| تحریر: عصمت پروین |
’’سوشلسٹ بنیادوں پر سماج کی تعمیر لٹریچر، ڈرامہ، مصوری، موسیقی اور فن تعمیر سمیت آرٹ کی ہر شکل کو جلا بخشے گی۔ کمیونسٹ سماج میں انسان آرٹ کو اس کے بلند ترین مقام پر لے جائے گا۔ انسان بے انتہا مضبوط، ذہین اور لطیف ہو جائے گا۔ اس کا جسم ہم آہنگ ہوگا، اس کی حرکت میں توازن اور آواز میں موسیقی ہو گی۔ ایک عام انسان بھی ارسطو، گوئٹے یا مارکس کے مقام تک بلند ہو جائے گا۔ اور یہاں سے نئی بلندیوں کا آغاز ہو گا۔‘‘ (لیون ٹراٹسکی، لٹریچر اور انقلاب، 1924ء)
آرٹ اُتنا ہی قدیم ہے جتنا انسان خود۔ انسان نے اپنی زندگی کی بقا اور بہتری کیلئے مسلسل جدوجہد کی، اس عمل میں نشیب و فراز اور مشکلات و مصائب جھیلے اور ان سے لڑ کے آگے بڑھتا رہا۔ فطرت کے جبر سے نبرد آزما اسی بقا کی جد و جہد کے دوران محنت اور عمل میں انسانی گروہ نے اپنی بات سمجھانے یعنی آپس میں Communicate کرنے کیلئے اشاروں سے کام لینا شروع کیا اور اسی سے آگے زبان وجود میں آئی۔ اشارے زبان کی ابتدائی شکل تھے۔ یہ اجتماعی انسانی محنت اور تال میل کا نتیجہ ہی تھا۔ اسی طرح دو پیروں پر کھڑے ہونے کے بعد انسانی ہاتھ کا آزاد ہونا اورہاتھ کے انگوٹھے کا انگلیوں کیساتھ مخصوص زاویہ بنانا بھی اسی اجتماعی محنت کی بنیاد اور نتیجہ ہے۔
آرٹ انسانوں کیلئے انتہائی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اسے ایک ضمنی یا مبہم معاملہ قرار دینا درست نہیں کیونکہ نسل انسان کے سماجی ارتقا کی وضاحت اسی کے ذریعے ہوتی ہے۔ کرہ ارض پر موجودہ شکل میں انسان کے ظہور کی قدیم ترین اور سنجیدہ علامات میں سے ایک آرٹ بھی ہے ، یعنی جمالیاتی حس کا ٹھوس اور واضح اظہار۔ آرٹ کا معاملہ کچھ حد تک متنازع ضرور ہے کیونکہ کچھ ایسی دریافتیں منظرعام پرآئی ہیں جن کا تعلق انسان سے نہیں بلکہ دوسری انواع کے کچھ جانداروں سے ہے۔ اگرچہ اسے آرٹ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ حس وہ آغاز ہے جس سے فن نے جنم لیا اور آگے بڑھا۔ مثلاً کچھ پرندے ایسے گھونسلا نما تعمیری ڈھانچے تیار کرتے ہیں جو نہ تو گھونسلے ہوتے ہیں اور نہ انکی ظاہری طور پر کوئی عملی افادیت ہوتی ہے، مگر در حقیقت یہ تعمیر بے مقصد نہیں ہوتی۔ یہ تعمیر پرندے جنسی اختلاط کیلئے یعنی مخالف جنس کی توجہ حاصل کرنے کیلئے کرتے ہیں۔ تعمیر سے ہی تخلیق کا پہلو جنم لیتا ہے اور یہی تعمیر اس تخلیق کی بنیاد بنی جسے ہم آرٹ کہتے ہیں۔ مگر دوسری انواع کے جانوروں میں اس طرح کی تعمیراتی خصوصیات اور انسانی فنون میں ایک بنیادی فرق موجود ہے۔ دوسرے جانوروں کی یہ خصوصیات اور سر گرمیاں جبلی ہیں جن کا تعین جینیاتی اور وراثتی عوامل سے ہوتا ہے۔ یعنی یہ حیوانی سرگرمی اپنی نوعیت سے جبلی اور انفرادی ہے جبکہ انسانی آرٹ کا کردار یکسر مختلف ہے اور جبلت سے بڑھ کر شعوری ہے۔ آرٹ آخری تجزئیے میں سماجی مظہر ہے اور انسانوں کے درمیان رابطے کی ہی ایک شکل ہوتا ہے اور انسانوں کی اجتماعی پیداواری سرگرمی پر منحصر ہے۔
اگر انتہائی ابتدائی دور کے اوزاروں کا موازنہ بعد کے دور کے پتھر کے اوزاروں سے کیا جائے تو ایک انتہائی غیر معمولی فرق نظر آتا ہے۔ بعد میں آنیوالے یہ پتھر کے اوزار زیادہ نفیس، دیدہ زیب، کارآمد، پختہ اور کامل نظر آتے ہیں۔ یہ فرق انسانی سماج اور شعور کے ارتقا کی عکاسی کرتا ہے جس دوران مخصوص جمالیاتی حس بھی جنم لے چکی تھی۔ جمالیات کے متعلق بے شمار غیر سائنسی خیالات سننے میں آتے ہیں یعنی خوبصورتی اور بد صورتی کے متعلق بے معنی آرا سامنے آتی ہیں۔ اگر تاریخ کے مختلف انسانی سماجوں کا جائزہ لیا جائے تو خوبصورتی اور بد صورتی کا ایسا کوئی عالمگیر اور آفاقی معیار وجود نہیں رکھتا۔ خوبصورتی کے تصور کا ارتقا بالکل اسی طرح ہے جس طرح اخلاقیات ،جو مسلسل بدلتی رہتی ہیں۔
آرٹ انسانی تہذیب و ثقافت کا اہم ترین اظہار ہے اور تہذیب و ثقافت مادی بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں جنہیں پیداواری قوتوں کے ارتقا میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی انسانی سماج کی معاشی بنیاد (یعنی ذرائع پیداوار) اور اس کی ثقافت اور فنون کے مابین بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ثقافت معاشرے کے طرزِ زندگی، اقدار اور طرزِ فکر و احساس کا جوہر ہوتی ہے۔ چنانچہ زبان، آلاتِ پیداوار ، طریقہ پیداوار، بود وباش، فنونِ لطیفہ، آرکیٹیکچر، علم و ادب، عقائد، اخلاق و عادات، رسوم و روایات، عشق و محبت، رویے اور خاندانی ڈھانچے سے ہی ثقافت متعین ہوتی ہے اور پھر ان عوامل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی طرح زمان و مکان اور جغرافیائی حالات کا اپنا کردار ہوتا ہے۔ لیکن کلچر یا ثقافت میں زمان و مکان اور جغرافیائی حدود سے آزاد اور بالا تر عوامل بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ مذہب اور آرٹ وغیرہ کو براہِ راست اور میکانکی طریقے سے پیداواری قوتوں کی ترقی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی کی باقیات بعض اوقات طویل عرصوں تک ثقافت کا حصہ بنی رہتی ہیں۔ انسانی سماجوں کی تایخ کے حوالے سے اسکی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مثلاً مشرقی افریقہ کی مسائی عورت کی لمبی گردن کو خوبصورتی کا میعار قرار دینا۔ ان قبائل میں تانبے کی قدر و قیمت زیادہ تھی اور لمبی گردن والی خواتین اس کے زیادہ زیورات پہن سکتی تھیں لہٰذا یہ خوبصورتی کا معیار قرار پایا۔ اسی طرح کچھ افریقی قبائل میں سامنے کے دانت نکلوانے کا رواج تھا اور اسکی وجہ جگالی کرنیوالے جانوروں کی مماثلت اختیار کرنا تھا جو دولت اور حیثیت کی علامت خیال کئے جاتے تھے۔
مارکس نے کہا تھا کہ جہاں تک نظریات کا تعلق ہے تو انکی پرواز بھی بلند ہوتی ہے اور وہ اپنی شروعات سے الگ ہو جاتے ہیں اور خود زندگی حاصل کر لیتے ہیں۔ جب کبھی سماجی حالات کروٹ لیتے ہیں تو ثقافتی اقدار کو بھی اسی طور بدلنا پڑتا ہے کیونکہ ثقافت کے تمام پہلو محض خیالات کے زبانی اظہار سے نہیں بلکہ زندگی گزارنے کے اصل عمل سے جنم لیتے ہیں۔ یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ معاشرہ اقدار کے کسی ایک پہلو مثلاً مذہب پر یقین رکھتے ہوئے ہی مادی مفادات کے پیش نظر عملی طور پر بالکل مختلف اقدار پر عمل پیرا ہو۔ ثقافت کل عوام کے طرز زندگی اور رسم و رواج سے مرتب ہوتی ہے۔ اسی طرح آرٹ انسانی سماج کی خواہشات، تضادات، امنگوں، تمناؤں، خوشیوں، غموں اور کامرانیوں کا اعلیٰ ترین اظہار ہوتا ہے۔
مذہب، فلسفہ اور آرٹ، مختلف شکلوں میں قبل از تاریخ کے عہد سے تعلق رکھتے ہیں اور وہیں سے انکی شروعات ہوئی۔ جس طرح آرٹ اور کلچر کا آپس میں تعلق ہے اسی طرح آرٹ کا فلسفے سے گہرا تعلق ہے۔ جہاں آرٹ احساسات اور جذبات کو محسوس کرتے ہوئے انکی عکاسی اور ترجمانی کرتا ہے اور دنیا کے بارے میں جمالیاتی احساسات کی نشوونما کرتا ہے اور اسی طرح فلسفہ انسانی سماج، دنیا اور کائنات کو دیکھنے کے انداز اور تشریح کا تعین کرتا ہے۔ اس لئے مارکس نے کہا تھا کہ آرٹ، فلسفہ اور مذہب کی جڑیں انسانی شعور میں بہت گہری ہیں اور اگر زیادہ نہیں تو یہ لاکھوں برس پر محیط ہیں کیونکہ یہ قبل از تاریخ موجود تھے اور وہیں سے ترقی کے سفر پر گامزن ہوئے۔
آرٹ، رنگوں اور اشکال اور دوسری نوعیت کی تخلیقات کے ذریعے فکر کے جمالیاتی پہلوؤں کو تسکین بخشتا ہے۔ یہ ایک ایسا تخلیقی عمل ہے جو حقیقت کے ادراک کا تحرک پیدا کرتا ہے۔ اگر تخلیق سچ پر مبنی نہیں، آرٹ حقیقت کا عکاس نہیں تو وہ آرٹ نہیں۔ عظیم آرٹ ہمیشہ آفاقی ہوتا ہے۔ ارنسٹ فشر کے بقول ’’بھرپور زندگی کیلئے انسانیت کی جستجو کا نام آرٹ ہے‘‘۔ مگر طبقاتی سماج میں انسانوں کی وسیع اکثریت اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے استعمال نہیں کر سکتی اور وہ لاشعوری طور پر یہ کمی محسوس کر رہے ہوتے ہیں اور مختلف طریقوں سے اسے پورا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ ہر عہد کے غالب خیالات حکمران طبقات کے خیالات ہوتے ہیں۔ اسی طرح ٹراٹسکی کے مطابق محنت کش طبقہ انقلاب سے پہلے اپنی ثقافت تبدیل نہیں کر سکتا۔ سرمایہ داری کے تحت اس کے حالاتِ زندگی اس کی اجازت نہیں دیتے۔ اگرچہ اس ثقافت کے بیج ایک طبقاتی سماج میں بھی موجود ہوتے ہیں۔
فنکار یا آرٹسٹ عموماً حساس ہوتے ہیں اور سماجی تبدیلی کے پیمانے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ منشی پریم چند کہتے ہیں کہ ادب اس تحریر کو کہتے ہیں جس میں حقیقت کا اظہار ہو، جسکی زبان پختہ اور لطیف ہو، دل و دماغ پر اثر ڈالنے کی صفت ہواور یہ صفت ادب میں بس اسی صورت میں پیدا ہوتی ہے جب اس میں زندگی کے حقیقی تجربے بیان کئے گئے ہوں۔ موثر ادب زندگی کے حقائق کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ادب کی مختلف شکلوں مثلاً ناول اور افسانے کا اپنا اپنا کردار ہے۔ سماجی و سیاسی پستی، جمود یا پھر تحریک اور انقلاب کی ادب پر چھاپ ہوتی ہے۔ ایک طبقاتی سماج میں آرٹ بھی غیر طبقاتی یا ’’غیر جانبدار‘‘ نہیں ہوتا نہ ہو سکتا ہے اور حکمران یا محنت کش طبقے میں سے کسی ایک کے مفادات کی نمائندگی ہی کرتا ہے۔
شاعری آرٹ یا فنونِ لطیفہ کی سب سے قدیم صنف ہے۔ اس قدیم روایت کا عملی مقصد یہ تھا کہ سماج میں شاعر یا قصہ گو تمام معلومات کو زبانی قبیلے تک پہنچاتا تھا اور یہی شاعری کی شروعات تھی۔ مگر سماج کی طبقاتی تقسیم کیساتھ سماج کے ہر پہلو میں تبدیلیاں آئیں جیسا کے مادر شاہی نظام کا خاتمی اور پدر شاہی کا قیام۔ ابتدائی سماجوں میں دیویوں کے مجسمے اور مصوری مادر شاہی نظام کی عکاس تھی، بعد ازاں ہمیں نر دیوتانظر آتے ہیں جو پدر شاہی کا اظہار تھے۔ موسیقی سے رقص سے جنم لیا اور قدیم اشتراکی طور پر شکار کرنیوالے معاشرے کے لوگ اجتماعی رقص کرتے تھے جس میں سارا قبیلہ شامل ہوتا تھا اور اس کا تعلق ہمیشہ کسی پیداواری سرگرمی سے ہوتا تھا۔ اکثر وہ ان پرندوں یا جانوروں کی حرکات و سکنات کی نقالی میں رقص کرتے تھے جن کا وہ شکار کرتے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ایک سماجی سرگرمی تھی جس کا تعلق پیداواری عمل سے تھا۔ یعنی یہ فن برائے فن نہیں ہوتا تھا۔
انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار معاشی غلامی اور قلت سے آزادی کی صورت میں کہیں زیادہ بلند پیمانے پر ہوگا۔ جیسا کہ ارسطو نے کہا تھا کہ انسان کو غورو فکر کرنے کا وقت تب ملتا ہے جب اسے ضروریاتِ زندگی کی غلامی نہ ہو۔ مصر میں علم فلکیات اور ریاضیات کی دریافت کی وجہ بھی پروہتوں کو حاصل فارغ وقت تھا۔ سوشلزم کے تحت انسانیت مشقت سے آزاد ہو کر ’’فارغ‘‘ رہنے کا حق کرے گی،یہی فراغت نہ صرف آرٹ بلکہ سائنس اور تسخیر کائنات پر صرف ہو گی۔ سوشلزم کے تحت انسان اپنی تمام تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے گا۔ یوں سوشلزم کی جدو جہد محض انسان کی مادی و جسمانی ضروریات کی لڑائی نہیں، یہ محض روٹی، کپڑے کی لڑائی نہیں بلکہ انسان پہلی بار مانگ اور ضرورت سے آزاد ہو گا۔ اینگلز نے سوشلزم کو ضرورت کی محتاجی سے بہتات اور آزادی تک کی چھلانگ قرار دیا تھا۔ سوشلسٹ سماج میں ہر انسان کو اتنا وقت میسر آئے گا کہ وہ حیوانی ضروریات سے آزاد ہو کر انسانی ضروریات یعنی حس جمالیات کی تسکین اور تخلیق پر توجہ دے سکے۔ تاریخ میں پہلی بار آرٹ حکمران طبقے کی اجارہ داری سے آزاد ہو گا اور سماجی زندگی کا اہم ترین حصہ بنے گا۔ جیسا کہ ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ عجائب گھر اور گیلریاں وغیرہ آرٹ کیلئے جبری مشقتی کیمپوں کی حیثیت رکھتے ہیں، ضروری ہے کہ آرٹ کو اس قید خانے سے آزاد کروا کر زندگی کیساتھ جوڑا جائے۔ آرٹ جن تضادات کا اظہار کرتاہے انہیں صرف آرٹ کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ٹھوس مادی اور سماجی تضادات ہیں۔ طبقاتی نظام کو عملی طبقاتی جدوجہد کے ذریعے سوشلسٹ انقلاب برپا کرتے ہوئے ہی پاش پاش کیا جا سکتا ہے اور آرٹ اس جدوجہد کا اہم جزو ثابت ہو سکتا ہے۔