بغاوت کا جرم!

تحریر: لال خان

سندھ میں نوازلیگ نے بھرپورانتخابی مہم کاآغازکررکھاہے۔ حیدرآبادمیں وزیر اعظم کے دورے، ’’ورکرز کنونشن‘‘ اوردوسری تقاریب اورپھریہاں بھی میٹرو بس سے یونیورسٹی اورموٹروے کے ن لیگ برانڈمنصوبوں کااعلان کیا گیا۔ اس نادرشاہی ترقی کے اعلانات پرعملی جامہ کس حد تک پہنایاجائے گا، سب اندرسے ضرورجانتے ہیں۔ لیکن سندھ، حیدرآبادکے غریب آج مجبوری کی اس سطح تک جھونک دیئے گئے ہیں کہ اب وہ اس نظام میں ان جھوٹے وعدوں سے ہی دل بہلانے کے علاوہ کسی بہتری اورخوشحالی سے محروم ہیں۔ اپنے آپکومغل شہنشاہوں کی ایک نئی پیڑھی سمجھنے والے ان شریفوں کی مغلیہ گماشتگی کرنے والوں کوہی قربت اورٹھیکے نصیب ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ اب ان استقبالیوں کو بھی شاہانہ بنانے کے ناٹک کے ذریعے اپنے مالیاتی مفادات پروان چڑھاتے ہیں۔ اس ریت ورواج کے مطابق یہاں کے سرمایہ داروں کی تنظیم ’حیدرآباد چیمبرآف کامرس‘ نے سونے کا پانچ تولے کاتاج پہنا کرمیاں صاحب کی ایک مرتبہ پھرتاج پوشی کی اوراستقبال کانذرانہ پیش کیا۔ لیکن حکمرانوں اور سامراجی ادارں کی تمام تر ترقی اور اقتصادی کامیابیوں کے سرٹیفکیٹوں اور ٹرافیوں کے باوجود پاکستان کے عوام کی معاشی خستہ حالی بڑھی ہے، انکی زندگیوں میں کوئی بہتر نہیں آئی۔ تیسری باروزیر اعظم بننے اورچوتھی مرتبہ پھر سے اس عہدے کو پانے کے روشن امکانات کا پراپیگنڈا زوروں پرہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اتنابھاری مینڈیٹ رکھنے والی حکومت نے پچھلے تقریباً چار سال کا عرصہ جس مسلسل بحرانی کیفیت میں نکالا ہے اس میں اسکا بچ جانا بنیادی طور پر ان بحرانوں اور مزاحمتوں کے ایشوز (یا نان ایشوز) اور طرز عمل کی وجہ سے ہی تھا۔ جہاں کرپشن ایک سماجی معمول بن چکا ہے وہاں عوامی مزاحمت کو کرپشن پر ابھارنا آخری تجزیے میں مضحکہ خیز بن جاتا ہے اور عوام ایسی تحریکوں اور سیاسی کاوش کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کا پاناما کا شور اور سپریم کورٹ کا فیصلے نہ آنے پر تلملاہٹ اب پراگندگی میں بدلتی جارہی ہے۔ انکے بلند پیمانے کے مفکرین اور قائدین بار بار ’’پاناما کے فیصلے‘‘ کو عوام کا سب سے سلگتا ایشو قرار دے کر شاید اپنے آپ کو اسکی اہمیت کے خول میںآسودہ رکھنے کی کاوشیں کررہے ہیں۔ لیکن عوام کے زیادہ سنجیدہ ایشوز میں ہر روز کا جینا مرنا ہے، روٹی روزی کاانتظام کرناہے، علاج اور تعلیم کی کٹھن جدوجہد ہے، زندگی گزارنے کے لیے، زندگی کی ضروریات کے حصول کے لیے مسلسل کشمکش ہے۔ ان کونہ تو آئین اور قانون کے پیچیدگیوں سے زیادہ دلچسپی ہے اور نہ ہی سیکولرازم اور مذہبیت کی بحثوں سے۔ نہ سوشل میڈیا کی نورا کشتیوں اور کردار کشیوں سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی وہ اپنا اگلا دن گزارنے کے لیے کسی فیصلے کے انتظار میں اپنا قیمتی وقت برباد کرسکتے ہیں۔ کیونکہ ان کے لیے تو فیصلے کی گھڑی ہر روز انکی چوکھٹ پر دستک دیتی ہے۔
اگر فیصلہ آبھی جائے، نواز شریف برطرف بھی ہوجائے تو اس سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑنے والا، اس ملک کے حالات نہیں بدلنے والے۔ کیونکہ بنیادی ایشو اورفیصلہ کن معاشی واقتصادی پالیسیوں پر نواز لیگ اور تحریک انصاف کی پالیسیاں ایک ہی ’’ نظریے‘‘ پر مبنی ہیں۔ مذہبی پارٹیاں اور موجودہ قیادت میں پیپلز پارٹی بھی پوری طرح اس نظام زر کی معاشیات اور سماجی ڈھانچے کے تابع سیاست کرنے کو ہی اپنے مالیاتی اور سماجی اثاثوں کے تحفظ کے لیے موزوں سمجھتی ہیں۔ باقی پارٹیوں کی سیاست بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں رہی ہے۔ آج کے سیاسی افق پر موجود تقریباً تمام پارٹیاں پچھلے عرصے میں کسی نہ کسی اقتدار میں رہی ہیں اور آج بھی مختلف صوبوں کی حکمرانی میں ہی ہیں۔ ان میں اور نواز لیگ میں نہ کوئی فرق ہے اور نہ ہی عوام محسوس کرسکتے ہیں۔ لیکن اس نظام میں بھی فیصلے آنے اور ان کے اثر انداز اور قابل عمل ہونے کے مخصوص لمحات ہوتے ہیں۔ اگر وہ وقت گزرجائے تو ان فیصلوں اور اقدامات کی اہمیت اور افادیت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ شاید اب بھی کچھ ایسے ہی ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی نے زرداری کے دورہ لاہور کے دوران پھر ’’تمام سیاسی قوتوں‘‘ کو ساتھ لے کر انتخابات کو شفاف بنانے کے پروگرام تک ہی اپنا انتخابی منشور واضح کیا ہے۔ یہی تمام سیاسی قوتیں پچھلے 40 سال سے انہی انتخابات کے ذریعے ’’سیاسی قوتیں‘‘ بنی ہیں جن کو اب یہ شفاف کرنے چلی ہیں۔ پھر ہوگئے شفاف! ان چار دہائیوں میں حکمرانوں کی باہمی لڑائیاں اور الزام تراشیاں کتنی ہی ناقابل برداشت حدتک زہریلی کیوں نہ ہوں لیکن اس سارے عرصے میں اس نظام زر کی پروردہ ان قیادتوں، فوجی آمریتوں اور پارٹیوں نے محنت کشوں کے خلاف وارداتوں میں کمال کی یگانگت اور اتفاق کا مظاہرہ کیا ہے۔ سامراجی نسخوں پر مبنی پالیسیوں کے تحت مزدوروں کی یونین سازی کو ایک بتدریج طریقہ کار سے منتشر کیا گیا ہے۔ آج پاکستان میں یونینوں میں منظم محنت کشوں کی تعداد ایک فیصد سے بھی گر چکی ہے۔ طلبہ یونینوں پر پابندی ہر پارٹی اور ہر فوجی آمریت کے دور میں جاری رہی۔ نجکاری، لبر لائزیشن او ر ڈی ریگولیشن سے علاج، ٹرانسپورٹ، تعلیم، بجلی، پانی اور تقریباً ہر شعبے کو نجی تحویل میں دے کر غریب عوام کو بتدریج محروم ہی کیا گیا ہے۔
اب 2018 ء کے انتخابات کے لیے پھر یہ سیاسی نورا کشتی کا میدان سجے گا۔ پارٹی پروگراموں میں اس نظام کو بہتر کرنے کے عزائم، بلندو بانگ دعوؤں کے ساتھ پیش کیے جائیں گے۔ لیکن غریبوں اور مزدوروں کے لیے کوئی ٹھوس اقدام اگر درج بھی ہوگا تو اس کے مصنف کو کم از کم اتنا تو معلوم ہی ہوگا کہ اس نظام میں یہ ممکن نہیں، کیونکہ گنجائش ختم ہوچکی ہے۔ نواز لیگ جس ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر اس مہم میں جارہی ہے وہ کسی وقت بھی گر سکتا ہے، لیکن اگر نام نہاد حزب اختلاف نے بھی اس گھوڑے کی سواری کرنی ہے تو جیت وہ بھی نہیں سکیں گے۔ لیکن اس مرتبہ لگتا ہے کہ کسی بڑے واقعے یا معروض میں دھماکہ خیز تبدیلی کے فقدان کی صورت میں عوام کی انتخابات میں عدم دلچسپی بھی انتہاپر ہوگی۔ اس مرتبہ پیسے کا زیادہ بڑا تماشا ہوگا۔ جو کچھ حکومت اور اپوزیشن کے ساہو کاروں نے پچھلے عرصوں میں لوٹا ہے، اس کو بڑے داؤ پر لگائیں گے۔ کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ یہ وہ جوا ہے جس میں صرف عوام ہارتے ہیں، سرمایہ دار اور جاگیر دار ہمیشہ جیتتے ہیں۔ اس سیاسی جبر میں جہاں عوام میں ایک غم وغصہ اور اضطراب ہے وہاں مزدوروں کے متحرک کارکنان کی شورش میں بھی کبھی ٹھہراؤ آتا ہے۔ لیکن عوام کو تو جینا ہے۔ اس جینے کے لیے ان کو ہرروز ایک لڑائی لڑنی ہے۔ آج وہ بکھر کر اپنی اپنی لڑئی لڑرہے ہیں، کبھی ادارے کی حد تک اکٹھے ہو کر بھی لڑتے ہیں۔ لیکن ایک ایسا جبر ہے جس نے ابھی تک اس طبقاتی بغاوت کو روکا ہوا ہے جس سے یہ سب بدلے گا۔ آج ان پر سیاست اورمعاشرت میں شراکت کے تمام دروازے بند کردیے گئے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی نے شاید ایسی ہی عارضی کیفیت کے بارے میں لکھا تھا۔

زندگی کے جتنے دروازے ہیں، مجھ پہ بند ہیں
دیکھنا… حد نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا …. اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کہنا جرم ہے، کیسے بھی کہنا جرم ہے
سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے مگر
زندہ رہنے کے لیے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس کچھ اور بھی کا تذکرہ بھی جرم ہے
اے خداوندانِ ایوانِ عقائد
اے ہنر مندانِ آئین و سیاست
زندگی کے نام پر بس اک عنایت چاہئے
مجھ کو ان سارے جرائم کی اجازت چاہئے

لیکن قاسمی صاحب کو بہت بہتر معلوم تھا کہ جب محنت کش بغاوت کا جرم کرتے ہیں تو پھر اجازت نہیں لیا کرتے!