| تحریر: لال خان |
ایک اور تعلیمی ادارہ دہشت گردی کا نشانہ بن گیا۔ دہشت گردی کے معمول بن جانے کے باوجود سماج اس واقعے پر پھر صدمے میں ہے۔ بدھ 20 جنوری کو چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی میں ہوئے اس حملے میں 21 افراد ہلاک اور پچاس زخمی ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر طلبہ ہیں، یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں اور کئی اشارے مل رہے ہیں جن کے مطابق ہلاکتیں اس سے کہیں زیادہ ہیں۔
جب میڈیا، حکمران اشرافیہ اور ریاست یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے تھے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں بڑی کامیابی ہوئی ہے اور دہشت گردی کے ناسور پر تقریباً قابو پا لیا گیا ہے، اسی وقت دہشت گردی کا یہ واقعہ رونما ہوا۔ 2016 کے پہلے بیس روز میں پورے ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں میں 60 سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ عام لوگ تشویش اور اس سے زیادہ ہولناک حملوں کے خوف کا شکار ہیں۔ آخری تجزیے میں یہ واقعات مجبور عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہیں جو پہلے ہی اس متروک اور ظالم نظام کے معاشی اور سماجی بحران کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
اگرچہ 2015ء میں حملوں کی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن دہشت گردی کا عفریت جوں کا توں موجود ہے اور چارسدہ کے حملے سے یہ واضح ہے کہ فوج اور حکومت کے دعووں کے بر عکس دہشت گردی کا نیٹ ورک اور خطرہ بدستور قائم ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے دعوے ہیں،فوجی آپریشن دو سال سے جاری ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کے خاتمے کا دعویٰ غلط ثابت ہو رہا ہے۔ تلخ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔
پاکستانی دہشت گرد قبائلی علاقوں میں موجود پنا ہگاہوں سے نکل کر افغانستان کے سرحدی علاقوں میں جا گھسے ہیں جہاں سے وہ قاتلوں کے جتھوں کو ٹریننگ دے کر پاکستان بھیج رہے ہیں۔ کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کا سابقہ سرگرم رکن خلیفہ عمر منصور کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں اپنے گروپ کا سربراہ ہے۔ اس نے باچا خان یونی ورسٹی پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ وہ افغانستان کے مشرقی صوبے نگر ہار کے ضلع نازیان سے کاروائیاں کر رہا ہے۔ فوج کے مطابق دہشت گردوں کی تمام فون کالز افغانستان سے ٹریس ہوئی ہیں۔ دسمبر 2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک سکول اور گزشتہ برس ستمبر میں پی اے ایف بیس بڈھ بیر پر حملوں کا ماسٹر مائنڈ بھی یہی ہے۔ فروری 2015ء میں پشاور میں امامیہ مسجد پر ہونے فرقہ وارانہ حملے میں بھی اسی کا ہاتھ تھا جس میں20 نمازی ہلاک ہو ئے تھے۔
اے پی ایس کے دلخراش حملے کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے فوراً کابل کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کا سرکاری مقصد نگر ہار، کنڑ اور دوسرے علاقوں میں موجود دہشت گردوں کی پنا گاہوں کے خاتمے کے لیے اشرف غنی سے مدد مانگنا تھا۔ اشرف غنی نے پاکستان سے بھی اسی طرح کی کاروائیوں کا مطالبہ کیا۔ ایک مرتبہ پھر چارسدہ کے دہشت گردوں کی کالز افغانستان سے ٹریس ہونے پر فوج نے اس کاروائی کے منصوبہ سازوں تک رسائی اور ان کے خاتمے میں مدد مانگنے کے لیے افغان حکومت سے رابطہ کیاہے۔ اسے بوکھلاہٹ کہیں یا سادگی؟ سچ تو یہ ہے کہ بیچارے افغان صدر اور اس کی حکومت کا دہشت گردوں کی پناگاہوں والے علاقوں پر بمشکل ہی کوئی کنٹرول ہے، افغان ریاست سامراجی حملہ آوروں کا بنایا ہوا مصنوعی اور کمزور ڈھانچہ ہے اور ملک کے طول و عرض میں اس کی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ نیٹو کی سنگینوں تلے یہ ’’جمہوریت‘‘ ایک بیہودہ تماشا ہے۔
اگر پاکستان کی ریاستی ایجنسیاں افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا سکتی ہیں تو افغان حکومت کے کچھ حصوں کے بھی یہاں بربادی پھیلانے والے پاکستانی طالبان کے ساتھ مراسم ہیں۔ افغان ریاست کے کئی طاقتور دھڑوں کی پاکستان دشمنی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس ریاستی اشرافیہ کے آپس میں بھی اختلافات ہیں۔ پاکستانی ریاست کے کچھ حصے ہندوستان کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں لیکن ایک بات اہم ہے کہ جنرل شریف اور نواز حکومت نے یہ الزام نہیں لگایا۔ افغانستان اور خطے کی پیچیدہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ان الزامات میں سے کسی کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن حکامِ بالا میں پایا جانے والا یہ اختلاف رائے حکمران ڈھانچے میں تناؤ اور اس مسلسل جنگ کے ریاست پر اثرات کو عیاں کر رہا ہے۔
اب پاکستان کے اکثر تجزیہ نگار اس حقیقت کو دہرا رہے ہیں جس کا سب سے پہلے اعتراف ہیلری کلنٹن نے کیا تھا کہ یہ اسلامی دہشت گرد انہی کے اپنے بنائے ہوئے ہیں۔ خونخوار دہشت گردی کے اس نیٹ ورک کو بنا نے میں پاکستان کی ریاستی ایجنسیوں کو بطور اوزار استعمال کیا گیاجس کا مقصد 1979ء میں شروع ہونے ڈالر جہاد کے ذریعے افغانستان کی انقلابی حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔ منشیات اور وحشیانہ جرائم پر مبنی انفرا سٹرکچر امریکی سامراج اور اس کے ’’اتحادیوں‘‘ نے ہی تعمیر کیا تھا۔ اب یہ کالا دھن دہشت گردوں کو اربوں ڈالر کی فنڈنگ کا بنیادی ذریعہ بن چکا ہے۔
ماضی میں اس خطے میں امریکی سامراج، پاکستانی ریاست اور خلیجی بادشاہوں کے مفادات کے لیے پراکسی بننے والے کہیں زیادہ پھیل کر کئی حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ لوٹ مار اور کالے دھن میں حصے کی خاطر ان کے کئی زہریلے جھتے بن چکے ہیں۔ وہ اب دہشت گردی کی منڈی میں کرائے پر اور بکنے کے لیے موجود ہیں۔ اس کاروبار میں کسی چیز کی بھی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ افغانستان اور پاکستان میں ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف لوٹ مار کے لیے پراکسی گروہوں کی تلاش میں کئی علاقائی اور عالمی سامراجی طاقتیں ان کا مول لگا رہی ہیں۔ ان کے دہشت گرد حملے جتنے زیادہ ظالمانہ اور درندگی پر مبنی ہوں گے اتنی ہی ان گروپوں کی تشہیر ہو گی اور ان کی قیمت اور ان کے مالکان کے منافعے اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ خطے میں کئی گروپوں کی جانب سے داعش کا نام استعمال کرنے کی وجہ داعش میں شمولیت نہیں بلکہ داعش کے ’’برانڈ‘‘ کی دہشت ہے جس سے زیادہ اچھا مول لگ سکتا ہے۔
تقریباً چار دہائیوں کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے دہشت گردی کا یہ منافع بخش کاروبار ریاستوں، بالخصوص پاکستان اور افغانستان، کے اندر سرائیت کر چکا ہے۔ اس ساز باز پر پردہ ڈالنے کے لیے اکثر اسے سیاسی اسلام (Political Islam) کے نظر یے تلے چھپایا جاتا ہے۔
بائیں بازو کے انہدام اور پاپولسٹ قیادت کی غداریوں سے عوام مزید بے حسی اور مایوسی کا شکار ہوئے ہیں۔ سامراجی اور علاقائی ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے اسلامی بنیاد پرست پراکسی گروہ اب عفریت بن کران کے قابو سے باہر ہیں۔ نہ صرف ریاستوں کا نظم و ضبط تتربتر ہے اورادارے بکھر رہے ہیں بلکہ سماج میں ان کی بربریت تہذیب کے لئے خطرہ بن چکی ہے۔ یہ آسیب بن کر انہیں ہی ڈرا رہے ہیں جنہوں نے اپنی ہوس اور بالا دستی کی خاطر انہیں تخلیق کیا تھا۔
دہشت گردی اب ایک عالمگیر مظہر بن چکی ہے۔ جنوب ایشیا سے لے کر مشرق وسطیٰ اور افریقہ تک، سماج تاراج ہو رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ معیشت کا بحران شدید تر ہے اور اس نظام کی تاریخی متروکیت کا اظہار ریاستوں کی ٹوٹ پھوٹ، سفارتی بحران اور سیاسی انتشار میں ہو رہا ہے۔ نیم رجعت ، سماجی جمود اور انقلابی تحریکوں کی وقتی پسپائی کے عہد میں گلتے سڑتے معاشروں کا تعفن، دہشت اور تشدد کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
دہشت گردی ان درندوں کے ساتھ کسی مذاکراتی عمل اور نہ ہی انہیں تخلیق کرنے اور پالنے پوسنے والی ریاستوں کے فوجی آپریشن کے ذریعے ختم ہو سکتی ہے۔ صرف نواجون اور محنت کش ہی انقلابی تحریکوں میں ابھر کر سیاہ رجعت کی ان قوتوں کا صفایا کر سکتے ہیں۔ یہ معروضی صورتحال اور عہد زیادہ عرصے نہیں چلے گا۔ ہم نے حالیہ برسوں میں عوام کی تحریکیں دیکھی ہیں ، بالخصوص مشرق وسطیٰ اور یورپ میں۔ نئی بغاوتیں ابھرنے میں زیادہ وقت نہیں ہے۔ ان بربادیوں کو پیدا کرنے والا یہ نظام لینن کے الفاظ میں ’’نہ ختم ہونے والی وحشت‘‘ ہے، اس وحشت سے نجات بحیثیت مجموعی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔
متعلقہ:
دہشت گردی، بوسیدہ سرمایہ داری کا نچڑا ہوا عرق
’’جہاد‘‘، کالا دھن اور دہشت گردی