[تحریر: قمرالزماں خاں]
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سولہ سال پرانے اصغر خاں کیس کا مختصر فیصلے سناتے ہوئے کہا ہے کہ 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ انتخابی عمل کو آلودہ کرنا اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سربراہ اسد درانی کا ’’انفرادی فعل‘‘ تھا۔سپریم کورٹ نے مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو سیاستدان اس رقم سے مستفید ہوئے ان کی بھی تحقیقات کی جائیں۔1994ء میں قومی اسمبلی کے فلور پر اس وقت کے وزیر داخلہ جنرل (ر) نصیر اللہ بابر نے بتایا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو الیکشن میں ہرانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے مختلف گروہوں نے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو اکھٹا کرکے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا پھر ان کی مالی اعانت کرنے کے لئے مہران بنک سے 14کروڑوں روپے بذریعہ یونس حبیب حاصل کئے اور پھر اجلا ل حیدر زیدی،روئیداد خاں،برگیڈئیرحامدسعید اور اسی طرح ملٹری انٹیلیجنس اور انٹر سروسز انٹیلی جنس کے آفیسرز اور اہلکاروں کے ذریعے چھ کروڑ روپے کے قریب رقم نوازشریف،مصطفی جتوئی،قاضی حسین احمد،جاوید ہاشمی،بیگم عابدہ حسین اور دیگر درجنوں دائیں بازو کے سیاسی قائدین میں تقسیم کی گئی۔ دیگر تفصیلات کے مطابق بچ جانے والی آٹھ کروڑ روپے خفیہ ایجنسی کے اکاؤنٹ میں جمع کرادئے گئے۔سیاست دانوں کو دی گئی رقم کی کئی بار کی گئی جمع تفریق کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ کچھ رقم(کروڑوں روپے میں) درمیان میں ہی کہیں گم ہوگئی ہے، رقم کہاں گئی اس پر راوی خاموش ہے۔
عدالت میں سولہ سال سے زیرِ سماعت اس کیس کا میڈیا اور سیاسی کارکنوں کے روزمرہ مطالبات پرمختصر فیصلہ سنانے سے پہلے عدالت میں جس قسم کے ریمارکس سماعت کے دوران دئیے گئے اس پر وفاق کی نمائندگی کرنے والے اٹارنی جنرل کا رد عمل حقیقت سے بہت قریب ہے کیونکہ ا ن سے تو یہ تاثر مل رہا تھا کہ اگر چہ اسلامی جمہوری اتحاد بنانے کا معاملہ اور اس ’’دھاندلی کے لئے بنائے گئے سیاسی اتحاد‘‘ کو معرض وجود میں لانے کی سازش کا معاملہ 1990ء کا ہے مگر اس گناہ کا سارا بوجھ موجودہ حکومت پر ڈال دیا جائے گا۔ایوان صدرمیں سیاسی جوڑ توڑ اور دھاندلی کے مربوط نیٹ ورک جس میں اس وقت کے تمام مقتدر ادارے (سپریم کورٹ کے مطابق کچھ افراد)شامل تھے کے بائیس سال بعد عدالت ایسے ریمارکس دے رہی تھی جیسے آج بھی ایوان صدر میں اسحاق خاں موجود ہو اور وہاں انٹر سروسز انٹیلی جنس کا سیاسی ونگ (پیپلز پارٹی نہیں بلکہ) کسی اور جماعت کے خلاف سازشوں میں مصروف ہو۔دوران سماعت ایوان صدر میں سیاسی ونگ یا الیکشن پر اثر انداز ہونے والے سیل کے ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق کرائی گئی جبکہ واقعہ گزرے تقریباََ ربع صدی کاوقت گزر چکاہے۔ دوسری طرف اٹارنی جنرل نے جب بنچ کے ججوں کے پی سی او زدہ ہونے اورانہیں فوجی جرنیل پرویز مشرف کی حکومت کو جواز حکمرانی بخشنے اور آئین تک میں ترمیم کرنے کا مرتکب قراردیا تو مختلف کیسوں میں سیاق و سباق کے علاوہ بھی حوالے دینے والے متذکرہ جج صاحبان اس ’’حقیت‘‘ کو سننے سے گریزاں پائے گئے اور اٹارنی جنرل کو ایسا کرنے سے روک کر کہا گیا کہ موجودہ کیس سے ہٹ کر بات نہ کریں۔یہ صورتحال عدلیہ کے ادارے کی ’’طاقت‘‘ کا اظہار ہے جس پر مختلف جانب سے آنے والے دنوں میں بہت زیادہ تنقیدی نقطہ نظر سے بات کی جائے گی۔موجودہ مختصر فیصلے کے مطابق حیران کن بات جو نظر آئی ہے کہ منظم عسکری اداروں کے سربراہ اپنے طے شدہ آئینی اور قانونی مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہیں اور اس طاقت، جو ان کے ادارے کی وجہ سے ان کی ذات میں مرتکز ہے، کا استعمال بقول عدالت ذاتی حیثیت سے کرتے پائے جاتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ڈاکیا کسی کار کا چالان کرنے کی کوشش کرے تو کیا وہ ایسا کر سکتا ہے؟ مگر ملک کی حفاظت کرنے والے ادارے آخر کس طرح سیاسی اتحاد بنانے اور الیکشن کے نتائج اپنی مرضی کے تشکیل دینے کا غیر قانونی اور غیر آئینی بندوبست کر سکتے ہیں؟ جس سے ایک دھاندلی زدہ حکومت معرض وجود میں آتی ہے اور پھر اس کے خاتمے کے وقت اس پر کرپشن، بدانتظامی، لوٹ مار، اقربا پروری وغیرہ کے الزامات لگائے جاتے ہیں مگر اس حکومت کو جعل سازی سے قائم کرنے والوں پر کوئی حرف نہیں آتا۔یہ فیصلہ یقینی طور پر اس بحث کو جنم دے گا کہ کسی بھی انتہائی اہم اور کلیدی ادارے، جس کے بارے میں باقاعدہ مہم چلا کر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ بہت منظم اور قاعدے قانون کے مطابق چلنے والا ادارہ ہے، کا سربراہ جب اپنی ذاتی حیثیت میں ملک و قوم کو گمراہ کررہا ہو،بد دیانتی اوربے ایمانی کا مرتکب ہورہا ہو،اپنے اختیارات اور طاقت کو عوامی مینڈیٹ کو تبدیل کرنے میں غیر قانونی طور پر مصروف ہو اور ایسا کرنے کے لئے نیٹ ورک بنا رہا ہو،ملک و قوم کے ساتھ ایسا برتاؤ کررہا ہوجس کے نتیجے میں بڑے نقصانات کا خدشہ ہو تو ایسی صورت میں متعلقہ اداروں میں اپنے سربراہ کی غیر قانونی،غیر آئینی،غیر اخلاقی اور عوام دشمن سرگرمیوں کو روکنے کا آخر کوئی بندوبست کیوں نہیں ہے؟ اب جب کہ کچھ حلقوں کی طرف سے عدلیہ کے آزاد ہونے کا تاثر دیا جاتا ہے اور اس تاثر کو تب زیادہ تقویت ملتی ہے جب عدلیہ اپنے روزمرہ کاموں کو ذرا الگ کرکے حکومتی اور انتظامی کاموں میں بھی مداخلت کرنا شروع کردیتی ہے تو یہ سوال جنم لیتا ہے کہ عدلیہ ان طاقت ور اداروں کے سربراہوں کے متذکرہ ’’ماورائے ادارہ ‘‘ اقدامات کو روکنے کے لئے ’’ازخود نوٹس ‘‘ کیوں نہیں لیتی؟ عدلیہ اگر نیب کے سربراہ،اٹارنی جنرل کی تقرری،حکومتوں کے فعال یا غیر فعال ہونے،امن و امان پر خود ہی سماعتوں اور دوران سماعت ’’ریمارکس‘‘ کی بھرمار کرسکتی ہے تو پھر اس پر یہ بھی تاریخی بار ہے کہ وہ پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کے سٹرکچرز کے اندرکمزوریوں،نظم و نسق میں کوتاہیوں، اور جمہوریت کے خلاف ممکنہ بغاوتوں پر محض ریمارکس نہ دے بلکہ حکم جاری کرے اور اس صورتحال کا تدارک کرے جس کی وجہ سے ملک و قوم کچھ سالوں کے بعد کسی نہ کسی طرح کے سیاسی،آئینی اور جمہوری بحرانوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
موجودہ فیصلے پر رائے دیتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ سولہ سالوں کی سماعت کے دوران عدلیہ کے پاس اتنا وقت تھا اور سہولت بھی تھی کہ جس مشکل کام کی ذمہ داری سپریم کورٹ نے موجودہ حکومت پر عائد کی ہے یعنی رقوم لینے والے سیاسی راہنماؤں کے بارے میں تحقیقات کرائی جائیں، یہ کام بھی خود کسی ادارے( یا ارسلان افتخار کیس کی طرح کسی شخص) کے سپر د کرکے پایہ تکمیل تک پہنچادیتی تو اچھا تھا۔ موجود ہ حکومت کے تلوں میں اتنا تیل نہیں ہے کہ وہ اتنا مشکل کام کرسکے !مجھے یقین ہے کہ اس کیس کے فیصلے کے بعد ان تمام عناصر نے سکھ اور اطمنان کا گہر اسانس لیا ہوگاجو اس فیصلے کے مختصر اظہار سے پہلے مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے تھے۔کسی سویلین حکومت کی پاکستان میں اتنی جرا ت نہیں ہے کہ وہ کھلم کھلا عدلیہ جیسے(غیر عسکری ادارے) کے ساتھ براہ راست محاذ آرائی کرسکے۔ ایسا کرنے کے لئے عقبی راستوں کا طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ الزامات اور پراپیگنڈے کی یلغار میں بے حال، ایک لڑکھڑاتی ہوئی این آر او زدہ حکومت جو اپنے حق کو بھی ’’رعائیتی پیکج‘‘سمجھتی ہے وہ عسکری اداروں کے (سابق ہی سہی ) سربراہوں کو سزا دینے کی ہمت کر سکے۔ پاکستان میں تو حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کے آنے کے بعد بھی جنرل یحیی خان کے خلاف کسی قسم کی کاروائی عمل میں نہیں لانے دی گئی،منتخب وزیرِ اعظم کو اسی عدلیہ نے پھانسی پر لٹکا دیا، اوجڑی کیمپ کے ذمہ دارکبھی بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں آسکے،آئین توڑنے اور اسکی خلاف ورزی کرنے کی جرنیلوں کی تمام کوششوں کو’’ مقدس اداروں کے انتہائی محترم ججز‘‘ نے کوئی نہ کوئی جواز بخش دیا اور پی سی او کے تحت حلف لیتے ہوئے آئین کی پامالی کو دل و جان سے قبول کرلیا گیا۔ آئین کی دفع چھ ہمیشہ اپنے مطلب و مفہوم سے بے گانہ رہی، فوجی جرنیل جسکا مذاق اڑاتے رہے اور انکے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاسکی۔سپریم کورٹ نے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو دھاندلی کرنے والی عسکری قیادت اور دیگر طاقت ور عناصر کے خلاف کاروائی کا حکم دے کر بھیڑ کے بچے کو بھیڑیے سے لڑانے کے مترادف فیصلہ سنایا ہے جس میں موجودہ حکومت یقیناًناکام ہی رہے گی۔
حالات اور واقعات کو اگر تاریخی تناظر اور زمینی حقائق کے مطابق دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کے فیصلے سے کسی بھی ادارے کے سینگ کمزور نہیں ہوں گے اور نہ ہی نہتی حکومتوں اور پارٹیوں کے خلاف ’’غیرقانونی اور ماورائے آئین‘‘پریکٹس کے رکنے کے امکانا ت ہیں۔ عدلیہ کے وقار اور عدل وانصاف کے تاثر اور اس سے کسی انقلاب کے برپا ہوجانے کی امیدیں وابستہ کرنے والے سطحی اقدار اورجعلی اخلاقیات پر یقین رکھنے والے خواتین و حضرات کو جلد یا بدیر اپنے تجزے کی صداقت پر شک ضرور ہوگا۔خوش گمانی اچھی چیز ہے مگر غلط فہمی اور خوش گمانی میں فرق کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ہر جلوس اور تحریک کو انقلاب کا نام دے کرلفظ’’ انقلاب‘‘ کے معنی بگاڑنے والے جلد باز مڈل کلا سیوں کو یہ بات سمجھ میں آجانی چاہئے کہ عدل و انصاف کے ترازو کے پلڑوں کی نقل و حرکت ہو یا ’’دوتہائی اکثریت‘‘والی جمہوریت پر فوجی شب خون جیسے معاملات،ان معاملات کا تعلق اقوال زریں اور کتابوں میں لکھے سنہرے اصولوں اور بقول جنرل ضیاء الحق’’بارہ صفحات کے آئین‘‘ کی بجائے طاقت کے توازن سے ہے،جو فی الحال انہی قوتوں کے حق میں ہے جو اس ملک میں تمام تر مسائل اور فساد کی جڑ ہیں۔جب تک ریاستی ڈھانچوں کی ترتیب حکمران طبقے کے مفادات اور سرمائے کے نظام کو تقویت دینے کے بنیادی مقصد کے ساتھ جڑی ہے اعلیٰ آدرشوں،اصولوں اور غیر جانبدارانہ ماحول کی خواہش محض یوٹوپیائی خواب ہے۔
متعلقہ: