[تحریر: عمر شاہد]
بحرین میں جاری انقلاب اور رد انقلاب کی کشمکش، نہ رکنے والے عوامی مظاہروں کے سلسلہ کے ساتھ جاری ہے۔تیونس اور مصر سے شرع ہونے والے عرب انقلاب نے اس خطے کے دیگر ممالک کی طرح بحرین کو بھی اپنی لپیٹ لے لیا تھا اور بحرینی عوام کی تحریک اپنی ابتدا سے ہی بادشاہت کے شدید جبر و تشدد کا شکار رہی ہے۔اپنے آغاز پر ہی اس احتجاجی تحریک کے محض چوتھے دن 17فروری 2011ء کو ماناما میں واقع پرل اسکوئر میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی جس کے نتیجے میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق چار لوگ مارے گئے جبکہ 300سے زائد لوگ شدید زخمی ہوئے مگر حقائق اس سے قدرے مختلف تھے کیونکہ تمام تر میڈیا اور انسانی جان بچانے والے اداروں کو وہاں تک رسائی دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ اس دن کو بحرین کی تاریخ کے بدترین دن کے طور پر ’’خون آشام جمعرات‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس کے بعد آگ اور خون کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ عوامی طاقت کے اس سیلاب کو بد ترین ریاستی جبر اور تشدد بھی روک نہیں سکا۔تحریک کی شدت نے بحرینی حکمرانوں کے ساتھ یہ ساتھ مشرق وسطیٰ کی دیگر بادشاہتوں پر ایک خوف مسلط کر دیا تھا اور اس خوف میں بوکھلا کر بحرین اور دیگر ممالک کے حکمرانوں نے اپنے وسائل اس تحریک کو خون میں ڈبونے پر صرف کر دئے اور جب اس تحریک پر یہ جبر مسلط کیا گیا تو تمام تر میڈیا بھی اس تحریک سے روائتی چشم پوشی کر چکا ہے اور اس تحریک کو محض شیعہ سنی تضادات کے طور پر پیش کیا گیا۔ خاک و خون سے لتھڑی بیس ماہ سے زیادہ طویل اس تحریک پر قابو پانے کے لیےمنگل 30اکتوبرکو بحرین حکومت نے تمام تر عوامی مظاہرو ں پر سختی سے پابندی عائد کر دی ہے۔ پچھلے سال عرب انقلاب کو کچلنے کے لئے لگائے گئے مارشل لاء کے بعد وزارت داخلہ کی طرف سے یہ سخت ترین قدم اٹھایا گیا ہے۔وزارت داخلہ کی طر ف سے جاری ہونے والے اعلامیہ میں کہا گیا ہے’’آئے روز کے ناقابل برداشت مظاہروں اور جھڑپوں سے بحرینی معاشرہ تنگ آچکا ہے ان کو روکنے کی اشد ضرورت ہے۔ ریلیاںیا مظاہرے کرنا غیرقانونی ہے، ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے گی۔‘‘
گزشتہ سال نومبر 2011ء میں آزاد بحرین انکوائری کمیشن کی شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق مظاہروں کو کچلنے کے لیے سخت فوجی طاقت کا استعمال کیا گیا ہے۔ تقریباً 2929 افراد کو مظاہروں کے دوران گرفتارکیا گیا۔گرفتار مظاہرین کے سا تھ جانوروں جیسا سلوک اور وحشت ناک تشدد کیا گیا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ریاست کی طرف سے صرف شیعہ مسلم آبادی پر ہی تشدد نہیں ہوا بلکہ سنی آبادی پر بھی حملے کئے گئے۔بی بی سی کے اعدادو شمار کے مطابق فروری 2011ء سے اب تک 50 افراد ہلا ک ہو چکے ہیں جبکہ 1600 سے زائدزیر حراست ہیں اور 3600 سے زائد لوگوں کو نوکریوں سے بر طرف کیا گیا ہے۔ عوام زندگی کی اذیت ناک درس گاہ سے سیکھتے ہیں اور اسباق حاصل کرتے ہیں۔ پھر ایک معیاری جست ان کو تار یخ کے میدانوں میں دھکیل دیتی ہے، اس وقت عوام ایک غیر معمولی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آگے آنے والی ہر رکاوٹ کو توڑ تے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اوران کو کوئی ریاستی جبر یا وحشت روک نہیں سکتی۔ اس کا عملی مظاہرہ بحرین میں ہو رہا ہے۔ فروری 2011ء میں عرب انقلاب کے آغاز سے اب تک بحرینی عوام نے جس عظم و حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے وہ دنیا بھر کی انقلابی تحریکوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ غلیظ میڈیا کی تمام تر مسخ شدہ رپورٹس کے باوجود ابھی تک ریاست یا ان کے سامراجی آقا عوام کی قوت کو توڑنیمیں ناکام رہے ہیں۔ میڈیا اپنے آقاؤں کی ایما ء پراس طبقاتی لڑائی کو فرقہ وارانہ لڑائی بنا کر پیش کررہاہے لیکن فرقہ پرستی کی آڑ میں پرانے رومیو ں کا ’’تقسیم کرو اور حکو مت کر و‘‘ کا فلسفہ رائج ہے جس کا مقصدعوام میں پھوٹ ڈالنا اور اپنے آقاؤں اور حکمران طبقے کی مراعات اور مقام کو بحال رکھنا ہے۔جبکہ حقیقت میں پرل سکوائر پر آنے والے عوام میں غیر مسلم، سنی، شعیہ اور عیسائی سب شامل تھے اور ان سب کا ایک مطالبہ موجودہ مروجہ استحصالی معاشرے کی تبدیلی تھا۔ اسی طرح چھ اپوزیشن کی پارٹیاں جنہوں نے اس تحریک کی حمایت کی تھی ان میں سے ایک پارٹی سنی ہے جس کا لیڈر پچھلے سال گرفتار بھی ہوا تھا۔ بی بی سی کے نمائندہ سے بات کر تے ہوئے مظاہروں میں شریک ایک شخص نے کہا’’ہم موت سے مزید خوف زدہ نہیں، آرمی کو آ کر ہمیں قتل کرنے دواور دنیا کو دکھا ؤ کہ تم کس قدر وحشی ہو!‘‘۔اسی طرح حال ہی میں بادشاہت کی طرف سے فرقہ وارانہ بنیادوں پر تحریک کو توڑنے اور اپنی حمایت کو مضبوط کر نے کے لئے سیاسی ہمدردیوں کی بنیا د پر سنی اقلیت کو حکومتی گھر اور نوکریو ں دی جارہی ہیں جبکہ دوسری طرف عام بحرینی خاندان 20سال سخت محنت کر نے کے بعد کہیں جا کر اپنا گھر بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اسی طرح کئی سنی و شیعہ نوجوان گھروں پر بیروزگا ر بیٹھے ہیں اور چند افراد کو نوازکر سے تحریک کو کمزور کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں جو کہ ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔ کئی سنی خاندانوں نے ایسی نوازشیں لینے سے انکار کرتے ہوئے جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔جس کی مثال ابراہیم شریف، ایک سنی مسلمان ہے جس نے ریاست کے خلاف علم بغاوت بلند کیا،اس پر تشدد کیا گیا اور اب وہ جیل میں زندگی گزار رہا ہے۔ دوسری طرف سمیرہ رجب جیسے شیعہ بھی ہیں جو کہ انفارمیشن منسٹر کے طور پر بادشاہ کی تابع دار کنیزبنی ہوئی ہے۔ ان سازشوں کے ساتھ ساتھ حکومت اب میڈیا میں تحریک کو مسخ کرنے کے لئے شیعہ ایران کا بھوت کھڑا کر رہی ہے جس میں عام تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ تحریک ایران کے ملا چلا رہے ہیں۔مگر دوسری طرف ہر رو ز نہ رکنے والا مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جس میں نوجوان اپنے حالات زندگی کو بدلنے کے لئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بورژوا دانشور اور نام نہاد بائیں بازو کے مبلغین کے مطابق عرب پسماندہ، مذہبی جنونی اور تھکی ہوئی قوم ہیں۔ یہ تاریخ کو جامد اور غیر سائنسی طریقہ سے دیکھتے ہوئے عوام کے پست شعور کا راگ جپتے نہیں تھکتے۔ اس طرح کے ’’دانشوروں‘‘ کے منہ پر عرب انقلاب ایک تمانچہ ہے کہ طبقاتی بنیادوں کہیں بھی پر لڑا اور جیتا جا سکتا ہے۔ اسی طرح بحرین کے بارے میں بھی کئی ابہام پائے جا تے ہیں لیکن یہاں مزدور تحریک کا شاندار ماضی ہے جس میں سامراج مخالف اور غیر طبقاتی نظام کے لئے جدوجہد شامل ہے۔
بحرین، تیل سے مالا مالخلیجِ فارس میں چھو ٹا سا ملک ہے جس کی کل آبادی 12لاکھ کے لگ بھگ ہے۔کل آبادی کے 70% کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔ یہ چھوٹا سا ملک امریکی مفادات کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے، یہاں پر خطہ میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے امریکی نیوی کا پانچواں بحری بیڑہ لنگر انداز ہے۔ 1954ء میں ٹریڈ یونینز پر مبنی نیشنل یونین کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد برطانوی سامراج کا خاتمہ اور سیاسی اصلاحات کا حصول تھا۔ اس کمیٹی کے پلیٹ فارم سے کارخانو ں، فیکٹریوں میں لگاتار ہڑتالوں کے ذریعے جدوجہد کی گئی۔ 1956ء میں نہر سویز کے تنازعہ کے بعد بحرین میں برطانوی مفادات کو سب سے زیادہ خطرہ اس کمیٹی سے لاحق ہوا چانچہ اس پر پابندی عائد کرکے تمام لیڈرز کو گرفتار یا جلا وطن کر وا دیا گیا۔ اس کے خلاف کمیٹی کے کیڈرز نے 1960ء کی دہائی میں Popular Front for the Liberation of Oman and the Arabian Gulf کی بنیاد رکھی جس کا مقصد گوریلا جنگ کے ذریعے ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا تھا۔ دوسری طرف 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد برطانوی سامراج نے اس خطہ کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر بحرین کو 1971ء میں آزاد مملکت قرار دے دیا گیا۔آزادی کے تھوڑے عرصہ بعدگلف ایئرمیں پاکستان سے سستے مزدور لانے کے خلاف ائیر لائن کے محنت کشوں نے شاندار ہڑتال کر دی۔ یہ ہڑتال جنگل کی آگ کی طرح پورے بحرین میں پھیل گئی اور عوام بھی اس جدوجہد میں شامل ہو گئے۔ اس تحریک کو دبانے کے لئے بحرین کی فوج طلب کر لی گئی مگر یہ تحریک کامیاب ہوئی اور قانون ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں سے 1973 کا آئین اور پارلیمانی جمہورت شروع ہوئی لیکن 1975ء میں امریکی نیول بیس کے تنازع پر اس پارلیمانی جمہوریت کا خاتمہ کر کے ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ اس شاندار تحریک کو مارچ 1972ء کی تحریک کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور اس تحریک نے آج تک محنت کشوں کے ذہنوں پر گہرے نقو ش چھوڑے ہیں۔اس کے علاوہ 1994ء میں ایک بار پھر عوام وحشت ناک بادشاہت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، ان کے مطالبات میں 1973ء کے جمہوری آئین کی واپسی اور عوامی پارلیمینٹ کا قیا م تھا مگراس وقت بادشاہت نے تحریک کو وحشت ناک طریقے سے کچلا۔ ہزاروں افراد زخمی ہوئے، درجنوں گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں جبکہ 40 افراد قتل کئے گئے۔ تب بھی سعودی عرب نے تحریک کو کچلنے کے لئے 200 فوجی افسران خفیہ طور پر بھیجے تھے۔ اس وقت اصلاحات کے وعدے پر تحریک کو کچلا گیااو جب تحریک پیچھے ہٹی تو تمام وعدے بھلا دیئے گئے۔
غیر ملکی ورکرز کی سیاست
بورژوا معاشی ماہرین بحرینی معیشت کی مثال دیتے نہیں تھکتے تھے جس کی وجہ ملک میں بنکنگ سیکٹر کی ترقی ہے۔بحرین، خطہ میں ترقی اور لبرل معاشی پالیسیوں کے حوالے سے مشہور ہے۔ دوسری طرف تیل کی دولت سے ملک کی معیشت کو ایک وقت تک استحکام حاصل رہا۔ لیکن ملک کی ترقی کا اصل راز غیر ملکی محنت کشوں کی سستی مزدوری ہے جن کی قوت محنت کا استحصال کر کے سرمایہ دار دولت کے انبار جمع کر رہے ہیں۔ ان محنت کشوں کو کسی قسم کی ٹریڈ یونین، ملکی شہریت یا ہڑتا ل کرنے کا حق حاصل نہیں۔ ان محنت کشوں میں زیاد ہ تر غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، خصوصاً امیروں کے گھر کام کرنے والی خواتین کی کیفیت غلاموں سے بہتر نہیں۔ بحرینی سرمایہ دار اور ملٹی نیشنل کمپنیاں جہاں ان محنت کشوں کی محنت سے اپنے شرح منافعوں میں اضافہ کر رہے ہیں وہاں ان کو سیاسی مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان مقاصد میں خاص طور پر شیعہ اکثریت پر مسلسل دباؤ ڈالنا اور طبقاتی جڑت کو توڑنا شامل ہے۔ ڈیلی ڈان کی رپورٹ کے مطابق ’’کئی پاکستانی او ر سنی عربوں کو بحرین کی شہریت دی گئی ہے جس پر شیعہ اکثریت سخت ناراض ہیں جن کے خیال سے الخلیفہ سلطنت اپنے اقتدار کو طوالت دینے اور آبادی کے تناسب کو اپنے مفاد میں ڈھالنے کی سازش کر رہی ہے‘‘۔ اس کے ساتھ غیر ملکی محنت کشوں کی آڑ میں مزید معاشی حملے کئے جارہے ہیں اور بیروزگاری کی وجہ غیر ملکیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔ عالمی اور بحرینی میڈیا غیرملکی محنت کشوں پر حملوں کو خاص کراہمیت دیتا ہے اور حکمران طبقہ خاص کر ان عوامل کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہاہے۔ غیر ملکی محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد بحرینی فوج اور پولیس میں کام کرتی ہے اور اندرونی سیکورٹی کا ادارہ سب سے زیادہ روزگار فراہم کر تا ہے۔ بحرین کی فوج، مصر یا تیونس کی فوج سے مختلف ہے۔ مصر یا تیونس کی فوج وہاں کے لوگوں پر مشتمل ہے جبکہ بحرین کی فوج کا ایک بڑا حصہ بیرو ن ملک سے آئے کرائے کے قاتلوں پر مبنی ہے جو الخلیفہ کے گھناؤنے ایجنڈے کی تکمیل پر مجبور ہیں۔ اس پولیس اور فوج کو مظاہروں اور عام عوام کو کچلنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سیکورٹی فورسز میں ایک بڑی تعداد پاکستانیوں کی ہے جن کو استعمال کر کے حکمران طبقہ اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنا رہا ہے۔ اس وجہ سے بحرین میں ان کرائے کے قاتلوں اور خاص کر پاکستانیوں کے خلاف سخت نفرت موجود ہے جس کا فائدہ دونوں ممالک کے حکمران اٹھا تے ہیں۔ دوسری طرف حکومتی اعدادو شمار کے مطابق 15% بیروزگاری ہے جبکہ نوجوانوں میں یہ شرح 20% سے زائد ہے، اصل میں بیروزگاری اس سے کہیں بڑے پیمانے پر موجود ہے۔
سعودی سامراج کا کردار
سعودی عرب ہمیشہ سے ہی علاقہ میں ردانقلابی قوت کے طور پر جانا جاتا ہے مگر عرب انقلاب کے واقعات کے اثرات سعودی عرب کے اندر بھی محسوس کئے جا رہے ہیں۔ یہ تحریک تیزی سے سعودی عرب کے اندر بھی اثرات ظاہر کر رہی ہے جس کی وجہ سے سعودی حکمران طبقہ سخت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ مشرق وسطی میں تبدیلیوں سے سعودی حکمران طبقہ خاص کر پریشان ہے کیونکہ ان کو اپنا انجام بھی واضح نظر آ رہا ہے۔ مصر میں حسنی مبارک کا خاتمہ ان کے لئے پریشانی کا باعث بنا مگر انہوں نے ملٹری کونسل میں اپنا اثر و رسوخ بنانے کے لئے 4ارب ڈالر کی امداد دی، اسی طرح بنیاد پرست سلٖفی تحریک کو بھی سپورٹ کیا۔ یمن میں سعودی حکومت نے شروع میں علی عبداللہ صالح کی حمایت کی لیکن جب حالات بگڑ گئے تو صالح کی جگہ اس کے نائب عبد ربو مانسعورکو جعلی الیکشن کے ذریعے اقتدار میں لایا گیا تاکہ دنیا کو پیغام ملے کہ صالح اپنی مرضی سے اقتدار سے علیحدہ ہوا ہے نہ کہ کسی تحریک کے نتیجہ میں۔بحرین کے ساتھ سعودی سامراج کے اہم معاشی اور سیاسی مفادات وابستہ ہیں۔ سعودی حکمران بحرین کو اپنی سلطنت کا صوبہ مانتے ہیں، اس کے علاوہ بحرین بہت سے معاشی مفادات سعودیہ سے جڑے ہیں مثلاً ریاض اپنے تیل کے ذخائر سے آمدنی کاایک حصہ اب بحرین کو بھی دیتا ہے۔ منار انرجی دبئی کے سربراہ رابن ملزکے مطابق بحرینی ریاست کی تیل و گیس کی 70% آمدنی اس ذخیرے سے آتی ہے۔اسی وجہ سے انقلاب شروع ہونے کے فوراً بعد سعودی عرب نے GCC کی آڑ میں اپنی فوج اس تحریک کو توڑنے کے لئے بھیج دی۔ اس پر زاید الیسا ء نے لکھا،’’سعودی حکمرانوں کے لئے بحرین کی تحریک ایک ڈراؤنا خواب تھا جس نے سلطنت میں دور دور تک اپنے اثرات دکھائے۔یہ بہت حیران کن نہ تھا کیونکہ بحرین پر ایک وحشت ناک سنی اقلیت خلیفہ فیملی کی آمریت رائج ہے۔سعودی عرب کے نزدیک بحرینی انقلاب کے نتیجے میں کسی قسم کی نہایت معمولی رعایت ان کی سلطنت میں بھی بغاوت لانے کا باعث بن سکتی ہے۔ بحرین سے صرف پانچ کلو میٹر دور سعودی عرب کے تیل سے مالا مال مشرقی شیعہ اکثریتی صوبے قطیف میں اس کیفیت کا اظہار ہو رہا ہے۔‘‘
لیکن حکمرانوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود بحرین کی تحریک سعودی عرب میں داخل ہو چکی ہے۔ اگرچہ سعودی عرب میں دوسرے ممالک کی طرح بڑے پیمانے پر احتجاج نہیں ہو رہے لیکن انمسلسل چھوٹے احتجاجوں کا سلسلہ امریکی سامراج نواز سعودی بادشاہت کے لیے تکلیف کا باعث بنا ہوا ہے جس سے آڑے ہاتھوں سے نمٹنے کے لئے سعودی حکومت نے حال ہی میں قوانین سخت کر دیے ہیں۔ اس پر جدلیہ اپنے 2 اپریل کی ایک رپورٹ میں لکھتا ہے’’سعودی مظاہروں کی معلومات یا تصاویر شائع کرنے پر دس سال تک کیقید کے ساتھ ہزاروں ڈالرز جرمانہ کی سزا ہے۔سعودی حکمران طبقہ کے بارے میں اہم معلومات رکھنے والی انٹرنیٹ سائٹس بلاک کر دی گئیں ہیں۔‘‘اب سعودی سامراج کی طرف سے 6گلف ممالک پر مشتمل گلف یونین بنانے کا عندیا دیا ہے جس کا مقصد سامراجی عزائم اور عرب انقلاب کو کچلنے کے لئے حکمران طبقوں کا اتحاد تشکیل دینا ہے۔اس پر بات کرتے ہوئے سعودی بادشاہ نے کہا ’’ہم اس وقت عدم تحفظ کا شکار ہیں، اگر کسی نے کچھ نہ کیا تو وہ قافلے سے پیچھے رہ کر ہار جائے گا۔‘‘ بحرینی بادشاہت کیعہدے دار شیخ عبدالعزیز بن مبارک نے وال سٹریٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’ہم جن مسائلکا سامنا کرنے جارہے ہیں وہ اندرونی سیکورٹی ہو یا کچھ اور، ان کا اکھٹے ہو کر سامنا کرنا بہتر ہے‘‘۔ حکمرانوں کے بیانات اور حرکات و سکنات سے انکی کمزوری واضح نظر آ رہی ہے۔ ان کو اپنی فکر لاحق ہورہی ہے جس کی وجہ نیچے سے عوام کی طاقت ہے جو اس نظام کے خلاف برسر پیکار ہیں۔سعودی حکمرانوں نے بحرینی حکمرانوں کی ملٹری امداد کے ساتھ 10 ارب ڈالر کے پیکج کی بھی یقین دہانی کروائی ہے تا کہ وہ کرائے کے قاتلوں کو خرید سکیں اور عوام کے مظاہروں کو کچل سکیں۔
امریکی سامراج مردہ باد
امریکی سامراج کے بھی بحرین کے ساتھ نہایت اہم سامراجی مفادات وابستہ ہیں۔ پچھلے بیس سالوں سے امریکی نیوی بحرین کو 5thفلیٹ کے بیس کے طور استعمال کر رہی ہے۔ اس بیس کا مقصد علاقائی طور پر امریکی مفادات کی حفاظت کرنے کے ساتھ خلیج فارس اور بحر احمر میں تیل کی سپلائی کو یقینی بنانا ہے۔مشرق وسطی میں امریکی پالیسی کے اہم مقاصدمیں سستے تیل کی فراہمی اورآزاد رسائی شامل ہے۔ اس خطہ میں تیل سے مالا مال سعودی عرب ہمیشہ سے اس کا اہم وفادار غلام رہا ہے۔ تمام عرب ممالک میں لمبے عرصہ سے امریکی حمایت یافتہ حکومتیں بر سر اقتدار تھیں لیکن عرب بہار نے جب ان آمریتوں کو پاش پاش کیا تو امریکی سامراج کی بالادستی کو بھی خطرات لاحق ہو گئے۔ کسی بھی بورژوا دانشور نے مصر یا تیونس کے واقعات کی پیش گوئی تو دور کی بات اس بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ ان انقلابات کے اثرات امریکی ریاست وسکونسنمیں محنت کشوں کی جدوجہد اور وال سٹریٹ پر قبضہ کی تحریک میں بھی واضح دیکھے جا سکتے تھے۔ مصرمیں اپنے حمایت یافتہ حسنی مبارک کے خلاف تحریک میں امریکی سامراج نے پہلے حالات کوسنبھالنے کی کوشش کی مگر جب محنت کش طبقہ نے حرکت کرنا شروع کی تو سامراج مجبوراً حسنی مبارک کو رخصت کر کے مصری آرمی کو برسرِ اقتدار لے آیا۔مگر بحرین کے معاملے پر وال سٹریٹ جرنل میں کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے’’ امریکہ بحرین میں جمہوریت کے خلاف صف آرا ہے۔۔۔ہر ایک کو پتہ ہے کہ بحرینہارنے کے لئے بہت اہم ملک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ براہ راست بحرین میں جمہوریت اور آزادی کے خلاف کام کر رہی ہے۔‘‘عرب حکمرانوں نے بھی امریکی سامراج کو واضح پیغام دیا ہے کہ الخلیفہ کا حال حسنی مبارک جیسا نہیں ہونا چاہئے وگرنہ باہمی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔رواں سال کے مئی میں اوباما نے دوبارہ بحرین کو اسلحہ کی فروخت کا آغاز کر دیا ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈ یپارٹمنٹ کی وکٹوریا نولڈ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے ’’بحرین امریکہ کا اہم اتحادی اور سیکورٹی پارٹنر ہے جس کو علاقائی طور پر خطرات کا سامناہے‘‘۔یہ ’’علاقائی خطرات‘‘ دراصل عرب انقلاب اور عوام کی تبدیلی کی خواہش ہیں جس کو کچلنے کے لئے امریکی سامراج بھی نہایت سنجیدہ ہے۔ اس سے پہلے 2010ء میں سعودی عرب کے ساتھ 60 بلین ڈالرز کی اسلحہ ڈیل بھی فائنل ہو چکی ہے۔اس اسلحہ ڈیل کی وجہ سے بحرین میں امریکی سامراج مخالف جذبات کھل کر سامنے آئے جب درجنوں افراد نے مئی میں امریکی نیول بیس کے سامنے احتجاج کیا۔انہوں نے امریکہ اور مقامی حکمرانوں کے خلاف سخت نعرے بازی کی۔ اس پر میڈیا سے با ت کرتے ہوئے مظاہرے میں شریک محمد المسکاتی نے کہا ’’یہ اسلحہ ڈیل امریکہ کی جانب سے واضح پیغام ہے کہ ہم انتظامیہ کی حمایت کر تے ہیں اور ہم بحرین میں جمہوریت اور مظاہرین کی حمایت نہیں کرتے۔‘
اصلاحات یا انقلاب
جنوری 2012ء کے آخر میں بادشاہ حماد بن عیسی الخلیفہ کی طرف سے تحریک کوٹھنڈا کرنے کے لئے اصلاحات کا اعلان کیا گیا۔ بادشاہ نے اعلان کیا کہ آئین میں ترامیم لائی جائیں گی جس میں پارلیمنٹ کو بادشاہت کی طرف سے تجویز شدہ کابینہ کو منظور کرنے کے حق کے ساتھ ساتھ وزراء سے سوال کرنے او ر انہیں برطرف کرنے کا حق بھی حاصل ہوگا۔ان نام نہاد اصلاحات پر بھی عمل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ جس کی وجہ سے تحریک مزید بھڑکی، وقتی طور پر تھمنے کے بعد اتنی ہی شدت کے ساتھ دوبارہ پھٹی اور بہت آگے تک گئی جس میں روزانہ نوجوانوں کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں شامل ہیں۔
نام نہاد بائیں بازو کے دانشوروں کی سوچ کے برخلاف یہ لڑائی طبقاتی لڑائی ہے اور عوام کے مطالبات میں بنیادی ضروریات کے اہم مطالبے شامل ہیں۔ عوام کسی طے شدہ پروگرام یا منصوبہ کے ساتھ تاریخ کے میدان میں نہیں آتے بلکہ اپنے حالات زندگی سے تنگ آکر وہ جدوجہد کارستہ اپناتے ہیں۔ عمومی شعور میں جدلیا تی طور تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور وہ آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن عوام کے لڑنے کی حد ہوتی ہے، وہ ہمیشہ سڑکوں پر نہیں رہ سکتے اور نہ ہی ہمیشہ چپ کر کے بیٹھے رہتے ہیں۔اس موقع پر قیادت کا کرداد فیصلہ کن ہوتا ہے جو تحریکوں کو کامیابی یا ناکامی کی طرف لے جاتا ہے۔ عرب انقلاب پر جہاں بے ہودہ قسم کے الزام لگائے جا رہے ہیں وہا ں یہ سوچ بھی تقویت پکڑ چکی ہے کہ یہ تحریک صرف سیاسی اصلاحات کے لئے ہے۔ اس پر جدلیہ نے لکھا ’’ضروریات کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ تحریکوں کے آغاز کا اہم سبب ہے۔ جب اشیاء ضروریات کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا تو ہمیں اس طرح کی مزید تحریکیں دکھائی دیں گی۔ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ عرب انقلاب کے مطالبات میں سیاسی آزادی کے ساتھ ساتھ بنیادی خوراک اور سروسز کی فراہمی کے مطالبات بھی شامل ہیں۔آنے والے دنوں میں ضروریات زندگی کے حصول کے لئے تحریر سکوائر کی طرز پر مزید جدوجہدیں نظر آئیں گی۔‘‘
اذیتوں اور ناانصافیوں کے خلاف غم و غصہ پر پر عوام نے عرب انقلاب کی شکل میں معیاری جست لگاتے ہوئے ایک انقلابی تحریک کا آغاز کیاجس کا کردار خو د رو تھا۔ یہی خود رو پن اس تحریک کی طاقت کے ساتھ اب اسکی سب سے بڑی کمزوری بھی بن چکا ہے۔ اس دوران عبوری گروپ سامنے آئے جس میں اہم 14th February Youth تھا، جس میں بڑی تعداد میں نوجوانوں نے شمولیت ا ختیار کی لیکن کسی واضح لائحہ عمل اور پروگرام کی عدم موجودگی میں یہ کوئی فیصلہ کن کردار اد ا نہ کر سکا۔ دوسری طرف اتحاد برائے بحرین جمہوریہ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے 7مارچ 2011ء کے اعلامیہ میں کہا گیا’’ا تحاد کے مطابق موجودہ انقلاب کا اہم مطالبہ موجودہ استحصالی حکومت کا خاتمہ اور جمہوریہ کا قیام ہے جو کہ عوام کی امنگوں کا اظہار ہو اور ان کے حقوق، مفادات اور عزت کا تحفظ کرے‘‘۔لیکن مرکزیت پر مبنی تنظیمی ڈھانچے یا سائنسی سوشلزم کے نظریات سے لیس قیادت کی عدم موجودگی میں تحریک فیصلہ کن کردار اد انہیں کر سکی۔معاشرہ کی مختلف پرتیں جتنی بھی انقلابی ہو جائیں جب تک محنت کش طبقے کو اپنے ساتھ نہ جوڑیں کبھی انقلاب کومکمل نہیں کر سکتیں۔ یہی صورتحال تحریک کے آغاز میں نظرآئی جب بحرین کی سب سے بڑی جنرل ٹریڈیونین فیڈریشن کی قیادت نے عام ہڑتال کی بجائے مصالحت کا راستہ اختیار کیا۔ ٹریڈ یونین فیڈریشن کے صدرسید سلمان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ’’فیڈریشن کا بنیادی مقصد بحرین کے ولی عہد اور مظاہرین کے مابین بہتر بات چیت کرواناہے۔‘‘ اس عوامی تحریک کے نام نہاد لیڈروں کی حرکتوں سے یہ بات عیاں ہے کہ یہ مصالحت اور اصلاحات کا رستہ اپنانا چاہتے ہیں لیکن بحرین اور عالمی محنت کش تحریکوں کے تجربات سے واضح ہے کہ اصلاحات اور مصالحت کا رستہ ختم ہو چکا ہے۔ اس سے تبدیلی نہیں آ سکتی۔ اب تمام مصالحتوں کا رستہ چھوڑ کر واضح پروگرام کے ساتھ موجودہ استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنے کی ضروت ہے۔
بحرینی فوج کی سماجی ہییت مصر اور تیونس کی فوج سے مختلف ہے۔ مصر او ر تیونس میں مظاہرین یہ سوچ سکتے تھے کہ فوج ان پر گولی نہیں چلائے گی اور ایسا ہوا بھی۔ مصر اور تیونس کے انقلابات میں فوج بھی طبقاتی بنیادوں پر ٹوٹنے کی طرف جا رہی تھی جس کی وجہ سے ریاست کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ مگر بحرین کی فوج بیرون ملک سے لائے گئے کرائے کے قاتلوں پر مبنی ہے جن میں اکثریت پاکستانیوں کی ہے۔ اس سے لڑنے کے لئے ضروری ہے کہ سرحد پار طبقاتی بنیادوں پر حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ فوج کے عام سپاہی بھی محنت کش ہیں جو کہ دور دراز کے علاقوں سے روزی روٹی کمانے بحرین آئے ہیں۔ ان سے ہمدردیاں لینے اور یکجہتی کے پیغام لے جانے کی ضرورت ہے تاکہ طبقاتی بنیادوں پر جڑت سے حکمرانوں کو شکست دی جا سکتی ہے۔ اگر انقلابی عوام یہ جڑت بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو عرب ممالک میں ہمیشہ کے لئے سرمایہ دار ی کو ختم کیا جا سکتاہے۔ سامراجی یلغار کی وجہ سے بحرین اور سعودی عرب کا تناظر انتہائی جڑا ہوا ہے، کیونکہ سعودی حکمران طبقے کو شکست دئے بغیر بحرین میں انقلاب قائم نہیں رہ سکتا۔ اس وقت سعودی عرب کے علاقہ قطیف اور مشرقی حصہ میں تحریک چل رہی ہے۔ اسی طرح کچھ دن پہلے کویت میں 150,000 لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ سعودی عرب اور بحرین کے ساتھ تمام مشرق وسطٰی کے محنت کشوں کی انقلابی جڑت کے ساتھ ایک انقلابی قیادت کے زیرِ اثر سارے خطہ میں سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔
عرب خطے کے ساتھ ساتھ یورپ، امریکی اور افریقہ میں محنت کش اور نوجوان انقلاب کے لئے سڑکوں پر آ رہے ہیں، تبدیلی کا پیغام ہر جگہ پھیل رہا ہے اور انقلاب کے نعرے ہر خطے پر لگائے جا رہے ہیں۔ ایک بالشویک قیادت کی جتنی ضرورت آج محسوس کی جارہی ہے شاید اس سے پہلے نہ ہو۔ اس وقت حکمران بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر اپنی مراعات اور دولت بچانے کے لئے سخت تشدد کا سہارا لے رہے ہیں لیکن پھر بھی یہ عوام کی انقلاب کی جستجو کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بحرین کی تحریک میں دنیا بھر کے انقلابیوں کے لئے اہم اسباق موجودہیں۔بحرینی عوام کی تحریک کو کچلنے کے لئے پاکستان سے ایک بڑی تعداد میں فوجیوں کو بھرتی کیا گیا ہے اور حال ہی میں اس ضمن میں بلوچستان اور پاکستان کے دیگر صوبوں کے پسماندہ ترین علاقوں سے نوجوانوں کو بھرتی کرنے کا عمل شروع ہوا،جس کے خلاف پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپین نے اسلام آباد میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا اور نہ صرف ان بھرتیوں کی مذمت کی بلکہ بحرینی عوام کے قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے بحرینی عوام سے یکجہتی کا اعلان کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام تر نسلی، مذہبی، علاقائی اور فرقہ پرور تعصبات کے برخلاف طبقاتی بنیادوں پر تحریک کو منظم کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب بر پا کیا جائے جو کہ عالمی سوشلسٹ سماج کا نقطہ آغاز بنے۔
مشرق وسطی کی سوشلسٹ فیڈریشن کے لئے آگے بڑھو!
بادشاہت مردہ باد!
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!