بھگت سنگھ بر صغیر میں برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد اور قربانیوں کی علامت بن چکا ہے۔ جب 23مارچ 1931ء کو اسے پھانسی دی گئی اس وقت کی عمرصرف 23برس تھی۔اتنی کم عمری میں ہی اس نے نہ صرف بر صغیر کی حقیقی آزادی کی منزل کو جان لیا تھا بلکہ اس عظیم مقصد کے لیے اپنی جان بھی قربان کر دی۔ جب اسے پھانسی لگانے کے لیے لے جایا گیا اس وقت وہ لینن کی کتاب پڑھ رہا تھا۔اپنی شہادت سے قبل اس نے نوجوان سیاسی کارکنوں کو جو خط لکھا تھا اس میں اس نے واضح طور پر کہا تھا کہ برصغیر کی حقیقی آزادی صرف اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب یہاں سوشلسٹ نظام نافذ ہو گا۔
پاکستان کا حکمران طبقہ ہمیشہ سے ہی تاریخ میں بھگت سنگھ کے کردار کو مٹانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔یہ عظیم نوجوان فیصل آباد کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوا اور لاہور میں تعلیم حاصل کی۔لاہور کی ہی سنٹرل جیل میں اسے برطانوی راج کے گماشتوں کی جانب سے پھانسی دی گئی۔اس وقت لاہور کی سنٹرل جیل کا پھانسی گھاٹ جس جگہ واقع تھا وہ جگہ آج شادمان کہلاتی ہے۔
آج گیارہ اپریل اس لیے اہم ہے کہ یہاں کے حکمرانوں کے ایوانوں میں ایک دفعہ پھر بھگت سنگھ کا نام گونجا ہے۔آج پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر میجر (ر) ذوالفقار گوندل نے اسمبلی میں قرارداد پیش کی ہے کہ لاہور میں واقع شادمان چوک کا نام تبدیل کر کے تحریک آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ شہید کے نام پر رکھا جائے۔ اس کے علاوہ پنجاب حکومت سے کہا گیا ہے کہ اس جگہ پربھگت سنگھ کے نام کی یادگار بھی تعمیر کی جائے۔
اس قرار داد کا مستقبل جو بھی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ بھگت سنگھ کے کردار اور اس کی شہادت کو تاریخ کے صفحات سے مٹایا نہیں جا سکتا ۔ اس کی وجہ بھگت سنگھ کے وہ سچے نظریات تھے جن کے لیے وہ جدوجہد کر رہا تھا۔اپنی آخری تقاریر میں سے ایک میں بھگت سنگھ نے کہا تھا’’میں ایسی ہر آزادی کو مسترد کرتا ہوں جس کے بعد برطانوی استحصالیوں کی جگہ مقامی حکمران لے لیں۔حقیقی آزادی صرف اور صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے‘‘۔بھگت سنگھ کا مشن ابھی ادھورا ہے اور تاریخ نے یہ ذمہ داری نئی نسل کے کندھوں پر ڈالی ہے۔