[تحریر: لال خان]
آج سماج میں عمومی جمود، گھٹن اور مایوسی کی کیفیت میں یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے وقت رک سا گیا ہے۔ الیکشن آ کرچلے گئے۔ دیوار کے ساتھ لگی عوام نے کسی امید کی بجائے مایوسی اور بدظنی کے عالم میں ووٹ ڈالا۔ چہروں کے سوا کچھ تبدیل نہ ہوا۔ کسی بہتری کی بجائے حالات مزید بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ مستقبل میں کسی بہتری کے لئے جدوجہد کی بجائے ہر شخص حال میں اپنی بقاء کی جنگ لڑنے پر مجبور ہے۔ معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ سماج میں نفسا نفسی بڑھتی جارہی ہے۔ رجعتیت کے تعفن سے لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں کی طرح نئے حکمرانوں کے پاس بھی اپنی لوٹ مار کو طول دینے کے لئے عوام کے شعور پر نان ایشوز مسلط کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ سرمایہ داری کے دانشور تو بہت پہلے سے ’’تاریخ کے خاتمے‘‘ کا اعلان کر چکے ہیں لیکن نیم رجعتیت اور رد انقلاب کے ایسے ادوار میں عوام میں بھی یہ سوچ تقویت پکڑنے لگتی ہے کہ اس نظام کو تمام تر استحصال اور جبر سمیت من و عن تسلیم کر لینے کے سوا کوئی دوسراچارہ نہیں ہے۔
لیکن جذباتیت اور نام نہاد ’’عملیت پسندی‘‘ کی بجائے سائنسی نقطہ نظر سے سماج کا تجزیہ کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ وقت کبھی رکتا نہیں ہے۔ جب تک سماج موجود ہے تاریخ کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ بظاہر ٹھہراؤ میں بھی تحرک پوشیدہ ہوتا ہے۔ وقت ناگزیر طور پر آگے بڑھتا ہے اور غیر محسوس طور پر سماج کی تمام تر تلخیاں اور تضادات کوبے نقاب کرتا جاتا ہے۔ جمود کے عہد میں بھی سماجی ارتقا جاری رہتا ہے۔ مارکس نے آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے وضاحت کی تھی کہ کسی تحریک کی عدم موجودگی کے عہد میں سماج پر حکمران طبقے کے نظریات حاوی ہوتے ہیں۔ ہمیںیہی سمجھایا اور پڑھایا گیا ہے کہ یہ سماج، یہ نظام ہمیشہ سے ایسا ہی تھا اور ایسے ہی رہے گا۔ امیر اور غریب، محنت کش اور سرمایہ دار، جاگیر دار اور مزارع، اونچ اور نیچ۔ ۔ ۔ یہ سب ’’قدرت‘‘ کا قانون ہے۔ لیکن تاریخ پر سرسری سی نظر بھی ان تمام تر فریبوں کو بے نقاب کر دیتی ہے جنہیں اس نظام کے مختلف اداروں کے ذریعے ’حتمی سچ‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر ہم پاکستان ہی کی تاریخ پر نظر دوڑائیں، مہر گڑھ (بلوچستان)، موہنجوداڑو ( سندھ)، ہڑپہ (پنجاب)، تخت بھائی (پختونخواہ) میں ماضی کے آثار، کھنڈرات اور نوادرات کا تجزیہ کریں توپتا چلے گا کہ ہمیشہ سے طبقاتی تضادات، طبقات اور تفریق موجود نہیں تھی۔ فن تعمیر کسی بھی ثقافت او ر تہذیب کی سب سے زیادہ جامع اور پر زور عکاسی کرتاہے۔ ماضی کے ان قدیم شہروں میں، جن میں سے بعض سات ہزار سال پرانے ہیں، ہمیں سماجی و معاشی مساوات کے واضح آثار ملتے ہیں۔ کسی محل، پولیس اسٹیشن، عدالت یاکسی دوسرے ریاستی ادارے کا نام ونشان نہیں تھا۔
اس کے بعد کی تہذیبوں میں احرامِ مصر سے لے کر روم کے کلازیم اور محلات ہمیں بتاتے ہیں کہ قدیم کمیونسٹ سماج جو مختلف کمیونز کے اشتراک سے چلتا تھا انسانی سماج کے ارتقاء کے دوران ایک خاص مرحلے پر غلام داری نظام میں بدل گیا تھا۔ اس وقت یہ ناگزیر تھا۔ تاریخ اخلاقیات یا خواہشات کے تابع نہیں ہوا کرتی۔ غلام داری نے قدیم مصر کے مذہبی پیشواؤں اور مراعت یافتہ طبقے کو وہ وقت، آسائش اور مادی حالات فراہم کئے جس کے ذریعے وہ فلکیات اور دوسرے علوم میں عبور حاصل کرسکیں۔ ایک لمبے عرصے تک انسانی سماج میں پیداواری قوتوں اور تکنیک کو ترقی دینے کے بعد غلام داری ٹوٹ کر بکھرنا شروع ہو گئی۔ معاشی، اقتصادی، سماجی اور تعمیراتی ارتقاکی وجہ سے اس شعور کا جنم ہوا جس نے روم اور مصر میں غلاموں کی بغاوتوں کو جنم دیا۔ سلطنتِ روم میں غلام داری کے خلاف دو ہزار سال قبل جو بغاوتیں ابھریں انہوں نے ابتدائی عیسائیت کی شکل اختیار کی۔ اسلام بذات خود غلام دارانہ نظام کے خلاف ایک انقلاب تھا۔ ان انقلابات نے غلام داری کو ختم کرکے جاگیرداری کو جنم دیا، یا پھر عرب ممالک میں جہاں کوئی زرعی معیشت نہیں تھی وہاں تجارتی سرمایہ داری رائج ہوئی۔ انہی بنیادوں پر اسپین اور جنوبی فرانس تک فتوحات حاصل کی گئیں۔ یہی وہ سائنسی ایجادات اور سوچ کا تغیر تھا جس سے پھر پانچ سوسال بعد یورپ میں نشاطِ ثانیہ کے عمل کاآغاز ہوا۔ اسلامی انقلاب کی عظمت کی انتہاہمیں مدینہ، دمشق، بغداد، قاہرہ وغیرہ کی بجائے قرطبہ اور غرناطہ میں نظر آتی ہے کیونکہ یہاں کی اسلامی حکومتیں سائنس اور ٹیکنالوجی میں بڑی ترقی کے بعد کہیں زیادہ ترقی پسند ہوگئی تھیں۔ اسلامی خلافت کے عروج پر خلیفہ عبدالرحمن کے دور میں غرناطہ اور قرطبہ کے درباروں میں مختلف فلسفیانہ مسائل اور نظریات پر ہونے والی بحثیں آج پاکستان جیسے ’اسلامی ممالک‘ میں ’کفر‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی خلافت مالیاتی سرمائے کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کے باعث مفلوج ہوتی گئی۔ اپنے آخری عہد میں اسلامی حکومتوں کی سائنسی تنزلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1857ء میں انگریزوں کے خلاف وہی توپ استعمال کی جارہی تھی جو 1526ء کی جنگِ پانی پت میں مغل شہنشاہیت کے بانی بابر نے ابراہیم لودھی کے خلاف استعمال کی تھی۔ برصغیر ہندوپاک پر مغل شہنشائیت کے المناک انجام کی یہی وجہ تھی کہ وہ تکنیک میں جدت اور صنعتی انقلاب نہیں لاسکے۔ عسکری طور پر وہ شاہ حسین اور دلا بھٹی جیسے مقامی باغیوں کو ہی کچلنے کے قابل تھے، مغرب کا مقابلہ ان کے بس سے باہر تھا۔ ہندوستان پر پچھلے دوہزار سال میں درجنوں غیر ملکی حملہ آورہوئے جن میں وسطی ایشیا سے لے کر برطانوی جارحین شامل ہیں۔ لیکن برطانوی سامراج کے سوا منگولوں، عربوں اور اٖفغانیوں سمیت تمام جارحین یہاں کی ثقافت اور معاشرت کی نسبت کہیں زیادہ پسماندہ تھے اور وہ یہاں کی ثقافت اور سماج میں جذب ہوگئے۔ صرف انگریز ایسے بیرونی حملہ آور اور قابض تھے جو 17ویں صدی کے صنعتی انقلاب کے باعث ثقافتی اور معاشرتی طور پر انتہائی ترقی یافتہ تھے اور یہاں کی ثقافت ان کو اپنے اندر سمو نہ سکی۔
آج 66 سال کی آزادی کے بعد بھی ہم اسی مغربی ثقافت اور معیشت کے تابع ہیں لیکن مغربی سماجوں کی طرز پر ہماری ترقی اور فلاح ممکن نہیں، یا تو ہم مغربی سرمایہ دارانہ صنعتی انقلاب کے مرحلے کو ایک تاریخی جست کے ذریعے پھلانگ کر منڈی کی معیشت سے پاک ایک سوشلسٹ سماج کو جنم دے سکتے ہیں، یا پھر مغرب کی پیروی کرتے ہوئے اس بحران زدہ نظام کے اندر رہتے ہوئے جمہوریت، سیکولرازم اور لبرل ازم کی ٹامک ٹوئیاں مار کر عوام کو مزید ذلیل و رسوا کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب اسلامی بنیاد پرستی اور ’اسلامی فلاحی ریاست‘ کے نظریات الفاظ کا ایسا ہیر پھیر ہیں جنہیں تحریک کے جمود میں صرف پست سماجی پرتوں کو مرغوب کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت پر مبنی یہ دونوں فکریں صرف سرما ئے کے نظام کا تسلط اور جبر قائم رکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ لیکن یہ نظام اگر یورپ، امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں محنت کشوں کو برباد کر رہا ہے تو پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں کیا بہتری لا سکتا ہے؟ پاکستان جیسے ممالک میں ٹیکسٹائل سے لے کر موبائل فون کی صنعت یورپی طرز کے سائنسی اور تکنیکی ارتقاء سے نہیں گزریں۔ بالکل اسی طرح یہاں کے سیاسی، سماجی اور ریاستی ڈھانچوں کا مغربی طرز کے سماجی ارتقاکے مراحل سے گزرنا بھی ناگزیر نہیں ہے۔
اس نظام سے چھٹکارا صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یاہم یورپ میں ناکام ہوتے ہوئے نظام کی پیروی کرسکتے ہیں یا پھر اس نظام کو اکھاڑ پھینک کر ایک فتح مند سوشلسٹ انقلاب کی درخشاں مثال پیش کر کے اپنی پیروی کرواسکتے ہیں۔