[تحریر: لال خان، ترجمہ: نوروز خان]
28ستمبر کو بر صغیر کے معروف ترین انقلابی بھگت سنگھ کا 105واں یومِ پیدائش تھا۔ لڑاکا جدوجہد کے ذریعے انقلابی تبدیلی اور برطانوی راج کا تختہ الٹنے کی اس کی دلیرانہ جدوجہد کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ 23مارچ 1931ء کی صبح طلوعِ آفتاب کے وقت،23 برس کی کم سن عمر میں سامراجی غاصبوں نے بھگت سنگھ کو موت کی نیند سلا دیا، لیکن وہ اس خطے کی طبقاتی جدوجہد کی تاریخ میں امر ہو گیا۔ مارکسی تھیوری کو سمجھنے اورانقلابی کیڈر بنانے کے لیے قید اورشدید سیاسی سرگرمی کے دوران اپنے ساتھیوں کی تربیت کرنے کا جذبہ اس کی ان تھک جدوجہد کا خاصا تھا۔
اگرچہ اشرافیہ اور اصلاح پسندی کے تجزیہ نگار اور تاریخ دان اسے قوم پرست اور انارکسٹ بنا کر پیش کرتے ہیں، لیکن بھگت سنگھ اپنی مختصر مگر واقعات سے بھر پور زندگی کے اواخر میں ان میں سے کچھ بھی نہیں تھا۔ جب اسے کال کوٹھڑی سے پھانسی گھاٹ کی جانب بلایا گیاتو اس وقت وہ لینن کی کتاب ریاست اور انقلاب کے مطالعے میں مصروف تھا۔ 27لاکھ انسانو ں کی جان لیوا خون آشام تقسیم کے بعد حاصل ہونے والی نام نہاد آزادی کو بھگت سنگھ یقینامسترد کر دیتا۔ جس آزادی کے لیے وہ اور ہندوستان سوشلسٹ ریپبلیکن ایسو سی ایشن (HRSA)کے کامریڈ جدو جہد کر رہے تھے اس کا اظہار اس نے شدید جدوجہد کے دوران ایک تقریر میں کیا جسے راج کمار سنتوشی کی فلم ’لیجنڈ آف بھگت سنگھ‘ میں شاندار انداز میں دکھا یا گیا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ ’’ہمیں آزادی نہیں چاہیے! ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے جس میں انگریز حکمرانوں کی جگہ مقامی اشرافیہ لے لیں۔ ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے جس میں استحصال اور غلامی کا یہ ذلت آمیز نظام قائم رہے۔ہم ایسی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جو سارے نظام کو ایک انقلابی تبدیلی کے ذریعے بدل کر رکھ دے۔ ‘‘
بھگت سنگھ ابتداء میں موہن داس گاندھی کا سخت گیر پیروکار تھا۔ لیکن سامراجی حکمرانوں کے ہندوستان چھوڑ دینے کے مطالبے میں ہونے والے نوجوانوں اور محنت کشوں کے ایک مظاہرے کے دوران پولیس کے ساتھ جھڑپ کے دوران جب چند پولیس والوں کے مارے جانے پر گاندھی نے برطانوی حکمرانوں کے خلاف احتجاج ختم کیا تو بھگت سنگھ اس کے منحرف ہو گیا۔ وہ 1917ء کے بالشویک انقلاب سے بہت متاثر تھا۔وہ مارکسزم اور ہم عصر انقلابیوں کی تحاریر کا بہت محنت سے مطالعہ کرتا تھا۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ گاندھی کی سیاست کا مقصد نوآبادیاتی برطانویوں کے مسلط کردہ نظام کے خاتمے کی بجائے اس کو قائم رکھنا ہے۔ اس نے دوسری کانگریس میں منظور کردہ کمیونسٹ انٹر نیشنل کے پروگرام کو بھی پڑھا تھاجسے ستمبر 1920ء میں شائع کیا گیا۔ہندوستان کی صورتحال کے مطابق پروگرام میں لکھا تھا کہ ’’ہندوستان میں گاندھی جیسے رجحانات، جو مکمل طور پر مذہبی عقائد میں گھرے ہو ئے ہیں، سماجی زندگی کی پسماندہ ترین اور سب سے رجعتی شکلوں کو مثال بناکر پیش کرتے ہیں۔ وہ سماجی مسائل کا حل پرولتاری سوشلزم کی بجائے ان پسماندہ طرزہائے زندگی میں لوٹ جانے میں تلاش کرتے ہوئے بے عملی کا درس دیتے ہیں اور طبقاتی جدوجہد کو مسترد کرتے ہیں۔ اورانقلاب کے عمل کے دوران وہ کھل کر رد انقلابی قوت کی شکل میں سامنے آجاتے ہیں۔ گاندھی کے نظریات تیزی اور شدت سے عوامی انقلاب کی دشمنی پر اتر رہے ہیں۔ کمیونزم کو اس کے خلاف ایک بھرپور لڑائی لڑنا ہوگی۔‘‘
بعد میں گاندھی کی اصلیت ننگی ہو گئی کہ وہ کس طبقے کے ساتھ کھڑا تھا۔ 15جنوری1948ء کواس نے سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی نجی ملکیت پر زور دیتے ہوئے کہا ’’میں کبھی مالکان سے ان کی ملکیت چھینے میں شریک نہیں ہوں گا اور آپ کو معلوم ہونا ہونا چاہیے کہ میں اپنا تمام تر اثر رسوخ اور اتھارٹی طبقاتی جنگ کے خلاف استعمال کروں گا‘‘۔ دوسری جانب بھگت سنگھ پرولتاری جدوجہد کا جانباز علمبردار تھا۔اس نے ذات، دھرم، قوم، نسل، جنس اور بلا شبہ مذہب کے ہر تعصب کو مسترد کر دیا۔ اس کی معروف ترین تحریروں میں سے ایک ’’میں خدا کو کیوں نہیں مانتا‘‘ نامی ایک پمفلٹ ہے۔ بھگت سنگھ اور اس کے کامریڈز، راج گرو اور سکھ دیو کے خلاف قانونی کاروائی اور ان کی سزائے موت میں گاندھی کے کردار سے متعلق ایک انتہائی شدید اور متنازعہ بحث خصو صاً ہندوستان میں جاری ہے۔ تاہم بھگت سنگھ کی سزائے موت پر گاندھی نے اپنی مخصوص منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوے کہا کہ ’’ حکومت کو یقیناًان افراد کو پھانسی دینے کا حق حاصل تھا۔ تاہم کچھ حقوق ایسے ہوتے ہیں جن کو رکھنے کا حق انہیں استعمال نہ کرنے میں ہے‘‘۔ گاندھی اور برطانوی وائسرائے لارڈ اروِن کے درمیان گاندھی اروِن معاہدے پر5 مارچ 1931ء کو دستخط کیے گئے لیکن اس کے چند ہفتوں بعد ہی سزائے موت پر عمل درآمد کر دیا گیا۔ بر صغیر کے طول عرض میں ان پھانسیوں پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اس بربریت کے فوراً بعد ہی کراچی میں ہونے والے کانگریس کے سالانہ کنونشن میں گاندھی کی مخالفانہ کوششوں کے باوجود سبھاش چندر بوس اور بائیں بازو نے پارٹی کی قیادت حاصل کر لی۔ اس کنونشن میں گاندھی کے خلاف پر تشدد مظاہرے کیے گئے۔ اس وقت نیو یارک ٹائمز نے لکھا کہ ’’ ہندوستان میں انتہا پسندوں کے بھگت سنگھ اور اس کے دو ساتھی قاتلوں کی پھانسی کے جواب میں، متحدہ صوبہ جات کے شہر کانپور میں دہشت کی لہر اور کراچی کے مضافات میں نوجوانوں کی جانب سے گاندھی پر حملہ بھی شامل تھا‘‘۔ سامراجی میڈیا نے ہمیشہ ہی انقلابیوں کو انتہا پسند اور قاتل کہتا ہے۔
لیکن بھگت سنگھ بر صغیر میں بے پناہ مقبول تھا۔ انٹیلی جنس بیورو کے ڈائر یکٹر سر ہوریس ولیم سن نے بھگت سنگھ کی سزائے موت کے برسوں بعد اس کی مقبولیت کے بارے میں لکھا کہ ’’اس کی تصویر ہر شہر اور قصبے میں فروخت ہو رہی تھی اور کچھ وقت کے لیے تواس (بھگت سنگھ) کی مقبولیت گاندھی کے مقابلے پر تھی‘‘۔اگرچہ اس کی جدوجہد کے مقاصد، اہداف، خیالات اور نظریات کو سرمایہ دارانہ سٹیٹس کو کے دانشوروں نے توڑ مروڑ اور مسخ کر کے پیش کیاہے، لیکن حقیقت ہمیشہ کے لیے چھپائی نہیں جا سکتی۔ پنجاب یونیورسٹی ریسرچ ایسو سی ایشن(PURSA)کی جانب سے پٹیالہ یونیورسٹی میں 25ستمبر2012ء کومنعقد ہونے والے ایک سیمینار میں، مرکزی مقرر پروفیسر بلکر سنگھ نے کہا کہ ’’بھگت سنگھ نے سبھ کچھ سوشلسٹ انقلاب کے لیے قربان کر دیا۔۔۔اس کی سوچ آج بھی اتنی ہی درست ہے جتنی اس کی زندگی میں تھی اور اس کا مقام لینن اور چے گویرا جیسے لوگوں کے برابر ہے‘‘۔ اس نام نہاد آزادی کے 65برس بعد، بر صغیر کے عوام کی حالت پہلے سے بد تر ہو چکی ہے۔ کربناک اذیت اور محرومی کی شکل میں آبادی کی اکثریت سرمایہ دارانہ استحصال اور جبر کا شکار ہے۔ برطانوی راج کا نظام بڑی حد تک جوں کا توں موجود ہے۔اس کا تختہ الٹے بغیر مجبور عوام کی نجات ممکن نہیں ہے۔بھگت سنگھ کی انقلابی میراث آج اس خطے میں جدو جہد کرنے والے محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے مینارِ نور ہے۔اس انقلابی مشن کی تکمیل جنوبی ایشیا کی رضا کارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام سے ہو گی۔
مارکسسٹ ڈاٹ کام، یکم اکتوبر 2012ء
متعلقہ:
نوجوان سیاسی کارکنوں کو بھگت سنگھ کا پیغام
لاہور میں شادمان چوک کا نام بھگت سنگھ چوک رکھا جائے، پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش