور سنی تضادات کو ابھارنے کے لئے انکی سرکاری سرپرستی کی گئی اور انکی مالی معاونت کی گئی۔ سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد تشکیل دیے گئے۔ بعد ازاں اس فرقہ پرستی کی اعانت کافریضہ ’’دوست اسلامی ممالک‘‘ نے سنبھال لیا۔

ضیاء الحق کی 5 جولائی کی بغاوت کی حمائت کرنے والی سیاسی، سماجی اور بین الاقوامی طاقتیں پاکستان پیپلز پارٹی سے اسکے اس انقلابی رنگ وروپ کا انتقام لینا چاہتی تھی جسکا ذکر بھٹو مرحوم نے اپنی قتل گاہ میں بیٹھ کرکیا تھا۔ یہ پیپلز پارٹی کا انقلابی پروگرام تھا جس میں بغیر کسی ابہام کے پاکستانی سماج کو ایک سوشلسٹ سماج میں بدلنے کا عزم کرتے ہوئے معیشت کو سرمایہ داری سے نکال کر منصوبہ بند معیشت میں تبدیل کرنے کا جامع پروگرام دیا گیا تھا، اگرچہ اس پروگرام پر عمل درآمد کسی سرمایہ دارانہ جمہوریت یا اسکے الیکشن کے ذریعے نہیں ہوسکتا تھا، اس پروگرام پر عمل درآمد ایک سوشلسٹ انقلاب کا متقاضی تھا۔ مگر اپنے جنم کا باعث بننے والی 68-69ء کی تحریک کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی بھی ملک میں سوشلسٹ انقلاب نہ کرسکی اور رد انقلابی جمہوریت کی کھائی میں گر گئی۔ تحریک کی حدت نے پارٹی کو مجبور کرکے جو چند اصلاحات کرائیں تھیں، یہ سرمایہ داروں کو کھٹک رہی تھیں، جس کا انتقام بھٹو سے لیا جانا تھا۔ بھٹو خود اپنے بقول‘ اپنے تذبذب اور مصالحانہ روش کے نتیجے میں موت کی وادی کی طرف دھکیل دیا گیا۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے کا انتقام ٹھنڈا نہیں ہوا انہوں نے ’’بھٹو ازم‘‘ کہلوانے والے طبقاتی نظریے اور باقیات کو ختم کرنے کی ٹھا نی اور کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوگئے۔ بھٹو کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی میں دائیں بازو کی قیادتوں کو استوار کیا گیا۔ چئیرپرسن سے لیکر وارڈ کے عہدے داروں تک کی نامزدگی انکے سرمایہ دارانہ اور سامراجی اطاعت گزاری کے نظریات کی بنا پر ممکن کی گئی۔ 5 جولائی کی سیاہ رات کوپیپلز پارٹی کی شریانوں میں اتاردیا گیا۔
بھٹو کو ضیاء الحق پھانسی پر لٹکا کر نہ مار سکا مگرخود پیپلز پارٹی کی قیادتوں نے یہ فریضہ انتہائی شرافت اور مفاہمت سے سرانجام دے دیا۔ اب پاکستان پیپلز پارٹی میں ’’بھٹو‘‘ صرف نعرہ بازی کی حد تک زندہ ہے۔ بھٹو ازم کی روح کو‘ضیاالحق کا بھوت اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت مل کر ہرروز منڈی کی معیشت اور امریکی سامراج کے پتھروں سے سنگسارکرتی پائی جاتی ہے۔ جو ’’5 جولائی‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے فوجی بغاوت اور اسکے بعد از مضمرات کے حوالے سے ’’یوم سیاہ‘‘ تھا، اب خود ضیاء الحق کی سیاسی اور نظریاتی جانشینی اختیار کرنے کی وجہ سے قیادت کے سراپے اور خیالات پر بھی پوری طرح منطبق ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ’’لمحوں کی خطاکس طرح صدیوں کی سزا بن جاتی ہے‘‘ اس شعر کی عملی تعبیر 5 جولائی 1977ء کی فوجی بغاوت کی وجہ سے معرض وجود میں آنے والا پاکستان ہے۔ جس میں ہونے والا ہر بم دھماکہ، دہشت گردی، ہر بننے والا بنیاد پرست اورطالبان، سامراجی اطاعت کی ہر شرمناکی اور ہولناک نتائج کی ذمہ داری اسی سیاہ رات کی ہے جو سینتیس سال پہلے مسلط کی گئی مگر اب تک جاری ہے۔ اس رات کی سیاہی کی قید میں اجالے کی رہائی پھر اسی پروگرام کو منظرعام پر لاکر اس پر عمل درآمد کرنے میں ہے جس کا حامل ہونے کی سزا ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کو دی گئی تھی۔ اسی پروگرام میں واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ پاکستان سے سرمایہ داری، جاگیرداری اور سامراجی مفادات کے نظام کا خاتمہ کرکے ایک غیر طبقاتی معاشرہ تشکیل دیاجائے گاتاکہ اس ملک سے تمام امتیازی درجوں کا خاتمہ کرکے، تمام رہنے والوں کے لئے یکساں ماحول پیدا کیا جاسکے۔ کیا پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکنان اس سیاہ رات کا خاتمہ کرسکیں گے جو پہلے ضیاء الحق اور اب خود انکی اپنی قیادت نے مسلط کی ہے، یا پھر خود اسی تاریکی کا حصہ بن کر پارٹی کو مٹانے کا باعث بنیں گے؟ تاریخ اس سوال کا جواب ضرور مانگے گی۔

متعلقہ:
اداریہ جدوجہد: جبرِمسلسل
5 جولائی کا شب خون
بھٹو! تیرا وعدہ کون نبھائے گا؟
پاکستان پیپلز پارٹی: ثریا سے زمیں پر۔۔۔۔
داستان پیپلز پارٹی کے گمنام شہیدوں کی!