[تحریر: لال خان]
1971ء کی خانہ جنگی کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم کی پاداش میں 5 فروری کوجماعتِ اسلامی کے لیڈر عبدالقادرمُلا کوعمر قید اور 28 فروری کو دلوار حسین سیدی کو موت کی سزا سنائے جانے کے بعد بنگلہ دیش میں فسادات اور بد امنی کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں کئی افراد قتل اور زخمی ہو چکے ہیں۔ ان ہنگاموں کے پسِ منظر میں گزشتہ چند برسوں کے دوران لا تعداد عام ہڑتالیں اور محنت کشوں کے لڑاکا مظاہرے شامل ہیں۔ حالیہ مہینوں میں بنگلہ دیش کی برامدات اور معیشت کی اہم بنیاد کپڑے کی صنعت کی فیکٹریوں میں آتش زدگی کے دوران بہت سے محنت کش مارے گئے ہیں جن میں اکثریت خواتین کی تھی۔
آزاد بنگلہ دیش 1971ء کی جنگ کے بعد معرض وجود میں آیا اور حکومت کے مطابق اس جنگ میں تیس لاکھ انسان مارے گئے اور کئی ہزار بنگالی عورتیں مشرقی پاکستان میں عوامی بغاوت کو کچلنے پر معمور پاکستانی فوجیوں کے ہاتھوں بلاد کار کا نشانہ بنیں۔ دسمبر کے مہینے میں ہندوستانی فوج نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا اور13 روزکی جنگ کے بعد پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ ترانوے ہزار پاکستانی فوجی اور ان کے حمایتی جنگی قیدی بنا لیے گئے۔ یہ چالیس برس قبل کے ہنگامہ خیز واقعات کے بارے میں ہندوستان اور بنگلہ دیشی حکمران طبقات اور دانشوروں کا سرکاری نکتہ نظر ہے۔ پاکستانی ریاست کی کہانی میں حسبِ معمول ہندوستان کو جارحیت کا مرتکب اور پاکستان کے دو لخت ہونے کا ذمہ دار بیان کیا جاتا ہے، لیکن ان دونوں اطراف میں اپنی اپنی حکمران اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے واقعات کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ متحدہ پاکستان میں حکومت کے خلاف اٹھنے والی تحریک کا آغاز مشرقی پاکستان سے نہیں بلکہ مغربی پاکستان کے فوجی شہر راولپنڈی میں ہوا تھا جہاں شہر کے مضافات میں طلباء کے ایک مظاہرے پر پولیس کی فائرنگ سے پولی ٹیکنیک کالج کا ایک طالبِ علم ہلاک ہو گیا۔ اس واقعہ نے ایک عوامی تحریک کو مشتعل کر دیا جو ملک کے دونوں حصوں میں پھیل گئی۔ جلد ہی یہ انقلابی تحریک بڑے پیمانے پر طبقاتی جدوجہد میں بدل گئی۔ مشرقی پاکستان میں ایک ماؤسٹ اور نیشنل عوامی پارٹی کے لیڈر مولانا عبدالحمید بھاشانی اس تحریک کے مرکزی رہنما کی صورت میں سامنے آئے۔ تحریک میں تیزی کے ساتھ ریاستی ڈھانچے اور نظام کو خطرہ لاحق ہونا شروع ہو گیا۔ ایوب خان نے چینیوں کا سہارا لیا جنہوں نے بھاشانی کو پیچھے ہٹنے ہدایت کی۔ سوشلسٹ انقلاب کے داعی بھاشانی کی کنارہ کشی طبقاتی جدوجہد کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا جو اس جدوجہد کے اصل مقاصد اور منزل سے ہٹ جانے کی وجہ بنا۔
مشرقی پاکستان میں بنگالی عوام سخت قومی جبر کا شکار تھے اور قومی محرومی کا احساس شدید تھا۔ اس وجہ سے جدوجہد طبقاتی بنیادوں سے ہٹ کر قومی بنیادوں پر چلی گئی۔ سامراجیوں اور ہندوستان کے حکمران طبقے نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ وہ مشرق میں جاری طبقاتی جدوجہد کی پر زور موجوں کے مغربی بنگال میں داخل ہونے سے خوفزدہ تھے جہاں پہلے ہی بہت بے چینی تھی۔ ایسا ہونے کی صورت میں سارا جنوبی ایشیا اور برِ صغیر ایک انقلابی طوفان کی لپیٹ میں آ جاتا۔ ان حالات میں ایک بورژوا نعرہ باز رہنما شیخ مجیب الرحمٰن قومی جدوجہد کی قیادت میں آ گیا۔ وہ سرمایہ داری کا سخت حامی تھا اور اسکے ہندوستانی بورژوازی کے ساتھ مراسم تھے۔ 31مارچ 1971ء کو لی موند پیرس میں شائع ہونے والے اے ایف پی کو دیئے گئے انٹر ویو میں مجیب نے شکوہ کیا کہ ’’کیا مغربی پاکستان کی حکومت نہیں جانتی کہ صرف میں ہی مشرقی پاکستان کو کمیونزم سے بچا سکتا ہوں۔‘‘
مشرقی بنگال پر ہندوستانی فوج کے قبضے کا مقصد اسے آزاد کرانا نہیں تھا۔ اس کا حقیقی مقصد محنت کشوں، کسانوں اور نوجوانوں کی سوویتوں یا پنچائتوں کو کچلنا تھا جو جے ایس ڈی اور بائیں بازو کی دیگر تنظیموں کی قیادت میں عوامی جدوجہد کے ذریعے آزاد کرائے گئے علاقوں میں خود رو طور پر قائم ہو گئی تھیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ پاکستانی فوج کی جانب سے بنگالی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ان کے قتل عام میں البدر اور الشمس نامی مسلح جھتوں میں شامل جماعت اسلامی کے غنڈ ے شریک جرم تھے اور انہوں نے بے گناہ لوگوں پر بہت بہیمانہ مظالم کیے۔ پاکستانی فوج کے اس ’آپریشن بلِٹز‘ میں جماعت کی شمولیت کو اس وقت مشرقی پاکستان کے ضلع دینا پور میں بٹالین کمانڈر میجر جنرل ارشد حکیم نے اپنی کتاب ’پاک و ہند کی جنگ‘ میں ان الفاظ میں بے نقاب کیا ہے:
’’فوجی کاروائی کے بعد جماعتِ اسلامی کے (امیر) مولانا طفیل محمدہم سے ملاقات کرنے آئے۔ ۔ ۔ مولانا اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے مقامی ’رضاکاروں‘ کی کارکردگی کے متعلق بہت فکرمند تھے۔ ۔ ۔ انہوں نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی کے کیڈروں نے ہمیشہ مشکل وقت میں فوج کو بچایا ہے۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعتِ اسلامی کے جن لیڈروں پر جنگی جرائم کی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے وہ آزادی کی جنگ کے دوران بنگالی عوام کے خلاف گھناؤنے جرائم میں ملوث رہے ہیں جس کی سزا انہیں ملنی چاہئے،لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ مقدمات بیالیس برس بعد کیوں چلائے جا رہے ہیں؟ اور جدوجہدِآزادی کے دوران اس کے لیڈروں کی غداری کے باوجود جماعت اب بھی بنگلہ دیش میں ایک قابلِ ذکر سیاسی قوت کیوں ہے؟ سیکولر آئین اور منظرِ عام کے لیڈروں کی سیکو لر ظاہریت کے باوجودسرمایہ دارانہ بنیادوں پر بنگلہ دیش کی آزادی یہاں کے عوام کو محرومی، اذیت اور غربت سے نجات دلانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ شیخ حسینہ کی عوامی لیگ اور خالدہ ضیا ء کی بی این پی، دونو بڑی سیاسی جماعتیں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ریاست اور معیشت کا کنٹرول سنبھالنے والے بنگالی حکمران طبقے کی نمائندہ ہیں۔ چار دہائیوں بعداس وقت ان مقدمات کو چلانے کا مقصد طبقاتی جدوجہدکی اٹھتی ہوئی نئی لہر کو روکنا ہے۔
بنگلہ دیش کے تجربے سے ثابت ہوتا ہے کہ بورژوا بنیادوں پر حاصل کی گئی آزادی سرمایہ دارانہ استحصال اور سامراجی لوٹ مار کی وجہ سے سماج کو برباد کرنے والے سلگتے ہوئے مسائل کو حل نہیں کر سکتی۔ تحریک میں جمود اور سماج کی بدحالی سے پیدا ہونے والی پژمردگی میں بنیاد پرستی فروغ پاتی ہے۔ شاہ باغ چوک میں مظاہرے کرنے والے ہزاروں افراد کی اکثریت کا تعلق پیٹی بورژواز ی سے ہے جو ایک طرح سے اپنی جھنجھلاہٹ کے جذبات کا ا ظہار کر رہے ہیں جس کی وجہ بڑھتا ہوا سماجی و معاشی بحران ہے جس کی زد میں اب درمیانے طبقات بھی آنے لگے ہیں۔ اسلامائیزیشن کی تصوراتی دنیا کے پر زور حامیوں کا تعلق بھی ایسے ہی طبقات سے ہے اور وہ بھی ایسے ہی اضطراب کا شکار ہیں۔ بد قسمتی سے بائیں بازو کی قیادت کی اکثریت سیکولرازم اور جمہوریت کے نام پر بنگالی عوام کی نجات کی خاطر درکار حقیقی سماجی و معاشی تبدیلی سے دستبردار ہو چکی ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں بنگلہ دیش میں نوجوانوں اور پرولتاریہ نے اس استحصال کے خاتمے کے لیے بہت جدوجہدیں کیں اورکئی لڑائیاں لڑی ہیں۔ جس حقیقی سماجی و معاشی آزادی کی انہیں جستجو ہے، اسکے حصو ل کی خاطر انہیں ایک ا نقلابی پروگرام، پارٹی اور قیادت کی ضرورت ہے۔