تحریر: لال خان:-
(ترجمہ :عمران کامیانہ)
پچھلے65سال کے دوران پاکستان کے حکمران طبقات کی جانب سے قومی دنوں کی سالگیراؤں کو معاشرے پر تھونپنے کی کوششوں کو، کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔میڈیا کی جانب سے پیدا کردہ کرکٹ کامصنوعی جنون ، ریاست کی جانب سے حب الوطنی کو ابھارنے کی کوششیں اور نصاب میں پڑھائی جانے والی مسخ شدہ تاریخ کے باوجود پاکستان کے محرو م و محکوم عوام میں قومی تشخص کے جذبات بری طرح سے ماند پڑ چکے ہیں۔جس اذیت اور تکلیف میں عام آدمی زندگی گزار رہا ہے اس میں قومی دن منانے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔بھکاؤ تاریخ دان ہمیں یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ 23مارچ 1940کو پاس ہونے والی ایک قراداد نے پاکستان کی بنیادیں رکھیں لیکن حقیت اتنی سادہ بھی نہیں ہے۔یہ تاریخ دان1947میں ملنے والی ’’آزادی‘‘ کی صرف وہ کہانی سنائی جاتی ہے جو برِّ صغیر کی تقسیم سے پہلے اور بعد کے حکمران طبقات کے سیاسی مفادات کو تحفظ دے سکے۔اگرچہ کامیابی سے بولے گئے جھوٹ کسی نہ کسی طرح’قانونی‘ بن جاتے ہیں لیکن تاریخ کا انتقام بہت بھیانک ہوتا ہے۔
مسلمان قوم کا تمام تر تصور ہی زمینی و تاریخی حقائق سے میل نہیں کھاتا۔اگر مسلمان ایک قوم ہیں تو سعودی عرب یا انڈونیشیا جانے کیلئے ویزے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟شاعد ہی کوئی مسلمان ملک ایسا ہو جہاں پاکستان کے مسلمان کسی قانونی بندش سے گزرے بغیر داخل ہوتے ہوں۔یہاں ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’برِّ صغیر کے مسلمان کس وقت ایک الگ قوم بن گئے؟‘‘ اور اس ریاست کے وظیفہ خوار تاریخ دان اس سوال کا کوئی مشترک جواب دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔اسی طرح شیعہ سنی تضاد اور مذہبی رجعت پسندی کا مختلف سطحوں پر اظہار کرنے والے دیگر رجحانات اور فرقوں کے بارے میں بھی سوالات جنم لیتے ہیں۔ویسے (اگر مسلمان قوم ہیں تو) بلوچی ، سندھی ، پشتوں، کشمیری اور پنجابی کیا اقوام نہیں ہیں؟تاریخ کے سرکاری نسخوں میں تقسیم کی اصل وجوہات اور اس سے وابستہ حکمرانوں کے مفادات کا کوئی ذکرسرے سے ہی موجود نہیں ہے۔
برطانوی نو آباد کار دراصل رومنوں کے اصول ’’تقسیم کر کے حکومت کرو‘‘ کے بنیادی اصول پر کار فرما تھے اور اس مقصد کیلئے مذہب بہترین آلہ کار ہے جس کا برطانوی راج نے اپنے پالتو مقامی حکمرانوں اور اشرافیہ کے ساتھ مل کر خوب استعمال کیا۔کانگریس اور مسلم لیگ کے لیڈر دراصل اسی اشرافیہ سے بر آمد کئے گئے تھے۔مسلم لیگ کی بنیاد مسلمان اشرافیہ نے1906میں ولیم اے جے آرک بولڈ کی سرپرستی میں رکھی جو کہ ان کے اور اس وقت کے وائس رائے لارڈ منٹو کے درمیان ’ایجنٹ‘ کا کردار ادا کرتا تھا۔جبکہ کانگریس1885میں ایک برطانوی بیوروکریٹ ایلن اوکٹاوین نے قائم کی۔زیادہ تر مقامی سیاستدان 1834میں تعلیمی پالیسی پر دی جانے والی لارڈ میکالے کی تجویز ’’رنگ و نسل میں ہندوستانی جبکہ اقدار، خیالات ،فہم اور مزاج میں برطانوی‘‘ کے عکاس تھے۔برطانوی راج نے ہی 1872کی مردم شماری میں مذہب کا خانہ (پہلی بار) شامل کیا۔1934میں اینگلو اورینٹل کالج کے پرنسپل سر تھیوڈور موریسن نے لکھا’’ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں اور مسلمانوں کو چاہیے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ اپنی ثقافت کی حفاظت کی فکر میں اکیلے نہ ہوں‘‘۔ونسٹن چرچل نے ہندو مسلم دشمنی کو ’’ہندوستان میں برطانوی راج کی فصیل‘‘ قرار دیا اور کہا ’’اگر یہ ختم ہوتی ہے تو اس اتحاد کے زیرِ اثر عوام ہمیں نکال باہر کریں گے‘‘۔اپنے پرچے ہریجن میں گاندھی نے7اپریل 1946کو لکھا کہ ’’اس ناپاک اتحاد (جب مسلمان اور ہندو مل کر ہڑتالوں میں شریک ہو رہے تھے)کو تسلیم کرنے کا مطلب ہندوستان کو بربادی میں دھکیلنا ہو گا‘‘۔فروری 1946میں جہازیوں کی بغاوت کے نقطۂ عروج پر جناح نے بمبئی فری پریس جرنل کو جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا’’میں رائل انڈین بحریہ کے تمام سپاہیوں ، خاص طور پر مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ رک جائیں اور اس وقت تک مزید کوئی مشکلات پیدا نہ کریں جب تک سنگین حالات قابو میں نہیں آجاتے‘‘۔کانگریس ، مسلم لیگ اور برطانوی اس انقلابی صورتحال کی وجہ سے متحد تھے تاکہ سرمایہ داری کو بچانے کیلئے طبقاتی جڑت کو توڑ کر محنت کش طبقے کی جدوجہد کو کچلا جا سکے۔تاریخی سچائیوں کو لمبے عرصے تک چھپایا نہیں جا سکتا۔
مزے کی بات تو یہ ہے کہ فروری1946کی عام ہڑتال اور فوج، بحریہ، فضائیہ اور پولیس میں زور پکڑنے والی بغاوتوں کی وجہ سے برطانوی خود ہندوستان چھوڑنے کے لئے بے چین تھے۔استحصالی نظام کو قائم رکھتے ہوئے قابلِ قبول طریقے سے اقتدار کی منتقلی کو یقینی بنانے کے لئے کئی وفود بھیجے گئے۔کیبنٹ مشن 23مارچ کو ہندوستان پہنچا اور 16مئی کو اپنا منصوبہ پیش کیا۔اس منصوبے میں ہندوستان کی تقسیم کہیں بھی درج نہیں تھی بلکہ اس میں ایک وفاق کی تجویز پیش کی گئی جس میں کرنسی، ذرائع ابلاغ ، دفاع اور خارجہ پالیسی کے شعبے مرکزی حکومت کے پاس ہوں گے۔جناح اور مسلم لیگ کی مرکزی کمیٹی نے کافی غور و خوض کے بعد اس منصوبے کو تسلیم بھی کر لیا۔یہ 23مارچ 1940کی قرار داد لاہور کی کھلی تنسیخ تھی اور اس طرح دو قومی نظریے کے سب سے بڑے ٹھیکیداروں نے خود اسے رد کر دیا تھا۔بعدمیں1971میں مشرقی بنگال کی پاکستان سے علیحدگی نے نظریہ پاکستان کو بالکل ہی دیوالیہ کر دیا۔کانگریس کے صد ر ابوالکلام آزاد نے بھی کیبنٹ مشن کے منصوبے کو قبول کر لیا۔7جولائی کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے منصوبے کو منظور کر لیا۔تاہم آزاد کے بعد نہرو کانگریس کا صدر بنا جس نے 10جولائی کو ایک اشتعال انگیز پریس کانفرنس کر کے منصوبے کی دھجیاں بکھیر دیں اور ہندوستان کی خو نی تقسیم کی راہ بھی ہموار کر دی۔نہرو کے ان غیض و غضب سے بھرے الفاظ کے پیچھے انگریزی بورژوازی کی ایماء پر ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن کا کردار اب کوئی راز نہیں رہا۔نہرو کی پریس کانفرنس سے جناح اور مسلم لیگ کو، جو کہ پاکستان کے مطالبے سے پھِر چکے تھے، سخت دھچکا لگا۔27جولائی کو جناح نے بھی منصوبے کو مسترد کرتے ہو ئے د وبارہ تقسیم کا مطالبہ کردیا۔آزادنے اپنی کتاب India Wins Freedomمیں ان طوفانی واقعات کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے’’میں نے جواہر لال (نہرو) کو تنبیہ کی تھی کہ تاریخ یہ فیصلہ کرے گی کہ ہندوستان کو مسلم لیگ نے نہیں بلکہ کانگریس نے تقسیم کیا‘‘۔برِّ صغیر کی تقسیم بیسویں صدی کے سب بڑے نسل کشی کے واقعات میں سے ایک تھی۔ خاص طور پر بنگال اور پنجاب میں لاکھوں لوگ ذبح ہوئے۔
23مارچ 1931کو سامراجیوں نے لاہور ہی میں، جدو جہدِ آزادی کے عظیم شہید بھگت سنگھ کو 23سال کی عمر میں اپنے انقلابی ساتھیوں سکھ دیو اور راج گرو سمیت تختہ دار پر لٹکادیا۔اپنی آخری تقاریر میں سے ایک میں بھگت سنگھ کہتا ہے’’میں ایسی ہر آزادی کو مسترد کرتا ہوں جس کے بعد برطانوی استحصالیوں کی جگہ مقامی حکمران لے لیں۔حقیقی آزادی صرف اور صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے‘‘۔بھگت سنگھ کا مشن ابھی ادھورا ہے اور تاریخ نے یہ ذمہ داری نئی نسل کے کندھوں پر ڈالی ہے۔