روزا لگسمبرگ: انقلابی سوشلزم کی جدوجہد کااستعارہ

جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم
جو چلے تو جاں سے گزر گئے!

| تحریر: ماہ بلوص اسد |
roza luxumbergنسل انسانی کی تاریخ فطرت سے جدوجہد کی تاریخ ہے۔ لاکھوں سالوں کی اس جدوجہد کے بعد انسان نے قدرِ زائد پیداکی اور اس سطح پر آ کر انسانی معاشرہ طبقات میں تقسیم ہو گیا۔ جہاں ایک طرف اِس قدرِزائد کا مالک طبقہ تھا اور دوسری طرف اس سے محروم طبقہ تھا۔ تب سے انسانی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔
مختلف ادوار میں طبقاتی کشمکش نے بہت سے انقلابات کو جنم دیا،جنہوں نے انسانی معاشروں کو آگے بڑھایا۔ موجودہ نظام سرمایہ داری بھی انقلابات کے ذریعے ہی وجود میں آیا۔ باقی نظاموں کی طرح یہ نظام بھی اپنے طبقاتی کشمکش کے کردار کی وجہ سے تضادات کا شکار ہے۔ انیسویں صدی میں 1873-96ء تک ان تضادات کا اظہا ر بحران کی صورت میں ہوا۔ یورپ میں جہاں سرمایہ داری کے تحت محنت کشوں کا استحصال جاری تھا،وہاں محنت کشوں کی تحریکیں اور ان کی نمائندہ پارٹیاں بھی سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف منظم ہو رہی تھیں۔ ان میں سب سے اہم جرمنی کا محنت کش طبقہ اور ان کی روایت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی تھی۔ اس وقت جرمنی میں ذرائع پیداوار باقی یورپی ممالک سے زیادہ ترقی یافتہ تھے اور جرمن محنت کشوں کی تحریک سب سے زیادہ با اثر تھی۔ محنت کشوں کے حق میں اٹھنے والی آوازوں میں ایک آواز سب سے زیادہ نمایاں تھی۔ یہ آواز روزا لگسمبرگ کی تھی۔ روزا لگسمبرگ 5 مارچ 1871ء کو پولینڈ میں پیدا ہوئی۔ کم عمری میں ہی محنت کش طبقے اور سوشلسٹ نظریات کی ترویج کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا۔ روزا پولش سوشلسٹ پارٹی کی سپیکر اور نظریہ دان تھیں۔ 1898ء میں جرمنی گئیں جہاں سے انہوں نے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی میں شمولیت اختیا ر کی اور پارٹی کے اندر سرمایہ داری کے حامی نظریات کے خلاف ایک جرأت مندانہ اور ناقابلِ مصالحت نظریاتی اور عملی جدوجہد کا آغاز کیا جو آج تک تاریخ کے سنہرے حروف میں رقم ہے۔
اکثر جب ہم تاریخ اور تاریخی شخصیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں خواتین کا کردار بہت کم نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لکھائی کا آغاز تہذیبوں کے قائم ہونے کے بعد ہوا۔ دنیا میں جہاں جہاں بھی تہذیبوں کا آغاز ہوا وہاں پدرانہ نظام کا آغاز بھی ہو چکا تھا کہ جس میں دولت کی منتقلی باپ کے ذریعے ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ لکھنے میں خواتین کے کردار کو کم اثر یا یہاں تک کے بے اثر کر کے دکھایا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ دوسری جانب طبقاتی معاشرے نے خواتین کا دوہرا استحصال کرتے ہوئے عورت کے انسان ہونے کو قبول نہیں کیا بلکہ عورت کی تمام انسانی صلاحیتوں کا بھی گلا گھونٹا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین نے تاریخ کا دھارا موڑنے میں اہم ترین کردار نبھائے ہیں۔ یہ بورژوا تاریخ دان جو تعصب پر مبنی تاریخ ہمارے سامنے رکھتے ہیں، ان کی لکھی گئی تاریخ میں کھبی بھی اس جدوجہد کا تذکرہ نہیں ملے گا۔ اسی لیے ہمیں تاریخ کو جدلیاتی مادیت کے آلے پر پرکھ کر اس کا مطالعہ طبقاتی کشمکش کے طور پر کرنا چاہیے اور وہ ایسی تاریخ ہے کہ جس میں محنت کش مردوں نے اپنی ساتھی محنت کش خواتین کے ساتھ مل کر ظلم کے خلاف جدوجہد کی۔ محنت کشوں کی جدوجہد کی اس تاریخ میں بہت سی خواتین کے نام آتے ہیں۔ لیکن روزا کا نام محض ایک خاتون کے طور پر نہیں بلکہ ایک انسان کے طور آتا ہے، جس نے خود کو ایک عورت سے بڑھ کر ایک انسان سمجھا۔ ایک ایسا باشعور انسان جس نے وقت کے تمام تر حاوی مزدور دشمن نظریات کے خلاف عملی اور نظریاتی جدوجہد کی۔ روزا کی جدوجہد اپنی ہم عصر خواتین انقلابیوں سے بہت بلند اور مختلف تھی۔ تیسری انٹر نیشنل میں با اثر آوازوں میں سے ایک آواز روزا کی تھی۔
روزا کی زندگی تیسری انٹرنیشنل اور ایس پی ڈی کے اندر مزدور دشمن نظریات کے خلاف جدوجہد کے سوا کچھ نہیں تھی۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے اند ر دائیں بازو کے نمائندوں کے خلاف روزا نے انتھک جدوجہد کی۔ سرمایہ دارانہ ترقی کے زیر اثر ایس پی ڈی کے بہت کے لیڈر اس نظام سے سمجھوتے کے نظریات پیش کر تے ہوئے مارکسی نظریات پر نظر ثانی کر کے ان کو بدلنے کی تھیوریاں پیش کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک رحجان برنسٹائن کا تھا جو یہ تھیوری پیش کر رہا تھا کہ سرمایہ داری سے سوشلزم تک بغیر محنت کشوں کی جدوجہد اور انقلاب کے بھی پہنچا جا سکتا ہے! رفتہ رفتہ نظام میں محنت کشوں اور سرمایہ داروں کے درمیان طبقاتی کشمکش خود ہی ختم ہو جائے گی۔ ان کے نقطہِ نظر کے مطابق مارکسی نظریات میں ترامیم کر تے ہوئے سرمایہ داروں سے الحاق کرنا شامل تھا۔ روزا نے مارکسی نظریات کا دفاع کرتے ہوئے ترمیم پسندی کے خلاف نظریاتی جنگ کی۔ روزا نے ترمیم پسندی کے اس نئے رحجان کو ’’مفادپرستی‘‘ اور مزدور دشمن قرار دیا۔ اس سلسلے میں روزاکی تحریر کردہ کتاب ’’ اصلاح پسندی یا انقلاب!‘‘ مارکسی نظریات میں ایک اہم اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ روزا نے سرمایہ دارانہ معیشت کے ارتقا پر ’’سرمائے کا ارتکاز‘‘ لکھی جس میں ثابت کیا کہ کس طرح اپنے ارتقائی مراحل سے ہوتی ہوئی سرمایہ داری سامراجیت کی طرف جاتی ہے نہ کہ سوشلزم کی طرف اوراسی بنیاد پر سوشلزم کے لیے محنت کش طبقے کی سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد ناگزیر ہے۔
ایس پی ڈی کے اندر ایسے رحجانات بھی موجود تھے جومحنت کشوں کے انقلاب اور اس کی فتح کو ’’محض اکیڈمک سوال‘‘ سمجھتے ہوئے اسے روزمرہ کی عملی جدوجہد سے کاٹ کر دیکھتے تھے۔ 1898ء میں جرمنی کے شہر سٹوٹ گارٹ میں روزا نے انکے خلاف تقریر کرتے ہوئے اپنی پوزیشن کو واضح کیا کہ ایک پرولتاری انقلابی پارٹی کیلئے روز مرہ کی جدوجہد نظریاتی جدوجہد ہوتی ہے اور ہماری عملی جدوجہد اور ہماری حتمی لڑائی محنت کشوں اور سوشلسٹ انقلاب کیلئے ہے جسے ہمیں نہیں بھولنا چاہیے۔ روزا نے اپنے عہد کے تمام مفاد پرست مزدور دشمن نظریات کے خلا ف لڑائی لڑی۔ ان میں والٹ مور کی ریاستی سوشلزم کی تھیوری، ہینس کی’ پالیسی آف کمپنسیشن ‘، برنسٹائن کی ’ترامیم پسندی‘ اور شپل (Schipple) کے’ ملٹری ازم‘ کے خلاف جدوجہد شامل ہے۔
شپل جو کہ سرمایہ دارانہ طرز کی فوج کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے مزدوروں اور عوام کی ملیشیا کو ناممکن قرار دے رہا تھا۔ اس کے خلاف روزا نے اپنی تحریر ’’ملٹری ازم اور ملیشیا‘‘ میں لکھا کہ سرمایہ دارانہ طرز کی فوج ایک مخصوص طبقے کے مفادات کے تحفظ کیلئے بنائی جاتی ہے اور خود اس کے اندر طبقاتی کشمکش موجود ہوتی ہے، یہ عوام اور محنت کش طبقے کی نمائندگی نہیں کر سکتی۔ جبکہ ملیشیا کے ڈھانچے اور مقاصد محنت کشوں کے مفادات کی عکاسی اور تحفظ کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ پہلی جنگ عظیم کے موقع پر جہاں تیسری انٹرنیشنل کے موقع پر پھوٹ پڑی اور بیشتر لوگ قومی شاونزم کا نعرہ بلند کر رہے تھے اور اپنے ملک کی بورژوازی کی حما یت میں قراردادیں پیش کر رہے تھے، تو روزا نے اس وقت لینن اور ٹراٹسکی کے ساتھ قومی شاونزم کے خلاف آواز بلند کر تے ہوئے محنت کشوں کی عالمی جڑت اور جنگ کے خلاف نعرہ بلند کیا۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ اور ٹریڈ یونین کے کردارپر روزا نے کام کرتے ہوئے بہت سارا نظریاتی موادفراہم کیا۔
1917ء میں جب بالشویکوں نے لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں دنیا کا پہلا سوشلسٹ انقلاب کیا تو روزا نے بالشویک پارٹی اور انقلاب کی بھر پورحمایت کی۔ قومی مسئلے اور زرعی سوال پر روزا کے لینن اور ٹراٹسکی کے ساتھ اختلافات بھی موجود تھے۔ لیکن یہ اختلافات نظریاتی تھے اور ان اختلافات نے روزاکی بالشویک قیادت اور انقلاب کے ساتھ جڑت کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط کیا۔ لینن کی موت کے بعد سٹالن نے دوسرے بہت سے انقلابیوں طرح روزا کو بھی لینن کا مخالف بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ لینن ہی تھا جس نے روزا کی نظریاتی صلاحیتوں پر اسے ’درست مارکسزم کی علمبردار ‘کہا تھا۔
روزا نے خواتین کے حوالے سے بہت کم لکھا۔ لیکن اس سوال پر بھی طبقاتی اور مارکسی نظریے کے عین مطابق محنت کش اور بورژوا خواتین کے تاریخی کردار کے فرق کو واضح کیا۔ اس کے ساتھ ہی اصلاح پسندی کے ذریعے خواتین کے حقوق اور سماجی نا انصافی کے یوٹوپیا کے خلاف پوزیشن رکھی۔ اس نے اپنی عملی اور نظریاتی جدوجہد سے ایک مارکسسٹ خاتون کا جو معیار بنایا وہ تاریخ میں ابھی تک کہیں اوردیکھنے کونہیں ملتا۔ نہ صرف یہ بتایا کہ خواتین کو اس نظام کے خلاف جدوجہد کیسے کرنی چاہیے بلکہ وہ جدوجہد اپنی عملی زندگی میں کر کے دکھائی۔ اگر روزا کو محنت کش طبقے کی انقلابی تاریخ کی عظیم لیڈر کہا جائے تو یہ مبالغہ نہیں ہو گا۔
روزا کو 1919ء کے جرمن انقلاب سے کچھ ماہ قبل کارل لبنیخت کے ساتھ قتل کر دیا گیاجس کی وجہ سے 1919ء میں جرمنی کا انقلاب قیادت کے فقدان کی وجہ سے ناکام ہوا۔ اس وقت اگر روزا اور کارل لبنیخت کی قیادت میں جرمنی کا انقلاب کامیاب ہو جاتا تو آج شایددنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ لیکن تاریخ کا ارتقا ہمیشہ مشترکہ مگر ناہموار ترقی کے اصول کے تحت ہوتا ہے۔ روس کا بالشویک انقلاب جرمن انقلاب کی شکست کی وجہ سے تنہا ہو کرسٹالنسٹ زوال پذیری کا شکار ہو گیا۔ لیکن یہ تاریخ کا فقط ایک باب تھا ،اس کا خاتمہ نہیں۔ بیسویں صدی کے عظیم انقلابات کی تاریخ اکیسویں صدی کے انقلابیوں کیلئے مشعل راہ ہے۔ روزا نے کہا تھا کہ انسانیت کے پاس دو ہی راستے ہونگے سوشلزم یا بربریت۔ آج اکیسویں صدی میں سرمایہ داری کے تاریخی ومعاشی زوال کے عہدمیں روزا کے یہ الفاظ پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔
روزا کی اڑتالیس سالہ زندگی ہر انقلابی خاتون کیلئے مشعل راہ ہے اور آ ج ہمارا فرض بنتا ہے کہ روزا کی عظیم جدوجہد کی روایت کو اپناتے ہوئے انقلابی پارٹی کی تعمیر کیلئے جدوجہد کریں۔ ہمارے معیار ہماری جنس پر نہیں بلکہ ہمارے باشعور انسان ہونے کی حیثیت سے ہونے چاہئیں، یہی روزالکسمبرگ کی زندگی کا ہمارے لیے اہم ترین سبق ہے!