جمہوریت کی کٹھنائیاں

[تحریر:لال خان]
اس ملک کی اشرافیہ اور ان کی نمائندگی کرنے والے دانشور پچھلی کئی دہائیوں سے جمہوریت اور آمریت کی بحث کرتے چلے آرہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بننے والے پرویز مشرف کے نام نہاد ٹرائل نے اس بحث کو ایک بار پھر سے گرم کر دیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی سامراج نے سرد جنگ کے پس منظر میں اپنے سیاسی، معاشی اور اسٹریٹجک مفادات کے تحفظ کے لئے دنیا بھر میں فوجی آمریتیں مسلط کی تھیں۔ پاکستان میں ایوب خان اور ضیا الحق، چلی میں جنرل پنوشے اور سپین میں جنرل فرانکو سمیت سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں دائیں بازو کی وحشیانہ آمریتوں کو مالی اور سفارتی امداد کے ذریعے مضبوط کیا گیا۔ سوویت یونین کے انہدام، چین میں سرمایہ داری کی بحالی اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے نئے عالمی منظر نامے میں سامراج کے لئے کئی آمریتیں بے فائدہ ہوچکی تھیں۔ سامراجی استحصال اور تسلط کو قائم رکھنے کے لئے نئے سیاسی ساخت درکار تھی۔ ’’مصالحت کا نظریہ‘‘ (Theory of Reconcialtion) اسی عہد میں تراشا اور مسلط کیا گیا تھا جس کے تحت ضیاالحق کی آمریت کے بعد پیپلز پارٹی کو کئی بار اقتدار دیا گیا۔
سرمایہ داری کی دانشور اور سیاستدان ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت تک اقتدار کی حالیہ منتقلی کو بہت بڑا کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس اور آرمی چیف کی پرامن تبدیلی پر بھی بگل بجائے جارہے ہیں۔ تاہم نسل در نسل جمہوری حکومتوں اور فوجی آمریتوں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہونے والے عوام کی اکثریت کیلئے یہ ’’تبدیلیاں‘‘ بے معنی ہے۔ سیاسی نان ایشوز کے ساتھ ساتھ میڈیا پر چلنے والے امراء کے جنسی اسکینڈل اور ناجائز تعلقات کے قصے کہانیاں محروم عوام کے زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں۔ غربت، بیروزگاری، مہنگائی اور دہشت گردی کے ہاتھوں ہر روز ذبح ہونے والے کروڑوں لوگوں حکمرانوں کے ان تماشوں سے کوئی غرض نہیں ہے۔
وحشی آمریتیں ہوں یا جمہوری حکومتیں، یا پھر پرویز مشرف کی ’’نیم جمہوری آمریت‘‘، تاریخ گواہ ہے کہ اس نظام کے سماجی و معاشی جبر میں کبھی کمی نہیں آئی ہے۔ عوام اس ذلت سے تنگ آچکے ہیں۔ وہ بغاوت کرنا چاہتے ہیں لیکن فی الوقت ان کے سامنے اس نظام کی سیاست کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ سیاسی اور اقتصادی بحران اشرافیہ کے مختلف حصوں اور پرتوں میں بھی دراڑیں ڈال رہا ہے۔ لوٹ مار میں مناسب حصہ داری سے محروم حکمران طبقے کے کچھ افراد اور سیاسی نمائندے غصے میں ’’انقلاب‘‘کی باتیں کررہے ہیں۔ مسائل حل کرنے میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کی ناکامی بالکل واضح ہوچکی ہے۔ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کا بحران اس قدر شدید ہے کہ سیاسی تبدیلیاں اور سطحی اصلاحات کسی قسم کی بہتری پیدا نہیں کر سکتی ہیں۔ سماج کو آگے بڑھانے کے لئے نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔ لیکن ایسی کوئی بھی ریڈیکل تبدیلی حکمران طبقات کے معاشی مفادات سے متصادم اور ان کے اقتدار پر کاری ضرب کے مترادف ہے لہٰذہ ذرائع ابلاغ پر براجمان بورژوا دانشور حقیقی متبادل کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔
مرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کی جمہوریت، امیروں کے لئے امیروں کی حکومت بن کر عوام کے سامنے بے نقاب ہوچکی ہے۔ ریاست کا ایک مخصوص حصہ صورتحال کی نزاکت سے خوب واقف ہے۔ یہ نظام نہ صرف محنت کش عوام کے لئے تباہ کن ہے بلکہ اپنی متروکیت کے اس عہد میں اپنی جڑیں بھی خود کاٹتا چلا جارہا ہے۔ حالیہ انتخابات کی اصلیت سے کون واقف نہیں ہے؟ ریاستی عہدہ داروں نے تسلیم کیا ہے کہ بڑے پیمانے پر چھان بین کی جائے تو مجموعی نتائج جعلی ثابت ہوں گے۔ میڈیا پر جمہوری تبدیلی کا جعلی جشن دراصل حکمران طبقے کے خوف کا اظہار اور تلخ زمینی حقائق پر پردہ ڈالنے کی سعی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ گلے سڑے سیاسی نظام کی حقیقت اگر عیاں ہوتی ہے تو ناخوشگوار نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سیاسی مصالحت اور ’’ذمہ دار اپوزیشن‘‘ کا کھیل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ میڈیا پر چلنے سیاسی بحث و تکرار بظاہر جتنی خود رو اور فطری معلوم ہوتی ہے، درحقیقت اسی قدر جعلی اور پرفریب ہے۔ سب کو پتا ہے کہ ’’اختلاف رائے‘‘ کی گرما گرمی میں بھی کن حدود سے تجاوز نہیں کرنا ہے۔
دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ خطوں میں عام شہری سیاسی نظام پر سوال اٹھا رہے ہیں اور سرمایہ داری کے مستقبل کے بارے شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ ایشیا میں ایک کے بعد دوسرا ملک سیاسی خلفشار کا شکار ہوتا چلا جارہا ہے۔ اپوزیشن کی جماعتیں انتخابات کا بائیکاٹ کر کے انہیں مسترد کر رہی ہیں۔ پچھلے مہینے نیپال، بنگلہ دیش، کمبوڈیا، تھائی لینڈ اور ملائیشیا میں یہی کچھ ہوا ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کا علمبردار جریدہ ’’اکانومسٹ‘‘ اپنے پچھلے شمارے میں لکھتا ہے کہ ’’آمریتوں کے سائے تلے زندگی گزارنے والے اس مغالطے کا شکار ہوتے ہیں کہ جمہوریت میں حکومت عوام کی مرضی کی ہوتی ہے۔ لیکن جمہوری ممالک میں رہنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ حقیقت مختلف ہے۔ جمہوریت میں آپ ایک حکومت کا انتخاب کرتے ہیں اور اگلے الیکشن تک آپ کو اسے برداشت کرنا پڑتا ہے۔‘‘
کارل مارکس نے سرمایہ دارانہ جمہوریت کی اسی حقیقت کو زیادہ دیانتداری سے واضح طور پر بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’محکوم عوام کو ہر کچھ سالوں بعد یہ انتخاب کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کہ حاکم طبقے کے کونسے نمائندے ان کا استحصال کریں گے۔ ۔ ۔ ضرورت تب تک اندھی ہوتی ہے جب تک اس کا ادراک نہ ہوجائے۔ آزادی دراصل ضرورت کا شعوری ادراک ہے۔ ‘‘ امریکہ کے جرات مند صدر تھامس جیفرسن آج کی بیمار سرمایہ داری کے دانشوروں اور سیاستدانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ معقول تھے۔ تھامس جیفرسن نے جمہوریت کی اساس کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا ’’جمہوریت اس وقت ختم ہوجاتی ہے جب محنت کرنے والوں سے چھین کر کچھ نہ کرنے والوں کو نوازا جاتا ہے۔‘‘
بھارت میں ہونے والے حالیہ صوبائی انتخابات میں دہلی میں ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کی کامیابی، مسائل کے حل کے لئے بھارتی عوام کی آخری کوششوں میں سے ایک ہے۔ عام آدمی پارٹی کی مخلوط حکومت کی جانب سے سرکاری اہلکاروں کے خصوصی پروٹوکول کا خاتمہ، بجلی میں سبسڈی، پینے کے پانی کی فراہمی جیسے اقدامات یقیناًقابل تحسین ہیں۔ لیکن زوال پزیر سرمایہ دارانہ معیشت میں یہ اصلاحات زیادہ آگے نہ بڑھ پائیں گی۔ جہاں تک پانی، بجلی اور دوسری ضروریات زندگی کی فراہمی کا سوال ہے تو اس کے لئے تیسری دنیا کے بوسیدہ انفراسٹرکچر میں بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری درکار ہوگی۔ یہ سرمایہ کہاں سے آئے گا؟ سرمایہ داروں کی دولت اور ذرائع پیداوار کو ضبط کر کے منصوبہ بند معیشت کے تحت سماج کی تعمیر و ترقی پر صرف کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ عام آدمی پارٹی کے پاس اپنے سیاسی نعروں اور وعدوں سے مطابقت رکھنے والے معاشی لائحہ عمل اور پروگرام نہیں ہے۔ بہت جلد بھارت کے عوام اس نئی سیاسی جماعت سے بھی مایوس اور دل برداشتہ ہوجائیں گے اور ان کے پاس سرمایہ داری کے سیاسی نظام کو توڑ کر آگے بڑھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
جمہوریت یا آمریت بذات خود نظام نہیں ہیں بلکہ ایک نظام کو چلانے کے دو مختلف سیاسی طریقہ کار ہیں۔ دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز اورکارپوریٹ سرمائے کی آمریت میں حقیقی جمہوریت پنپ ہی نہیں سکتی ہے۔ تلخ تجربات اور دھوکے دنیا بھر میں عوام کو اس حقیقت کا ادراک کروا رہے ہیں۔ عوام کا شعور عام ادوار میں معاشی حقائق کے پیچھے چلتا ہے۔ انقلاب کے غیر معمولی حالات میں جب سماجی شعور ٹھوس زمینی حقائق سے میل کھاتا ہے تو دھماکہ خیز واقعات جنم لیتے ہیں اور طبقاتی تضادات واضح ہوکر سامنے آتے ہیں۔ معاشی بحران کے شدت پکڑنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر طبقاتی کشمکش میں بھی تیزی آتی جارہی ہے۔ آنے والے عہد میں بڑھتی ہوئی طبقاتی کشمکش دنیا بھر نئے انقلابات کو جنم دے گی۔ سرمایہ دارانہ نظام سے بغاوت کر کے ہی نسل انسان اس حقیقی جمہوریت کی بنیاد ڈال سکتی ہیں جس میں انسان سرمائے کی آمریت سے آزادی حاصل کر کے اپنی زندگی کے فیصلے خود کرسکیں گے۔

متعلقہ:
بلدیاتی انتخابات کیا دیں گے؟
ہندوستان: جمہوریت کا انتشار
غدار کون؟