تحریر: لال خان
پچھلے کچھ مہینوں سے اورنج ٹرین پراجیکٹ کی تعمیر نے سیاست، عدلیہ اور نام نہاد سول سوسائٹی میں کافی تنازعہ کھڑا کیا ہوا ہے۔ پسماندہ ممالک کے حکمران طبقات کے ترقی کا کردار ناہموار اور متضاد ہوتا ہے۔ ایک طرف برائے نام ترقی کے کچھ نمونوں کی نعرے بازی اور جعلسازی ہے تو دوسری طرف سماجی تضادات کو حل کرنے کی بجائے انہیں مزید بھڑکایا جا رہا ہے۔ یہ نظام اور اس کے حکمران دور رس بنیادوں پر سماج کی یکساں اور مساوی ترقی میں ناکام ہیں۔ اس پراجیکٹ کی وجہ سے کچھ تاریخی مقامات کو درپیش خطرات پر سول سوسائٹی کے اعتراضات کی کچھ تمدنی اہمیت تو ہے، لیکن یہ تمام تر تاریخی مقامات ماضی کے اُن حکمرانوں اور بادشاہوں کی ہی باقیات ہیں جو خود انتہائی ظالم اور جابر تھے۔
پاکستان اور ہندوستان کے تعلیمی نصابوں، کارپوریٹ میڈیا اور بالادست حلقوں میں اس خطے کی جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے وہ دراصل حکمران طبقات کی تاریخ ہے۔ جو چیز نہیں پڑھائی جاتی وہ اس خطے میں مغل سلطنتوں سے لے کر برطانوی سامراجیوں تک کے خلاف کسانوں اور محکوم عوام کی جدوجہد اورقربانیاں ہیں۔مغلوں کے خلاف بغاوت کی علامت دُلّا بھٹی تھا، انگریز سامراج کے خلاف بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی انقلابی جدوجہد نے علامتی کردار اختیار کیا۔
دُلّا بھٹی قدیم ہندوستان میں پنجاب کے علاقے ساندل بار سے تھا۔اُس نے مغل بادشاہ اکبر کی حکومت کے دوران مغل بادشاہت کے خلاف غریب کسانوں اور محکوم عوام کی بغاوت کی قیادت کی تھی۔ کسانوں اور غریب خواتین کو مقامی مغل حکمرانوں کی قید سے آزاد کرانا اور جہیز جیسے سماجی مظالم کے خلاف دُلّا بھٹی کی لڑائی اب لوک کہانیوں کا حصہ بن چکی ہے۔ اس نے مغل بادشاہ اکبر کے جبر کی اطاعت اور لگان دینے سے انکار کردیا تھا۔ اِن باغیوں کی مزاحمت اتنی شدید تھی کہ اکبر کو اپنی بادشاہت کا دارالحکومت بیس سال کے لیے لاہور منتقل کرنا پڑا۔ بالآخر اکبر نے دھوکہ دہی کے ذریعے اسے گرفتار کرلیا اور لاہور کے دہلی گیٹ میں بڑے مجمع کے سامنے اسے پھانسی دے دی گئی۔ اس نے آخری دم تک جھکنے سے انکار کیا۔
تاریخی طور پر اس خطے کا ایک اور عوامی ہیرو بھگت سنگھ رہا ہے، جس نے برطانوی راج اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام خلاف پچھلی صدی کی شروعات میں بغاوت کی۔ اس کی جدوجہد نے پورے برصغیر میں خاص کر نوجوانوں کو بہت متاثر کیا اور گاندھی جیسے مقامی حکمران طبقات کے لیڈروں کی قیادت کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔ اس وقت کے وائسرائے ہند لارڈ ارون نے گاندھی کی رضامندی سے اس کی پھانسی کے حکم جاری کئے اور چند دنوں بعد گاندھی ارون معاہدہ طے پایا۔ بھگت سنگھ کی میراث کو ریڈکلف لائن کے دونوں اطراف کے کاسہ لیس اور اصلاح پسند دانشوروں نے حکمران طبقات کے مفادات کے لیے مسخ کیا ہے۔ محکوم طبقات کی بغاوتوں اور مزاحمتوں کی تاریخ کو مسخ اور کنفیوز کرنا اب ایسے مؤرخین اور دانشوروں کے لیے ایک ’آرٹ‘ بن چکا ہے۔
پاکستان میں بنیاد پرست اور رجعتی دایاں بازو بھگت سنگھ کو ایک کافر اور دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ اس کے سکھ پس منظر کو اس کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے حقیقی نظریات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے، تاکہ نئی نسل کو اس کے انقلابی نظریات سے محروم رکھا جا سکے۔ رجعتی عناصر کی بھگت سنگھ سے نفرت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اُس کی جدوجہد مقامی و غیر مقامی استحصالی طبقات کے خلاف برصغیر کے محنت کش عوام کے طبقاتی اتحاد پر مبنی تھی۔ اُس کے سوشلسٹ نظریات آج بھی اتنے ہی طاقتور ہیں کہ اس استحصالی نظام کو اکھاڑنے کے لئے مشعل راہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں بھگت سنگھ کو اس سے بھی زیادہ بھونڈے طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔ اسے ایک تنگ نظر قوم پرست ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بی جے پی جیسے رجعتی اور فسطائی عناصر بھی اس واردات میں پیش پیش ہیں۔ 2014ء کے انتخابات سے چند ہفتے پہلے نریندرا مودی کو بھگت سنگھ پر ایک کتاب کی رونمائی کے لیے دعوت دی گئی تھی۔ بھگت سنگھ کے رشتہ داروں کو لالچ اور دوسرے ذرائع استعمال کرنے کے بعد ہی اس کتاب کی اشاعت کو ممکن بنایا گیا تھا۔ ہندوستان کے حکمران طبقات کے مختلف سیاسی دھڑے بھگت سنگھ کے مخصوص اقوال کو توڑ مروڑ کر اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
بلاشبہ بھگت سنگھ نے اپنی جدوجہد کا آغاز برطانوی سامراجیوں کے خلاف ایک انقلابی قوم پرست کے طور پر کیا تھا۔ لیکن اس چیز کو انتہائی شاطرانہ انداز میں چھپایا جاتا ہے کہ جدوجہد میں اپنے تجربات کے دوران اس کا نظریاتی ارتقا ہوا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ سوشلسٹ انقلاب کے بغیر برصغیر کے عوام کو کبھی بھی حقیقی آزادی نہیں مل سکتی۔ بھگت سنگھ 1917ء کے بالشویک انقلاب سے بہت متاثر تھا اور مارکسزم کا بغور مطالعہ کیا۔ اپنی تحریروں میں بھگت سنگھ نے طبقاتی مصالحت کو مسترد کیا۔ اس نے ’انقلابی پروگرام کا خاکہ‘ میں لکھا، ’’اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ محنت کشوں اور کسانوں کو جدوجہد میں سرگرم کریں تو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ان کو کسی جذباتی نعرے بازی کے ذریعے بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ وہ آپ سے واضح طور پر پوچھیں گے کہ آپ کا انقلاب ان کو کیا دے گا جس کے لیے آپ ان سے قربانی کا تقاضا کر رہے ہیں؟ اگر لارڈ ریڈنگ کی جگہ پروشوتم داس ٹھاکر حکومت کا نمائندہ بن جائے تو اس سے لوگوں کو کیا فرق پڑے گا؟ اگر لارڈ ارون کی جگہ سر تج بہادر ساپرو آجائے تو ایک کسان کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا؟ قومی جذبات پر تکیہ کرنا ایک فریب ہے۔‘‘
اس نے گاندھی اور کانگریس کے حقیقی کردار کو بھی ننگا کیا: ’’کانگریس کا کردار کیا ہے؟ حقیقی انقلابی قوتوں کو تحریک میں شامل ہونے کی دعوت ہی نہیں دی گئی۔ اسے صرف متوسط طبقے کے کچھ دکانداروں اور چند سرمایہ داروں کے بلبوتے پر چلایا جارہا ہے۔ یہ دونوں طبقات، بالخصوص سرمایہ دار، کبھی بھی اپنی جائیدادوں کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے۔ انقلاب کے حقیقی سپاہی مزدور اور کسان ہیں جو فیکٹریوں اور دیہاتوں میں ہیں۔ لیکن ہمارے سرمایہ دار لیڈر انہیں شامل کرتے ہیں نہ کرسکتے ہیں۔ اگر یہ سوئے ہوئے شیر اپنی نیند سے جاگ اٹھے تو یہ ان لیڈروں کے نصب العین پر نہیں رکیں گے۔‘‘
بھگت سنگھ اور بی کے دت نے 19 اکتوبر 1929ء کو پنجاب سٹوڈنٹس کانفرنس کے لیے جو پیغام بھیجا تھا اس سے ان کی انقلابی نظریات پر گرفت کا اندازہ ہوتا ہے، ’’آج ہم نوجوانوں کو بندوق اور بم اٹھانے کا نہیں کہہ سکتے۔ آنے والے لاہور کے اجلاس میں پارٹی کانگریس ملک کی آزادی کے لیے سخت جنگ کی کال دے گی۔ قوم کی تاریخ کے اس مشکل وقت میں نوجوانوں پر عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہیں صنعتی علاقوں کی کچی آبادیوں میں رہنے والے لاکھوں مزدوروں اور تباہ حال جھونپڑیوں میں رہنے والے دیہاتیوں کو بیدار کرنا ہوگا۔‘‘
اپنی انقلابی زندگی میں آنے والے اہم موڑ کے بارے میں لکھتے ہوئے بھگت سنگھ نے 2 فروری 1931ء کو لکھا، ’’جب میں نے مطالعے کا آغاز کیا تو میرے سابقہ نظریات میں ایک واضح تبدیلی آگئی۔ تشدد کے طریقہ کار، جو ہمارے پیشروؤں میں بہت واضح تھا، کی جگہ سنجیدہ نظریات نے لے لی ہے۔ اب کوئی تصوف اور اندھا دھند عقیدہ نہیں ہے۔ دوسروں کی نسبت انقلابی زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ سوشلسٹ سماج ہی انسانیت کی آزادی کا مستقبل ہے۔‘‘
سامراجیوں نے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں سکھ دیو اور راج گرو کو 23 مارچ 1931ء کو علی الصبح لاہور کے اس وقت کے سینٹرل جیل میں پھانسی دی۔ لیکن وہ اس کی میراث اور نظریات کو ختم نہ کرسکے۔ محنت کش طبقے کے ان ہراول انقلابیوں نے اس خطے کی طبقاتی جدوجہد کی تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی جدوجہد میں بہت سے اسباق ہیں اور ان سے وہ عزم و ہمت اور حوصلہ ملتا ہے جن سے اس استحصال، جبر اور محکومی کے سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کیا جاسکتا ہے۔