اداریہ جدوجہد: بھٹو کی میراث کا نیلام؟

وقت اور زمانے چلتے رہتے ہیں رکتے نہیں!لیکن سماجوں کے ارتقا کا عمل ایک سمت اور ایک رفتار میں نہیں چلتا۔جب بھی کوئی رائج الوقت نظام سماج کی معاشی اور اقتصادی ترقی کرنے کی اہلیت کھو دیتا ہے تو معاشرے بحرانوں، اضطراب،ہل چل کا شکار ہو جاتے ہیں۔بعض اوقات ان میں تحریکیں بغاوتوں کی شکل میں ابھرتی ہیں جو یا تو انقلابات برپا کر دیتی ہیں یا پھر ایسی انقلابی صورتحال کو جنم دیتی ہیں جن میں عوام ایک انقلابی قیادت میں تبدیلی کرنے کی اہلیت اور امکان کا سامنا کرتے ہیں لیکن اگر مارکسی پارٹی اور قیادت کا فقدان ہو تو یہ تحریکیں بکھر کر پسپا ہو جاتی ہیں اور معاشرے پر رجعتیت اور قدامت پرستی عود کرآتی ہے۔
پاکستان میں بھی 1968-69ء میں کچھ ایسا ہی ہوا تھا ۔ تحریک ایک انقلابی کردار حاصل کر گئی تھی لیکن ایک مستعد ، تیاراورنظریات و لائحہ عمل سے لیس لینن اسٹ پارٹی کے فقدان کی وجہ سے سوشلسٹ انقلاب فتح یاب نہیں ہو سکا تھا۔روایتی مصالحت پرست بایاں بازو آج تک اس انقلاب کو انقلاب ماننے سے انکاری ہے۔لیکن اس ملک کے طول و ارض میں جو کچھ ہوا تھا وہ کسی بھی دنیا کے انقلاب سے کم نہیں تھا۔نوجوانوں اور محنت کشوں کے انقلاب کے لیے کیا درکار تھا جو نہیں تھا؟پارٹی نہ ہونے کی صورت میں اس تحریک کو ایک سوشلسٹ انقلاب کا پروگرام دے کر ذوالفقار علی بھٹو اس انقلابی لہر کی قیادت اور تشخص بن گئے تھے۔یہ انقلاب تو پسپا ہو کر ضیاء الحق کی بربریت کا شکار ہو گیا لیکن یہ تحریک اس خطے کے محنت کشوں کے لیے ایک روایت ایک انقلابی میراث بن گئی تھی۔ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کا آج تک پاکستانی سیاست میں ایک اہم عنصر کے طور پر موجود ہونا بنیادی طور پر اس انقلاب کی میراث کے وجود کا برقرار رہنا ہے۔لیکن وہی پیپلز پارٹی جس کی حمایت سوشلزم کی بنیاد پر تھی تحریک کی اپنی پسپائی کی وجہ سے حکمران ریاست اور سامراج کی جکڑ میں گرفتار ہوتی چلی گئی۔اس میراث کے نام پر حکمران طبقات کے سیاست دانوں نے پیپلز پارٹی کو کمرشلائز کر کے اس کو سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کا آلہ کار بنانا شروع کر دیا۔بھٹو کی سوشلسٹ میراث کو سر بازار نیلام کرنا شروع کر دیا گیا۔اپنی طاقت اور دولت کی ہوس میں عوام کی آرزوؤں ، خواہشات، امنگوں اور جستجوکے ساتھ کھلواڑ کرنا شروع کر دیا۔لیکن محنت کش عوام اپنی روایت سے بے وفائی اور غداری کے بہت کم مرتکب ہوتے ہیں۔وہ نئی روایات کو انہی حالات میں جنم دیتے ہیں جب وہ ماضی کے تمام تعصبات،بندھنوں اور حکمرانوں کے نفسیاتی جبر کو توڑ کر پھر ایک انقلابی تحریک میں داخل ہو کر تاریخ کے میدان میں اپنی تقدیر بدلنے کے لیے اترتے ہیں۔آج بھٹو کی میراث پر ضیاء الحق کے حواریوں کا قبضہ ہے۔اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا کہ بھٹو کی سوشلسٹ میراث کو منڈی کی معیشت کوسہارا دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔عوام ششدر اور مضطرب ہیں۔غربت، بھوک ، افلاس،لوڈ شیڈنگ،تعلیم و علاج کے فقدان اور نہ جانے کتنے عذابوں کی اذیت میں سلگ رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں۔مسلم لیگیوں سے قوم پرستوں تک اور مذہبی جنونیوں سے لے کر لسانی و فرقہ وارانہ پارٹیوں تک سب اس بات پر خوش ہیں کہ ان سے الحاق کر کے پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت عوام پر تابڑ توڑ حملے کر رہی ہے اور یہ دائیں بازو کی پارٹیاں اس اقتدار میں شامل ہو کر اپنی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ان اصلاح پسندوں کی پالیسیوں سے سرمایہ دارانہ نظام میں عوام کی بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے البتہ دائیں بازو کے لیے مکمل اقتدار کی راہیں ہموار ہو رہی ہیں۔لیکن سماج کی تہوں اور شریانوں میں بسنے والی پیپلز پارٹی جس بیدردی سے سسکائی جا رہی ہے اس سے حکمران سمجھتے ہیں کہ یہ عمل لا امتناعی طور پر جاری رہ سکتا ہے۔لیکن ان کی اس منطقی سوچ اور فلسفے کا ان کو عبرتناک انجام بھگتنا پڑے گا۔کیونکہ وقت اور سماج چلتے بھی رہتے ہیں اور ایک معیاری تبدیلی کے ساتھ یکسر ایک پھلانگ کے ساتھ بدلتے بھی رہتے ہیں۔اس تبدیلی کو انقلاب کہا جاتا ہے۔
بھٹو کی سوشلسٹ میراث کو ایک حد تک اور ایک وقت تک نیلام اور قتل تو کیا جا سکتا ہے لیکن نہ تو طبقاتی کشمکش مٹائی جا سکتی ہے اور نہ ہی ایک انقلابی بغاوت کے امکان کو ختم کیا جا سکتا ہے۔جمہوریت کے نام پر محنت کش عوام کی زندگیوں کو کس حد تک برباد کیا جا سکتا ہے؟نسل درنسل محکوموں کا لہو لاامتناعی طور پر تو نہیں بہایا جا سکتا!
سماج میں اس وقت بکھرے ہوئے احتجاج بن اور بکھر رہے ہیں۔یہ ایک اشتراک میں یکجا بھی ہو سکتے ہیں۔اس اشتراک کا لاوا جب پھوٹا تو پھر وہ صدیوں کا انتقام بنے گا۔سوشلسٹ انقلاب سے کم کسی منزل پر نہیں رکے گا۔ اس نظام اور اس کے آقاؤں کو نیست و نابود کر کے انسانی نجات اور خوشحالی کے سماج کو جنم دے کر رہے گا۔

متعلقہ:

دسمبر27 کے زخم کب بھریں گے؟

پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس… سوشلسٹ انقلاب کا کیا ہوا؟