تحریر: لال خان:-
(ترجمہ:فرہاد کیانی)
سماج میں حقیقی اور رِستے ہوئے مسائل اتنے زیادہ اوراتنے گہرے ہیں کہ میڈیا مالکان اور انکے حکمران طبقے کے ساتھی اپنے مفادات کے لیے انہیں جب چاہیں اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ان مالکان کی جانب سے ان مسائل کو ابھارنے اور توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا مقصد ان مظالم کو ڈھانے والے ظالموں کے مفاد ہوتا ہے۔ اس سارے عمل میں پہلے سے ہی اذیتیں سہنے والے محکوم عوام مزید بے رحمانہ استحصال اور جبر کا شکار ہو تے ہیں۔ لیکن ان ’واقعات‘ کو عام طور پر صرف اس وقت ابھاراجاتاہے جب یہ استحصال کرنے والوں کے مابین اختلافات میں اضافے کا باعث بن جائیں۔ امریکی کانگریس میں بلوچستان پر ہونے والی حالیہ سماعت اس خطے کو بربادکرتی ہوئی خونریزی اور بربریت کو پھر سے منظر عام پر لے آئی ہے۔انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اس فریب کو ابھارا جا رہا ہے کہ امریکی سامراج ’جمہوریت‘، انسانی حقوق، قومی آزادی اور سماجی انصاف کا سب سے بڑا محافظ ہے۔ اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہو سکتا ہے۔
سامراج کی پوری تاریخ بے رحم قبضوں، استحصال، لوٹ مار، قتل و غارت، جبری تسلط اور آمریتوں سے بھری پڑی ہے۔ سلطنت روم کے سامراج سے لے کر آج کے امریکی راج تک، ہر خارجہ پالیسی حکمران طبقات کے مفادات کے حصول کے لیے تشکیل دی جاتی ہے جن کی شرح منافع اور دولت مجتمع کرنے کی بے انت ہوس اقوام کو تاراج، قحط، جنگوں اور کروڑوں انسانوں کے قتل اور تباہی کا باعث بنتی رہی ہے۔ ’اور زیادہ‘ کی اس حرص میں نہ صرف نوآبادیات کے عوام کو قتل و غارت کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ سامراجی قوتوں نے اپنے محنت کش طبقے کے عوام کوبھی اپنی ہوس کی بلی چڑھانے سے کبھی گریز نہیں کیا۔ کلکتہ میں ایک برطانوی قبرستان ہے جہاں زیادہ تر قبریں نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ہیں جو اپنے شباب کے عروج میں ہی انگریز اشرافیہ کے سامراجی عزائم کی بھینٹ چڑھ گئے۔ آخری تجزیے میں انتہائی پیچیدہ جنگوں، قبضوں اور تنازعات میں بھی طبقاتی مسئلہ ہی سامنے آتا ہے۔ تمام جنگوں کا خاتمہ کر دینے والی اس طبقاتی جنگ میں استحصال زدہ طبقات کی استحصال کرنے والوں کے خلاف ایک سوشلسٹ فتح ہی جبر اور محرومی سے حتمی نجات کا واحد راستہ ہے۔
اس لیے امریکی کانگریس کی یہ ’تشویش‘ بلوچستان کے مصیبت زدہ عوام کی حالت زار کے لیے نہیں بلکہ سامراجی اجاراہ داریوں کے بے پناہ منافعوں کے لیے ہے جن کی یہ نمائندگی کرتی ہے۔ امریکی معیشت خوفناک بحران میں مبتلا ہے اور امریکی محنت کش اور نوجوان سات نسلوں کی سخت ترین آزمائش سے گزر رہے ہیں جبکہ کارپوریشنوں کے منافع جات ان دیکھی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ بلوچستان کے عوام کی سب سے بڑی بد بختی ان کی زمین ہے۔ ان کی سنگلاخ دھرتی کے نیچے گیس، باکسا ئٹ، تیل، تانبے، سونے اور دیگر معدنیات کے وسیع ذخائر دفن ہیں جن کی وجہ سے یہ خطہ خونریزی اور تباہی کا شکار بنا ہوا ہے۔ بلوچستان کا سٹریٹجک، جغرافیائی اور بحری محل وقوع اس بد بختی میں اضافہ کرتا ہے ۔ لوٹ مار میں اضافے کی خاطر سامراجی ہمیشہ سے قبضوں اور ڈاکہ زنی کے لیے سماجی و سیاسی بہانے بناتے رہے ہیں۔یہاں پر وہ قومی جبر کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا بلوچستان کے عوام نسلوں سے شکار ہیں۔ جب سے بلوچستان کی قومی آزادی کی تحریک نے اپنے پروگرام میں سے سوشلزم کو فراموش کیا ہے، یہ سامراجی گِدھوں کے لیے آسان شکار بن گئی ہے۔ اب وہ قومی استحصال اور جبر کے خلاف عوام کے جذبات سے کھیلتے ہوئے انہیں اپنے سامراجی عزائم کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ اس جنگ کا ایک پہلو ہے جو بلوچستان کے پہلے سے محروم اور تباہ حال عوام کو برباد کر رہی ہے۔
لیکن اس ’کھیل‘ میں اور کئی کھلاڑی شامل ہیں جن کے بلوچستان کے لیے عزائم زیادہ مختلف نہیں ۔ نوزائیدہ سامراجی ہوس کے ساتھ چینی اشرافیہ جارحانہ انداز میں خطے پر اپنا غلبہ قائم کرنے کی کوشش میں ہے۔ گوادرکی بندرگاہ ، کانکنی اور پیٹرولیم کی تلاش کے منصوبوں میں اس کی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا مقصد مغربی ممالک کی اجارہ داریوں کے مقابلے میں چین کی سرکاری اور نجی کمپنیوں کے لیے منافعوں کا حصول ہے ۔ مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان بھی اس ’تلاش‘ میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ سعودی، اومانی اور خلیج کے دیگر رجعتی شیخوں کے بلوچستان میں اپنے نو آبادیاتی مفادات ہیں۔ بلوچستان کا ایک بڑا حصہ ایران کے زیر انتظام ہے۔ ایرانی ملا اشرافیہ کے اپنے سٹریٹجک اور معاشی منصوبے ہیں۔ ان قومی دشمنیوں کے علاوہ مذہبی فرقہ واریت کی بنیاد پر سعودی بادشاہت اور ایران کی شیعہ ملائیت کے مابین ایک پراکسی جنگ بھی جاری ہے۔ ہندوستانی بورژوازی کے بھی سامراجی عزائم ہیں۔
لیکن لوٹ مار کی ان ریشہ دوانیوں کا نشانہ بلوچستان کے عوام کو بننا پڑتا ہے۔ سیاسی کارکنوں کے اغواء، ان پر تشدد اور انہیں قتل کر کے لاشیں ویرانو ں میں پھینک دینے کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ’گمشدہ افراد‘ کی فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستانی ریاست کے ارباب اختیار مسلسل اس کے انکاری ہیں۔ریاستی ایجنسیوں سے انکو بازیاب کرانے کے سارے وعدے فقط دھوکے ثابت ہوئے ہیں۔ ’حقوقِ بلوچستان‘ پیکج ان کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ پارلیمان کے اس عظیم بل کے پاس ہونے کے بعد بلوچستان میں بے گناہوں کے قتل میں اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان پر کئی’ آل پارٹیزکانفرنسیں‘ منعقد ہو چکی ہیں جن سے یہاں کے مظلوم عوام کوکسی طور سکون نہیں ملا۔ اب وزیر اعظم نے ایک اور ایسی کانفرنس بلائی ہے جو بنیادی طور پر امریکی کانگریس میں ہوئی سماعت کا رد عمل ہے۔ پاکستان کے حکمران سیاست دانوں کا ایک اورفریب ریاست کی جانب سے ڈھائے گئے مسائل پر بلوچستان کے عوام سے معافیاں مانگنا ہے۔ لیکن ہر معذرت خواہی کے بعد مظالم میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن بلوچستان کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کو صرف ریاستی جبر کاہی سامنا نہیں بلکہ غربت، بھوک، ناخواندگی کے ساتھ ساتھ صحت اور دیگربنیادی سہولیات کی عدم دستیابی ان کے مصائب میں اضافہ کررہے ہیں۔ بلوچستان کے وسیع علاقے ابھی تک قرونِ وسطیٰ جیسے حالات میں ہیں۔ بلوچستان کو نوآبادی بنانے کے خلاف1948ء سے کئی مسلح بغاوتیں ہو چکی ہیں لیکن وہ ریاستی جبر کو شکست دینے میں ناکام رہی ہیں۔ خود ارادیت بلوچستان کے عوا م کا حق ہے۔ لیکن اس نظام اور اور اس کی محافظ ریاست کو شکست دینے کے لیے بلوچستان میں قومی آزادی کی جدوجہد کو سارے خطے کے محنت کش طبقات کی طبقاتی جدوجہد سے ساتھ جوڑنا پڑے گا،وہ محنت کش جو خود اس استحصالی نظام کا شکار ہیں۔ ایک سی چھوٹی قومی ریاست اور موجودہ جغرافیائی سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے محکوم محنت کشوں کی آزادی ممکن نہیں۔جنوبی ایشیا کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن ہی نجات کا واحد راستہ ہے۔