| تحریر: جاوید ملک |
مورخین اس امر پر متفق ہیں کہ قدیم اشتراکی دور میں تمام انسانوں کی خوشیاں اور غم سانجھے ہوتے تھے، سب مل کر محنت کرتے اور پھرمل بیٹھ کر بغیر کسی حسد بغض اور لالچ کے زندگی کو رعنائی بخشنے والے گیت گاتے۔ تاہم حالات کی تبدیلی نے اس سماج کو ختم کرکے غلام داری نظام کو جنم دیا۔ قدیم یونان کے عظیم فلاسفر سقراط نے کہا تھا کہ کوئی بھی قوم کبھی ایک قوم نہیں ہوتی اور کوئی شہر بھی ایک شہر نہیں ہوتا بلکہ ہر قوم میں دوقومیں ہوتی ہیں اور ہر شہر میں دو طرح کے شہری ہوتے ہیں ایک بالادست یعنی امیر اور دوسرا زیر دست یعنی غریب۔ ان ادوار میں معرض وجود میں آنے والی ریاستوں نے جہاں کئی ایک طرح کی رسومات، توہمات، روایات اور تہواروں کی بے لوث بنیادوں کوتبدیل کیا وہیں پر ان ادوار میں آنے والے مذہبی، ثقافتی اور علاقائی تہوار بالادست طبقے کے اس نظام کو قائم رکھنے کا آلہ کار بن کر رہ گئے۔
انسانی تاریخ میں مسلط کردہ اس نظام اور منظر نامے کو تبدیل کرنے کے لیے ہر دور اور عہد میں انسانوں نے بے پناہ جدوجہد کی۔ آج بھی دنیابھر میں بوسیدہ ہوجانے والے سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ پاکستان کے اندر ایک سکوت اور جمود کی صورتحال نظر آتی ہے مگر اگر سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کیا جائے توعوام کے اندر نفرتوں کا ایسا لاوا پک رہا ہے جو کسی بھی وقت اس پورے نظام اور ان کے آقاؤں کو بہا کر لے جاسکتا ہے۔
ثقافتی تہواروں کی طرح مذہبی تہواروں پر بھی بظاہر تو اشرافیہ اور اس کے نمائندے بھائی چارے اور محبت کا درس دیتے ہیں مگر حقارتوں سے آلودہ اس درس میں یہ بات بھی واضح طور پر جتائی جاتی ہے کہ آسمانی قوتوں نے ایک فیصد کو ہی 99 فیصد پر حکمرانی کا اختیار دے رکھا ہے۔ یہی دکھاوے کے بول اور لیکچر ہمیں اس عید الفطر پر بھی سننے کو ملیں گے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں جینا دوبھر ہوچکا ہے۔۔۔ مہنگائی، بیروزگاری، بیماری، غربت، افلاس، غلاظت اور ہر طرح کی لعنتوں نے زندگی دوبھر کر دی ہے، انسانی محنت کے تحت پیداواری صلاحیت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ 49 ارب انسانوں کو غذا سمیت ہر طرح کی بنیادی سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں لیکن بھوک بڑھ رہی ہے، بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے، علاج مہنگا ہو رہا ہے، تعلیم کی خستہ حالی ہر آنے والے دن جہالت کو فروغ دے رہی ہے، ماحولیاتی آلودگی سے پورا معاشرہ ایک گھٹن ایک تعفن میں سسک رہا ہے، بدعنوانی کے نئے ریکارڈ قائم ہورہے ہیں، خود غرضی اور مفاد پرستی کے اخلاقیات غالب ہیں، سچائی دیانتداری اور انسانیت کا احساس کرنا ایک معاشی برائی بن چکا ہے، غنڈہ گردی اور قبضہ گروپوں کا سیاست پر راج ہے، مالیاتی سرمایہ ہر پارٹی کا قائد ہے، کالی دولت اہم فیصلے کرواتی ہے، دہشت گردی ایک صنعت ایک منافع بخش کاروبار کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ غربت اور ذلت کے اس سماج پر براجمان حکمران اس معاشرے میں مچے اس سنگین کہرام سے جس بے نیازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس کی مثال ماضی میں کم ہی ملتی ہے۔
بلاشبہ عید کا دن خوشیوں کا دن ہے مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دو فیصد سرمایہ دار دنیا کی پچاس فیصد دولت پر قابض ہیں جبکہ دنیا کے پچا س فیصد افراد کے پاس دنیا کی دو فیصد دولت موجو دہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ صرف پاکستان میں ہی نہیں پورے کرہ ارض پر ہر شہر میں دو شہر بنے ہوئے ہیں اور ان شہروں میں بسنے والے دونوں طبقوں کے درمیان فاصلوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شہر میں بسنے والے افراد بھی دو طرح کی عیدیں منارہے ہیں۔ عید جہاں امیروں کے لئے خوشی کا باعث ہے وہاں غریبوں کے لئے ایک عذاب سے کم نہیں ہوتی اور انہیں محرومی اور احساس کمتری کے تکلیف دہ احساس میں مبتلا کر کے چلی جاتی ہے۔ حال ہی میں عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے امرا غذا کا چالیس فیصد کچرے میں پھینک دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف دنیا میں ایک ارب افراد غذا کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ اسی طرح برطانیہ کے ایک تحقیقاتی ادارے کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے امیر افراد ایک ٹریلین ڈالر (ایک ہزار ارب ڈالر) رقم ایسے ملبوسات زیورات اور ان دوسری چیزو ں پر ضائع کر دیتے ہیں جنہیں وہ یا تو صرف ایک بار پہنتے ہیں یا پھر ان کی خریداری کے ذریعے اپنے ارد گرد رہنے والے افرا دکو مسحور کرنا مقصودہوتا ہے۔ ایک طرف امریکہ میں گزشتہ سا ل خواتین نے اگر صرف اپنی جسمانی زیبائش ’’پلاسٹک سرجری وغیرہ‘‘ کروانے کے لیے 74 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں تو امریکہ کے اندر ہی بارہ لاکھ ایسے افراد موجو د ہیں جن کے پاس اپنی آنکھوں کا علاج کرانے کی رقم ہی موجود نہیں۔ پاکستان کے دوست ملک چین کے اندر گزشتہ سال امرا نے اپنے کتوں کے علاج اور ان کے رہن سہن پر 48 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں جبکہ چین کے اندر تیس کروڑ سے زائد افراد بھکاریوں جیسی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پاکستان کے اندر اگر 58 فیصد لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے تو اسی ملک اور اسی ملک کے شہروں کے اندر ایسے 28 امراء بھی موجود ہیں جو پاکستان کا کل قرضہ پانچ مرتبہ ادا کرسکتے ہیں۔ اگر پاکستان کے اندر 78 فیصد لوگ علاج نہ ملنے کی وجہ سے وقت سے پہلے قبر وں میں اتار دیئے جاتے ہیں تو پاکستان کے صرف دو خاندانوں کے دوسالوں کی آمدن سے ہر مریض کو مفت علاج فراہم کیا جاسکتاہے۔
پاکستان کے اندر بڑھتی ہوئی اس طبقاتی خلیج نے ضیاالحق دور کے بعد ایک نئی طرح کی اشرافیہ کو جنم دیا ہے۔ کلاسک روایات سے محروم یہ کلاس اپنے آپ کو صرف پیسے کے بل بوتے پر ناصرف ریاستی، سیاسی اور سماجی شعبوں اور عہدوں پر نمایاں حیثیت دلا چکی ہے بلکہ عام سماج کے اندر بھی ان کی بستیاں اور کالونیاں غریبو ں کی آبادیوں سے دور اور ایسی آسودہ حال ہیں کہ جن کا غریب آدمی مرنے کے بعد ملنے والی زندگی یعنی جنت میں بھی تصور نہیں کر سکتا۔ اس ملک کی نوے فیصد آبادی کے خواب بھی ان کی آمدن کی طرح محدود اور چھوٹے رہتے ہیں اور وہ انہی محدود دائروں میں گرتے پڑتے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہاں ایک طرف اگر دولت کی اس قدر بہتات ہے کہ چند خاندان بیرونی امیر ممالک کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں میں بھی آسودہ حال اور انتہائی مہنگی رہائش گاہیں رکھتے ہیں تو دوسری طرف یہ عالم ہے کہ پاکستا ن کے اندر صرف 37 فیصد گھرانوں کو ہی اپنی چھت دستیاب ہے۔ پاکستان کی 82 فیصد آبادی کو چودہ افراد کے لیے محض ایک کمرے کا گھر دستیاب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو امرا اور ان کے بچے کی ہر روز عید ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف یہ حالت ہے کہ ا س ملک کے اکثریتی گھرانوں میں والدین کے سروں پر عید کی خبر بجلی بن کر گرتی ہے، کیونکہ بچوں کے لیے نئے کپڑے جوتے اور دوسری اشیاء خریدنا ان کے بس میں ہی نہیں ہوتا جبکہ اشرافیہ کے محلوں، ڈیفنس اور بحریہ کالونیوں میں وغیرہ میں ہر دن عید کا دن اور ہر رات جشن کی رات ہوتی ہے۔
یہ صورتحال سماج کے اندر تعصب اور حقارت کے ساتھ ساتھ مقابلہ بازی کے ایسے رحجان کو جنم دیتی ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والے افراد کو بھی ایک دوسرے کے حریف بنائے رکھتی ہے اور ایک ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھانے والے ایک دوسرے کو نیچادکھانے کی کاوش کرنا اپنا بنیادی فریضہ سمجھتے ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جس نے پورے معاشرے کو بے لوث محبت اور بے غرض دوستی کی بجائے ہر صورت اور طریقے سے دوسرے سے آگے نکل جانے کے عمل کو ہی حتمی منزل بناکر رکھ دیا ہے۔ اس سماجی اور طبقاتی تفریق کو ختم کیے بغیر اس معاشرے میں حقیقی خوشیوں کا خواب بھی نہیں دیکھا جاسکتا اور اس خواب کو تعبیر کرنے کے لیے محنت کشوں کو نوجوانوں اور کسانوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی عالمگیر تحریک چلانا ہوگی جو اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے طبقات کا خاتمہ کر دے۔ یقیناً وہی دن دنیا بھر کے انسانوں کے لیے عید کی حقیقی خوشیوں کاپہلا دن ہوگا جب انسان صدیوں سے چلی آنے والی اقلیت کی غلامی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد ہوجائے گا۔