| تحریر: لال خان |
اس نظام کی سفارت کے نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو پاکستان کی خارجہ پالیسی آج بدترین زوال پزیری کا شکار نظر آتی ہے۔ یہ شاید پہلی بار ہوا ہے اور مشرقی ہمسائے ہندوستان اور مغربی ہمسائے افغانستان کے سفیروں کو بیک وقت فارن آفس بلا کر 19 اگست کی ’اشتعال انگیزی‘ اور سرحد کی خلاف ورزی پر احتجاج کیا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں کابل میں ہونے والے بم دھماکوں کے لئے افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور کھلی جنگ کی دھمکی تک دے ڈالی تھی۔ پچھلے چھ ماہ کے دوران پاکستان کی سیاسی اور عسکری اشرافیہ کی طرف سے افغانستان کی نئی حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کوششیں ناکام ہوتی نظر آتی ہیں۔
پچھلے کچھ عرصے کے دوران مشرق سرحد اور لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کا سلسلہ شدت پکڑ گیا ہے۔ دونوں ممالک کے میڈیا میں ایک دوسرے کے خلاف پراپیگنڈا اور جنگی جنون ابھارنے کا عمل بھی تیز ہو گیا ہے۔ قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان 23 اگست کو دہلی میں مذاکرات تو ہورہے ہیں لیکن کسی بڑی پیش رفت کے امکانات معدوم ہی ہیں۔یہاں کی اسٹیبلشمنٹ مسئلہ کشمیر کو گزشتہ کئی سالوں سے پس پشت ڈال چکی ہے لیکن سفارتی بات چیت اور سرکاری خبروں میں اس کا علامتی سا ذکر بہرحال کیا جاتا ہے۔ سرتاج عزیز کے دورے کے دوران ’حریت‘ رہنماؤں سے ملاقات پر پاکستان کے اصرار کو رد کرتے ہوئے بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں نظر بند کر دیا ہے۔ کشمیر میں استصواب رائے کی باتیں بھی اب ماضی کا افسانہ بن گئی ہیں۔
ڈیڈلاک برقرار رہے گا۔ تعلقات میں حالیہ کشیدگی میں بنیاد پرست بی جے پی کی حکومت کے کردار کو بھی مبالغہ آرائی سے پیش کیا جاتا ہے۔ گزشتہ 68 سالوں میں ’سیکولر‘ کانگریس بھی کئی بار برسر اقتدار آئی ہے لیکن یہ معاملات تب بھی طے نہیں پاسکے۔ درحقیقت دونوں ممالک کے حکمران طبقات ان تضادات کو مسلسل سلگائے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ قومی اور مذہبی شاونزم کے نیچے عوام کے حقیقی مسائل اور طبقاتی تضادات کو دبائے رکھا جائے۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دونوں ریاستیں فل سکیل جنگ لڑ ہی نہیں سکتی ہیں، نہ ہی دوررس امن اور دوستی چاہتی ہیں۔ اس نظام میں جنگ کے بغیر جنگی جنون اور نتائج کے بغیر کھوکھلے مذاکرات کا یہی گھن چکر جاری رہے گا۔ بھوک میں غرق خطے کے ڈیڑھ ارب انسانوں کو دونوں اطراف کے حکمران اسی طرح جسمانی اور ذہنی طور پر اذیت میں مبتلا رکھیں گے۔
امریکی سامراج اور اس کے حواریوں کی فہرست میں پاکستان جنوب ایشیا کے بھی ’سی گریڈ‘ ملک کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ ہندوستان کی مڈل کلاس پر مبنی 30 کروڑ کی بڑی منڈی کے سامنے یہاں ڈھائی تین کروڑ کی منڈی کی اہمیت سامراجی ممالک کے لئے بہت کم ہے۔ ’ہمالیہ سے اونچی دوستی‘ بھی پاکستان کے حکمران طبقے اور چینی اشرافیہ کے درمیان ٹھیکوں کے تعلقات تک ہی محدود نظر آتی ہے۔ 1978ء کے بعد سے چین سے کوئی بڑی امداد نہیں آئی ہے۔ قدرتی آفات کے دوران چین کی امداد مغربی ممالک کے مقابلے میں مونگ پھلی کے دانوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ افریقہ سے لے کر ایشیا اور لاطینی امریکہ تک، چین ہر طرف سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ نام نہاد ’معاشی کوریڈور‘ بھی چینی سرمایہ داروں کی ایسی ہی ایک سرمایہ کاری ہے۔ 46 ارب ڈالر کی قرض نما سرمایہ کاری پر 27 فیصد کی شرح سود پاکستان کے عوام پر ایک ناقابل برداشت بوجھ بن جائے گا جو پہلے ہی سامراجی قرضوں کے سودی گھن چکر میں کچلے جا رہے ہیں۔ بڑے اسلامی برادر سعودی عرب کے حکمران پہلے ہی یمن فوج بھیجنے کی حکم عدولی پر خاصے برہم دکھائی دیتے ہیں۔ خود تو شاید وہ ڈھکے چھپے الفاظ میں لعن طعن کر رہے ہوں لیکن متحدہ عرب امارات جیسی اپنی کٹھ پتلی حکومتوں سے تمام تکلفات سے ماورا بیانات جاری کروا رہے ہیں۔ان کے علاوہ کوئی خاص ’’دوست ممالک‘‘ بچے نہیں ہیں۔
نریندرا مودی کے حالیہ دورہ متحدہ عرب امارات پر ہونے والے پرتپاک استقبال نے ’’امت مسلمہ‘‘ اور ’’برادر ممالک‘‘ کا فریب بالکل ہی بے نقاب کر دیا ہے۔ یہاں کے سرکاری دانشوروں کی مسلط کردہ اخلاقیات، اقدار اور دوست و دشمن کے تصورات ہوا میں تحلیل ہو گئے ہیں۔شیخوں کی طرف سے مودی کو دیا جانے والا سرکاری پروٹوکول کسی شہنشاہ سے کم نہ تھا۔ اس کا بھرپور فائدہ مودی نے اٹھایا اور اپنی تقریر میں پاکستان کا تذکرہ کچھ ان الفاظ میں کیا: ’’1993ء کے ممبئی دھماکے اور 26/11 جیسے وحشیانہ حملے کرنے والوں کو اب بھی پاکستان پال پوس رہا ہے۔ ان مجرموں کو سزا ملنی چاہئے۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے بھارت اور متحدہ عرب امارات عالمی کوآپریشن اور انٹیلی جنس شیئرنگ کی اپیل کرتے ہیں۔‘‘
ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان نے اپنے پانچ بھائیوں سمیت ابو ظہبی کے خصوصی ایئرپورٹ پر مودی کو خوش آمدید کہا۔ اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات کے سرکاری پروٹوکول کو بھی پس پشت ڈالا گیا جس کے مطابق ایسا استقبال عام طور پر وزارت خارجہ کا سربراہ کرتا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اس موقع پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی مستقل سیٹ کے لئے بھارت کی حمایت کا اعلان بھی کیا۔ مودی کا ویجی ٹیرین کھانا پکانے کے لئے ہندوستان کے سب سے مشہور شیف سنجیو کپور کو خصوصی طور پر متحدہ عرب امارات لایا گیا تھا۔ پوری دنیا میں ’’جہاد‘‘ کی فنڈنگ کرنے والے شیخوں نے حیران کن طور پر متحدہ عرب امارات میں پہلے مندر کی تعمیر کے لئے جگہ الاٹ کرنے کا اعلان بھی کیا جس پر مودی نے شکریہ ادا کیا اور ان کے لئے خصوصی دعا کی۔ لیکن اس دورے کا سب سے اہم پہلو متحدہ عرب امارات کی جانب سے ہندوستان میں 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان تھا۔ پاکستانی حکمرانوں کے معاشی پالیسی ساز اس اعلان کے بعد سے سکتے کے عالم میں ہیں۔
پاکستان کے حکمران دہائیوں سے خلیجی حکمرانوں،ان کے رشتہ داروں اور ملازمین کے راستوں میں سرخ قالین بچھا رہے ہیں۔ وہ یہاں جانوروں اور پرندوں سمیت ہر قسم کا ’’شکار‘‘ کرنے آتے ہیں، پاکستانی حکمران اس سلسلے میں خدمت کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے کہ یہی ان کا تاریخی کردار ہے۔ کبھی کبھار موج میں آ کر یہ شیخ حضرات خیرات کے چند سکے اپنے ’’پاکستانی برادران‘‘کی طرف اچھال دیتے ہوں گے لیکن بات جہاں ٹھوس معاشی مفادات کی آتی ہے تو ان کا رویہ کسی بھی مکار سرمایہ دار سے چنداں مختلف نہیں ہوتا جس کے ہر تعلق اور ناطے کا حتمی مقصد منڈی اور منافع ہوتا ہے۔ یہ کیسا مضحکہ خیز المیہ ہے کہ نامور یونیورسٹیوں سے ’’اعلیٰ تعلیم‘‘ حاصل کرنے والے یہاں کے بیوروکریٹ اور سیاستدان سنجیدگی سے سمجھتے رہے ہیں کہ ’’اسلامی ریاست‘‘ ہونے کے ناطے خلیجی حکمران پاکستان کی مدد کریں گے! ان نودولتیے شیخوں کے لئے مذہب کی حیثیت اقتدار اور استحصال کو تحفظ دینے والے اوزار سے زیادہ نہیں ہے، یہ تلخ حقیقت شاید یہاں کی رجعتی مڈل کلاس کے کچھ افراد کی سمجھ میں اب آجائے گی۔
آخری تجزئیے میں خارجہ پالیسی داخلی پالیسیوں کا ہی تسلسل ہوتی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں ان تمام پالیسیوں کا مقصد سرمائے کے ارتکاز کے لئے محنت کے استحصال اور شرح منافع میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا ہے۔عوام نسل در نسل سرمایہ دارانہ معیشت کے بحران سے برباد ہو رہے ہیں تو حکمرانوں کے ادارے بھی مسلسل زوال پزیری کا شکار ہیں۔ موجودہ حکومت میکرو اکنامک اعداد و شمار کو رنگ روغن کر کے سامراجی مالیاتی اداروں سے ریٹنگ تو لے رہی ہے لیکن داخلی و خارجی پالیسیوں کی طرح یہ اعداد و شمار بھی محنت کش عوام کے مفادات سے متضاد ہیں۔ حکمرانوں کا اعتماد خود اپنے نظام پر سے اٹھ چکا ہے جو اپنے قوانین کے مطابق بھی چلنے سے قاصر ہے اور سماج کو ترقی دینے کی صلاحیت سے تاریخی طور پر محروم ہو چکا ہے۔اسے اکھاڑ پھینکنے کا تاریخی فریضہ محنت کشوں اور نوجوانوں کو ہی ادا کرنا ہے۔ سماج کی انقلابی تبدیلی نہ صرف معیشت کو منڈی کی لوٹ مار اور انتشار کی بجائے انسانی ضرورت کے مطابق منصوبہ بندی کے ماتحت کرے گی بلکہ خارجہ پالیسی بھی محنت کش عوام کی امنگوں کے مطابق ترتیب پائے گی۔ اس کا مقصد دوسرے ممالک کے حکمرانوں کی بجائے محنت کش عوام سے یکجہتی اور جڑت پیدا کرکے دنیا بھر سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہوگا۔