[تحریر: نہال خان]
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں اتوار کو ہزارہ ٹاؤن میں ہونے والے خودکش بم حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تیس ہو گئی اور پچاس افراد زخمی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق زخمی ہونے والے پچاس افراد میں سے بعض کی حالت نازک ہے۔ اس سے قبل 15 جون کو کوئٹہ میں سردار بہادر خان یونیورسٹی کی طالبات سے بھری بس اور پھر بولان میڈیکل ہسپتال پر ہونے والے حملے میں 14طالبات اور چار خواتین نرسز سمیت 30 بے گناہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ طالبات کی بس میں ایک خاتون خود کش حملہ آور نے دھماکے کیا تھا۔ سعودی حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے مذہبی جنونی دہشت گرد گروہ لشکر جھنگوی کے ذریعے ایک مخصوص وقت پر خون کی یہ ہولی کھیلی جارہی ہے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں جوہان، کابو، سپلنجی اور گرد و نواح میں بلوچ حریت پسندوں کے خلاف آپریشن کیا جا رہا ہے۔ اس فوجی آپریشن میں لوگوں کی کھڑی فصلوں کو تباہ اور ہزاروں افراد کو جبری نقل مکانی پر مجبورکیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان حکومت سازی کا عمل تاخیر کا شکار ہے۔ 2 جون کو وزیر اعلیٰ بلوچستان کو حلف اٹھانا تھا جس میں تاخیر کی گئی تاکہ آپریشن کی ذمہ داری نئی بلوچ حکومت پر عائد نہ ہو۔
بلوچستان میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی جنگ جاری ہے جسے مذہبی رنگ دیا جارہا ہے۔ ایک طرف سعودی عرب اور خلیج کی کئی دوسری ریاستوں کی رجعتی حکومتیں لشکر جھنگوی جیسے گروہوں کو مالی و سیاسی معاونت فراہم کر رہی ہیں جبکہ دوسری جانب ایران کی رجعتی ملا حکومت شیعہ ملاؤں کی پشت پناہی میں مصروف ہے۔ دو رجعتی طاقتوں کی خون ریز لڑائی میں پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح بلوچستان کے معصوم عوام لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ مثلاً ستمبر 2010ء میں ایرانی ریاست کی معاونت سے شیعہ جنونی تنظیموں اور ریاست کے مختلف ایران نواز دھڑوں کے ذریعے دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح کوئٹہ میں بھی ’’یوم القدس‘‘ کا دن منا یا گیا۔ در حقیقت ایرانی ریاست کی جانب سے اس دن کو منانے کو مقصد فلسطینی عوام کی جدوجہد آزادی کی حما یت نہیں بلکہ عر ب ریاستوں کے خلاف اعلان جنگ تھا، جواب میں لشکر جھنگوی نے اس ریلی پر خود کش حملہ کیا جس میں سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔
درندگی کے ایسے واقعات جہاں مختلف سامراجی قوتوں کے باہم ٹکراؤ کا نتیجہ ہیں وہاں ان کے ذریعے غربت، بھوک، بیروزگاری، مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ سے تباہ حال عوام کو معاشی طور پر محکوم اور ذہنی طور پر مجروح رکھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ الیکشن سے پہلے میڈیا کے ذریعے انتخابات کوتمام تر عوامی دکھوں کا مداوا بنا کر پیش کیا جارہا ہے، لیکن اس نظام کے بحران میں کوئی بھی حکومت کسی طرح کی معاشی یا سماجی بہتری لانے سے قاصر ہے۔ یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 5 سال سے کم عمر 44 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ جبکہ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 60 فیصدآبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ بجٹ کا 90 فیصد غیر ملکی قرضوں پر سود کی ادائیگی، عسکری اخراجات اور حکمرانوں کی لوٹ مار کی نذر ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں مذہبی درندگی اور دہشتگردی کے ذریعے عوام کے سلگتے ہوئے مسائل کو منظر عام سے ہٹا کر انہیں مسلسل خوف کی کیفیت میں رکھا جاتا ہے۔
بلوچستان میں محرومی اور خون ریزی میں اضافے کی اہم وجہ بلوچستان کی سٹریٹجک اہمیت، اور معدنی وسائل ہیں۔ قدرت کی یہ نعمتیں بلوچ عوام کے لئے عذاب بن چکی ہیں۔ مختلف سامراجی طاقتیں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار کے لئے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ اس وقت 183 ملٹی نیشنل اجارہ داریاں دنیا کی 85% معیشت پر کنٹرول رکھتی ہیں۔ گہرے ہوتے ہوئے عالمی مالیاتی بحران میں معدنی وسائل کی لوٹ مار کر کے اپنے منافعوں کی شرح میں اضافے کرنے کے لئے سامراجی اجارہ داریاں نہ صرف بلوچستان بلکہ افریقہ اور لاطینی امریکہ سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں ایک دوسرے کے خلاف برسرِپیکار ہیں۔ بلوچستان میں چینی سامراج گوادر پورٹ تک آسان اور تیز رفتار رسائی کے لئے ریلوے اور سڑ ک کی تعمیر کر نے کی تیاری کر رہا ہے۔ سنکیانگ سے چین کے مشرقی ساحل تک پہنچنے کے لئے 4000 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر نا پڑتا ہے جبکہ گوادر بند رگاہ سے سنکیانگ کا فاصلہ (سڑک یا ریل کی تعمیر کے بعد) صرف 2000 کلومیٹرہے۔ اس صورت میں چین انتہائی کم قیمت پر تیل اور دوسرے خام مال درآمد کر سکے گا جبکہ اس کی برآمدات کے منافعوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور توسیع کے لئے چین کروڑوں ڈالر ز خرچ کر رہا ہے جو کہ آبنائے ہر مز پر ایک اہم سٹریٹجک گزر گاہ ہے۔ دنیا میں چالیس فیصد تیل کی تجارت اسی راستے سے ہوتی ہے۔ اس اہم جغرافیائی مقام پر چین کا کنٹرول اسے عالمی سیاست میں نئی شکتی عطا کرے گاجو کسی صورت امریکہ کیلئے قابلِ قبول نہیں ہے۔
پاکستانی حکمران طبقے کا وہ حصہ جو چینی سامراجی مقاصد کے حصول کے لئے دلال کا کردار ادا کرتا ہے، بند ر گاہ اور دیگر تعمیرات کے لئے چینی اشرافیہ کی مدد کر رہا ہے، دوسری جانب امریکہ کے تنخواہ دار عناصر چینی مفادات پر ضرب لگانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح چین اور امریکہ کے مابین تضادات پہلے سے تباہ حال پاکستانی ریاست کو مزید کھوکھلا کر رہے ہیں۔
پاکستانی ریاست کے قیام کے وقت سے ہی بلوچستان میں قومی جبر اور استحصال جاری ہے۔ اس جبر کے خلاف بلوچ نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کی مزاحمت مسلح جد وجہد کی شکل میں جاری رہی ہے۔ پاکستانی حکمران طبقے اور ریاست کے خلاف بلوچ عوام کی بغاوت کی شاندار تاریخ ہے۔ بلوچ نوجوان اپنی آزادی کی آرزو اور امنگ دل میں لئے آج بھی پاکستانی ریاست کے جبر کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ اس جد وجہد میں اب تک ہزاروں بلوچ سیاسی کارکنان اور نوجوان شہید ہوئے ہیں اور سینکڑوں کو خفیہ ایجنسیوں نے اغوا کیا ہے جو اب تک لاپتہ ہیں۔ اغوا شدگان کی لاشوں کو مسخ کر کے ویرانوں میں پھینکنے کا عمل مسلسل جاری ہے۔ پچھلی تحریکوں کی نسبت حالیہ تحریک میں سامراجی مداخلت (خصوصاً امریکی اور چینی سامراج کے باہم تضادات) سے صورتحال پیچیدہ ہو گئی ہے۔ لیکن بلوچ نوجوان اس جد وجہد سے مسلسل اسباق سیکھ رہے ہیں اور ان کے اندر سامراج مخالف رجحانات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے انقلابی سوشلزم کے نظریات کی پزیرائی بھی بڑھ رہی ہے۔ ریاست کے منصوبہ ساز اپنے سامراجی آقاؤں کے ساتھ مل کر بلوچ عوام کی مزاحمت کو توڑنے کے لئے مختلف قسم کے قبائلی، لسانی اور فرقہ ورانہ تضادات کو ابھارنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ سامراج کی تاریخ گواہ ہے کہ سامراجی قوتیں کبھی بھی مظلوم قومیتوں سے تعلق رکھنے والے محنت کش عوام کے دوست نہیں رہیں بلکہ سامراج نے قومی مسئلے کو استعمال کرتے ہوئے جہاں بھی مداخلت کی ہے وہاں محنت کش عوام مزید جبر اور استحصال کا شکار ہوئے ہیں۔ مارکسسٹوں نے ہمیشہ سے جابر پاکستانی ریاست کے مظلوم قومیتوں پر جبر، استحصال اور فوجی آپریشن کی مذمت کی ہے۔ بلوچستان کی قومی آزادی یہاں کے باسیوں کا بنیا دی حق ہے لیکن جابر سرما یہ دارانہ ریاست کو شکست دینے کے لئے تمام قومیتوں کے مظلوم اور استحصال زدہ عوام کو انقلابی تحریک میں یکجا کر کے ایک ناقابل تسخیر قوت بنائی جا نی چاہئے جو اس ریاست کے ساتھ ساتھ استحصالی نظام کا بھی خاتمہ کرے۔
حالیہ انتخابات میں بلوچستان میں ٹرن آؤٹ 3 سے 5 فیصد رہا ہے۔ حالیہ صوبائی حکومت کسی طور پر بھی بلوچستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی نمائندہ نہیں ہے۔ نام نہاد لیفٹ سمیت دائیں بازو کے دانشوروںیہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بلوچستان کے مسائل کو موجودہ حکومت حل کرے گی۔ ’’مڈل کلاس قیادت‘‘ یہاں امن، خوشحالی لائے گی اور خونریزی کا خاتمہ ہو گا۔ یہ خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے سامراج نواز مسلم لیگ (ن) اور قوم پرست سیاسی پارٹیوں کے پاس کسی ایک بنیادی مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔
دنیا بھر میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی ابھرنے والی تحریکیں اس بات کی غمازی کر تی ہیں کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے کوئی بنیادی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اس نظام کے بالائی ڈھانچے ڈھے رہے ہیں۔ اس صورت میں تیسری دنیا کے حکمران طبقے جو کہ شروع سے ہی سامراج کی دلالی پر مجبور رہے ہیں کوئی بہتری لانے سے قاصر ہیں۔ بلوچستان کی موجودہ حکومت اور پاکستانی حکمرانوں کے پاس عالمی مالیاتی اداروں کی ایما پر مہنگائی، بیروزگاری، پرائیویٹائزیشن اور غربت میں اضافے کے علاوہ اور کوئی معاشی پروگرام نہیں ہے جس سے عوام کی بدحالی اور بڑھے گی۔
اس تناظر میں بلوچستان میں مزید بحرانات جنم لیں گے اور شدت اختیار کرینگے۔ محرومی مزید بڑھے گی۔ نہ تو حکمرانوں اور نہ ہی اس سرمایہ دارانہ نظام میں اب یہ صلاحیت ہے کہ ان بحرانوں کا خاتمہ کر سکے۔ آنے والے دنوں میں معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ سامراجی پراکسی جنگیں شدت اختیار کریں گی۔ خونریزی اور دہشت گردی بڑھے گی۔ حکمران طبقہ جب ان تضادات کو حل کرنے میں ناکام ہوگا تو بلوچ پشتون تضاد کو ابھارنے کی کوشش کی جائے گی۔
دوسری طرف بلوچ نوجوانوں اس نظام اور ریاست کے خلاف غم و غصے میں اضافہ ہو گاجس سے ناگزیر طور پر مارکس ازم لین ازم کے نظریات کی مقبولیت بڑھے گی۔ بلوچ طلبہ تنظیموں میں بائیں بازہ کی شاندار روایات موجود ہیں۔ سرمایہ دارانہ استحصال، سامراجی اور ریاستی جبر کے خلاف کی اپنی جدوجہدکو بلوچ نوجو ان ا گر انقلابی سوشلزم کے نظریات اور لائحہ عمل پر منظم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تواس نظام کی ظلمتوں میں سلگنے والا انقلاب اس استحصالی نظام اور درندہ صفت ریاست کو نیست و نابود کر دے گا۔
متعلقہ:
ویڈیو: بلوچستان میں آگ اور خون کا کھیل۔ ۔ ۔ ذمہ دار کون؟
بلوچستان: نواز شریف کی ’فیاضی‘
بلوچستان کی بیگانگی
خون میں ڈوبا بلوچستان