| تحریر: لال خان |
15 اپریل کو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان نے کورکمیٹی کے ایک اہم اجلاس کے فیصلوں کا اعلان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پارٹی کی تمام تنظیموں کو تحلیل کردیا گیا ہے اور اب بلاول نے عوام اور پارٹی کارکنان کے سامنے ایک چھ نکاتی سوال نامہ پیش کیا ہے جس میں پارٹی کے احیا اور اس کو دوبارہ فعال اور بڑی سیاسی قوت بنانے کے لیے تجاویز مانگی گئی ہیں۔ سوالات وہی پرانے ہیں، جواب میں کارکنان یا پارٹی کے ہمدردوں کی کتنی دلچسپی اور ولولہ ہے اس کا اندازہ بھی طویل عرصے سے چلی آ رہی پارٹی قیادت کی مصالحانہ پالیسیوں اور نظریاتی انحراف سے پھیلنے والی وسیع بددلی سے لگایا جاسکتاہے۔ ان سوالات میں پیپلز پارٹی کے بنیادی مقاصد ،عوام سے رابطوں کے لائحہ عمل، درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے، انتظامی ڈھانچوں کی ترتیب وطریقہ کار اور پارٹی کی اقتصادی ،سماجی و سیاسی ترجیحات کے بارے میں آرا طلب کی گئی ہیں۔ لیکن سب سے اہم اور فیصلہ کن نکتہ اس سوال نامے میں نہیں ہے کہ پارٹی کی نظریاتی بنیاد کیا تھی کیا ہے اور کیا ہونی چاہیے ؟ لیکن اگر یہ سوال کر بھی دیا جاتا تو اس سے کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں تھا۔
سننے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی میں ایک عرصے سے چلے آ رہے ایک نام نہاد بائیں بازو کے لیڈر، جنہوں نے ’’لیفٹ‘‘ کور دے کر زرداری قیادت کی خدمت انجام دی تھی، وہ اب نئی تنظیم سازی میں نئے عہدے پر فائز ہونے جا رہے ہیں۔ لیکن بائیں بازو کی ہلکی پھلکی موسیقی کے یہ فنکار پہلے کی طرح مال غنیمت کا حصول جاری و ساری رکھیں گے۔ نیم ریڈیکل لفاظی یا اصلاح پسندی کے ذریعے پارٹی کو اسی نظام کے تابع رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ معاشرے میں جتنی اذیت اور مسائل ہیں وہ ایسی ادھوری نعرے بازی سے ختم ہوں گے نہ ان میں کوئی کمی آئے گی۔
بلاول اگر پارٹی کارکنان اور عام لوگوں سے سوال پوچھ رہا ہے تو اس نظام کے ڈسے ہوئے محنت کش عوام کے دلوں میں بھی بلاول کے لئے بہت سے سوالات سلگ رہے ہیں۔ یہ عام انسان اپنی جستجو اور آرزوؤں کی خلش میں پوچھنا چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کیا اپنے بنیادی سوشلسٹ منشور پر عمل پیرا ہو گی؟ عوام کے نزدیک سوشلزم کے معنی وہ اقدامات اور پالیسیاں ہیں جو آج بھی انہیں روٹی، کپڑا، مکان دے سکیں۔ ان کے لئے سوشلزم تعلیم، علاج اور روزگار ہے; بجلی، پانی اور زراعت کی فراوانی ہے۔ کیا بلاول تعلیم اور علاج کی فراہمی مفت، معیاری اور مساوی بنائے گا؟ ان دونوں بنیادی انسانی حقوق کا نجی شعبے میں بیوپار ختم کرے گا؟ ایچی سن سے لے کر بیکن ہاؤس اور لمز جیسے ادارے نیشنلائز کر کے محنت کشوں کے بچوں کے لئے کھولے جائیں گے؟ ضیاالدین ہسپتال جیسے فائیو سٹار ہسپتالوں کو عوام کی اشتراکی ملکیت میں لیا جائے گا؟ توانائی سے لے کر ٹرانسپورٹ، صنعت اور بینکاری جیسے کلیدی شعبوں کو نجی ملکیت اور منافع کی بیڑیوں سے آزاد کروایا جائے گا؟ ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن کو پیپلز پارٹی کے ہی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے گالی دی تھی، بلاول کو بھٹو کے راستے پر چلنا ہے یا یوسف رضا گیلانی اور زرداری کے؟ کیا وہ روٹی کو جاگیر داروں، آڑھتیوں، فلور مل مالکان کی جکڑ سے نکالے گا؟ ٹیکسٹائل ملوں کو سرمایہ داروں سے چھین کر منافع کی بجائے کپڑا بنانے کے لئے وقف کیا جائے گا؟ ملک ریاض جیسے پراپرٹی ٹائیکونز، قبضہ گروہوں اور سٹہ بازوں کی خونخوار گرفت سے نکال کر ہر شہری کو رہائش فراہم کی جائے گی؟ نسل در نسل محنت کشوں کا لہو پینے والوں کو کٹہروں میں لایا جائے گا، ان کے اثاثے اور جائیدادیں ضبط کی جائیں گی؟ عوام سے سوال پوچھنے سے پہلے بلاول کو ان کے سوالات کا جواب دینا پڑے گا۔ اتنے تلخ تجربات اور دہائیوں کی زوال پزیری کے بعد پیپلز پارٹی کی بحالی خالی خولی نعروں، انتخابی سیاست اور سرمائے کی جمہوریت کے فریب سے نہیں ہو گی۔ دعوے نہیں جرات مندانہ تحریک چلانا ہو گی۔ اوپر سے نیچے تک پارٹی کی جراحی کرنا ہو گی۔ سیاست کو انتخابات کے جھانسوں اور فریب سے نکال کر انقلابی بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔
قیادت کی جانب سے سوالات اٹھانے کا پراپیگنڈا اور جمہوری بحث کی نعرہ بازی وغیرہ یورپی سوشل ڈیموکریسی کے مخصوص پرانے ہتھکنڈے ہیں۔ وہ رائے تو سب کی لے لیتے ہیں، سب کچھ بولنے کے لیے پلیٹ فارم بھی مہیا کرتے ہیں لیکن حتمی فیصلے انہی کے ہوتے ہیں جو قیادت پر براجمان ہوں۔ ایسے میں بولنے کی آزادی محض ڈھونگ ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی تمام تنظیمیں تو تحلیل کردی گئی ہیں لیکن ابھی بھی قیادت کی سرگرمیاں اور پارٹی کے اخراجات وہی افراد چلا رہے ہیں جن کی دولت نے پارٹی کو اس نہج پر پہنچایا ہے۔ ایک انقلابی یا ریڈیکل سیاست میں پارٹی قیادت عوام اور کارکنان کی حمایت جیت کر انہیں متحرک کرتی ہے اور تحریکوں کو لائحہ عمل اورقیادت دینے کے قابل بناتی ہے۔ قیادت کی اہم ترین خصوصیات میں عاجزی ،عوام کے شعور کی پرکھ اور وقت اور حالات کے ساتھ اس میں آنے والی تبدیلی کا ادراک شامل ہوتے ہیں۔ روس میں اکتوبر انقلاب کے قائد ولادیمیر لینن عوام کے شعوراوراس میں ہونے والی تبدیلیوں اور تناظر کی گہری پرکھ رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ محنت کش طبقے کی ہراول اور پسپا یا پسماندہ پرتوں کو جوڑنے کے لیے لینن نے جو پروگرام ترتیب دیا تھا وہ تحریک کے اتار چڑھاؤ اور انقلابی پیش قدمی میں کامیاب رہا۔ کسی حد تک یہ اہلیت پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو میں بھی موجود تھی اگرچہ وہ کوئی مارکسسٹ نہیں تھے۔ انہوں نے دوسرے سیاسی رہنماؤں کے برعکس 1967ء میں جو انقلا بی سوشلزم کا پروگرام دیا وہ 1968-69 ء کی انقلابی تحریک کی اُمنگوں اور جستجو سے ہم آہنگ تھا۔ اسی کی بنیاد پر بھٹواورپیپلز پارٹی اس تحریک کی قیادت میں آکر کئی نسلو ں کے لئے اس ملک کے محنت کشوں کی سیاسی روایت بن گئے۔ لیکن پیپلز پارٹی کا بنیادی پروگرام اس تحریک کے دھماکہ خیز انداز میں آغاز سے پہلے پیش کیا گیا تھا، اور یہی سب سے اہم عنصر ہوتا ہے کہ آپ واقعات کے جنم لینے سے پہلے ان کے لئے درست لائحہ عمل تشکیل دیں۔
پیپلز پارٹی چونکہ کیڈروں پر مشتمل کوئی لینن اسٹ یا بالشویک پارٹی نہیں تھی اس لیے تحریک کو سوشلسٹ انقلاب کی منزل سے ہمکنار نہیں کرسکتی تھی، تاہم انقلابی طوفان کے تھپیڑوں سے ریاست اور حکمران طبقات اتنے گھائل اور بے بس ہوچکے تھے کہ وہ اقتدار پیپلز پارٹی کودینے پر مجبورتھے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کی حدود و قیود میں حاصل کردہ اقتدار میں اصلاحات ہی کی جا سکتی تھیں، اگرچہ پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں ان کی گنجائش بھی انتہائی محدود ہوتی ہے۔ بھٹو اور پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے اپنے ابتدائی عرصے میں نہایت ہی ریڈیکل اصلاحات کرنے کی کوشش کی، اس سے عوام کو کچھ سہولیات بھی حاصل ہوئیں لیکن چونکہ نظام میں ان اصلاحات کو برقرار رکھنے کی اقتصادی گنجائش ہی نہیں تھی اس لیے یہ عمل جلد ہی ناکام ہونے لگا۔ اس دوران تحریک کا دباؤ ماند پڑنے لگا تھا اور پارٹی قیادت کا جھکاؤ دائیں جانب ہونے لگا جس سے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے لئے دروازے کھلنے لگے۔ پارٹی میں سوشلزم کو’’اسلامی سوشلزم‘‘ بنانے، سوشلسٹ معیشت کو ’’مکسڈ اکانومی‘‘ اور محنت کشوں کو مسلح کرنے کی بجائے’’اسلامی ایٹم بم‘‘ کی پالیسی جیسے رجحان حاوی ہونے لگے۔ اس نظریاتی انحراف سے بہتری ہوئی نہ ہو سکتی تھی، الٹاعوام میں پھیلنے والی بددلی سے بھٹو حکومت کمزور پڑ کے شدید بحران کا شکار ہو گئی۔ موقع ملنے پر ریاست، حکمران طبقات اور سامراج نے اپنے نظام پر ہونے والے وار کا انتقام لیا اور ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کر دیا گیا۔ لیکن کم از کم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی آخری تحریر میں اس انحراف اور اس کے انجام کو تسلیم کرتے ہوئے تنبیہہ کی کہ ’’میں اس آزمائش میں اس لئے مبتلا ہوا ہوں کہ میں نے دو متضاد طبقات کے درمیان مصالحت کروانے کی کوشش کی…طبقاتی جدوجہد نا قابل مصالحت ہے اور ایک طبقے کی دوسرے طبقے پر فتح پر ہی منتج ہو گی۔ ‘‘
جو ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کرتے وہ ان کو دہرانے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر بلاول صاحب نظریاتی انحراف، این جی اوز اور اصلاح پسندی کی سیاست سے پارٹی کا احیا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اسی سیاست نے ہی پارٹی کو اس نہج تک پہنچایا ہے۔ ان کے مشیروں میں بھی زیادہ تر بائیں بازو کے اصلاح پسند اور دائیں بازو کے افراد شامل ہیں۔ اصلاح پسندی آج دنیا بھر میں ناکام ہے۔ یورپ میں بہت سی ’’سوشلسٹ‘‘ اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں کا اس اصلاح پسندانہ نظرئیے کی وجہ سے جو حشر ہو اہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ 1986ء میں ان بائیں بازو کی اصلاح پسند پارٹیوں کو 40 فیصد سے زیادہ ووٹ پڑے تھے، 1996 ء میں یہ کم ہو کر 40 سے30 فیصد ہوگئے۔ 2006ء میں یہ شرح 10 سے20 فیصد رہ گئی جو 2016ء میں 10 فیصد سے بھی کم ہوگئی ہے۔ اس تنزلی کی وجہ پھر بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی بحران کی وہ شدت ہے جس کے تحت یہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹیاں عوام کو حاصل ریاستی سہولیات کے خاتمے کی پالیسیوں پر گامزن ہیں۔
اگر آج پاکستان میں کوئی بڑی عوامی بغاوت یا انقلابی تحریک نہیں ہے تو یہ کل اتنی ہی شدت سے بھڑک بھی سکتی ہے۔ اگریورپ کی ترقی یافتہ سرمایہ داری عوام کو سہولیات دینے سے قاصر ہوچکی ہے تو پاکستان جیسی بوسیدہ سرمایہ داری سے کیا امید وابستہ کی جا سکتی ہے؟ پیپلز پارٹی کی قیادت اگر اپنی اسی ڈگر پر چلتی رہی تو کل ابھرنے والی تحریک ان کو مسترد کرکے آگے بڑھ جائے گی۔ آخری تجزیے میں پارٹیاں نظریات کی بنیاد پربنتی اور بکھرتی ہیں۔ ہمارے جیسے ممالک میں عارضی طور پر نظریات کسی فرد کی صورت میں تشخص ضرور بناتے ہیں لیکن تشخص ایک وقت میںآکر مٹ جاتے ہیں۔ سچے سائنسی نظریات کبھی نہیں مرتے۔ پیپلز پارٹی ایک تحریک کی پیداوار تھی اور اس کے انجام کا حتمی فیصلہ بھی ایک تحریک ہی کرے گی۔
پیپلز پارٹی سے ہٹ کر بھی کسی نئی شکل میں بائیں بازو کی ریڈیکل اصلاح پسندی شاید وقتی طور پر کچھ مقبولیت تو حاصل کر لے لیکن انجام وہی کیفیت ہے جس میں آج پیپلز پارٹی موجود ہے۔ اسکی مماثلت یونان کی حالیہ صورتحال سے بنائی جا سکتی ہے۔ وہاں پیپلز پارٹی کی طرح عوام کی سیاسی روایت کا درجہ رکھنے والی پارٹی ’پاسوک‘ اسی قسم کی وجوہات کے تحت پِٹ گئی تو اسکی جگہ زیادہ بائیں بازو کی ’سائریزا‘ ابھری۔ اسکے پہلے وزیر خزانہ یانس واروفاکس نے جب سرمایہ داری میں رہتے ہوئے اس کے خلاف اقدامات کرنے کی کوشش کی تو یورپ کے سامراجی ناخداؤں نے پارٹی لیڈر سپراس کے ذریعے اسے برطرف کروا دیا۔ آج بائیں بازو کے ریڈیکل نعروں پر ابھرنے والی سائریزا اسی نظام کا زہریلا اوزار بن کر عوام پر پے درپے معاشی حملے کر رہی ہے۔ وارو فاکس کے مطابق ’’سائریزا اب محض نئی پاسوک ہی بن کر رہ گئی ہے۔‘‘
پچھلے 40 سال سے پیپلز پارٹی کی قیادتوں نے اس بحر کی موجوں سے اضطراب ختم کردیا ہے۔ اس اضطراب سے آشنائی کوئی انقلابی طوفان ہی کروا سکتا ہے ، لیکن اس کا پہلا نشانہ پارٹی پر براجمان دھن دولت والے ہوں گے۔
متعلقہ:
سوشل ڈیموکریسی: انقلابی سوشلزم کا سبوتاژ!