بہار: انتخابات میں بی جے پی کو شکست، وجوہات اور مضمرات

| تحریر: عمر شاہد |

ہندوستان کی دس کروڑ سے زیادہ آبادی کی ریاست بہار کے اہم انتخابات کے نتائج کے مطابق لالو پرشاد اور نتیش کمار کے اتحاد گرینڈ الائنس کی کامیابی اور بی جے پی کی شکست کو میڈیا خصوصی توجہ دے رہا ہے۔ بعض تجزیہ نگار اس فتح کو مودی سرکار کے لئے ’سیاسی زلزلہ‘ جبکہ گرینڈ الائنس کی کامیابی کو سیکولر ازم، سوشلزم کی فتح تک قرار دیا جا رہا ہے۔ ان انتخابات سے پہلے ہندوستان کے اہم میڈیا گروپس کی طرف سے عوامی رائے عامہ کے سروے بی جے پی کی واضح اکثریت کا پیغام دے رہے تھے۔ لیکن نتائج کے مطابق بی جے پی کا اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کل 243 نشستوں میں سے 58 لے سکا۔ گرینڈ الائنس میں شامل لالو پرشاد کی پارٹی راشٹریا جنتا دل 80، نتیش کمار کی جنتا دل (یونائیٹڈ) 71 اور کانگریس 27 سیٹیں لینے میں کامیاب ہوئی۔ بائیں بازو کی چھ پارٹیوں پر مشتمل اتحاد یونائیٹڈ لیفٹ بلاک میں شامل کمیونسٹ پارٹی( ایم ایل) ہی تین سیٹیں لینے میں کامیاب ہوسکی۔
modi bihar polls extremism cartoonیہ انتخابات ایک ایسی صورتحال میں ہوئے جہاں پر منظر نامہ پر ایک بار پھر طبقاتی معرکوں کا آغاز ہوا ۔ عالمی افق پر سوشلزم کی گونجتی صداؤں میں محنت کشوں کی نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ ہندوستان میں بھی اسی سا ل ستمبر میں پندرہ کروڑ محنت کشوں نے تاریخ کی سب سے بڑی عام ہڑتال کی اور دوسری طرف طلبا کی تحریک بھی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔ ایسی کیفیات میں جب طبقاتی بنیادوں پر انقلابی رحجانات پروان چڑھ رہے ہیں تو وہیں پر ہندوستان میں مودی سرکار کی طرف سے پاکستان دشمنی اور گائے کے گوشت جیسے نان ایشوز پروان چڑھائے جا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادتیں بجائے کوئی واضح لائحہ عمل دینے کے مزید دائیں بازو کی طرفجھک رہی ہیں ۔ کمیونسٹ پارٹی کی غداریوں کے سبب علاقائی بنیادوں پر ذات پات کے مسائل کو دایاں بازو مزید ابھار رہا ہے۔ بہار کی انتخابی مہم کے دوران جہاں گرینڈ الائنس کی طرف سے بیروزگاری الاؤنس، کسانوں کے لئے پرکشش پیکجز، غربت کے خاتمہ کے وعدوں اور دلت کے حقوق کی بات کی گئی جبکہ BJP کی مہم کے دوران نریندر مودی نے شروع میں ترقی اور خوشحالی کی بات کی لیکن جو ں جوں انتخابات قریب آتے گئے تو ذات پات سے مذہبی کارڈ کھیلنے کی کوشش کی گئی۔مودی کی طرف انتخابی مہم میں براہ راست مداخلت کے ساتھ ریاست کے لئے 1.25 لاکھ کروڑکے پیکج کا اعلان بھی کیا۔

کمیونسٹ پارٹیوں نے ہمیشہ سٹالنسٹ پالیسی ’مرحلہ وار انقلاب‘ کے غلط نظریہ کو بنیاد بنا کر اپنی موقع پرستی کو فروغ دیا۔ اپنی ترقی پسند بورژوازی کے ساتھ اتحاد کی پالیسی نے ان کی عوامی حمایت کو تیزی سے ختم کرنا شروع کر دیا۔ بہار میں تیس سال کے دوران کمیونسٹ پارٹیوں کا ووٹ بینک 10 فیصد سے کم ہوتا ہوا گزشتہ انتخابات میں صرف ایک سیٹ تک محدود ہو کر رہ گیا۔ ان انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی فقط ایک سیٹ ابدیش کمار رائے کو ملی جس نے بچھوارا حلقہ سے کانگریس کے امیدوار کو شکست دی۔ دیہی مسائل، اجرتوں، فوڈ سیکیورٹی جیسے مسائل پر واضح پروگرام اور ایجی ٹیشن کی بجائے کمیونسٹ پارٹی پروگرام میں گاندھی نیشنل رورل سکیم اور سکولوں میں صاف کھانا مہیا کر وانے پر زور دے رہی تھی۔ لیفٹ الائنس میں شامل صرف کمیونسٹ پارٹی (مارکسٹ لینسٹ) تین نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ لیفٹ الائنس کے رہنما مہلا نے شکست کی وجہ یوں بیان کی، ’ ’ہمیں جمہوری، سیکولر، ترقی پسند اور کانگریس اور بی جے پی مخالف اتحاد بنانے کی سز ا دی گئی‘۔ جو کہ حقیقت سے بالکل برعکس ہے گزشتہ تیس سالوں سے یہ پارٹیاں ہمیشہ کانگریس اور جنتا دل کی اتحادی رہی ہیں اس بار بہار میں پہلی مرتبہ ایک علیحدہ محاذ بغیر کسی انقلابی پروگرام کے محض رنگ اور چہرے کا فرق ہی تھا۔
عوام انقلابی نتائج فوری طور پر اخذ کرنے کی بجائے ہر سہل راستے کو آزمانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ 2005ء تک لالو پرشاد کی پارٹی RJP کے پندرہ سالہ اقتدار سے عوامی نفرت کا اظہار نتیش کمار کی فتح کی صورت میں نکلا کیونکہ 1994ء سے نتیش کمار لالو مخالف سیاست کرتا رہا ہے۔2004ء میں اکانومسٹ میگزین نے بہار میں لالو پرشاد یادیو کے اقتدار کے بارے میں لکھا کہ، ’’ بہار بدترین ہندوستان کی ضرب المثل بن چکا ہے جہاں غربت میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے، کرپٹ سیاست دانوں اور مافیا گروپس کے ڈانز میں پہچان کرنا ناممکن ہے اور ذات پات پر مشتمل سماجی نظام نے بدترین جاگیردارانہ مظالم کو زندہ رکھا ہے‘‘۔ 2014ء کے لوک سبھا کے انتخابات میں لالو پرشاد کو بدترین شکست ہوئی جس میں اس کے خاندان کا کوئی ممبر بھی جیت نہ سکا۔ دوسری طرف نتیش کمار کی حکمران جماعتJDU کو بھی گزشتہ سال کے لوک سبھا کے انتخابات میں شکست ہوئی تھی اور BJP بہار میں فتح یاب ہوئی۔ نتیش کمار تبدیلی کے نعرے سے حکومت میں آیا تھا لیکن اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کے برعکس بہار میں بنیادی ضروریات مثلاً صحت، تعلیم، نکاس وغیرہ ناپید ہیں۔ مودی سرکار کے ڈیڑھ سال کے تلخ تجربات کے نتیجے میں عوا م نے ان کو بھی مسترد کر دیا۔ انتخابات میں میڈیا اور پارٹیوں نے بنیادی ایشوز پر بات کرنے کی بجائے ثانوی ایشوز نسل پرستی، ذات برادری اور مذہبی جنونیت کو پروان چڑھایا۔ عوام کے پاس روٹی نہیں لیکن میڈیا پر گائے کے گوشت کے معاملے کو اچھالا گیا۔ ایک طرف مسلم ووٹ کے معاملے کو ہوا دی گئی تو دوسری طرف نچلی ذاتوں کے کوٹہ کے ایشو کو اصل ایشو ظاہر کیا گیا۔
حالیہ انتخابات میں سرمایہ کے بل بوتے پر امیدوار سامنے آئے ہر پارٹی نے امیر ترین افراد کو ٹکٹ دیے۔ کل امیدواروں کی اعلان کردہ دولت کا اوسط نکالیں تو یہ 1.44 کروڑ فی کس بنتی ہے، جب سرمایہ کے بل بوتے پر الیکشن لڑا جا رہا ہو تو ایسے میں نظریات اور مسائل کی بجائے نظر اقتدار میں آنے کے بعد حکومتی وسائل کی بند ر بانٹ پر ہوتی ہے۔ اسی بازار سیاست میں کالے دھن سے فیض یاب ہونے والے کئی جرائم پیشہ افراد بھی محض دولت کے بل بوتے پر امیدوار بنے۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارم کی رپورٹ کے مطابق پہلے مرحلے میں 587 ا میدواروں میں سے 174 یعنی 30 فیصد کے خلاف کئی تھانوں میں مقدمات درج ہیں ۔ ان میں 130 پر تو سنگین نوعیت کے جرائم مثلاً عصمت دری، قتل اور منشیات فروشی کے مقدمات تک چل رہے ہیں۔BJP کے 52 فیصد، JDU کے46 فیصد، RJD کے 35 فیصد حتی کہ کمیونسٹ پارٹی کے 56 فیصد امیدوار جرائم پیشہ گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے خلاف کئی مقدمات بھی چل رہے ہیں۔نتائج کے تفصیلی نتیجے کے مطابق BJP نے پچھلے 2010ء کے انتخابات کی نسبت 38 سیٹیں کم حاصل کیں، اسی طرح نتیش کمارکی حکمران جماعت جنتا دل (یونائیٹڈ ) کو 44 سیٹوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ محض لالو پرشاد کی جماعت راشٹریا جنتا دل نے پچھلے انتخابات کی نسبت 68 فیصدزائد سیٹیں حاصل کیں۔ جس کی اہم وجہ کسی متبادل کی غیر موجودگی ہے۔ کمیونسٹ پارٹیوں کے واضح پروگرام نہ دینے اور ان کے مغربی بنگال اور کیرالا میں تیس سال سے زائد اقتدار کے تلخ تجربات نے عوامی شعور پر اہم نقوش چھوڑے ہیں۔ سنگور میں ٹاٹا نینو کے پلانٹ اور نند ی گرام کے کیمیکل حب کے لئے جبراً زمین کی ضبطگیوں نے ان نام نہاد کمیونسٹ پارٹیوں کی جابرانہ پالیسیوں کو عیاں کیا۔مغربی بنگال میں جب کمیونسٹ حکومت محنت کشو ں پر ظلم ڈھا رہی تھی تو دائیں بازو کی رجعتی لیڈر ممتا بینر جی محنت کشوں کی ہر تحریک میں جارہی تھی وہاں ان کی حمایت کے دعوے کر رہی تھی جس کی وجہ سے وہ اب مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ہے۔ ایسے ’ڈرامائی‘ کارنامے لالو پرشاد نے بھی سر انجام دیے، 2014ء کے انتخابات کے دوران ان کو کرپشن الزامات کی بنا پر پولیس نے زیر حراست بھی لیا جس کے بعد وہ ہمدردی کا کارڈ کھیلنے میں کامیاب ہوا ہے۔ علاقائی طور پر کسانوں کے درمیان ان کی بات کرتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ لالو پرشاد کی پارٹی نے اس خلا کو وقتی طور پر پُر کیا اور ایک بار پھر لالو پرشاد کو کرشماتی شخصیت کے طور پر ابھار ا جا رہا ہے جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کی خصلت کا اظہار ہے۔
لالو پرشاد کے ماضی کے ’سنہرے ‘دور اور نتیش کمار کے’ میگا پراجیکٹس‘ کے باوجود ہندوستان کی تیسری بڑی ریاست بہار کی اصل پہچان زندگی کے بوجھ تلے دبے پریشان چہرے، غذائی قلت کا شکار بچے، کچے مکانات، اندھیرے میں ڈوبے گاؤں، غربت، مہنگائی تلے پستے غریب عوام، خود کشیاں کرتے کسان اور بیروزگار نوجوان ہیں۔ بہار تقریباً 85 فیصد دیہی آبادی پر مشتمل ہے، سالانہ فی کس آمدنی 36 ہزار کی بنیادپر بھارت کی غریب ریاستوں میں شمار ہوتی ہے۔نوجوانوں کے پاس نوکری نہیں، گھر میں غربت کا راج، صحت و تعلیم کی ناقص سہولیات جیسے اہم مسائل ہیں لیکن ان کے لئے آج تک کسی پارٹی نے کچھ نہیں کیا۔آج کے جدید عہد میں بھی سرکاری اعدادو شمار کے مطابق دیہی آبادی کے صرف 52.8 فیصد گاؤں تک ہی بجلی جیسی سہولت دستیاب ہے۔ گھروں کی تعداد کے حوالے سے دیہی علاقوں کے صرف چھ فیصد گھر ہی بجلی کی سہولت سے منور ہیں۔ یونیسف کی تازہ رپور ٹ کے مطابق بہار میں 98 فیصد عوام پینے کے صاف پانی سے محروم ہے،  67 فیصد آبادی کے پاس نکاس آب کی سہولت نہیں ہے۔ 58 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ پانچ سال سے کم بچوں میں یہ تناسب 80 فیصد ہے۔خواتین میں تناسب دو تہائی کے قریب ہے ۔ یونیسیف کے مطابق یہ اعدادو شمار ہندوستان میں سب سے زیادہ ہیں، حکومت کے اعدادو شما ر کے مطابق 30 فیصد غربت ہے جبکہ غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق یہ شرح 90 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ہندوستان میں ہر تیس منٹ میں ایک کسان خود کشی کرتا ہے بہار میں یہ تناسب زیادہ ہے لیکن حکومتی رپورٹس کے مطابق یہ ہر ایک لاکھ میں 0.8 ہے، ہسپتالوں اور رپورٹنگ کا مربوط نظام نہ ہونے کی وجہ سے کئی خودکشیاں رپورٹ ہی نہیں ہوتیں۔ زراعت بنیادی پیشہ ہونے کے باوجود صرف 58 فیصد آبادی ہی زمین کی ملکیت رکھتی ہے۔اس میں سے زیادہ تر زمین ابھی بھی بڑے زمینداروں کے پاس ہے ۔ چھوٹے کسانوں اور بے زمین مزارعوں کے مسائل سلگ رہے ہیں۔اس ضمن میں مذہبی کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے دائیں بازو کے تجزیہ نگاروں کی طرف سے بہار اسمبلی انتخابات میں بیرسٹر اسد الدین اویسی کی پارٹی آ ل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کو بھی خاصی اہمیت دی گئی۔اس کی اہم وجہ یہاں اتر پردیش کے بعد ہندوستان میں سب سے زیادہ مسلم آبادی ہے جو کہ کل آبادی کا 16.5 فیصد ہے۔ مسلم آبادی زیادہ تر خستہ حالی کا شکار ہے، 75 فیصد مسلم آبادی کھیت مزدوروں پر مشتمل ہے۔بہار میں رہنے والی آدھے سے زائد مسلم آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔انہی مسائل کی وجہ سے سیاست دان مذہبی بنیادوں پر فسادات کرواتے رہتے ہیں ۔انہی کیفیات کے پس منظر اویسی کی پارٹی نے یہاں سیمانچل ضلع میں چھ مختلف حلقوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے۔ پارٹی کمپیئن میں بجائے مذہبی بنیاد پرستی کے سیکولرازم اور مودی مخالف نعرے بازی اور پروگرام دیا گیا۔ جہاں غربت کا ننگا ناچ ہو وہاں سیکولرازم کے دفاع کے لئے عوام کیوں جدوجہد کریں؟سیمانچل چاروں طرف سے ندی نالوں سے گھرا ہوا ہے جہاں پر پل یا ڈیم بھی موجود نہیں ۔ اس محرومی کو اویسی نے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن اس کو محض 0.2 فیصد ووٹ ملے اور ایک بھی امیدوار جیت نہ سکا۔
لینن کے مطابق سرمایہ دارانہ جمہوریت میں انتخابات محض یہ طے کرتے ہیں کہ حکمران کا کون سا دھڑا سرمایہ کی حاکمیت کو یقینی بناتے ہوئے عوام کا مزید استحصال کرے گا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں انتخابات کے ڈھونگ پر لینن نے اپنی کتاب ’’ریاست اور انقلاب‘‘ میں لکھا کہ ’’چند سال میں ایک با ر یہ فیصلہ کرنا کہ حکمران طبقے کا کون سا ممبر پارلیمنٹ کے ذریعہ عوام کو دبائے اور کچلے، یہ ہے بورژوا پار لیما نیت کا اصلی نچوڑ، نہ صرف پارلیما نی آئینی شاہیوں میں بلکہ انتہائی جمہوری رپبلکوں میں بھی۔‘‘ مارکسٹوں کے نزدیک انتخابات کے نتائج طبقے کے شعور کا پوری طرح سے تعین نہیں کرتے لیکن یہ ایک سمت کا تعین کر نے میں معاون ہوتے ہیں۔ وسیع تر اکثریت سے اب آزادانہ رائے دہی کا حق بھی چھین لیا گیا ہے، جہاں پر سرمایہ کے بل بوتے پر ووٹ خریدے جاتے ہیں اور بہار میں فقط ایک بوتل شراب کے بدلے بھی ووٹ فروخت ہوئے۔ یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ محنت کشوں کے نزدیک انتخابات کی اہمیت وقتی طور پر فائدہ سے کچھ زیادہ نہیں۔
دوسری طرف سوشلسٹ معاشرہ میں کمیون میں منتخب نمائندگان کے کردار پر لینن نے لکھا، ’’بورژوا سماج کی بک جانے والی اور سڑی گلی پارلیمانیت کی جگہ کمیون ایسے ادارے لاتا ہے جن میں رائے اور بحث مباحثہ کی آزادی دھوکا نہیں بن جاتی کیو نکہ پارلیمنٹ کے ممبروں کو خود کام کرنا ہوتا ہے، اپنے قوانین پر خود عمل کرنا ہوتا ہے، زندگی میں جو کچھ ہوتا اس کی خود جانچ کرنی ہوتی ہے اور خود براہ راست اپنے انتخاب کرنے والوں کے سامنے جواب دہ ہو نا پڑتا ہے ۔‘‘
بہار کے انتخابات میں مودی کی شکست اس امرکا اظہار ہے کہ ہندوستان کی عوام مودی کی نفرت انگیز اور مزدور دشمن پالیسیوں کے حق میں نہیں ہے دوسری طرف ’سیکولر ازم‘ کی فتح کی بجائے محض کسی متبادل کے نہ ہونے کی وجہ سے وقتی طور پر لالو پرشاد کی پارٹی کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں مخلوط حکومت بننے کے واضح امکانات ہیں لیکن سلگتے ہوئے مسائل کا حل کسی پارٹی کے پاس نہیں ۔ تمام پارٹیاں آزمائی جا چکیں اور اس سرمایہ دارانہ جمہوریت میں ان انتخابات کے چکروں سے عوام بیزار اور لاتعلق ہو چکے ہیں۔ کسی متبادل کی غیر موجودگی میں سرمائے کے مختلف دھڑے ہی حکمرانی کرتے رہیں گے۔ لیکن موجودہ ہندوستان میں پائی جانے والی بے چینی کا اظہار محنت کش طبقے نے اپنے روایتی ہتھیار عام ہڑتال سے کیا ہے ۔ موجودہ عہد میں سیاسی و معاشی استحکام کہیں نہیں آسکتا، نئی بننے والی حکومتیں تاریخ کی کمزور اور لاغر حکومتیں ثابت ہو رہی ہیں۔ جہاں عالمی صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے وہیں پر معاشی بے چینی نئے انقلابات کو جنم دے گی۔ ہندوستان میں چلنے والی منتشر تحریکیں کسی ایک نقطہ پر مرکوز ہو کر ہی تبدیلی لا سکتی ہیں۔ حالات جہا ں تبدیل ہو رہے ہیں وہیں پر ہندوستان میں ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کے مواقع بھی بڑھ رہے ہیں۔ عوام جب ہاتھو ں سے ووٹ ڈال کر تھک جاتے ہیں تو وہ پاؤں سے ووٹ ڈالتے ہیں۔ ہندوستان میں آنے والے عہد میں مزید واقعات رونما ہونگے جن سے انقلابی قوت کی تعمیر کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔