| تحریر: لال خان |
این جی اوز اور اصلاح پسند ’’بائیں بازو‘‘ کے دلدادہ ’’ترقی پسند بلوچ وزیر اعلیٰ‘‘ کی سربراہی میں بلوچستان کی قومی اسمبلی نے اطاعت کا ایک اور فرمان قرارداد کی شکل میں اتارا ہے۔ ہفتہ دو مئی کو بلوچستان اسمبلی نے الطاف حسین کے بیان کی پرزور مذمت کرتے ہوئے فوج کی پذیرائی پر مبنی قرارداد پاس کی۔ کچھ ہی دیر میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے سینئر ڈپٹی کنوینر ندیم نصرت نے اپنے جوابی بیان میں کہا کہ ’’اگر بلوچستان اسمبلی کے ارکان واقعتا سچا بلوچ خون رکھتے ہیں تو اس سوال کا جواب دیں کہ ان لوگوں نے بلوچستان کے ہزاروں شہیدوں اور لاپتہ افراد کے لئے کب اور کتنی قراردادیں پیش کی ہیں؟‘‘ شفتہ اردو بولنے والوں کی نمائندگی کی دعویدار اس سیاسی جماعت کے نمائندے نے جو زبان استعمال کی ہے وہ ایم کیو ایم کی لسانی فرقہ واریت کی خوب غمازی کرتی ہے۔ نصرت صاحب نے یہ وضاحت بھی نہیں کی کہ بلوچستان میں جاری قتل و غارت گری کے خلاف خود ایم کیو ایم نے کتنی مذمتی قراردادیں پیش کی ہیں اور وہاں فوجی آپریشن کے خلاف کتنے بیانات دئیے ہیں۔ فوج کے حق میں بیانات کی بات کی جائے تو ایم کیو ایم دوسری ہر سیاسی جماعت سے آگے نظر آتی ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان اسمبلی کی قرارداد میں ’’ملک بھر‘‘ میں جاری جن فوجی آپریشنوں کے قصیدے پڑھے گئے ہیں ان میں بلوچستان کا آپریشن بھی شامل ہے۔ یہ قراردار اس حوالے سے بہت اہمیت کی حامل ہے کہ بلوچستان میں موجود طبقاتی تفریق اور بلوچ عوام کی جدوجہد کی طرف بلوچ حکمرانوں کے رویے کو واضح کرتی ہے۔ بالادست اور متوسط طبقے کے یہ ممبرانِ اسمبلی جتنے ووٹ لے کر اقتدار میں آئے ہیں اور جن حالات میں یہ انتخابات ہوئے تھے اس کے پیش نظر بلوچستان کے عوام کی نمائندگی کا دعویٰ بڑا پھیکا سا معلوم ہوتا ہے۔
بلوچستان کے عام باسیوں کا المیہ یہ ہے کہ معدنیات کی بیش بہا دولت اور خطے کی جغرافیائی و اسٹریٹجک اہمیت ان کے لئے وبال جان بن گئی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران سے جنم لینی والی شرح منافع کی گراوٹ نے عالمی و علاقائی سامراجی قوتوں اور کارپوریٹ اجارہ داریوں کو کہیں زیادہ خونخوار کر دیا ہے۔ سرمایہ داری کے یہ گدھ دوسرے خطوں کی طرح بلوچستان کو نوچ ڈالنے کے لئے ایک دوسرے سے برسرپیکار نظر آتے ہیں۔ ایک طرف بلوچستان کے حکمران طبقے کا وہ دھڑا ہے جو ریاستی اسٹیبلشمنٹ کی اطاعت میں اپنی حصہ داری کے لئے تگ و دو کر رہا ہے۔ دوسری طرف انہی حکمرانوں کے وہ دھڑے ہیں جو ریاست کی متحارب عالمی یا علاقائی قوتوں کی پراکسی بن کے اپنے ’شیئر‘بڑھانے میں سرگرم ہیں۔ مالی مفادات کی اس دوڑ اور تصادم کو کچھ بھی نام دے د یا جائے، اس خونی کھیل کا کردار نہیں بدل سکتا۔ سحر کے بقول
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے!
بلوچستان کے غریب عوام پر جو بیت رہی ہے اس کی پرواہ کسی بھی ریاست سے تعلق رکھنے والے سامراجی آقاؤں کو نہیں ہے۔ طبقاتی استحصال کے ساتھ قومی جبر بھی جاری ہے۔ معدنیات سمیت کئی حوالوں سے پاکستان کا امیر ترین صوبہ ہونے کے باوجود بلوچستان کے عوام کی محرومی بدترین ہے۔ بھوک، غربت اور پسماندگی کا جو عالم ہے وہ شاید افریقہ کی نوآبادیات میں بھی نہ ہوتا ہوگا۔ پہلے ہی افلاس کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ان غریبوں کو ریاستی جبر اور پراکسی جنگیں کچلتی چلی جارہی ہیں۔
1848ء میں قلات، خاران اور دوسرے علاقوں کو عیاری اور دھونس سے پاکستان میں ضم کرنے کے بعد سے آج تلک قومی محرومی کے جذبات یہاں کے باسیوں میں سلگ رہے ہیں۔ 1948ء، 1958ء، 1962ء، 1974ء اور اس کے بعد کے عرصے میں کئی مرتبہ سرکشی ہوئی اور مسلح جدوجہد کے کئی ادوار آئے۔ 1960ء اور 70ء کی دہائی میں ہونے والی مسلح جدوجہد پر نظریہ حاوی تھا۔ ان تحریکوں کے بیشتر رہنما خود کو سوشلسٹ اور مارکسسٹ قرار دیتے تھے۔ بائیں بازو کے نظریات کی گہری چھاپ موجود تھی۔ تنگ نظر لسانی تعصب، مالی مفادات یا موقع پرستی کے عناصر نہ ہونے کے برابر تھے، امریکہ یا کسی بھی دوسری سامراجی قوت سے بھی اتنی ہی نفرت کی جاتی تھی جتنی براہ راست جبر و استحصال کرنے والی ریاست سے۔ اس عہد کے کئی مقبول بلوچ رہنما کھل کر وضاحت کرتے تھے کہ وہ قومی آزادی کی جدوجہد کو پورے خطے کی طبقاتی جنگ سے جوڑنا چاہتے ہیں اور دوسری قوموں کے محنت کش ان کے بھائی ہیں۔ ان کے آپسی اختلافات بھی نظریات یا لائحہ عمل پر ہوا کرتے تھے۔ کسی سامراجی قوت کی گماشتگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) جیسی سیاسی قوتوں کی بنیادیں آج بھی اُس دور کی روایات میں پیوست ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج قیادت پر ایسے رجحانات بڑی حد تک حاوی ہوچکے ہیں جو سوشلسٹ نظریات کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ وہ ایک ’ریپبلکن‘ یعنی سرمایہ دارانہ بلوچستان چاہتے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ سوچ بھی پائی جانے لگی ہے کہ امریکی سامراج بلوچستان کو ’’آزاد‘‘ کروائے گا۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ افغانستان اور عراق کو جو ’’آزادی‘‘ مغربی سامراجیوں نے دلوائی ہے اس سے بڑی بربادی بھلا کیا ہوسکتی ہے؟ جنوبی افریقہ میں ’’آزادی‘‘ کے بعد کالے حکمرانوں کا جبر سفید فاموں سے بھی بدتر ہے۔ بنگلہ دیش میں ’’آزادی‘‘ کے بعد جو دودھ اور شہد کی ندیاں بہہ رہی ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہیں۔
امریکی سامراج اگر اپنے مفادات کے لئے بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے تو چین کے حکمران بھی پیچھے نہیں ہیں۔ پھر ’’ایشیا کا ابھرتا ہوا معاشی دیو‘‘ بھلاکیسے لاتعلق رہ سکتا ہے؟ ان پراکسی جنگوں میں بھارتی ریاست بھی پوری جارحیت سے ملوث ہے۔ لوٹ مار کے اس خونی کھلواڑ میں ایک نہیں کئی پراکسیاں استعمال ہو رہی ہیں۔ بے شمار ریاستی اور غیر ریاستی ایکٹرسرگرم ہیں اور اپنے معاوضے وصول کر رہے ہیں۔ قومی آزادی کی تحریک کے کئی گروہ اور دھڑے ہیں جن کے مقاصد مختلف ہی نہیں متضاد ہیں۔ کئی ریاستوں کی کئی ایجنسیاں ملوث ہیں۔ مالی مفادات کے تحت وفاداریاں بدلتی رہتی ہیں اور تصادم کے نئے زاویے بنتے چلے جاتے ہیں۔
معاشی و سماجی مساوات کے واضح آثار رکھنے والی مہرگڑھ کی تہذیب، وادی سندھ کی تہذیب سے بھی دو ہزار سال پرانی ہے۔ بلوچستان تاریخی طور پر سیکولر تہذیب و روایات کا حامل رہا ہے لیکن کچھ سالوں سے فرقہ وارانہ قتل و غارت گری یہاں بھی وارد کر دی گئی ہے جو درحقیقت اور ایران اور عرب حکمرانوں کی آپسی چپقلش کا نتیجہ ہے۔ لیکن مذہبی بنیادوں پر اس مداخلت کی قوت محرکہ بھی آخری تجزئیے میں مادی مفادات اور سامراجی تسلط ہے۔ حکمرانوں کے اس ٹکراؤمیں مرنے والے غریب ہی ہیں۔ ہزارہ آبادی کے سینکڑوں بے گناہ انسان اس فرقہ وارانہ وحشت میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
بلوچستان کے نوجوانوں نے انقلابی نوعیت کا کردار رکھنے والی قومی آزادی کی تحریکوں میں جدوجہد اور قربانیوں کی طویل داستان رقم کی ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور وہ واضح طور پر قومی تحریک میں موجود طبقاتی تفریق کو سمجھ رہے ہیں، تلخ تجربات سے گزر رہے ہیں۔ ان تجربات سے اخذ کئے گئے نتائج انہیں قومی حریت کی تحریک کو طبقاتی جدوجہد سے جوڑنے کا راستہ بھی دکھائیں گے۔ آج ایک طویل عرصے کے بعد بلوچ نوجوانوں میں مارکسزم کو سمجھنے اور سوشلسٹ نظریات پر تحریک کی نظریاتی بنیادیں استوار کرنے کا جذبہ پھر سے پنپ رہا ہے۔ بلوچستان میں قومی تحریک کے ساتھ ساتھ مزدور تحریک بھی موجود ہے۔ مرک مارکر سے لے کر پاکستان پوسٹ اور واپڈا تک، کئی اداروں میں محنت کشوں کی جدوجہد جاری ہے اور ان تحریکوں نے ہار ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
ملک کے نسبتاً ترقی یافتہ علاقوں میں جو ریاست بجلی اور سیوریج جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہے وہ بلوچستان جیسا پیچیدہ مسئلہ کیا حل کرے گی؟یہاں کے تاریخی طور پر نااہل حکمران طبقے میں اتنی معاشی اور سیاسی سکت ہی کہاں ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ کسی ’پیکج‘ سے حل ہو گا نہ آپریشن اور لولی لنگڑی ’’جمہوریت‘‘ سے۔ اس طرح کے بیہودہ ہتھکنڈوں سے نفرت، حقارت اور احساس محرومی میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ قومی آزادی کی منزل بلوچستان کے محنت کش اور نوجوان پورے خطے کی طبقاتی جدوجہد سے منسلک ہو کر ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہیں سے جنوب ایشیا کے محنت کش عوام کی حقیقی آزادی کا آغاز ہو گا۔
متعلقہ: