[تحریر: لال خان]
کسی بھی قوم یا ملک کے دوبنیادی اثاثے ہوتے ہیں، اس کے باسی یا اسکے ذرائع پیداوار اور وسائل۔ اگر ہم پاکستان کے حکمرانوں کے بیانات اور تقاریر کاجائزہ لیں، ذرائع ابلاغ کے پروگراموں اور ترانوں پر غور کریں تو ہمیں ہر طرف سے ’’قومی مفادات‘‘، ’’حب الوطنی‘‘، ’’ملکی سا لمیت‘‘ وغیرہ کے نعرے ہی نعرے سنائی دیتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ ان حکمران طبقات کو ملک اور وطن کا اتنا درد ہے کہ وہ جان بھی دے دیں گے۔ لیکن اگر ان کی پالیسیوں، عزائم اور عملی وارداتوں کا جائزہ لیں تو یہ وطن پر جان نچھاور کرنے والے حکمران دوہرے معیاروں منافقت اور وطن فروشی کے سردار نظر آئیں گے۔ حب الوطنی، قوم پرستی اور ملکی سالمیتوں کے نعرے عوام کو اس شاونزم کی جذباتیت کے ذریعے ذہنی طور پر مطیع اور محکوم بنانے کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگر ہم اس ملک کے عوام کی بھاری اکثریت کی زندگیوں کاجائزہ لیں تو اس ملک کی تاریخ کا ہر دن ان کے عذابوں میں اضافے کا ہی باعث بنتا ہے۔ یہاں کے محنت کشوں کی زندگیاں اتنی تلخ، محرومی اتنی شدید اور زندگی کی ضروریات کی قلت اتنی زیادہ ہے کہ اس ملک کی بھاری اکثریت کا جینا ایک عذابِ مسلسل بن گیاہے۔ جہاں تک اس ملک کی محنت، صنعت وزراعت، معدنیات اور دوسرے اثاثوں اور معاشی شعبوں کا جائزہ لیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ کس بے دردی سے یہ ان قومی اثاثوں کو اجاڑ رہے ہیں اور ان قومی ملکیت میں سے نکلنے والے اداروں کو زیادہ تر بیرونی سامراجی اجارہ داریاں یا پھر ان حکمرانوں کے سرمائے کے بڑے مگر مچھ نگل رہے ہیں۔ یہ اس ملک کے اثاثوں کو اس گھریلو سامان کی طرح اونے پونے داموں بیچ دینا چاہتے ہیں جیسے کوئی بگڑا ہوا آوارہ سپوت اپنے خاندانی اثاثوں کو فروخت کرکے اپنی عیاشی اور بدکاری کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ہمارے حکمران ان اجارہ داریوں سے لیے گئے کمیشنوں کو اپنے پہلے سے موجود دولت کے انباروں میں مزید اضافے کی زہریلی ہوس کی پیاس کو مٹانے کے لیے استعمال کریں گے۔
جب سرمایہ داروں کی موجودہ حکومت اس سال برسرِاقتدار آئی تو انہوں نے 65 قومی اثاثوں کو ملک کے خسارے اور معاشی بدحالی کو دور کرنے کی غرض سے نجی ملکیت میں دینے کا اعلان کیا۔ 8 جنوری 2014ء کو ہونے والے پرائیویٹائزیشن کمیشن کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں ان میں سے 31 کو شارٹ لسٹ کیا گیا، جبکہ تین اداروں پی آئی اے، ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس اور نیشنل پاور کمپنی کی نجکاری کا فوری طور پرآغاز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اگر ہم حکمرانوں کے سیاست دانوں اور کارپوریٹ میڈیا کے پراپیگنڈے کا جائزہ لیں تو تقریباً 25 سال سے ایک مسلسل مہم چلائی گئی ہے جس میں نیشنلائزیشن کی ناکامی، خساروں اور بدعنوانی کے بے شمار واقعات ایک مخصوص نقطہ نظر سے دکھائے گئے۔ سماجی نفسیات میں یہ زہرگھولا گیا کہ مزدور سست، کاہل اور چور ہوتے ہیں۔ وہ کام کرنے میں ہیرا پھیری کرتے ہیں اور معیشت کے شدید بحران کی اصل وجہ مزدوروں کی کام چوری اور بدعنوانی ہی ہے۔ اعلیٰ عہدیداروں کی بد عنوانی، حکومت کی سرمایہ دار نواز پالیسیوں اور وزرا کی ذاتی کاروبار کو فروغ دینے کے لیے سرکاری اداروں کی تباہی جیسے گھناؤنے عوامل کی تمام تر ذمہ داری مزدوروں پر ڈال دی گئی۔ اس زہریلی مہم میں یہ بتانا بھول گئے کہ کسی بھی سرکاری ادارے کے ٹھیکوں سے لے کر بھرتیوں کے تمام فیصلے مزدور نہیں بلکہ حکمران کرتے ہیں۔ اس مہم کی یلغار کے باعث خصوصاً درمیانے طبقے میں بڑی حد تک مزدو ر دشمن رویہ اور سرمائے کی پوجا کرنے کی سوچ پروان چڑھائی گئی۔ اس کیفیت کو استعمال کرتے ہوئے اب یہ حکمران ایک بڑی معاشی جارحیت کا تازہ حملہ شروع کررہے ہیں۔ اس حملے سے طبقاتی کشمکش میں بھی ایک نئی اٹھان آئے گی اور حکمرانوں کی جانب سے یہ بھاری حملہ ایسے اشتعال کو جنم دے سکتا جو محنت کش عوام کی سماجی ا ور سیاسی بغاوت کی شکل اختیار کر لے۔ حکمرانوں کی سب سے زیادہ شوریدہ دلیل یہ ہے کہ اسٹیل ملز، پی آئی اے اور ریلوے ایسے ادارے ہیں جو تقریباً 500 ارب روپے کے خسارے کا بوجھ ریاست پر ڈال رہے ہیں اور اس سے ملک کی معیشت برباد ہورہی ہے۔ لیکن اگر ان تمام اداروں کی لسٹ کا جائزہ لیا جائے جن کو سرمائے کی منڈی میں نیلام کیا جارہا ہے تو یہ پتہ چلے گا کہ ان میں سے بہت سے ادارے خسارے کی بجائے حکومت کو بہت زیادہ منافع دے رہے ہیں۔ مثلاً تیل اور گیس کی ترقیاتی کمپنی او جی ڈی سی ایل نے گزشتہ سال قومی خزانے میں ایک سو ارب روپے کا منافع دیا۔ دوسری جانب او جی ڈی سی ایل نے 3 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ کی قیمت پر سرکار کو گیس فراہم کی جبکہ اس شعبے کی بین الاقوامی اور مقامی اجارہ داریاں اسی ملک میں حکومت کو 6 سے8 ڈالر کی قیمت سے گیس کی یہی مقدار فروخت کرتی ہیں۔ اگر اس کی نجکاری کی گئی تو ایک جانب گیس کی قیمتیں عوام کی بھاری اکثریت کی پہنچ سے بہت دور ہوجائیں گی اور دوسری جانب ریاستی خزانے کو 100 ارب روپے کا سالانہ خسارہ اٹھانا پڑے گا۔ گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور لوڈشیڈنگ پہلے ہی عوام کی زندگیوں کو اجیرن کر رہی ہیں جبکہ بڑی تعداد میں صنعتیں بند ہو کر بیروزگاری میں اضافہ کر رہی ہیں۔ اسی طرح جن شعبوں کی نجکاری پچھلی حکومتوں میں ہوئی ہے وہ بھی دن دھاڑے سرکاری ڈکیتی سے کم نہیں ہے۔ پی ٹی سی ایل میں نہ صرف 60,000 مزدوروں کو ان کی نوکریوں سے برطرف کردیا گیا بلکہ خلیجی ممالک کی جس اجارہ داری نے اس کو خریدا تھا اس نے ایک سال میں اتنا منافع کمایا کہ اس کی تمام سرمایہ کاری پوری ہوگئی تھی۔ اس نجکاری کے بعد اور اتنے بڑے پیمانے پر روزگار ختم کر کے بھی ٹیلی فون کال کے ریٹ میں اضافہ کیا گیایہاں تک کہ ٹیلی فون انکوائری اور شکایت درج کروانے کے بھی پیسے لیے جاتے ہیں۔ اسی طرح سروس کا معیار بھی بدتر ہوا اور لاکھوں کی تعداد میں پی ٹی سی ایل کے پاس ایسی شکایات موجود ہیں جنہیں کم اسٹاف کے باعث حل نہیں کیا جا رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ اب نجی مالکان حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ پی ٹی سی ایل کے دفاتر اور ایکسچینجوں کی تمام زمین اور جائیداد ان کے نام منتقل کی جائے۔ اس تمام رقم کا تخمینہ لگایا جائے تو اس کے مقابلے میں ان کی ادا کردہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرہ لگتی ہے۔ اس پر مزید ظلم یہ کے مزید ہزاروں ملازمین کو جبری برطرف کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
یہی کچھ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کو ’’ابراج کیپٹل‘‘ کی خلیجی اجارہ داری کو نیلامی کے بعد بھی ہوا۔ سات ہزار ملازمین کو برطرف کردیا گیا۔ بیشتر غریب اور کم اثرورسوخ رکھنے والے علاقوں میں بے پناہ جعلی (گھوسٹ) بلنگ کی گئی۔ ایک لاچارگی کے وقت اور عہد میں یہ بے یارومددگار افراد ان بلوں کی ادائیگیوں میں اپنی پونجیاں لٹاتے رہے۔ اسی طرح نجی مالکان کی جانب سے انفرااسٹرکچر پر انتہائی ضروری نوعیت کے اخراجات بھی نہ کرنے کے باعث بھی کراچی کے شہریوں کو متواتر کئی کئی دن لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اسی اثنا میں مالکان نے 75 فیصد تک منافعے کمائے اور بجلی کی پیداوار کے شعبے میں دوسری سامراجی اجارہ داریوں کی طرح اربوں ڈالر واپس اپنے مرکزی دفاتر کو ارسال کئے۔ کیا یہ اس ملک کے محنت کشوں کے خون پسینے کی کمائی نہیں تھی جسے ہمارے حکمرانوں نے ان گِدھوں سے اس بے رحمی سے نچوڑا اور نچڑوایا؟ نہ صرف وہ علاقے جہاں سے بلوں کی ادائیگی پوری نہیں آرہی تھی بلکہ کم بلوں یعنی کم بجلی فروخت کرنے والے علاقوں میں بھی بے دریغ اور ظالمانہ لوڈ شیڈنگ کی گئی۔ منافعوں کے لیے ہونے والی پیداوار کے نظام کے یہی دستور ہوا کرتے ہیں۔ دیہاتوں میں بجلی استعمال کم ہوتی ہے اور لوڈشیڈنگ زیادہ ہوتی ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے کے ای ایس سی میں نہ صرف جبری برطرفیوں کے خلاف چلنے والی مزدوروں کی مزاحمتی تحریک کو بے دردی سے کچلا بلکہ اس سے ہونے والی بیروزگاری کو اجارہ داریوں کے’’پیداوار کے اخراجات‘‘ میں ناگزیر کاروائی قرار دے کر ان سیٹھوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کیا۔ احتجاج کرنے والے محنت کشوں کی قیادت کو دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں پابند سلاسل کیا گیا جبکہ دوسری جانب دہشت گردوں سے مذاکرات کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ ان سامراجیوں سے بجلی کی پیداواری صلاحیت میں 1000 میگاواٹ کا جو اضافہ منسوب کیا جاتا ہے اگر اس کی حقیقت دیکھی جائے تو اس میں سے 560 میگاواٹ اضافے کے لئے سرمایہ کاری قومی تحویل کے دوران ریاست نے کی تھی اور باقی ماندہ سرمایہ کاری کی ای ایس سی کے اثاثوں کو بینکوں میں گروی رکھ کر ان کے ذریعے حاصل کردہ قرضوں سے کی گئی۔ مالکان کا اس سارے کھلواڑ میں ایک دھیلا بھی عملی طور پر نہیں لگا۔ جبکہ وہ بھاری منافع حاصل کرنے کے بعد اب اس کو آگے بیچ کر ساری دولت واپس اپنے ممالک میں لے جانے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ پاکستان میں بینکاری اور انشورنس کا شعبہ سب سے زیادہ منافع بخش ہے۔ جب چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے ان مالیاتی اداروں کو قومی تحویل میں لیا تو اس کا مقصد نہ صرف منافعوں کے نجی تجوریوں میں بھرنے کا عمل روکنا تھا بلکہ حکومت کو درکار ترقیاتی کاموں کے لیے آسان شرائط پر سرمایہ حاصل کرنا تھا۔ لیکن 1990-2010ء کی دہائیوں میں اس ’’نیشنلائزیشن‘‘ پر بے تحاشا شور مچایا گیا اور ان شعبوں کے بڑے حصے اس عرصے میں نجی شعبے کو نیلام کردیئے گئے۔ المیہ یہ ہے کہ اس شعبے میں مسلم کمرشل بینک کی نجکاری 1989ء میں بھٹو صاحب کی دختر نے شروع کی تھی۔
ان دودہائیوں میں نہ صرف ان بینکوں کو نہایت ہی سستے داموں نجی شعبوں کو دیا گیا بلکہ سرکاری خزانے سے ان میں 45 ارب روپے منتقل کئے گئے اور 50 ارب روپے کے نادہندہ قرضوں کو خود اپنے ایک ادارے کے سپرد لے لیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف بینکوں کی 1600 شاخوں کو بند کردیا گیا اور ہزاروں ملازمین برطرف بھی ہوئے۔ لیکن ان بینکوں کی نجکاری سے ملکی معیشت کو نہ صر ف مندرجہ بالا نقد نقصان اٹھانے پڑے بلکہ ان بینکوں نے نجی ملکیت میں آن کر صنعت، زراعت اور خدمات کے شعبوں کو قرضے دے کر سرمایہ کاری میں اضافے کی بجائے حکومتی بانڈز کی گارنٹی کے ساتھ سرکار کو بڑے پیمانے کی شرحِ سود سے قرضے دے کر بے پناہ منافعے بٹورے۔ جہاں تک یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ سرکاری شعبے میں بینکوں پر بہت زیادہ قرضے چڑھ گئے تھے بالکل غلط ہے۔ نجکاری سے پیشتر ان قرضوں کی شرح 19 فیصد تھی جبکہ نجکاری کے بعد یہ 25 سے30 فیصد ہوچکی تھی۔ لیکن اس بینکاری کی لوٹ مار کا سب سے بڑا ذریعہ قرضوں اور بینکوں میں جمع شدہ رقوم پر دیئے جانے والے سود میں فرق ہے۔ 2004ء سے2010ء تک ان نجی بینکوں نے اپنے قرضوں کے سود میں 7 فیصد سے 14 فیصد کا اضافہ کردیا۔ جبکہ ان بینکوں میں پونچیاں رکھنے والوں کو 7 سے 8 فیصد کا سود دیا جاتا تھا۔ اس طرح پاکستان میں یہ فرق 6 سے 7 فیصد ہے جبکہ کوریا میں 2 فیصد اور ملائیشیا میں 3 فیصد ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ نجی بینک کس پیمانے پر اپنے منافعوں میں اضافے حاصل کررہے ہیں۔ حکومت بے دریغ اخراجات کرتی جارہی ہے۔ قرضے پہ قرضہ چڑھتا جارہا ہے لیکن آئی ایم ایف کی طرح ان بینکوں کو قرضوں اور سود کی مد میں سرکاری ادائیگیاں جاری ہیں۔ ان میں کبھی رکاوٹ نہیں آسکتی کیونکہ شاید اس ریاست کا بنیادی مقصد اسی سرمایہ دار بینکار طبقے کے مفادات کا تحفظ ہے۔
ماضی میں پاکستان میں جو نیشنلائزیشن ہوئی وہ درحقیقت بیوروکریٹائزیشن تھی۔ پرانے مالکان کی جگہ سرکاری افسران ان کمپنیوں کے منیجراور ڈائریکٹر بن گئے۔ مزدوروں کا مشترکہ جمہوری کنٹرول، ملکیت اور انتظام قائم نہیں ہوسکا۔ دوسری جانب معیشت کی ادھوری نیشنلائزیشن سے مالیاتی سرمائے کا جبر اور اسکی آمریت ختم نہیں ہوئی جس کے باعث نیشنلائزیشن سے زخمی سرمایہ داروں کو جب موقعہ ملا تو انھوں نے چیئرمین بھٹو سے خونی انتقام لیا۔ اس بیوروکریٹائزیشن سے سرکاری اداروں میں بد عنوانی کو فروغ ملا اور عوام کے لیے موجود سہولت میں رکاوٹیں پیدا ہونی شروع ہوئیں۔ لیکن ان تمام تر خرابیوں کے باوجود سرکاری اداروں کی عوامی سہولیات کی فراہمی اور پیداوارکا معیار نجی اداروں کی نسبت کہیں زیادہ بہتر تھا۔ اب ہونے والی نجکاری میں تو کوئی بھی بیوپاری ان اداروں کو ان کی آدھی قیمت پر بھی نہیں خریدے گا اور خریدنے کے بعد اس میں کوئی پیسہ لگانے کی بجائے اس کے موجود ڈھانچے سے منافع کشید کرے گا جس سے خستہ حال انفرااسٹرکچر مزید تباہ و برباد ہو جائے گا۔ اسی طرح بڑے اداروں کے حصے بخرے کرکے اور ان کو توڑ کر فروخت کیا جائے گا۔ ریلوے اور دیگر اداروں میں یہ عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔ پرائیویٹ ٹرینیں چل رہی ہیں لیکن ان سے ریلوے کا خسارہ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے۔ ریلوے لائن کی دیکھ بھال اور اخراجات، عملے کی تنخواہیں، اسٹیشنوں کے اخراجات اور دیگر تمام خرچے سرکار کی ذمہ داری ہیں جبکہ آمدن کے ذرائع نجی مالکان کے منافعوں کی ہوس کو پورا کرنے کے لیے بیچ دیے گئے ہیں۔ ملک میں موجود تعمیراتی سہولتوں کے باوجود کمیشن کھانے کے لیے بیرونی ممالک سے انجن اور دیگر اشیاء برآمد کی جا رہی ہیں۔ واپڈا کی نجکاری کے لیے بھی اس کو ایک لمبے عرصے سے مختلف حصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے تاکہ مختلف سرمایہ دار اپنی مرضی کے منافع والے حصے چن لیں اور تمام تر خسارے والے اور اخراجات والے حصے سرکار کے ذمے ڈال دیے جائیں۔ پہلے ہی بجلی کی پیداوار کے اداروں آئی پی پی کی نجکاری نے لوڈ شیڈنگ کا عذاب عوام پر مسلط کیا ہوا ہے۔ اب انہی آئی پی پی کے مالکان گردشی قرضے اور دوسرے ذرئاع سے اربوں روپے حاصل کر کے مزید بڑے مگر مچھ بن چکے ہیں اور ان کی نظریں واپڈا کے دیگر منافع بخش حصوں پر ہیں۔ اسی مقصد کے تحت انہوں نے گزشتہ عام انتخابات میں مختلف سیاسی پارٹیوں پر بڑے اخراجات بھی کیے تاکہ جب وہ اقتدار میں آئیں تو نجکاری کی پالیسی کے ذریعے واپڈا اور دیگر کلیدی اداروں کو مل جل کر ہضم کر سکیں۔ ضیا آمریت سے لے کر اب تک عالمی مالیاتی اداروں کے اشاروں پر مختلف حکومتوں نے ان اداروں کی سستی نجکاری کے لیے تیاری کے اقدامات کئے۔ ان کی حالت خراب کرکے، ان کو خسارہ زدہ کرکے ان کی قیمت کو مٹی کردیا۔ ان اداروں میں ایسے من پسند افراد کو اعلیٰ عہدوں پر لگایا گیا جو سروس اور پیداوار کے معیار کو گرا کر اسے منافع کی بجائے نقصان میں لے جائیں۔ جو کابینہ پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ کر رہی ہے اسی کابینہ میں ایسے وزیر بھی ہیں جو نجی ائیر لائن کمپنی کے مالک ہیں۔ ان کی وفاداری سرکاری ادارے کے ساتھ ہے یا اپنی کمپنی اور اس کے بڑھتے ہوئے منافعوں کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں۔ اسی طرح آئی پی پی اور دیگر اداروں کے حصہ دار بھی کابینہ میں موجود ہیں۔ اس لیے نجکاری سے نہ تو قرضے اتریں گے نہ ہی ملک کا خسارہ دور ہوگا اور نہ ہی عوام کے لیے یہ سہولیات فراہم کرسکیں گے۔ بلکہ اس نجکاری سے بیروزگاری، مہنگائی، غربت، محرومی اور ذلت میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔ تمام تجربات یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس معیشت کو بحال کرنے کے لیے تمام بھاری صنعت، بڑی جاگیروں اور معیشت پر حاوی بڑی اجارہ داریوں کو قومی تحویل میں لے کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیا جائے۔ جہاں ان کی پیداوار اور کام کا مقصد منافعے کے حصول کی بجائے انسانی ضروریات کی تکمیل اور سماج کی خوشحالی ہو۔ یہ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔