ایگزیکٹ سکینڈل: نہ پہلا، نہ آخری دھوکا!

| تحریر: قمرالزمان خان |

ایگزیکٹ کے چیف ایگزیکٹوشعیب شیخ نے کہیں سے ’’دریا کو کوزے میں بند‘‘ کرنے کی مثال سنی ہوگی، اس نے اس مثال کو جدید دور کے حساب سے عملی شکل دے دی۔ اس نے ایک ہی عمارت میں موجود چند ڈسک ڈرائیوز میں تین سو ستر یونیورسٹیاں قائم کر کے ’’دریا کو کوزے میں بند‘‘ کرنے والی صدیوں پرانی مثال سے بڑی مثال قائم کردی۔ یہ واردات اگر رانا مشہودخان کی سرپرستی میں ہورہی ہوتی تو دوسال قبل ہی گنیز بک آف ریکارڈ میں اس کا اندراج ہوچکا ہوتا اور پاکستان کا نام ایک اور ریکارڈ کے ساتھ بیان کیا جاتا مگر حکمرانوں سے چھپ چھپا اور بچ بچا کر (ان کی حصہ داری کے بغیر) اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دینے والے کا انجام، سندھ کے انجینئر آغاوقار جیسا ہوتا ہے‘ جس نے ’’پاکستان کھپے‘‘ سے کاروباری شراکت کے بغیر ہی ’’پانی سے گاڑی‘‘ چلانے کا فارمولہ ’’ایجاد‘‘ کرکے اس پر عمل درآمد شروع کردیا تھا، نتیجہ جیل نکلا تھا، اب شاید شعیب شیخ بھی کچھ دن جیل میں گزارے گا۔ کراچی اور اسلام آباد سمیت ملک کے کئی شہروں میں ایگزیکٹ نامی سوفٹ وئیر کمپنی میں سات ہزار ملازمین کام کررہے تھے۔ یہ کمپنی روزانہ ہزاروں ڈالر کماتی اور اپنے ہر کلائنٹ سے ابتدائی رقم (ڈالروں میں ) وصول کرکے پھر بار بار مختلف مدات میں رقم کا تقاضا کرتی۔ جعل سازی کے ذریعے اب تک دنیا بھر میں لاکھوں اسناد، ڈگریاں اور ڈپلومے جاری کرنے والی اس فرم میں کام کرنے والے جعل سازوں کو بھاری اجرتیں دی جاتی تھیں۔ اس کمپنی میں جعل سازی میں شریک عملے کو دی جانے والی مراعات اور ماحول کا کسی اورادارے سے موازنہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ’’ایگزیکٹ‘‘ کے ممکنہ نشریاتی ادارے ’’بول‘‘ کے لئے جس قسم کا نیٹ ورک تیار کیا جارہا تھاوہ ایک دو بڑے میڈیا ہاؤسز کے لئے بڑے مقابلے کا سامان پیدا کرسکتا تھا۔ کالی دولت کا کالی دولت سے ٹکراؤ کا یہ منظر نشریاتی میدان میں ایک نیا ’’کراچی‘‘ پیدا کرسکتا تھا۔
ایگزیکٹ پاکستان کی سرکاری معیشت کے متوازی چلنے والی تہتر فی صد بلیک اکانومی کے دریا کی ایک بوند کے برابر ہے۔ ایک بوند نے پورے ملک میں ’’بھونچال‘‘ برپا کردیا ہے جبکہ پورا دریا انتہائی سکون سے بہے جارہا ہے۔ باقی کالی دولت نے کیا کیا ستم ڈھائے ہوئے ہیں اس کا ہلکا سا ٹریلر جہادی اور فرقہ پرست تنظیموں، بھتہ مافیا، اغوابرائے تاوان کے کاروبار، ٹارگٹ کلنگ کی کاروائیوں میں دیکھا جاسکتا ہے مگر یہ مظاہر کالی دولت کے اصل رنگ روپ کا تعارف کرانے کے لئے ناکافی ہیں۔ پوری سیاست اورمعاشرت اس میں دھنسی ہوئی ہے۔ کالی دولت کا زیادہ استعمال بھی ’’فروغ تعلیم ‘‘ اور ’’دکھی انسانیت کی خدمت‘‘ کے شعبوں میں کیا جاتا ہے۔ بڑی بڑی (حقیقی) یونیورسٹیاں، میڈیکل کالجز اور میڈیکل کمپلیکس بنانے کے لئے دولت کہاں سے آتی ہے اور پھر یہاں جو دولت ضربیں لگا کربڑھتی ہے اسکا اندراج کسی حکومتی حساب کتاب میں درج نہیں ہوتا۔ ساری دنیا میں، جن دنوں بنک دیوالیہ ہوکر بند ہورہے تھے انہی دنوں پاکستان کے ہر شہر میں اوسطاََ ہر ماہ کسی نہ کسی بنک کی برانچ کا افتتاح ہورہا تھا۔ ان بنکوں میں صرف آرائش وزیبائش اور خواتین وحضرات کی رونمائی ہی نہیں ہوتی بلکہ اربوں روپے جمع ہیں۔ یہ رقم کہاں پیدا ہوتی ہے؟ سرکاری معیشت کی نمو کے اعداد وشمار اور آبادی میں اضافے میں سخت مقابلہ چل رہا ہے۔ انڈسٹری دھڑادھڑبند ہورہی ہے، نوازشریف اور جنرل مشرف کی دوحکومتوں میں تیرہ لاکھ سے زیادہ اچھی تنخواہیں پانے والے ملازمین کو جبری طور پر ملازمتوں سے محروم کردیا گیا تھا۔ کنٹریکٹ لیبر کے لئے ماحول سازگار کرکے تمام فیکٹریوں اور اداروں میں مستقل ملازمتوں کی تعداد کم اور دیہاڑی داری کی زیادہ کرنے سے عام لوگوں کے ذرائع آمدن میں کمی کردی گئی ہے۔ اجرت اور اخراجات کی مساوات عدم توازن کا شکار ہے۔ عالمی معیشت کی تنزلی کے طاقتور عامل کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کی زبوں حالی، زراعت اور صنعت کے شعبوں کی گراوٹ کے عالم میں بنکوں میں رقومات کااجتماع حیران کن ہے۔ یہ کالی معیشت کی برکات ہیں۔ پاکستان میں کروڑوں بے روزگاروں کی فوج ظفر موج ہے، جس میں آدھے سے زیادہ کسی نہ کسی طرح کی ڈگری کے حاملین ہیں۔ ان کے پاس ’’اصلی ڈگریاں‘‘ان کی غربت اور افلاس کی وجہ سے ہیں اور وہ جعلی ڈگری کے حصول کے لئے بھاری بھرکم رقم خرچ کرنے کے استطاعت نہیں رکھتے۔ جعلی ڈگریوں کا معاملہ بھی کافی حد تک طبقاتی بن چکا ہے، بیشتر جعلی ڈگری یافتہ افراد کا تعلق اراکین اسمبلی، اعلیٰ سرکاری ملازمین اور سماج کی بالائی سطح پر ’’ملک وقوم‘‘ کے لئے خدمات سرانجام دینے والے اداروں سے ہے۔ جب کہ اصلی ڈگری والے دھکے کھاتے پھررہے ہیں۔ عام آدمی کا اس ’’میگا سکینڈل‘‘ کے ساتھ کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے بلکہ اس انکشاف سے طبقہ امراء اور حکمرانوں کے گھروں میں کھلبلی مچ گئی ہے، ان کی طلائی اور جھلملاتی ڈگریوں کے جعلی ہونے کا اب انکے علاوہ باقی لوگوں کو بھی پتا چل گیا ہے۔ ویسے یہ زیادہ شرمندگی والی بات نہیں ہے کیوں کہ ماضی میں جعلی اسناد اور ڈگریوں کے حوالے سے مقدس گائے سمجھے جانے والے اداروں کے معزز اراکین بھی لپیٹ میں آئے۔ ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر قدیرخاں کے بارے میں کہا گیا کہ وہ سائنس دان ہیں ہی نہیں بلکہ مختلف زبانوں پر عبوررکھنے کی وجہ سے انکا شعبہ ترجمہ کرنا تھا، اس شعبے کی وساطت سے وہ ایٹمی ٹیکنالوجی سے متعلقہ دستاویزات تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس بات پر بہت شور مچا کہ ایٹم بم کس نے ایجاد کیا، سب دعوے داروں کے دعوؤں کی نفی کی گئی۔
پاکستان میں پانی، دودھ، ادویات، خوراک سمیت ہر چیز میں ملاوٹ کی جاتی ہے۔ ایک قانون نافذ کرنے والے ادارے نے بین الاقوامی مشروب ساز ادارے کی مصنوعات کے نام پر جعلی مشروبات بنانے کی فیکٹریاں لگائی ہوئی ہیں، اسکی مصنوعات میں بکنے والا پانی اور ’’کولا‘‘ پاکستان ریلوے کی ہرٹرین اور ریلوے اسٹیشن پر بکتے ہیں۔ ریلوے میں پچھلے بیس برس سے صرف اسی ’’قانون نافذ ‘‘ کرنے والے ادارے کی جعلی مصنوعات ہی بیچی جاسکتی ہیں، یہی ادارے شہروں میں بھی ’’کولا‘‘ اور اسی کمپنی کے بکنے والے پانی کی نقل سپلائی کرتا ہے، کوالٹی اور اصل نقل کی جانچ پڑتال، جعلی مصنوعات پر نگاہ رکھنے والے اور غیر قانونی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے والے کسی ادارے میں جرا ت نہیں ہے کہ وہ اس جعل سازی اور ’’منہ زوری‘‘ کے خلاف کوئی ایکشن لے سکے۔ پاکستان بھر میں بنکوں کے متوازی نجی غیرقانونی بنکس کام کررہے ہیں، اسٹیٹ بنک، ایف آئی اے اور دیگر ادارے بھی اسی سماج میں موجود اور خاموش ہیں۔ پاکستان میں کوآپریٹوبنک یا سوسائیٹیوں کے نام پر دودفعہ بہت بڑے فراڈ ہوئے، جس میں عام لوگوں کے کھربوں روپے ہر دفعہ ڈوب گئے، ان سکینڈلز میں بڑے بڑے چوہدری اور ہمہ قسم کی مقتدر سیاسی، سماجی اور نامورشخصیات شامل ملوث تھیں۔ ان جعلی بنکوں کے قائم ہونے، بلڈنگزکی تزین وآرائش، عملے کی بھرتی، دھماکہ خیز افتتاحی تقریبات سے لیکر مہینوں تک ڈیپازٹ جمع کرنے کی مہمات چلتی رہیں مگر کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے نے تب تک اس جعل سازی اور میگا کرپشن سکینڈلز کی نہ تو نشان دہی کی اور نہ ان پر ہاتھ ڈالا تاوقتیکہ ’’فراڈ کا پراسیس ‘‘ مکمل ہوا اور لوگوں نے شورشرابا برپا کیا، پھر تمام ذرائع ابلاغ اور حکومتی ادارے حرکت میں آگئے۔ کچھ کی دادرسی ہوئی مگر ہزاروں لوگ برباد ہوگئے۔ 1979ء میں تو یہ سکینڈل فوجی حکومت کی چھتری کے نیچے مکمل ہوا، فوجی عدالتیں، کوڑے، قلعے، پھانسیاں صرف سیاسی کارکنوں کے لئے تھیں اور جنہوں نے خاندان کے خاندان اجاڑ دئے تھے ان کو وزارتوں، مشاورتوں اور حکمرانی کی مسند پر بٹھا دیا گیا۔ ابھی ہر دو تین سال بعد کوئی نہ کوئی بڑا مالیاتی اسکینڈل بنتا ہے جیسے چند سال پہلے فاریکس ٹریڈنگ کے نام پر سٹہ بازی کا ایک کاروبار شروع کیا گیا جس میں ڈالر اکاؤنٹ کھول کر ’’ہوائی‘‘ کاروبار کیا جاتا تھا اور شروع شروع میں اکاؤنٹ ہولڈرز کو ماہانہ ڈالرز میں (اکاونٹ میں ہی جمع ہونے والی) اچھی خاصی رقم ملنا شروع ہوگئی جو ’’ری انویسٹ ‘‘ ہوجاتی تھی۔ جب اس کام کے شروع کرنے والوں نے اربوں روپے سمیٹ لئے تو پھر اس ’’فاریکس ٹریڈنگ‘‘ کے دھندے کے خلاف ’’قانون‘‘ حرکت میں آگیا۔ یہ دھندے اب بھی ہر شہر میں ’’چیمبر‘‘ کے نام سے ہورہا ہے۔ ہرروز ’’ہوائی اجناس‘‘ کی کروڑوں روپے کی خرید وفروخت ہورہی ہے۔ قران مجید چھاپنے اور بیچنے والی تاج کمپنی نے سادہ لوح اور غریب لوگوں کے اعتماد کا فائدہ اٹھا کر جی بھر کر لوٹا اور لوٹ کران کو فٹ پاتھوں تک پہنچادیا، یہ دھندہ بھی کئی برس تمام ’’اعلیٰ ایجنسیوں‘‘ کی ناک کے نیچے ہوتا رہا۔ دہائیوں سے بغیر ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی ادائیگی والے پیٹرول اور ڈیزل کا دھندہ تفتان بارڈرسے کشمیر تک ہوتا چلا جارہا ہے، اربوں ڈالر کی سمگلنگ افغان ٹریڈ کے نام پر ہورہی ہے۔ سامان سے بھرے کنٹینر کراچی گودی سے چلتے اور بلوچستان اور پختون خواہ تک سفر کرکے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں مگر چند ساعتوں میں ہی وہ سامان پاکستان میں واپس پہنچ جاتا ہے۔ یہ ہائی الرٹ ایریا ہے۔ افغانستان سے اربوں ڈالر کی ہیروئن تمام صوبوں کے سینکڑوں شہروں کو عبورکرکے یورپ، امریکہ، مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں میں تمام’’آہنی بندشوں‘‘، قانون اور اداروں کے تقدس کو پامال کرتے یا ساتھ ملاتے پہنچ جاتی ہے۔ سعودی عرب میں تو ہیروین لے کر جانے والے کا سرقلم کردیا جاتا ہے مگر پینے والے سے پوچھ گوچھ بھی نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ ہیروئن لے جانے والا پاکستانی اور پینے والا سعودی شاہی خاندان کا چشم وچراغ ہوسکتا ہے۔
’’پاکستانی فراڈئیے‘‘ ہمیشہ یورپ اور امریکہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ جعلی ڈگریوں کا معاملہ بھی اتنا مقامی نہیں ہے۔ دہائیوں سے یورپ میں جعلی یونیورسٹیاں تیسری دنیا کے ’’بھولے بادشاہوں‘‘ سے ’’ بیرون ملک تعلیم ‘‘کے نام پر اربوں ڈالر اور پاؤنڈ اسٹرلنگ لوٹ چکی ہیں۔ پہلے داخلے کے نام پر بھاری بھرکم رقم بٹوری جاتی ہے پھر سمسٹرز کی فیس۔ طالب علموں کی بڑی تعداد محنت کش گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے اور ان کا اصل مقصد یورپ میں کام کرنا اور اپنے خاندان کی کفالت کرنا ہوتا ہے، جب وہ نام نہاد یونیورسٹی میں چند روز باقاعدگی سے جاتے ہیں تو ان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ یونیورسٹی کو ’’حاضری‘‘ سے زیادہ فیس کے ساتھ دلچسپی ہے۔ لہٰذا وہ دو تین سال سمسٹرز فیس بھرتا، پیپر میرج ہوجاتی تو رہ جاتا نہ تو ڈی پورٹ کردیا جاتا ہے۔ اس دھندے میں یورپ کے تمام ممالک کی حکومتیں کسی نہ کسی حوالے سے شریک چلتی آرہی ہیں۔ ابھی دو تین سال پہلے صرف برطانیہ سے سینکڑوں جعلی یونیورسٹوں کو بند کیا گیا کیوں کہ ان میں دکھانے کو بھی کلاسز نہیں ہوتی تھیں۔ مگر یہ دھندہ چل رہا ہے۔ پاکستان میں ایک کوٹھی میں سکول، کالجز حتیٰ کہ یونیورسٹیاں چل رہی ہیں۔ دیکھا جائے تویہ ہارڈ ڈرائیو میں یونیورسٹی چلانے سے اگلا قدم ہے۔ جعلی ڈگریوں کی اشاعت وترسیل کے ذمہ دار ’’ایگزیکٹ‘‘ نامی اس ادارے کی ’’سرگرمیوں‘‘ کے بارے میں ’’انکشاف‘‘ کو جو پچھلے کئی سالوں سے ایک حقیقت کے طور پر اسی ملک میں چل رہی تھیں، صرف اس وجہ سے ممکن ہوئے کہ مبینہ طور پر کسی طاقت ور ادارے نے کسی حکم عدولی کی سزا سنا دی ہے ورنہ پاکستان میں غیر قانونی سرگرمیاں، جعل سازی، ناقص اور جعلی تعلیم کا بیوپارکوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ ہمارے سامنے سائیکل سوار پاکستان کے سب سے طاقتور، دولت مند، سخی، تعمیراتی سلطنت کے مالک بن کر حکمرانوں کو بخشیش میں محلات، گاڑیاں، یونیورسٹیاں دے رہے ہیں۔ جن کے پاس پانچ روپے نہیں تھے وہ حکومتوں کو قرض دے رہے ہیں۔ یقینی طور پر ان کی اس دولت کا تعلق سرکاری معیشت کے ضابطوں اور طریقہ کار سے ماورا ہوکر کالی معیشت کی راہوں پر چل کر وجود میں آیا ہے۔ پاکستان جرائم پیشہ لوگوں کی جنت ہے اور جو جتنا بڑا مجرم ہوتا ہے وہ اتنی ہی عزت وتوقیرحاصل کرتا، مرتبہ پاتا اور مسند شاہی پر براجمان ہوتا ہے۔ شعیب شیخ یا اس سے یہ سارا دھندہ کروانے والوں نے ایک ہی بازی میں کئی چالیں چلیں اور کئی مہروں کو استعمال کرکے پھینک دیا۔ ’’معروف‘‘ صحافی، اینکر پرسن اور تجزیہ نگار ’’پیسہ پھینک، تماشہ دیکھ‘‘ کے مصداق سکوں کی جھنکار پر ادھر سے ادھر دیوانہ وار گھومتے پھرتے ہیں۔ ماضی میں ’’بازار حسن‘‘ کے مکینوں کے بھی کچھ آداب تھے، کچھ مراتب تھے، مگر چوتھا ستون کہلانے والوں نے تو ہر چھنکتے سکے کی طرف لپک اور سلوٹ مار کر مداری کے بندر کی یاد تازہ کرادی ہے۔ اب یہ پھر واپس مید ان میں رہ جانے والے میڈیا ہاؤسز کی طرف لوٹ جائیں گے۔ یہاں ان کو اپنے ’’ضمیر‘‘ اور اسکی ’’خلش‘‘ سے زیادہ بول کے مساج کرنیو الے فزیوتھراپسٹ، کھابوں، بیش قیمت گاڑیوں اور ’’تم نے دنیا کے اشرافیہ میں مقام حاصل کرلیا ہے‘‘ کے فقرے کی گونج ستاتی رہے گی۔