بے نظیر کا قتل: کیا قربانی رائیگاں چلی گئی؟

[تحریر:قمرالزماں خاں]
واضح طور پر نظر آتا ہے کہ ستائیس دسمبر2007ء کی سہ پہرسارے شہر نے دستانے پہنے ہوئے تھے، قاتل یا تو سلیمانی ٹوپیوں میں ملبوس تھے یا پھر ’’دیکھنے والی آنکھوں‘‘ کی بینائی کمزور پڑ چکی تھی۔ مگر پرویز مشرف اور قاتل لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت کوبے نظیر بھٹو اور دونوں حملوں میں شہید ہونے والے 63 کارکنوں کے خون ناحق کا سراغ نہ مل پانا، یقینی طور پر اس عظیم’’مفاہمت‘‘ کا نتیجہ ہے، جس کی داغ بیل تو مقتولہ نے ہی ڈالی تھی مگر اس کو ’’تاریخی تقویت‘‘ ان کے مبینہ’’ وصیت یافتگان‘‘نے دی۔ اقوام متحدہ کی انکوائری ٹیم کے سربراہ ’’ہیرالڈ و مونوز‘‘نے تو واشگاف طور پر اس قتل کے ایک پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے پاکستان کے’’ قانون نافذ کرنے والے اداروں‘‘ کو اس سازش میں شریک ظاہر کیا ہے لیکن نظریاتی اور اخلاقی گراوٹ کا شکار پسماندگان کی ٹیم اس پہلو پر کسی طور بہادرانہ موقف ظاہر کرنے سے گریزاں ہے۔
آصف علی زرداری نے اپنی سیاسی زندگی میں ایک ہی کام کی بات کی تھی کہ ’’ مسئلہ یہ نہیں کہ کس نے بے نظیر بھٹو کا قتل کیا ہے اصل بات یہ ہے کہ اس قتل کی وجوہات کیا ہیں۔ ‘‘آج چھ سال بعد بھی، جب نہ قاتلوں کا اتا پتا ظاہرکیا جارہا ہے، نہ کیس کو آگے بڑھنے دیا جارہا ہے، پس پردہ اور ظاہرکرداروں کو بھی اوٹ فراہم کی جارہی ہے، پھر یہی سوال سامنے آجاتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کا قتل آخر کیوں کیا گیا؟ اگر ’’ڈیل‘‘ یا ’’مفاہمت‘‘ اپنی پوری روح کے ساتھ موجود رہتی تو پھر طرفین کے پاس ’’اپنی حلیف‘‘ کے قتل کا کوئی جواز نہیں تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ القاعدہ یا طالبان تو ’’اجرتی قاتلوں‘‘ کے گروہ کے طور پر کام کرتے ہیں، انکا اپنا عقیدہ، نظریاتی اساس یا مقصد انکے کسی عمل کی راہ میں مزاحم نہیں ہوتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ امریکی مفادات کی تکمیل کے لئے بھی قتل عام کرنے سے دریغ نہیں کرتے، 1979ء سے لیکر 9/11 سے کچھ پہلے تک تو یہ سارے مجاہدین امریکی کمانڈ میں قتل و غارت گری کرتے پھر رہے تھے، مگر 9/11 کے بعد بھی جہادیوں کے مختلف دھڑے ملکی اور غیر ملکی مقاصدکے لئے، مقامی اور غیر مقامی آقاؤں سے معاوضہ لیکر کچھ بھی کرنے کے لئے تیاررہتے ہیں۔ لہٰذا ظاہر کردہ دست قاتل کے پیچھے تو وہی عناصر ہوسکتے ہیں جن کے طالبان کے سطحی نقطہ نظر و مقاصد کے برعکس وسیع تر مقاصداور عزائم ہوں۔ یہ عزائم بھی کوئی مخفی یا پراسرار مسئلہ نہیں ہے، بالکل واضح ہے کہ اس ملک کا حکمران طبقہ اور انکے بین الاقوامی حاکم محنت کش طبقے کی کسی حقیقی تحریک کے ابھرنے کے تصور سے بھی لرزجاتے ہیں، ابھی تک انکے ذہن میں 1968-69ء کی انقلابی اور طبقاتی تحریک کی شدت محو نہیں ہوئی۔ اس انقلاب کے بعد بہت ہی لمبے عرصے کے بعد جب یہاں کے اٹھارہ کروڑ عوام سرمایہ دارانہ حملوں سے ہلکان اور عاجز ہوچکے تھے اوریک ایسا تناؤ پیدا ہوچکا تھا کہ کسی بھی سکیل کی طبقاتی تحریک کے ابھرنے سے ایک ایسا ماحول معرض وجود میں آسکتا تھا جو موجودہ نظام اور اسکے کارندوں کو چلتا کردیتا۔ حکمران طبقے کو خوفزدہ کردینے والی اسی کیفیت میں ہی بے نظیر بھٹوکی وطن واپسی ہوئی۔ 27اکتوبر سے قبل خود بے نظیر بھٹو کو اندازہ نہیں تھاکہ اسکا استقبال 1986ء کے لاہور کے تاریخی استقبال کو بھی کئی درجے پیچھے چھوڑ دے گا۔ ڈیل اور مفاہمت کی وہ تمام ضرورتیں جو عوام سے کٹ کر رہ جانے کے احساس نے پیدا کی تھیں، کراچی کی فضاؤں میں پہنچتے ہی فضول محسوس ہونے لگیں۔ بے نظیر کے استقبال میں آنے والے لٹے پٹے اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگیاں بسر کرنے والے عوام کا جوش وخروش اس امید کے ساتھ ابھر رہا تھا کہ انکی قیادت کا فریضہ سرانجام دینے والی سیاسی روایت انکے حالات زندگی کو دیکھ کر انکو بدلنے کے لئے ضرور کچھ کرے گی۔ انکی افلاس، زبوں حالی اور حالات زندگی انکے جسموں پر لپٹے چیتھڑوں اور ٹوٹی ہوئی چپلوں سے چغلی کھارہے تھے، اس صورتحال نے بے نظیرکی اس سوچ کو بدلنے کی راہ ہموار کی جو لندن میں ایک طرح سے سیاسی بے گانگی کا شکار ہوکرڈیلوں اور مفاہمتوں کے سہارے لینے پر مجبور تھی۔ 27 اکتوبر کوہی بے نظیر بھٹو کو دو بم دھماکوں کے ذریعے ’’ڈیل ‘‘ کو برقرار رکھنے کی دھمکی دی گئی مگر انہی بم دھماکوں میں شہید ہونے والے139کارکنوں کے جسموں کے لوتھڑوں نے بے نظیر کو وہ تمام بندھن توڑنے کی طرف گامزن کیا جس میں باندھ کراسکو پاکستان بھیجا گیا تھا۔ لیاقت باغ تک بہت کچھ بدل گیاتھا، انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں پہلی دفعہ نج کاری کے خلاف بات کی، امیر و غریب کے فرق، بے روزگاری، ڈاؤن سائزنگ، غربت، بے چارگی اور تعلیم و صحت پر واضح موقف اختیار کیا۔ تاہم بے نظیر کے گرد جمع ہونے والا عوام کا جم غفیر اس سے زیادہ ریڈیکل تھا اور محنت کشوں کی امیدیں اور مطالبات کا دباؤ بہت زیادہ تھا، کسی بھی مرحلے پر یہ ہجوم اپنی روایتی قیادت کے گردکسی منظم تحریک کی جانب بڑھنے کی صلاحیت رکھتا تھا، ایسی کوئی تحریک اس نظام کا ہی سرے سے خاتمہ کرسکتی تھی جس کے ذریعے کروڑوں محنت کشوں کا دن رات استحصال کرکے دولت اور وسائل کو ایک حقیر اقلیت کی تجوریوں تک محدود کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ طاقت اور اہلیت رکھنے والی قوت نے بالکل وہی کیا جو اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو، شاہ نواز بھٹو سمیت پاکستان تبدیلی کی جدوجہد کرنے والے پیپلز پارٹی کے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ کیا گیاتھا۔ بے نظیر کو لیاقت باغ سے نکلتے ہی راستے سے ہٹادیا گیا۔
بے نظیر بھٹو کے قتل پر پاکستان بھر میں جو اشتعال ابھرا اس میں یہ ریاست اور اسکے نام نہاد طاقت ور ادارے تین دن تک ایسے غائب رہے جیسے ان کا وجود تک نہ ہو مگر پارٹی قیادت نے لوگوں کے غصے اور طاقت کو نظام کی تبدیلی کی بجائے سوگ اور رونے دھونے کی طرف گامزن کرکے اس بے مثال طاقت کو زائل کردیا جو کروڑوں لوگوں کے متحر ک ہونے سے پیدا ہوئی تھی۔ دوسری طرف ریاستی عناصر نے جیلوں کو توڑ کرمجرموں کو رہا کیا اور متعدد جگہوں پر جلاؤ گھراؤ اور لوٹ مار کے ذریعے اس تحریک کے کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔ غیر منظم پارٹی، جسکے ادارے غیر جمہوری بنیادوں پر استوار تھے، پر ’’وصیت‘‘ کی بنیاد پر قبضے کرنے والے عناصر نے نہ صرف بے نظیر بھٹو کے قتل پر مصلحت انگیز ی اختیار کی بلکہ بے نظیر بھٹوکی شہادت کے نام پر حاصل شدہ اقتدار کو اپنے ذاتی مفادات، اقربا پروری، رشوت ستانی، سامراجی اور سرمایہ دارانہ مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال کیا۔ پیپلز پارٹی قیادت نے اپنی حکومت کے پانچ سالوں میں نہ صرف بے نظیر بھٹو کی قربانی کو رائیگاں کیا بلکہ اس دوران پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے باربار ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں کو غلط قرار دیا لیکن پارٹی قیادت اور بھٹو کی وراثت کے دعوے داروں کی زبانیں گنگ رہیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے چھ سال بعد بھی سوال پھر یہی ہے کہ کیا بے نظیر بھٹو کی سیاست کا محور اور مشن یہ بداعمالیاں تھیں جن کا ارتکاب پاکستان پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت نے کیا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا مشن بے روزگاری کا پھیلاؤ، مہنگائی اور غربت کا دائرہ وسیع کرناتھا؟ بے نظیر بھٹو اور سینکڑوں جیالوں کا لہو پوچھ رہا ہے کہ کیا ان کی قربانی رائیگاں چلی گئی؟ اس پکار کا جواب پاکستان پیپلز پارٹی کو اس کے ابتدائی اور اولین پروگرام پر واپس لاکرہی دیا جاسکتا ہے۔ پارٹی کی طرف امید کی نظروں سے دیکھنے والے کروڑوں محنت کشوں پر بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو ذوالفقار علی بھٹو والی پارٹی کے تاسیسی پروگرام کے مطابق نظریاتی طور پر مسلح کرکے پارٹی کو موقع پرستوں اور زرپرستوں کے چنگل سے آزاد کروائیں اور اس ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وصیت کے مطابق ایک فیصلہ کن طبقاتی لڑائی کا آغاز کریں جس کے نتیجے میں استحصال کرنے والی غاصب قوتوں کو فیصلہ کن شکست دے کر محنت کشوں کا راج قائم کیا جاسکے۔