کامریڈ ارسلان غنی برطانیہ کی کیمرج یونیورسٹی میں گریجویٹ یونین کا الیکشن جیتنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔4اپریل کو راولا کوٹ کشمیر میں منعقد ہونے والی انقلابِ پاکستان یوتھ کانفرنس کیلئے انہوں نے اپنا آڈیو خطاب خصوصی طور پر بھجوایا جو کہ پیشِ خدمت ہے۔
’’آل پاکستان پراگریسو یوتھ الائنس کے نوجوانوں کو میرا سرخ سلام عرض ہے۔ یہ میرے لیے بہت اعزاز کی بات ہے کہ PYAکی اس کانفرنس میں مجھے اپنی رائے کے اظہار کا موقع دیا گیا ہے۔
یہ ہم سب جانتے ہیں کہ تاریخ کا یہ دور نوجوانوں کے لیے کتنا کٹھن ہے۔ زندگی گزارنا اتنا دشوار پہلے کبھی نہ تھا۔اگر آج کل کے نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پر سکون زندگی بسر کریں گے تو وہ جان لیں کہ وہ غلط دور میں پیدا ہو گئے ہیں۔یہ وہ دور ہے جس میں ہمیں لڑنا ہو گا، اس نظام کے خلاف جس کا نہ کوئی ملک ہے، نہ کوئی مذہب ہے اور نہ کوئی قوم۔
موجودہ نظام کے خلاف ہماری جنگ بھی قوم، رنگ، نسل اور مذہب کی زنجیروں سے آزاد ہونی چاہیے۔پھر ہی ہماری جیت ممکن ہو سکتی ہے۔ ہماری جدوجہد ایک بین الاقوامی جدوجہد ہے۔ تعلیم کا حق اس دور کے محنت کشوں کی ایک بہت بڑی جیت ہے۔ تعلیم کے لیے لوگو ں نے اور ان کی قیادت نے انتھک جدوجہد کی اور تعلیم کو چند امیر لوگوں کے شوق سے نکال کر عام آدمی کے بنیادی حقوق کے طور پر لاگو کیا۔ مگر افسوس کہ انسانوں کے اس بنیادی حق پر پھر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔ہر ادارے میں فیس لاگو کر دی گئی ہے۔اور تمام سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو منافع خوری کا گڑھ بنا دیا گیا ہے۔ تعلیمی ادارے جو کبھی سارے حکومتی کنٹرول میں ہوتے تھے اب نجی ملکیت میں دیے جا رہے ہیں۔ جو تھوڑے بہت ادارے حکومتی کنٹرول میں ہیں ان کا بھی بیڑہ غرق کیا جا رہا ہے۔اس سارے طریقہ کار میں نقصان سب سے زیادہ غریب طلباء کا ہو رہا ہے۔
پرائیویٹائزیشن نے طبقاتی نظام تعلیم کو رواج دیا ہے ۔ ایک طرف وہ سکول ہیں جن میں طلباء کے پاس بنیادی سہولیات ہی نہیں ہیں۔ ان سکولوں میں نہ معیاری عمارتیں ہیں، نہ بیٹھنے کے لیے کرسیاں ہیں اور نہ ہی ماہر اور motivatedاساتذہ ہیں۔نصاب بھی متروک اور غیر معیاری ہے۔اس قسم کے سکولوں کے زیادہ تر بچے آگے پڑھنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ دوسری جانب پرائیویٹ سکولوں کا بازار گرم ہے۔ جہاں منافع خور دونوں ہاتھوں سے بچوں اور ان کے والدین کو لوٹ رہے ہیں۔ان دکانداروں کو حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے بلکہ اب تو کچھ پرائیویٹ سکولوں کی چین کھل گئی ہیں جو پورے ملک میں پھیل چکی ہیں۔
حکومت کے لیے نئے سکول کھولنا تو درکنار جو موجودہ سکول ہیں ان کو بھی نہیں سنبھال پا رہی۔شارٹ فال ہزاروں سکولوں کا ہے اور اس موقع پر حکومتی ٹھیکیدار ایک یا دو سکول کھول کر بہت تشہیر کرتے ہیں جس پر کروڑوں خرچ کیے جاتے ہیں۔
کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بدحالی بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔سب سے اول مسئلہ طلباء یونین پر پابندی کا ہے۔ یہ پابندی جو کہ وقت کے بد ترین آمرنے لگائی تھی بعد کی نام نہاد جمہوریتوں نے بھی نہیں اٹھائی۔اس پابندی کی وجہ سے کالج اور یونیورسٹیاں بدمعاشی کا گڑھ بن گئی ہیں۔نام نہاد مذہبی اور سیاسی ٹھیکیداروں نے ان اداروں میں اپنے غنڈے پالنے شروع کر دیے ہیں اور سیاستدانوں کے لیے اداروں میں ڈیرے جما لیے تھے۔نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں نے اجارہ داریوں سے پیسے پکڑ کر معصوم طلباکو ورغلا کر جہاد کے نام پر ریکروٹ کرنا شروع کر دیا تھا۔ غریب شخص کا تو ایک خواب ہی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو کالج یا یونیورسٹی میں بھیج دے۔
فیسوں کے علاوہ ٹیوشن کلچر نے تعلیم کا بنیادی مقصد تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔چند پروفیسروں نے ٹیوشن کے نام پر لوٹ مار کی انتہا کر دی ہے۔اس کے علاوہ پرائیویٹ یونیورسٹیاں طلبا کو سوائے تعلیم کے سب کچھ مہیا کر رہی ہیں۔یونیورسٹیوں کی دوڑ لگی ہوئی ہے کہ وہ سرمایہ داروں کے لیے کتنا بہترخام مال ( انسانوں کی صورت میں)تیار کر سکتی ہیں۔جو کہ ان کے منافع زیادہ سے زیادہ بڑھا سکے۔ان کورسز اور ڈگریوں کی زیادہ ڈیمانڈ ہے جو سرمایہ داروں کا منافع بڑھا سکیں جبکہ غریبوں کے لیے ان ڈگریوں کا حصول ایک خواب بن چکا ہے۔
یونیورسٹیوں میں وہ ریسرچ کرائی جا رہی ہے جن کا سوائے چند حکومتی افراد، پروفیسروں اور ٹھیکیداروں کی جیبیں بھرنے کے اور کوئی فائدہ نہیں یا پھر ملٹی نیشنل کے منافع بھرنے کے کام آئے۔اور اس مقصد کے لیے قوم کی خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے۔
اس سرمایہ داری نظام نے حکومتوں سے وسائل چھین لیے ہیں اور نجی سرمایہ داروں کی جیبیں بھر دی ہیں۔ بین الاقوامی حالات کچھ مختلف نہیں۔تعلیمی اداروں کو ان سرمایہ داروں کی ملکیت بنانے میں حکومتیں دنیا بھر میں سکولوں اور یونیورسٹیوں کے بجٹ میں کٹوتیاں کر رہی ہیں اور دوسری جانب فیسیں بڑھا رہی ہیں۔اس طرح یونیورسٹیوں کو کورسز چلانے کے لیے نجی کمپنیوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ فیسوں میں اضافے کے بعد طلبا نے بینکوں کا رخ کر لیا ہے ۔ اس طرح سرمایہ داروں اور بینکوں کو لوٹنے کا کھلا موقع ملا ہے۔
یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب نوکریاں نہیں مل رہیں۔ سرمایہ دار اور ان کی پالتو حکومتیں نوکریاں پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔بیروزگاری کی شرح آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔ان حالات میں غریب غریب تر اور درمیانہ طبقہ غریب ہو رہا ہے۔
لیکن یہ حالات ایسے نہیں رہیں گے۔ انہیں بدلنا ہو گااگر ہم چاہتے ہیں کہ انسان ذلت کی زندگی سے آزاد ہو ۔ان مسائل کا حل صرف اورصرف ایک سوشلسٹ انقلاب سے ہی ممکن ہے۔ ایسا انقلاب جو سرمایہ داروں کی لوٹی ہوئی دولت ان سے چھین کر عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرے اور سرمایہ داروں کی پالتو حکومت کو کنٹرول کر کے محنت کشوں کی قیادت کے حوالے کر دے۔اسی کانام بقا ہے، اسی کا نام سوشلزم ہے۔اور یہی وہ نظریہ ہے جس نے مجھے دنیا کی سب سے بڑی دائیں بازو کی یونیورسٹی میں الیکشن جتایا۔
آئیں ہم سب آل پاکستان پراگریسو یوتھ الائنس کے پلیٹ فارم سے یہ عہد کریں کہ ہم نوجوانوں کی ذلت آمیز زندگی کو بدل دیں گے اور ایک انقلاب کے لیے کوشاں ہوں گے۔وہی انقلاب جس کے لیے لیے بھگت سنگھ نے کوشش کی۔ میں PYAسے مکمل یکجہتی کا اعلان کرتا ہوں اور کیمبرج یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں طلبا اور نوجوانوں کی جدوجہد کی آواز بلند کرتا رہوں گا۔ شکریہ۔‘‘