تحریر: آصف رشید
ہر معاشرے کا ایک ضابطہ اخلاق ہوتا ہے جو ایک طاقتور بندھن کا کام دیتا ہے۔ جس کا انحصار اس بات پر ہوتاہے کہ لوگوں کی اکثریت کو اس کا ادراک ہو اور احترام کرتی ہو۔ رائج الوقت اخلاقیات اور قانونی ضابطہ، جسے اپنے عمل درآمد کے لیے ریاستی طاقت کی پوری پشت پناہی حاصل ہوتی ہے، حکمران طبقے کے مفادات کی عکاسی کرتا ہے، اگرچہ وہ ایسا ڈھکے چھپے انداز میں کرتا ہے۔ جب تک رائج الوقت سماجی اور معاشی نظام معاشرے کو آگے کی سمت لے جانے کی اہلیت رکھتاہو، حکمران طبقات کے نظریات، خیالات اور اقدار کو لوگوں کی اکثریت بلا چوں چراں تسلیم کر لیتی ہے۔
اخلاقیات کی طبقاتی اساس کو ٹراٹسکی یوں بیان کرتا ہے’’ حکمران طبقہ اپنے مقصد کو معاشرے پر جبراً لاگو کرتا ہے اور اسے اِن تمام ذرائع کو غیر اخلاقی تصور کرنے کا عادی بنا دیتا ہے جو اس کے مقاصد سے متصادم ہوتے ہیں۔ یہ سرکاری اخلاقیات کا سب سے بڑا جرم ہے۔ یہ اکثریت کے لیے نہیں بلکہ ایک روز بروز کم ہونے والی اقلیت کے لیے ’’ عظیم ترین ممکنہ خوشی‘‘کے تصور کو آگے بڑھاتی ہے۔ ایسی حکمرانی، جو محض طاقت کے زور پر ایک ہفتہ بھی قائم نہیں رہ سکتی، کو اخلاقیات کے سیمنٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ ‘‘
سرمایہ داری کا طویل ہوتا ہوا بحران تہذیب اور اخلاقیات پر بھی انتہائی منفی طور پر اثرا نداز ہو رہا ہے۔ اس کا اظہار ہر جگہ سماجی انتشارمیں ہو رہا ہے۔ بورژوا خاندان سمیت اس نظام کا ہر ادارہ ٹوٹ رہا ہے لیکن اس کی جگہ لینے کے لیے سماجی طور پر کوئی نیاڈھانچہ موجود نہیں ہے جسکی وجہ سے کروڑوں ضرورت مند خاندان ذلت اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
آج سماج کا ہر شعبہ پہلے کی نسبت زیادہ انتشار اور ذلت کا شکار ہے۔ سیاست، صحافت، مذہب، ثقافت، تہذیب و تمدن، اخلاقیات، رشتے، جذبے، انسانی رویے نیز ہر شعبہ ہائے زندگی تنزلی، گراوٹ اور اکتاہٹ کا شکار ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ فرسودہ معاشی و اقتصادی نظام کے زوال اور انحطاط کا مو ضوعی اظہار ہے۔ معاشی ڈھانچے کی ٹوٹ پھوٹ اس تنزلی اور تبدیلی کا بنیادی محرک ہے۔ تمام طبقات مختلف اعتبارمیں اس بحران سے متاثر ہو کر ایک تذبذب، بے چینی اور بیزاری کا شکار ہیں۔ تمام سماجی ادارے ایک ہلچل اور اضطراب میں مبتلا ہو کر کسی بہتر اور ترقی پسند مستقبل کی یاس، ناامیدی اور مختلف درجو ں کی مایوسی میں مبتلا ہیں۔ عمومی سوچ اور کیفیت کے حوالے سے طبقاتی تضادات مبہم اور بگڑی ہوئی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
یہ سماج صرف جسمانی طور پر بیمار نہیں ہے بلکہ لوگوں کی روح اور احساس بھی گھائل ہو چکے ہیں، عوام کی نفسیات مجروح ہے۔ غربت، محرومی اورسماجی و معاشی دباؤ نفسیاتی بیماریوں کو جنم دے رہاہے پچھلے سال تمام بڑے اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹ میں ماہرین کے مطابق پاکستان میں آبادی کا 30 فیصد حصہ (تقریبا 4 کروڑ افراد)کسی نہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں اور ان میں سے 50 فیصد کو باقاعدہ نفسیاتی امراض کے ہسپتالوں میں داخل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان اعداد و شمار سے بھی زیادہ خوفناک صورتحال WHO کی حالیہ رپورٹ میں سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں ہر سال 1 لاکھ 50 ہزار افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں جن میں سے 7 ہزار جان کی بازی ہار جاتے ہیں (اسکے علاوہ ہزاروں ایسے واقعات ہیں جو کہیں بھی رپورٹ نہیں ہوتے)۔ تشدد اور قتل کے واقعات کے حوالے سے پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا خطرناک ملک ہے۔ قتل یا خودکشی رومانوی اقدامات یا واقعات نہیں ہیں بلکہ اس کے پس منظر میں ٹھوس معاشی اور معاشرتی محرکات کارفرماہوتے ہیں۔ ذاتی عدم تحفظ، غربت، تعلیم کی کمی، بیروزگاری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اسکی بنیادی وجوہات ہیں۔ جہاں زندگی عذاب بن جائے وہاں انسانی جان کی قدروقیمت ختم ہوجاتی ہے۔ جہاں غربت وافلاس کاننگا ناچ ہو وہاں کبھی صحت مند معاشرتی رویے جنم نہیں لے سکتے۔ سرمایہ داری کا بحران سماجی موت کا موجب ہے اور اس نظام پر براجمان سرمایہ دار لٹیرے اس قتل عام اور بربریت سے منافعے بٹور رہے ہیں۔
ایک طبقاتی سماج میں ثقافت بھی طبقاتی کردار کی حامل ہوتی ہے۔ امیر اور غریب، ظالم اور مظلوم، سرمایہ دار اور مزدور طبقے کی معیشت، ثقافت اور طرززندگی نہ صرف مختلف بلکہ متضاد ہوتی ہیں۔ محکوم اور بے وسیلہ آبادی کی اکثریت آج محض زندہ رہنے کی تگ ودو میں ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور سرمائے کی منڈی میں خود کو نیلام کرکے جینے کے لیے چند سانسیں خرید پاتی ہے۔ اس پسماندہ اورمنتشر کیفیت میں مجبورعوام محض تحفظِ ذات کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اجتماعی سوچ، فلاح و بہبود اور ہمہ گیر ثقافتی مفادات سے انکا کوئی تعلق نہیں ہے، وہ انفرادی بقا کے چکر میں سسک رہے ہیں۔ دوسری طرف حکمران طبقہ جو ذرائع پیداوار پر قابض ہے‘ اسکی ثقافت، اخلاقیات، طرز زندگی کا مقصد محکوم طبقے کا استحصال، لوٹ کھسوٹ اور جبر ہے۔ عوام ‘ریاست سے بیگانہ ہوکر انفرادیت کے چنگل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ ریاست کے پاس عوام کے لیے صرف جھوٹی تسلیوں اور دلاسوں کے علاوہ دینے کوکچھ نہیں ہے۔ پسماندگی اور محرومی عوام کا مقدر بنادی گئی ہے اور یہ محرومی اور پسماندگی پھر مایوسی، تشدد، دہشت گردی، جرائم اور قتل و غارت گری کی شکل میں اپنا اظہار کررہی ہے۔ اسوقت سیاسی سطح پر کوئی بڑی ہلچل نہ ہونے اور تحریک کی عدم موجودگی کے باعث سماج میں بظاہر ایک نسبتاً ٹھہراؤاور جمودکی کیفت ہے۔ نئے اورپرانے تعصبات معاشرے پر مسلط کیے جارہے ہیں۔ جس کی وجہ سے انتشار، بیگانگی اور مایوسی میں بے پناہ اضافہ ہو اہے۔ آئے روز تشدد اور انسانیت سوز جرائم میں اضافہ ہورہاہے۔ عدم برداشت، دھوکہ دہی، منافقت سماجی معمول بن چکاہے، ہر رشتہ بے معنی اور ہر جذبہ کھوکھلا ہوچکا ہے۔ ہر فرد انفرادی بقاکی دوڑ میں بھاگ رہا ہے۔ معاشی و اقتصادی بحران اتنا خوفناک ہے کہ اس نے سماجی اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ مستقبل کا خوف لوگوں کو ماضی کے تعصبات میں پناہ لینے پر مجبور کر رہا ہے۔ کوئی آسرا اور امید نظر نہیں آتی، ہر رشتہ اور ناطہ مالیاتی مفادات کے تابع ہے، عزت اور وقار بھی سرمائے اور دولت سے تولا جارہاہے۔ خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ تاریخی طور پر معاشرے میں ایسے دور آتے ہیں جہاں ماضی کے تعصبات غالب آجاتے ہیں۔ ان میں شاید مذہب سب سے زیادہ پایا جانے والاتعصب ہے۔ موجودہ مذہبی رویے بجز فرقہ وارنہ منافرت کے پیچھے ملائیت کے مادی مفادات کارفرماہیں۔ جن کا مقصد دولت حاصل کرنا اور بنام دین و آخرت استحصال اور مال و دولت میں اضافہ کرنا ہے۔
سرمایہ دارنہ نظام کی بے حسی اور وحشیانہ بیگانگی نے جتنا آج یہاں بسنے والے انسانوں کو ستایا ہواہے اتنا شاید ہی کبھی ستایا ہو۔ ہر شخص خوشی سے عاری ہے۔ سرد آہوں اور زرد چہروں سے معاشرہ بھرا پڑا ہے۔ دوسری طرف اخلاقی عارضوں کا یہ عالم ہے کہ شناخت سے عاری اس معاشرے میں یہ لوگ بغیر وجہ کے جھوٹ بولتے ہیں۔ ایسے جھوٹ جن سے ان کایاکسی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ لالچ، خود غرضی، تعصب، مقابلہ بازی، دھوکہ دہی اور جھوٹ یہ تمام وہ صفات ہیں جو یہ نظام یہاں بسنے والے انسانوں کے ذہنوں میں کو ٹ کوٹ کر بھر رہاہے۔ پھر اپنے تمام ممکنہ ذرائع سے یہی حکمران طبقہ، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ لوگ فطرتاًہی برے ہوتے ہیں، اخلاقیات اور اچھائی کا پاٹ پڑھاتا ہے۔
مارکسسٹ ہونے کی حیثیت سے ہم سمجھتے ہیں کہ اگر نجی ملکیت کا خاتمہ کر دیا جائے تو لوگوں کے درمیان سے مقابلہ بازی، لالچ اور تعصب کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ تمام افراد کو یکساں بنیادوں پر تعلیم اور روزگار فراہم کیا جائے تو جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے کی کو ئی وجہ باقی نہیں رہے گی بلکہ یہ دلیل ہی بے وقعت ہوجائے گی۔ مگر یہ تمام اقدامات سرمایہ داری کے بس میں نہیں ہیں بلکہ سرمایہ داری اس اہل ہی نہیں ہے۔ ایسا صرف اور صرف سرمایہ داری کو ختم کرکے سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے سے ممکن ہو سکتا ہے۔
متعلقہ: