بنگلہ دیش: انقلاب کی جانب بڑھتے قدم

[تحریر: زبیر رحمن]
یہ وہی بنگال ہے جہاں جہانگیر بادشاہ جب داخل ہوا تو برجستہ کہا کہ دنیا میں اگر کہیں جنت ہے تو..ایں بنگال است، ایں بنگال است،ایں بنگال است۔یہ بنگال ہے،یہ بنگال ہے،یہ بنگال ہے۔جسے ایشیا کے پہلے نوبل انعام یافتہ شاعر رابندر ناتھ ٹیگور نے پھلوں اور پانی سے بھرا بنگال کہا۔ یہ وہی بنگال ہے جس نے دنیا کے نامور سائنسد ان جادو چکرورتی، لاڈلی موہن اور جے کے موکھر جی جیسے لوگوں کو پیدا کیا۔اسی بنگال نے دنیا کے معروف موسیقار بھو پین حاجاریکا کو بھی پیدا کیا اور انقلابی شاعر سو کانت بھٹہ چاریہ کو بھی پیدا کیا۔بنگال میں ہی سب سے پہلے1872 ء میں انو شیلن اور یوگانتر یعنی تقلید اور زمانہ نامی انقلابی جماعتیں تشکیل پائیں۔جن کے رہنما سوریہ سین، آشش گوہو، باگھا جتین جیسے عظیم انقلا بی تھے۔ کھودی رام اور بالالگون جیسے14 اور 16 سال کی عمر کے نوجوانوں نے جنگِ آ زادی کی جد و جہد کرتے ہوئے شہادت کو لبیک کہا۔آج بھی ہر بنگالی کھودی رام اور بالالگون کو کھڑے ہو کر سلام کرتے ہیں۔ بعد ازاں سو بھاش چندر بوس جیسے معروف لوگوں نے جنم لیا۔سب سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال میں ہی پڑاؤ ڈالا اور بغاوت بھی سب سے پہلے یہیں سے شروع ہوئی۔اسلحہ بھری مال گاڑی کو لوٹا گیا،چٹاگانگ کی پہاڑی میں انگریز استعمار کے خلاف عظیم مسلح لڑائی لڑی گئی۔سب سے پہلے انگریزی اخبار اور انگریزی سکول بھی یہیں قائم ہوا۔
مگر بعدازاں ہندوستان کی خونی تقسیم کے بعدبنگال کے دو ٹکڑے کر دئیے گئے پھر جب مشرقی پاکستان میں انتخابات ہوئے تو کمیونسٹ پارٹی نے مسلم لیگ کو شکست سے دوچار کیا۔اس کے بعد سے ہی بنگال کے محنت کشوں کے خلاف حکمران طبقات نے سازشیں شروع کر دیں۔محمد علی جناح 1948ء میں جب ڈھاکہ گئے تو اپنی پہلی تقریرمیں کہا،کہ ایک اللہ،ایک قرآن،ایک رسول،ایک ملک، ایک قوم اور ایک زبان۔اور وہ زبان ہے اردو۔تو ایک طالبعلم شیخ مجیب الرحمن نے کھڑے ہو کر کہاکہ دو زبانیں ہیں اور دوسری زبان بنگلہ ہے۔اسکے بعد سے بنگلہ زبان کو سرکاری زبان قرار دلوانے کی جدوجہد شروع ہوئی۔آخرکار12فروری 1952ء کوعظیم تحریک چلی،اور اس تحریک میں موتیا،سلام اور برکات سمیت 8طلبا رہنماؤں کو انسان نما درندہ نورالامین کے حکم سے گولیوں سے شہید کر دیاگیا۔پھر 1954ء میں سرکار نے بنگلہ زبان کو بھی سرکاری زبان تسلیم کر لیا۔اب تو اقوام متحدہ بھی انٹر نیشنل مدرٹنگ ڈے 21 فروری کو مناتی ہے۔یہ ہیں بنگالی طلبہ کے عظیم کارنامے۔1971ء کے انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ نے دو نشستوں کے علاوہ ساری نشستیں حاصل کر لیں۔اسکے باوجود انہیں اقتدار کی منتقلی کے بجائے ان پر فوج کشی کی گئی۔30 لاکھ بنگالیوں کا قتل عام کیا گیا اورآج تک پاکستان کے حکمرانوں نے ان سے معافی تک نہیں مانگی۔ 1968-69ء میں ابھرنے والے انقلاب کو حکمران طبقات نے قومی بنیادوں پرزائل کیا۔ روس نواز اور چین نواز قیادتوں نے بھی اس انقلاب کو درست نظریات اور لائحہ عمل سے دور رکھا جس کے باعث حکمران طبقہ اور سامراج اپنے منصوبے میں کامیاب ہوا اور پاکستان کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن کی جگہ دو سرمایہ دار ملک قائم ہوئے۔
آ ج اسی جنت نظیر بنگلہ دیش میں 69 فیصد لوگ بے گھر ہیں۔اسلیئے کہ یہاں کی حکومت تو بدل گئی لیکن نظام نہیں بدلا۔زمینیں تقسیم ہوئیں لیکن پھر جاگیردار پیداہوگئے۔50بیگھا یعنی 17ایکڑ زمینیں بے زمین کسانوں میں بانٹ دی گئی تھیں۔ مگر آج صرف ڈھاکہ کے اطراف میں250 بیگھا زمینوں کے مالک پھر پیدا ہوگئے ہیں اور یوں آج سرمایہ دار جاگیرداروں کو بیساکھی کی طرح استعمال کرکے محنت کش بنگالی عوام کا استحصال کر رہے ہیں۔ آزادی کے بعدملٹی نیشنل کمپنیوں کی کاسہ لیسی کرتے ہوئے دلال سرمایہ دار پیدا ہو گئے اور اب ان کی تعداد بڑھ چکی ہے۔اکثر یہ سننے میں آتا ہے کہ گارمنٹس میں بنگلہ دیش نے بڑی ترقی کی ہے جی ہاں گارمنٹس کے مزدوروں کا خون نچوڑنے میں بڑی ترقی کی ہے۔گارمنٹس کی فیکٹریوں کا گڑھ سابھرڈھاکہ ہے۔گارمنٹس کے ایک مزدور کو اوور ٹائم ملا کر کل تنخواہ 2800 ٹاکا ملتا ہے۔اب بھلا جس ملک میں مسور کی دال 120 ٹاکا کلو ہو، دودھ 60 ٹاکا کلو، چاول 32 ٹاکا کلو، چینی 90 ٹاکا کلو، مچھلی 200 ٹاکا کلو اور ایک انڈہ 10 ٹاکا کا ہو وہاں 2800 ٹاکا ایک مزدور کی تنخواہ کیا حیثیت رکھتی ہے۔ بجلی، گیس اور ادویات کی قیمتیں ذرہ مناسب ہیں مگر سرمایہ دار اپنی لوٹ کو برقرار رکھنے کے لئے اوسط برابر کر لیتا ہے۔72 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جبکہ بنگلہ دیش سے اتنی پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے جسے ساری دنیا کی غذائی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔
صرف ڈھاکہ شہر میں جہاں کی کل آبادی ایک کروڑ 15 لاکھ ہے یہاں 5 لاکھ رکشے چلتے ہیں جسے 10 لاکھ رکشہ ڈرائیور دو شفٹوں میں چلاتے ہیں۔یعنی ان رکشہ والوں پر 50 لاکھ آبادی انحصار کرتی ہے۔ان رکشہ والوں میں 80 فیصد ٹی بی کے مریض ہیںیہ سارا دن رکشہ چلا کر 100 سے 200 ٹاکا بمشکل کما پاتے ہیں۔ان پر ایک فلم بھی بہت پہلے سوبھاس دتہ مرحوم نے بنائی تھی۔اس میں ایک گانے کا بول یوں تھا۔میں رکشے والا بے چارہ،گلی گلی کا رکھوالا،دبلا ہو یا موٹا سب کو گھر پہنچاؤں۔
چائے،پان،ناریل اور چھالیہ کے باغات میں کام کرنے والے کھیت مزدور کی روزانہ کی اجرتیں انتہائی کم ہیں۔انہیں روز کی اجرت 150 سے 200 ٹاکا ملتی ہے۔ واضح رہے کہ ان باغات میں خواتین مزدوروں کی اکثریت کام کرتی ہے جبکہ گارمنٹس کے شعبے میں کمبوڈیا کے بعد سب سے زیادہ خواتین مزدور بنگلہ دیش میں کام کرتی ہیں اور یہ 90 فیصد ہیں۔بہت سی فیکٹریوں میں شادی شدہ خواتین کو کام پر نہیں رکھتے اس لئے بے روزگاری کی ماری حوا کی بیٹی بار بار اسقاط حمل پر مجبور ہوتی ہے۔ہوٹلوں کے ویٹرز کی تنخواہیں 2000 ٹاکا سے زیادہ نہیں ہیں اور یہ ان ہوٹلوں کی بات بتا رہا ہوں جو متوسط طبقے کے ہیں۔یعنی بیچ شہر میں ہوٹل پینٹاگان۔یہاں کی بیشتر جیوٹ ملوں، ٹیکسٹائل ملوں اور شوگر ملوں کو پرائیویٹائز کر دیا گیا ہے۔جس کا نتیجہ لاکھوں مزدوروں کی بے روزگاری کی شکل میں سامنے آچکا ہے۔رنگ پور شوگر ملز جہاں 20000 مزدور کام کرتے تھے اب اسکی نجکاری کے بعد یہ مزدور گنے کے کھیت میں یا کیلے کے باغات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔جبکہ چینی 90 روپے کلو انڈیا سے خریدی جاتی ہے اور وہ بھی انتہائی غیر معیاری۔ ڈھاکہ جیوٹ مل کی نجکاری سے بھی ہزاروں مزدور بے روزگار ہوئے ہیں۔بنگلہ دیش میں تالابوں میں کاشت کی جانے والی مچھلیوں کی افزائش پر مامورلاکھوں کھیت مزدوروں کو150 ٹاکا روز کی مزدوری دی جاتی ہے۔ یہاں تقریبا 10 لاکھ آدی باسی ہیں یعنی قبائلی یا جنگلی لوگ کہلاتے ہیں۔ان میں زیادہ تر بونا،ساؤتال، بھیل، کولی، ناگا، اور خاسیا قبیلے کے لوگ ہیں۔ صدیوں سے آباد ان کی بستیوں کو اجاڑا جا رہا ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر جنگل میں رہتے ہیں اور جنگلی پھل پھول، مچھلی اور جانوروں سے گزارہ کرتے ہیں۔شہر کی جانب بہت کم رخ کرتے ہیں ان کے مرد لنگوٹ اور عورتیں آدھی ساڑی پہنتی ہیں۔انہیں بے دخل کر کے سرمایہ دار ان کی زمینوں کے اوپر شاپنگ مال،زرعی فارم اور دیگر تعمیرات کر رہے ہیں اور انہیں شراکت دا ر بنانا تو کجا مزدوری بھی نہیں کرنے دیتے۔اس کے خلاف وہاں کے آدی باسی مزاحمت کرتے ہیں گرفتار ہوتے ہیں اور مسلسل جدوجہد کرتے آرہے ہیں۔جوائنٹ لیبر فیڈریشن کے کچھ کارکنوں نے سوشل ازم کی بھی بات کی مگر انہوں نے کسی جماعت سے اپنی وابستگی کا اظہار نہیں کیا۔یہ کارکنان آدی باسیوں میں بھی کام کرتے ہیں۔بنگلہ دیش میں کسانوں، کھیت مزدوروں اورکسانی (خواتین کسانوں کی تنظیم )کی بھی فعال اور موثر تنظیمیں ہیں۔ کچے کی ہزاروں ایکڑزمینوں پر جنہیں لینڈ مافیا نے اپنے قبضے میں لے رکھا تھا ان سے اس کسان سمیتی نے ہی وہ علاقہ بازیاب کروایا اسی پاداش میں ایک معروف کسان سمیتی رہنما پرلینڈ مافیا نے تیزاب انڈیل دیا تھا۔وہ باحیات ہیں۔بنگلہ دیش کا ہر انقلابی اس کسانی رہنما کو انتہائی عقیدت اور احترام سے دیکھتا ہے۔انہی کی قیادت میں ایک ہی جگہ سے کسانوں نے 10ہزار ایکڑ اراضی کو بازیاب کروایا تھا۔چٹا گانگ رانگہ ماٹی(جہاں اور قبیلے کے لوگ آباد ہیں)کے علاقے میں 14 لاکھ عوام جو بنگالی نہیں ہیں اپنے لیے سہولتوں اور حقوق کے لئے جد وجہد کر رہے ہیں۔ان پر خالدہ ضیاء، جنرل ارشاد اور حسینہ واجد کی حکومتیں مسلسل مظالم ڈھاتی آ رہی ہیں۔جو کام پاکستانی فوج نے بنگالیوں کے ساتھ کیا وہی کام اب بنگلہ دیشی فوج ان لوگوں کے ساتھ کر رہی ہے۔ وکلاء بھی ایک بڑی منظم تنظیم میں ہیں جن کی رہنمائی غریب نواز ایڈوکیٹ کرتے ہیں۔وہ سپریم کورٹ کے معروف وکیل ہیں چند سال پہلے ایک ریلی کی قیادت کر رہے تھے اس دوران ان پر پولیس ٹوٹ پڑی جسکے نتیجے میں ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔مہینوں ہسپٹلائزڈ رہے وہ وکیلوں میں عوامی لیگ اور خالدہ ضیاء کے حامی وکلاء سے زیادہ اثرورسوخ رکھتے ہیں۔انکا تعلق بائیں بازو سے ہے وہ ایک کٹر سوشلسٹ ہیں۔ ریلوے،ائیرلائن،بینکر،کلرکس،اساتذہ،ڈاکٹرز اور فنکاروں کی منظم تنظیمیں ہیں جو گاہے بگاہے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرتی رہتی ہیں۔گارمنٹس، ٹیکسٹائل اور پاور لومز کے مزدوروں کا سب سے زیادہ استحصال ہوتا ہے۔اور یہی بنگلہ دیش میں سب سے زیادہ محنت کشوں کی انقلابی اور لڑاکا پرت ہیں۔ چائے کے باغات میں کام کرنے والے مزدوروں کی رہنمائی کمیونسٹ پارٹی سے الگ ہونے والے توریبا 100 کارکنان انجام دے رہے ہیں۔ یہ وہ چنگاری ہے جو آگ کو بھڑکانے کا باعث بنے گی۔ اس لیے کہ چائے کے باغات میں کام کرنے والے مزدور بہت باشعور ہیں فی الحال انکی رہنمائی شہاب مزمل کر رہے ہیں جو کہ نیو پوشیا کے رہنے والے ہیں۔عوامی لیگ میں بھی سوشلسٹ نظریات کی حامل کارکنوں کی اچھی تعداد کام کرتی ہے جیسا کہ سراج گنج کے معروف عوامی لیگی رہنما ذوالفقار حیدر خان کھوکن سوشلزم کا دفاع کرتے ہیں۔چٹاگانگ، کھلنا اور ڈھاکہ میں مزدوروں کا استحصال زوروں پر ہے۔وہ آزادانہ طور پر اپنی مچھلی فروخت نہیں کر پاتے۔انہیں مخصوص ٹھیکیداروں کے ذریعے کشتیوں کے لائسنس حاصل کرنا پڑتے ہیں۔پھر مچھلی کا شکار کرنے کے بعد ٹھیکیداروں کو ہی کوڑیوں کے دام فروخت کرنا پڑتا ہے۔یعنی لاکھوں مچھیرے دن رات ایک کر کے گہرے سمندر میں جان پر کھیل کر مچھلی پکڑتے ہیں اور اسے اپنی مرضی سے فروخت بھی نہیں کر پاتے۔ان کی آمدنی اتنی قلیل ہوتی ہے کہ اس سے بمشکل گزارہ ہوتا ہے۔ مچھیروں کی ملک بھر میں بالخصوص چٹاگانگ میں بڑی مضبوط یونین ہے،مگر وہ ٹھیکیداروں کے جال کو ابھی تک توڑ نہیں پائے۔
بنگلہ دیش کی سب سے بڑی پارٹی عوامی لیگ ہے دوسرے نمبر پر خالدہ ضیا کی بی این پی ہے،تیسرے نمبر پر جنرل ارشاد کی نیشنلسٹ پارٹی،چوتھے نمبر پر جماعت اسلامی، پانچویں نمبر پر ورکرز پارٹی اور چھٹے نمبر پر کمیونسٹ پارٹی ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کی بائیں بازو کی دو بڑی پارٹیاں عوامی جمہوریت اور قومی جمہوریت کے چکر سے نکل نہیں پائیں۔یہ پارٹیاں بھی سرمایہ داروں کی دیگر پارٹیوں کی طرح انتخابی پارٹیاں بن کر رہ گئی ہیں۔انقلاب کرنے اور ریاستی جبر کے خاتمے کی جدوجہد کرنا تو کجا یہ سوچنے پر بھی آمادہ نہیں ہوتی،مگر ان کے نیچے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد انقلاب کے لیے بے چین ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کانظریہ ہی انہیں مسائل کے حل کی حقیقی جدوجہد کے لیے متحد کرسکتا ہے۔ بنگلہ دیش میں مارکسی نظریات پر ایک حقیقی بالشویک پارٹی تعمیر ہوتی ہے اور انقلابی تحریکوں میں بھرپور حصہ لیتی ہے تووہ دن دور نہیں جب بنگلہ دیش، میانمار،بھوٹان،نیپال‘ مغربی بنگال اور بر صغیر میں ایک انقلاب برپا ہو گااور طبقات کا خا تمہ ہو گا۔محنت کشوں کا آزاد معاشرہ قائم ہوگا جہاں کوئی طبقہ ہوگا اور نہ ریاست،ایک آسمان تلے ایک خاندان ہوگا دنیا کے سارے وسائل سب کے ہونگے،محبت اور مساوات کے پھول کھلیں گے۔کوئی بھوکا مرے گااور نہ کوئی بے روزگار رہیگا۔

متعلقہ:

سلگتا بنگلہ دیش