بحرین: تحریک ابھی مری نہیں!

[تحریر: عمر شاہد]
عالمی میڈیا میں بحرین میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات نے ایک بار پھر خطہ کی سیاست کو عالمی میڈیا کی سرخیوں کی زینت بنا دیا ہے۔ جہاں ایک طرف تو جمہوریت کی طرف سفر اور خلیفہ کے لبرل ازم کی طلسم ہوشربا داستانیں بیان کی جارہی ہیں تو وہیں پر بورژوازی کے سنجیدہ تجزیہ نگار ڈھکے چھپے الفاظ میں عرب بہار سے جاری عوام انقلابی سرکشی پر بھی بات کرتے نظر آرہے ہیں۔ بحرین کے حالیہ انتخابات نے جہاں پر حکمران طبقہ کی بوکھلاہٹ کو واضح کیا وہیں پر انقلابی تحریک کو ایک نئی اٹھان دینے کا کام بھی کیا۔ انتخابات میں جہاں پر ریاست مشینر ی نے پوری قوت سے اپنے من چاہے نتائج حاصل کیے وہیں پر عوامی مظاہروں کا نا رکنے والا سلسلہ جاری رہا۔

مظاہرین انتخابات سے بائیکاٹ (مقاطعہ) کے بینر اٹھائے ہوئے ہیں

بحرین میں صدیوں پرانی قدامت پرست بادشاہت رائج ہے اور یہاں کی پارلیمنٹ صرف ربڑ سٹیمپ کے طورپر استعمال ہوتی ہے کیونکہ پارلیمنٹ کے پاس کوئی اہم طاقت نہیں بلکہ بادشاہ پارلیمنٹ کے کسی بھی فیصلہ کو ویٹو کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ 2002ء میں عوامی دباؤ کی وجہ سے نیا آئین متعارف کروایا گیا جس میں نام نہاد پارلیمنٹ کے 40 رکنی ایوان زیریں میں عوام کو اپنے ووٹ کے ذریعے عوامی نمائندگان کو منتخب کرنے کاحق دیا گیا جبکہ ایوان بالا میں نمائندگان بادشاہ کی مرضی سے آتے ہیں۔ انتخابات سے سیاسی ریاستی ڈھانچہ میں کوئی تبدیلی نہیں آتی مثلاًکابینہ میں بادشاہ کے خاندان کے ارکان سالوں سے براجمان ہیں حالانکہ 40سال سے غیر منتخب شدہ وزیر اعظم بھی براجمان ہے۔ عرب بہار کے بعد ہونے والے یہ انتخابات امریکی اور سعودی سامراج کی نظر میں اہم الیکشن تھے جس کی تیاریوں کے سلسلوں میں سعودی سامراج کی طرف سے سکیورٹی کے نام پر نفری بھجوائی گئی جن کا مقصد شیعہ اکثریت علاقوں کو کنٹرول کرنا تھا۔ ان علاقوں میں نیم کرفیو نافذ رہا جس میں سخت سکیورٹی میں انتخابات کا عمل جاری رکھا گیا۔ لیکن مسلسل نوجوانو ں اور سکیورٹی اداروں میں جھڑپوں کی خبریں بھی آتی رہی۔ ان انتخابات کا پہلے ہی چار اہم اپوزیشن پارٹیوں ال وفاق، لیفٹ لبرل ال وائداوردیگر نے بائیکاٹ کر دیا تھا۔ لیکن انتخابا ت سے پہلے اہم شیعہ اپوزیشن پارٹی ال وفاق پر تین ماہ کے لئے کسی قسم کی سیاسی سرگرمی پر پابندی عائد کی گئی۔ کیونکہ عرب بہار سے پہلے تک ال وفاق اور دیگر اہم اپوزیشن پارٹیاں پارلیمنٹ کا حصہ رہی ہیں او ر عوامی غم و غصہ کو قانونی و آئینی پیچیدگیوں میں ذائل کرتی رہی ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں پر پابندی کے بعد بجائے جاری تحریک کو نئی بلندیوں پر لے جانے ال وفاق پارٹی کے سربراہ علی سلمان نے بیان دیا کہ،’’ہم اس فیصلہ کے خلاف بحرین سپریم عدالت میں اپیل کریں گے اور اپنی پر امن جدوجہد جاری رکھیں گے‘‘۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران اور امریکہ کے درمیان جاری مذاکرات کے سلسلے میں ال وفاق پارٹی کو خطہ میں ایرانی مفادا ت کے لئے استعمال کیا جا نا شامل ہے۔ پابندی سے چند ہفتوں قبل امریکی ریاستی نمائندے ٹام میلونسکی نے شیعہ اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ میٹنگ کی جس کے بعد میلونسکی کو بھی بحرین حکومت نے ملک بدر کر دیا۔ انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی گرفتاریوں اور سوشل میڈیا پر پابندیوں کا نیا سلسلہ شروع کیا گیا۔ درجنوں سیاسی کارکنوں کو نظر بند کیا گیا جس کا مقصد کسی قسم کی سیاسی بیداری کو کچلنا تھا۔ انتخابات میں ریاست کی طرف باقاعدہ طور پر انتخابات میں حق رائے دہی استعمال کرنے لئے ووٹرز کو مفت ٹرانسپورٹ اور کھانے کی سہولت فراہم کی گئی۔ زیادہ تر پولنگ سٹیشنز کو ایسے مقامات پر بنایا گیا جہاں من چاہے نتائج حاصل کرنا آسان ہو مثلاًنہایت کم آبادی والے ساحلی گاؤں ال جاوا میں ملٹر ی تنصیبات کے پاس پولنگ سٹیشن بنایا گیا جہاں سکیورٹی کلیئرنس کے بغیر کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ سعودی عرب میں مقیم بحرینی باشندوں اور حکومتی اہلکاروں کو بھی ووٹ ڈالنے کے لئے استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے حکومتی اعدادو شمار کے مطابق ٹرن اوور 51.3 فیصدکے قریب تھا مگرآزاد ذرائع کے مطابق یہ 30 فیصد سے بھی کم تھا جس میں بحرینی باشندوں کی شمولیت نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ 80 فیصدووٹر ز حکومتی اداروں یا فوجی اداروں کے اہلکار تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر روزنانہ گلف نیوز کی رپورٹ کے مطابق،’’اعلیٰ انتخابات کے کمیشن کے صدر نے پریس کو بیان دیا کہ جو بحرینی ووٹ نہیں دے گا اسکو نوکری اور دیگر حکومتی مراعات حاصل نہیں ہونگی۔ جس کی وجہ سے کئی بحرینی جن کے ووٹ رجسٹر بھی نہیں تھے وہ بھی پولنگ سٹیشنز پر گئے تاکہ ان کے پاسپورٹ پر ووٹ ڈالنے کی سٹیمپ لگ سکے تاکہ انہیں نوکری سے نہ برطرف کیا جائے‘‘۔ لیکن اس تمام تر ریاستی جبر اور انتخابا ت کے نتائج کوفرقہ وارانہ بنیادوں پر سبو تاژ کرنے کے باوجود رزلٹ کے مطابق 40 سیٹوں میں سے فقط 4 امیدوار وں کا تعلق کسی پارٹی سے تھا باقی 36 امیدوارآزاد حیثیت میں جیتے ہیں۔ بحرین کی بڑی سنی پارٹی المنہار اسلامی فقط ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب ہو سکی ہے۔ اس کے علاوہ بادشاہت کے سب سے بڑے حامی الفتح اتحاد جس نے 2011ء کی عوامی تحریک کے بعد بڑے پیمانے پر بادشاہ کی حمایت کے لئے تحریک چلائی تھی کو بھی فقط ایک سیٹ مل سکی اسی طرح ایک اورگروپ اکٹھ برائے قومی اتحا د TGONU جس نے چار سال کے دوران بادشاہ کی حمایت کے لئے تین لاکھ لوگوں کے بھی مظاہرے کیے‘ چند لوگوں کو ہی ووٹنگ کے لئے مائل کر سکا۔

اس صورتحال میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بحرینی معاشرے کو سنی شیعہ بنیادو ں پر تقسیم کرنے کے حکمران فلسفے کے برعکس معاشرے میں پائی جانے والی بے چینی اور اضطراب میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ غیر ملکی قاتلوں پر مبنی سکیورٹی ادارے بھی اس عوامی بغاوت کو کچلنے میں ناکام ہیں۔ اس دو مرحلہ پر محیط انتخابی عمل میں ہر روز نقاب پوش نوجوان مردو ز ن اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں جاری رہیں۔ ان میں اہم 15 نومبر کا واقعہ ہے جس میں ہزاروں افراد جس میں اکثریت عورتوں کی تھی نے الخلیفہ حکمران خاندان کی قانونی حیثیت کے لئے عوامی ریفرنڈم کے انعقاد کے مطالبہ پر احتجاج کا انعقاد کیاجس کو بدترین جبر کے ساتھ کچلا گیا۔ لاتعداد افراد کو گرفتار کر لیا گیا لیکن جبر کی یہ لہر بھی مظاہرین کے حوصلے پست نہ کرسکی بلکہ چند روز بعد اس طرح کے چھوٹے چھوٹے مظاہروں کا مختلف شہروں میں انعقاد کیا گیا۔ ان مظاہروں کی خاص بات یہ ہے کہ جتنا جبر شدید ہوتا ہے اتنے مظاہروں میں تیزی آتی ہے اور جتنی گرفتاریاں زیادہ ہوتی ہیں اتنے ہی عوام زیادہ سڑکوں پر آتے ہیں۔ اسی طرح عاشورہ کے جلوسوں میں بحرینی عوام مذہبی نعروں کے ساتھ ساتھ سیاسی اور معاشی نعرے لگاتے ‘ مختلف علاقو ں سے گزرتے ہوئے تباہ شدہ پرل سکوائر پر جانے کی کوشش کی تو پولیس کی طرف سے آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کرتے ہوئے ان کو منتشر کیا گیا۔ اسی سال مارچ 2014ء میں 23 سالہ جعفر محمدم جعفرکی دوران حراست ہلاکت کے خلاف مظاہروں میں اعلیٰ بنیادوں پر طبقاتی جدوجہد نظر آئی، مناما کے مغرب میں واقع Daih گاؤ ں میں جعفر کے جنازہ پر سنی اور شیعہ نے شرکت کی جس کے بعد جنازہ ایک سیاسی جلسہ کی شکل اختیار کر گیا جس میں مختلف مقررین نے بادشاہ پر سخت تنقید کی لیکن جب اس پر پولیس کاروائی کی گئی تو جواب میں مظاہرین نے پتھروں، لوہے کے راڈز اور پٹرول بموں سے پولیس پر حملہ کردیا جس سے صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے ملٹری بلوائی گئی۔
بحرین کی معیشت کا سرسری سا جائزہ لیا جائے تو ایک لمبے عرصہ سے اس کے بجٹ خسارہ میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے جس کی وجہ بحرین کی معیشت کازیادہ تر دارومدار سعودی گرانٹس اور اس کی معاشی سرگرمی سے منسلک ہے۔ انوسٹرز کے مطابق اگلے سال بھی تیل کی قیمت 70 ڈالر فی بیرل سے کم رہنے کا امکان ہے GCC ملکو ں کی چھ ریاستوں کا زیادہ انحصار تیل کی آمدن پر ہے جس سے آنے والے وقت میں گرتی ہوئی آمدنیوں کی وجہ سے ریاستی خسارے میں اضافہ ہو گا جس کی وجہ سے میگا تعمیراتی پراجیکٹس میں سستی یا خاتمہ، سبسڈیوں کا خاتمہ اور تیل کی دولت پر دی جانے والی ریاستی گرانٹس میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ جب تیل کی قیمت 100 ڈالر پر بیرل تھی تب بھی بحرینی معیشت خسارے میں تھی اب اس خسارے میں مزید اضافہ ہو گا۔ موڈیز کی رپورٹ کے مطابق،’’2015ء میں سعودی عرب کا مالیاتی بیلنس خسارے میں تبدیل ہو جائے گا جبکہ بحرین کا بجٹ خسارہ اس کے GDP کے 7 فیصدتک ہونے کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے لا محالہ طورپر بحرین میں مزید کٹوتیوں کا اضافہ کیا جانا ضروری ہے‘‘۔ اسی طرح آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق ،’’اگر تیل کی قیمت 114 ڈالر فی بیرل ہو تو سعودی عرب کا بجٹ خسارہ سرپلس میں بدلتا ہے لیکن اس کے ریزرو اسکو محدود وقت تک مدد فراہم کر سکتے ہیں۔‘‘ اس صورتحال میں کسی قسم کی بھی سماجی بہتری کے امکانات ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں معیشت کی مزید سست روی سے روزگار کے مواقع میں کمی واقع ہو گی جس کی وجہ بحرینی نوجوانوں میں مزید بیروزگاری پھیلے گی آزاد ذرائع کے مطابق 25فیصدبحرینی نوجوان بیروزگار ہیں جن میں اکثریت شیعہ نوجوانوں کی ہے۔ غیر ملکی محنت کشوں کی سستی محنت کو نچوڑ کر شرح منافع میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ جہاں یہ غیر ملکی محنت کش دوہر ے استحصال کا شکار ہیں وہیں پر عام آبادی بھی ان سے نفرت کرتی ہے جس کی وجہ سے خوف اور ڈر کی فضاء میں ان سے دگنا کام اور قلیل اجرتیں دی جاتیں ہیں۔
اس تناظر میں اگر سامراجیت کی بحرین میں غارت گری کو دیکھا جائے تو یہ یوں عیاں ہوتی ہے کہ نا صرف سعودی سامراج بلکہ امریکی اور برطانوی سامراج کا بھی یہاں گہرا تسلط ہے۔ امریکی کاخطہ میں پالتو جانور کا کردار ادا کرتا ہوا بحرینی حکمران طبقہ اب مزید سامراجیوں کی غلامی میں غرق ہو رہا ہے۔ حال ہی میں داعش کے خلاف امریکی سامراج کے بننے والے اتحاد میں بحرین اہم ملک ہے اور عرصہ دراز سے امریکی فیفتھ نیول بحری بیڑہ یہاں عرصہ سے لنگر انداز ہے جس کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ کو کنٹرول کرنے میں یہ بیڑہ اہم فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ یہاں ایرانی سامراج کی بھی مداخلت موجود ہے مثلاً شیعہ رہنما شیخ عیسی قاسم جیسے لیڈروں کی شکل میں ایران بھی اپنا اثرو رسوخ بنانے کی سر توڑ محنت میں مگن ہے۔ حالیہ داعش اور سعودی یمن بارڈر کی کشیدگیوں کے پیش نظر بحرین میں سعودی سامراجی مداخلت بڑھ رہی ہے۔ لیکن ایران کی طرف سے عوامی جدوجہدکے لئے آنے والا ہر حمایت کا پیغام تحریک کو کمزور کرتا ہے جس سے بادشاہت کو ایران کا پتہ کھیلنے کا موقع ملتاہے۔ اسی ماہ بحرین میں ہونے والے سالانہ مناما مذاکرات میں برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ سلمان بندرگاہ کے مقام پر اپنی نئی ملٹری بیس تعمیر کرے گا جس میں بڑے پیمانے پر ملٹری صلاحیت اور مائن ہنٹر جہازوں کو بھی تعینات کیا جائے گا تاکہ مشرق وسطٰی کو بہتر طریقہ سے کنٹرول کیا جا سکے۔ لیکن اس میں اہم پہلو سعودی عرب کے اندر زور پکڑتی تحریک ہے۔ سعودی مشرقی حصہ میں واقعہ القطیف کے اندرجاری تحریک میں ایک اہم مقام تب آیا جب 15 اکتوبر کو سعود ی عدالت میں اہم شیعہ مبلغ شیخ نمر باقر النمر کو سزائے موت سنائی گئی۔ شیخ نمر عرب انقلاب کے بعد شیعہ حقوق خاص طو ر پر بحرین میں جاری سعودی فسطائیت کے خلاف احتجاج منظم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس فیصلہ کے بعد بڑی تعداد میں سعودی شہریوں نے صدائے بغاوت بلند کی اور مظاہروں کا انعقاد کیا۔ یہ مظاہرے اس حوالے سے بھی اہم تھے کہ اس میں سنی شیعہ دونوں کے استحصال کو واضح کیا گیا اور ایران سامراج کے گماشتہ بشار کی حکومت اوربحرین کے الخلیفہ خاندان کے خلاف بھی نعرہ بازی کی گئی۔ جہاں سعودی عرب کے اندر عوام ان کے خلاف سراپا احتجاج ہیں وہی پہ شہزادوں کی عیاشیاں بھی منظر عام پر آ رہی ہے جس کی وجہ سے سعودی معاشرے کے اندر اضطرا ب کی کیفیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مثلاً جرمن میگزین کے مطابق بادشاہ فہد مونٹے کارلو میں ایک شام 20 ملین ڈالرز جوئے میں ہار گیا مگر لاکھوں سعودی باشندے ایسے ہیں جن کو ایک بہتر معیارِ زندگی میسر نہیں۔ اسی طرح ایک عرب صحافی کے مطابق آل سعود کے 42 بیٹوں کی 1400 بیویاں ہیں۔ لیکن قدامت پرست معاشرے اور جدیدیت کے تضادات میں اضافہ ہو رہا ہے جو کہ کسی بھی لمحہ پھٹ کر ایک بڑے پیمانے کی بغاوت کو جنم دے سکتے ہیں۔
عالمی طور پر جاری معاشی بحران اور جنگ و جدل کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ پرانے طریقوں سے اب گلف ممالک میں حکمرانی نہیں کی جا سکتی۔ جہاں اس خطہ میں سامراجیت کی وحشت آئے روز بڑھ رہی ہے وہیں پر سامراجیوں کے داخلی تضادات میں بھی اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ سماجی طور پر پر ہیجان زدہ عہد میں سماجی بغاوتیں مختلف مواقع پراپنا اظہار کر رہی ہیں لیکن کوئی ایک انقلابی پارٹی نہ ہونے کی وجہ سے یہ طاقت کسی بڑی سماجی تبدیلی کا باعث بننے سے قاصر ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ جس عزم اوربہادری کا مظاہرہ بحرینی عوام نے کیا وہ سب لا حاصل ہے بلکہ اس کے گہرے سماجی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ کسی بھی آمریت کے لئے مشکل ترین مرحلہ تب ہوتا ہے جب جبر کے لمبے موسم کے بعد مراعات کا اعلان کرتی ہے اس سے تحریک تھمنے کی بجائے مزید مضبوط ہوتی ہے اور عوام بہت کچھ سیکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں یہی عمل اس وقت گلف ریاستوں میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں پر مراعات کے بعد مزید جدوجہد کا آغاز ہو رہا ہے۔ بحرین میں خود رو گروپس کا قیام بڑی تیزی سے عمل میں آرہا ہے اس میں اہم اوپن ریفرنڈم برائے بادشاہت کا ہے جس میں بادشاہت کی قانونی حیثیت کے حوالے سے ریفرنڈم کا مطالبہ سامنے آرہا ہے۔ فرقہ واریت کے خلاف سنی شیعہ یکجہتی کونسلز وجود میں آرہی ہیں جن کا مقصد تمام تعصبات سے تحریک کو پاک کرنا ہے۔ جیسے مارکسی نظریہ ہمیں سکھاتا ہے کہ کسی بھی معاشرے کی سماجی تبدیلی صرف محنت کش طبقہ ہی لا سکتا ہے اور اگر بحرین اور سعودی عرب میں خاص کر دیکھا جائے تو یہاں کے محنت کش طبقہ کی اکثریت غیر ملکی ہے اور بحرین کی فوج بھی زیادہ تر بیرون ملک کرائے کے قاتلوں پر مبنی ہے جس کی وجہ سے ان غیر ملکی محنت کشوں کے ساتھ یکجہتی کی بجائے ان پر حملوں کی خبریں آتی رہتی ہے اور حکمران میڈیا ان خبروں کو ہوا دیتا ہے۔ لیکن معاشرے میں بڑھتے ہوئے اضطراب اور گھٹن کی وجہ سے جدوجہد میں مزید تیزی آئے گی بحرین کی سوشلسٹ آزادی پھر مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے ممالک کے محنت کشوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے کسی بھی ملک میںآنے والی ہم تبدیلی سماج پر گہرے اثرات مرتب کر ے گی۔ عرب بہار انقلاب وقتی طور تھما ہے بعض جگہوں پر رد انقلابی قوتیں بھی افق پر منڈلا رہی ہے مگر پھر اایک بھونچال کے ساتھ یہ تمام بت گرائے جائیں گے اور آنے والا وقت مارکسیوں کے لئے کئی نئے مواقع فراہم کر ے گا جس سے عالمی سوشلسٹ انقلاب کی طرف سفر مزید مختصر ہو تا جائے گا۔

عالمی سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!
مشرق وسطی کی سوشلسٹ فیڈریشن کے لئے آگے بڑھو!

متعلقہ:

بحرین: انقلاب اور رد انقلاب کی کشمکش