تحریر: لال خان
پچھلے ستر سالوں سے حکمران دانش کے لبرل اور قدامت پرست دھڑے پاکستان کی نظریاتی اساس کے سیکولر یا تھیوکریٹک ہونے بارے گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ ایک تباہ حال سماجی صورتحال میں حکمران طبقات کے دستور کسی کام کے نہیں ہوتے۔ بعد از تقسیم کا ہندوستان ایک روشن مثال ہے کہ ایک سیکولر آئین کی موجودگی میں دنیا کی رجعتی ترین حکومتیں اقتدار میں آ سکتی ہیں۔ پاکستان میں تو آئین پہلے ہی غیرواضح اور تضادات کا حامل تھا لیکن ضیا الحق کی جانب سے رجعتی شقوں کے اضافے نے سماجی و ثقافتی معمولات کا گلا ہی گھونٹ دیا۔ بعد کی ’جمہوری‘ حکومتیں بھی اس بارے کچھ نہ کر سکیں۔
انٹرنیٹ اور کمیونیکیشن نیٹ ورکس کے پھیلاؤ سے پہلے ہی سماجی و ثقافتی رابطے اور اقدار ریاستی کنٹرول،سرحدوں،سنسر شپ وغیرہ کو بے دریغ پامال کر رہے ہیں۔ اگرچہ سماج پر جبراً مسلط کردہ سیاسی،سماجی اور ثقافتی اخلاقیات اپنا وجود رکھتی ہیں لیکن سماجی رویے ان سے مطابقت نہیں رکھتے،جس کی وجہ سے منافقت ایک سماجی قدر بن چکی ہے۔ دوہرے معیار کے حامل قدامت پسند اداروں میں سے ایک سنٹرل بورڈ آف فلم سنسر شپ (سی بی ایف سی) بھی ہے جس کا اب لوگ مذاق اڑا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں چند فرحت بخش فلموں پر پابندی نے اس قنوطیت بھر ے سماج میں تفریح کی تلاش کرنے والوں کو مشتعل کردیا ہے۔
سی بی ایف سی 1979ء کے موشن پکچر آرڈنینس کے تحت کام کرتا ہے جو ایک قدامت پسند مذہبی آمریت کے دور میں نافذ کیا گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ضیا کی وحشی حاکمیت اپنے عروج پر تھی اور محکوم عوام پر ظلم و جبر جاری تھا۔ یہ قاعدے اور قوانین سماج میں تنگ نظری اور خوف مسلط کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ سنسر شپ کے یہ قوانین آج بھی سی بی ایف سی میں لاگو ہیں اور یہ فرسودہ ادارہ تنقید سے ماورا معلوم ہوتا ہے۔ سی بی ایف سی میں سویلین، فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اعلیٰ افسران،فرقہ وارانہ مذہبی مبلغین،صحافی اور ’سول سوسائٹی‘کے کارکنوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ یہ بات ابھی تک ایک معمہ ہے کہ ان افراد کو کون‘ فن،فلم سازی اور روشن خیالی کے کس معیار پر بھرتی کرتا ہے۔
سی بی ایف سی کی سنسر شپ کا حالیہ شکار شعیب منصور کی فلم ’ورنہ‘بنی (اگرچہ تازہ اطلاعات کے مطابق اچھی خاصی کانٹ چھانٹ کے بعد پابندی اٹھا لی گئی ہے)۔ رپورٹ کے مطابق ’’سنسر بورڈ کی جانب سے سرٹیفکیٹ جاری نہ ہونے کی وجہ سے لاہور میں ’ورنہ‘ کا پریمیئر کینسل کردیا گیا۔ ‘‘سی بی ایف سی کے چیئرمین مبشر حسن نے رپورٹرز کو بتایا، ’’ہم سی بی ایف سی کے ایک پینل کی جانب سے فلم ’ورنہ‘ پر اٹھائے گئے ’متفقہ اعتراضات‘ پر متعلقہ قوانین کے تحت غور کر رہے ہیں۔‘‘
سندھ بورڈ آف فلم سنسر کے جنرل سیکرٹری عبدالرزاق خاور نے تسلیم کیا، ’’یہ فلم اپنے موضوع کی وجہ سے قابل اعتراض ہے۔ اس کا موضوع ریپ ہے اور ملزم گورنر کا بیٹا ہے۔‘‘ یہ بیان ریاستی اداروں کے کردار کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے کہ کس طرح طبقاتی جبر رجعتی اخلاقیات سے جڑ کر حکمران طبقات کی خدمت کرتا ہے۔ فلم کے ایک ایکٹر نے ٹویٹ کیا، ’’’ورنہ‘ پر پابندی طاقتور لوگوں کو خوش کرنے کے لیے لگائی گئی ہے تاکہ عوام کو پتا نہ چل سکے کہ یہ لوگ ان پر اپنے جبر کو کن طریقوں سے قائم رکھتے ہیں۔ ’ورنہ‘ پر پابندی لگی ہے جبکہ گلیاں بنیادپرستوں سے بھری ہوئی ہیں اور آئٹم نمبرز کو فری پاس ملتے ہیں۔ یہ لوگ سچ کا سامنا نہیں کرسکتے۔‘‘
اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ یہ فلم ان حقیقی وجوہات کو اجاگر کرے گی جو فرسٹریشن، سماجی بیگانگی، ریپ اور وحشت کو جنم دیتے ہیں۔ لیکن حکمرانوں کی حاکمیت اتنی نحیف ہے کہ وہ اپنے حقیقی سیاسی اور اخلاقی کردار کی ایک ہلکی سی جھلک کو بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ دہائیوں سے پاکستانی فلم انڈسٹری زوال کی کیفیت میں ہے۔ ضیا آمریت نے وحشیانہ انداز میں فلم، ڈرامہ اور ادب میں ترقی پسند رجحانات کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی۔ ستر کی دہائی کے اواخر تک نہ صرف میوزک،ہدایت کاری اور فلم سازی کا معیار اعلیٰ تھا بلکہ شاید ہی کوئی ایسی فلم بنتی ہو جس میں طبقاتی تضاد اور کشمکش پر روشنی نہ ڈالی جاتی ہو۔ لیکن بعد ازاں ریاستی جبر کے علاوہ مزدور تحریک کے زوال اور سماجی تعفن نے بھی فلم انڈسٹری کے زوال میں اپنا کردار ادا کیا۔
ایک غیر ترقی یافتہ ملک ہونے کے باوجود پاکستان عالمی سطح کی فلمیں بناتا تھا۔ یہ کوئی حادثہ نہیں تھا۔ مارکس نے ’1844ء کے معاشی اور فلسفیانہ مسودوں‘ میں لکھا، ’’جہاں تک آرٹ کا تعلق ہے، یہ بات طے ہے کہ اس کے عروج کا تعلق بلاشبہ سماج کی عمومی ترقی اور اس کی مادی بنیادوں سے ہے۔‘‘ سماج میں پھیلے نسبتاً جمود نے بھی فلم اور آرٹ کو متاثر کیا ہے۔ لیکن سماجی اور معاشی نظام کا زوال میکانکی اور براہ راست انداز میں فلم، ادب اور موسیقی وغیرہ پر اثرانداز نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک دو طرفہ جدلیاتی تعلق ہوتا ہے۔ ایسے ادوار میں نہ صرف عمومی سوچ محدود ہوجاتی ہے بلکہ مقاصد بھی سکڑ جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ عوام کی تقدیروں اور اخلاقیات کا فیصلہ کرنے والے حکمرانوں کی طرف نفرت اور سوالات اٹھانے کا رجحان بھی وقتی طور پر منتشر ہو جاتا ہے۔ لیکن سنسر بورڈ اور دوسرے اداروں میں بیٹھے لوگ ہمارے لیے غلط یا درست، اخلاقی یا غیر اخلاقی کا فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں؟
پاکستان کا حکمران طبقہ اُس طرح سے ایک یکجا،ترقی پسند،سیکولر اور تہذیب یافتہ بورژوازی میں ڈھل ہی نہیں سکا جیسے نشاۃ ثانیہ کے بعد یورپ کا سرمایہ دار طبقہ ابھرا تھا۔ آج کا تنگ نظر، بدعنوان اور غیرمہذب حکمران طبقہ منافقانہ اخلاقیات کی حامل بیہودہ ثقافت مسلط کر رہا ہے۔ عام ادوار میں ریاست،نظام اور مذہبی و روایتی اخلاقیات کے ٹھیکیدار دھنوانوں کی جیب میں ہوتے ہیں۔ ان کے پاس پیٹی بورژوا دانشوروں اور مبلغوں کی فوج ظفر موج ہوتی ہے جو عوام پر ان کی تنگ نظر ثقافت اور فکر کو تھونپتے ہیں۔ لیکن وقت بھی تو بدلتا ہے۔ جب عوام میدان عمل میں اتر کر جدوجہد شروع کرتے ہیں تو انقلابی فتح سے بھی پہلے سماجی اخلاقیات اور اقدار میں گہری تبدیلی رونما ہونے لگتی ہے۔ محنت کش طبقات اپنی اجتماعی طاقت اور معیشت اور سماج میں اپنے ناگزیر کردار سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔ اس سے ان کے شعور،اخلاقیات اور ثقافت میں اٹھان آ جاتی ہے۔ وہ سماجی،اخلاقی،ثقافتی اور نفسیاتی زنجیریں ٹوٹ جاتی ہیں جو انہیں نسلوں سے جکڑے ہوتی ہیں۔ سوچ اور رویوں میں ایک نئی جرأت جنم لیتی ہے۔ ان کی جدوجہد نہ صرف مزید توانائی حاصل کرتی ہے بلکہ ایک بے نظیر جڑت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ طبقاتی نظام سے ٹکر لیتے ہیں۔ ’اخلاقیات‘ کے معیار یکسر بدل جاتے ہیں۔ اس سب کا اظہار ناگزیر طور پر سماج میں تخلیق ہونے والے آرٹ میں بھی ہوتا ہے۔
ٹراٹسکی نے عوامی شعور میں تبدیلی کے اس عمل کو اپنی شاہکار تصنیف ’’ہماری اور اُن کی اخلاقیات‘‘ میں بیان کیا ہے: ’’جائز اور اخلاقی صرف وہی ہے جو انقلابی پرولتاریہ کو متحد کرے، ان کے دلوں کو جبر کے خلاف ناقابل مصالحت نفرت سے بھر دے، سرکاری اخلاقیات اور اس کے جمہوری نقالوں سے نفرت کرنا سکھائے، محنت کشوں کو اپنے تاریخی مشن سے آگاہی دے، ان میں جرأت اور جدوجہد کے لیے قربانی کا جذبہ بیدار کر دے۔ اسی چیز سے ہی یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ تمام ذرائع اور راستے جائز نہیں ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ذرائع کے جائز ہونے کا تعین مقاصد کرتے ہیں تو ہم یہ بات اخذ کرتے ہیں کہ انقلابی مقاصد ان بیہودہ ذریعوں کو دھتکار دیتے ہیں جو محنت کشوں کو باہم دست و گریبان کرتے ہیں یا عوام کو ان کی شمولیت کے بغیر ہی خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں یا اپنی اور اپنی تنظیموں کی طاقت پر محنت کشوں کے اعتماد کو کم کرتے ہیں اور اس کی بجائے انہیں قیادت کی پوجا کرنا سکھاتے ہیں۔‘‘