اقتدار کے ہچکولے

[تحریر: لال خان]
آج دنیا میں ایسے کم ہی ممالک ہوں گے جن کے حکمران اعتماد سے حاکمیت کرنے کے قابل ہوں۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی کریش کے بعد کے صرف دو سالوں میں یورپ میں گیارہ حکومتیں گری تھیں۔ سیاسی عدم استحکام اور ٹوٹ پھوٹ کا یہ عمل تاحال جاری ہے۔ لیکن پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں حکومت کرنے کے لئے آخری درجے کی ڈھٹائی، بے حسی اور مکاری درکار ہوتی ہیں۔ یہاں سیاست کا کوئی نظریاتی معیار ہے نہ ہی ضمیر نام کی کسی چیز سے مقامی سیاستدان آشنا ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا عوام کو معاشی طور پر کچلنے اور نفسیاتی طور پر مفلوج کرنے کا اوزار بن چکا ہے جس کے ذریعے سے لوگوں کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹا کر مسلسل حکمرانوں کے آپسی تنازعات پر مبذول رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی میڈیا کا سماجی کردار ہے جس کے بدلے میں ملٹی نیشنل اجارہ داریاں اور بڑے سرمایہ دار اسے اربوں روپے کے اشتہاردیتے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے ریاست کے مختلف اداروں کے درمیان چپقلش جاری ہے۔ آج کل پھر سے ’’فوجی‘‘، ’’سیاسی‘‘ اور ’’عدالتی‘‘ اداروں کے درمیان تنازعات کو یوں اچھالا جارہا ہے جیسے کوئی قیامت آنے والی ہو۔ فوجی قیادت کے حالیہ بیان کو ایسے پیش کیا جارہا ہے گویا مارشل لا لگنے والا ہے۔ ضیا آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والے سیاستدان جمہوریت کے علمبردار بنے بیٹھے ہیں۔ حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کی آپسی لڑائیاں کتنی ہی شدید کیوں نہ ہوں، محنت کش عوام کو خون چوسنے کے معاملے میں یہ ہمیشہ متحد ہوتے ہیں۔ سماج میں جب بھی کوئی انقلابی ابھار آتا ہے تو یہ سب استحصالی طبقے کے مفادات کی حفاظت کے لئے یکجا ہوجاتے ہیں۔ لیکن آج کل چونکہ کوئی ملک گیر عوامی مزاحمت موجود نہیں ہے لہٰذا حکمران طبقے کے مختلف حصے بے فکر ہوکر لوٹ مار کے معاملات پر آپس میں گتھم گتھا ہیں۔
حکمرانوں کے یہ باہمی تنازعات بے سبب نہیں ہیں۔ کسی بھی معاشرے کا معاشی اور سماجی زوال لامحالہ طور پر اپنا اظہار سیاست میں کرتا ہے۔ عوام اگر سیاست کے میدان سے باہر ہوں تو بھی سماج کے خمیر میں پائے جانے والے تضادات شدت اختیار کرجانے کی صورت میں ریاست اور سیاست کو مسلسل عدم استحکام میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ آج پاکستان کا سماج ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔ ملکی خزانہ لٹ پٹ چکا ہے، قرضے کے انباروں نے ریاست کو معذور کر دیا ہے اور مجموعی طور پر معیشت زوال پزیر ہے۔ لیکن زیادہ شدید بحران میں حکمرانوں کی ہوس کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتی ہے۔ جب لوٹنے کے مواقع کم پڑ جائیں تو ناگزیر طور پر لٹیرے ایک دوسرے کے مال پر نظر رکھنا شروع کر دیتے ہیں۔
جمہوریت آمریت کی بحث بالکل بے معنی ہے۔ عسکری افسر شاہی اور سیاست دان ہر اقتدار میں ہی شریک ہوتے ہیں۔ ثانوی نوعیت کی تبدیلیوں سے قطع نظر، سویلین بیوروکریسی کی ساخت اور ڈھانچہ بھی ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ مارشل لاؤں میں بھی سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقے کے ’’سویلین سیاستدان‘‘ ہی سیاسی نظام چلاتے ہیں اور جمہوری حکومتوں میں پردے کے پیچھے ہونے کے باوجود جرنیلوں کی طاقت اور اختیارات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ یہاں کے سیاستدان خود اتنے بدعنوان اور کمزور ہیں کہ عسکری قیادت کے سامنے سر نہیں اٹھا سکتے۔ اس حقیقت کے پیش نظر جمہوری حکومتوں میں فوج نہ صرف زیادہ مراعات حاصل کرتی ہے بلکہ اقتصادی شعبے میں اس کی حصہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس وقت فوج کے مختلف ادارے صنعت اور سروسز کے شعبوں میں سب سے بڑے سرمایہ کار ہیں۔ تاہم بعض اوقات مخصوص حالات کے زیر اثر ریاست کو کوئی ایک دھڑا انتہا پر چلا جاتا ہے جس کے نتیجے میں غیر معمولی صورتحال جنم لیتی ہیں۔
حکمرانوں کے مختلف دھڑوں میں تکرار کا آغاز عموماً کرپشن کے الزامات سے ہوتا ہے۔ بدعنوانی پر تحقیق کرنے والے ٹرانسپیرنسی انٹرنشیل جیسے اداروں کی رپورٹوں پر نظر دوڑائی جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ سیاستدان زیادہ کرپٹ ہیں ریاستی افسرشاہی۔ جرنیلوں سے لے کر سیاستدانوں اور بیوروکریسی تک، بڑے سرمایہ داروں، پراپرٹی کے بادشاہوں اور ٹھیکیداروں سے ’’تحائف‘‘ کی مد میں محلات، پلاٹ اور ہوائی جہاز وصول کرنا معمول بن گیا ہے۔ اب تو ان معاملات کو زیادہ باعث شرم بھی نہیں سمجھا جاتا اور دن دہاڑے ہی سب لین دین ہوتا ہے۔ بہت سے ’’اہل دانش‘‘ اور تجزیہ نگار بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں۔ ریاست اور سیاست کے ان داتا ’’تحائف‘‘ کے بدلے میں ’’انتظامی‘‘ اور سیاسی معاونت فراہم کرتے ہیں تو وظیفہ خوار دانشوروں کے ذمے عوام کو نفسیاتی طور پر مسلسل منتشر اور کنفیوز رکھنے کا کام لگایا جاتا ہے۔ یہ زر خرید دانش اپنے تجزیوں اور تبصروں کی سیاہ پٹی پورے سماج کی آنکھوں پر چڑھائے رکھتی ہے۔ عوام کے سامنے صرف وہ متبادل پیش کیا جاتا ہے جو اس نظام کی حدود کو پامال نہ کرے۔ ان کے سامنے صرف اس چناؤ کا حق رہ جاتا ہے کہ وہ فوجی آمریت کے جبر سے برباد ہوں گے یا جمہوریت کے میٹھے زہر سے مرنا پسند کریں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت پر فوجی شب خون کے علاوہ اس ملک کے عوام نے ہر فوجی اور سویلین حکومت کے خاتمے پر خدا کا شکر ہی ادا کیا ہے۔ ہر حکومت اپنے دور میں عوام کو اتنا ذلیل کر دیتی ہے کہ وہ عاجز آجاتے ہیں۔ جب نام نہاد جمہوری حکومتیں عذاب مسلسل بن جاتی ہیں تو انہیں سخت گیر فوجی آمریت کے ذریعے بدعنوان سیاستدانوں سے چھٹکارے کا دلاسہ دیا جاتا ہے۔ جب وہ آمریتوں کے معاشی، سیاسی اور سماج جبر سے عاجز آجاتے ہیں تو انہیں جمہوریت کی بحالی کے نام پر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا جاتا ہے۔
لیکن معاشی اور اقتصادی بحران کے شدت اختیار کر جانے سے کالا دھن اور بدعنوانی ریاست میں اس حد تک سرائیت کر چکے ہیں کہ آج حاکمیت کے طریقے میں تبدیلی بھی حکمرانوں اور ریاستی پالیسی سازوں کے لئے آسان نہیں رہی ہے۔ جن ریاستی اداروں سے ماضی میں یہ کام لیا جاتا تھا وہ گل سڑ کے کھوکھلے ہوچکے ہیں۔ ریاست کا ہر ستون داخلی دھڑے بندیوں کا شکار ہے اور جھٹکا لگنے کی صورت میں ٹوٹ کے بکھر سکتا ہے۔ ایک بوسیدہ معیشت، دہشت گردی اور بربادی کے معاشرے میں براہ راست فوجی حاکمیت کو مسلط کرنا حکمران طبقات کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ فوج کے اندر بھی ایسے تضادات موجود ہیں جو اس ادارے کی چین آف کمانڈ کو متاثر کر رہے ہیں۔ امریکی سامراج اور ریاست کے سنجیدہ پالیسی ساز جانتے ہیں کہ براہ راست فوجی آمریت عوام کو مشتعل کر کے بغاوت کو ابھار سکتی ہے۔ لہٰذا آج مارشل لا لگانا اتنا آسان نہیں ہے اور فوجی قیادت یہ رسک لینے کے لئے شاید تیار نہیں ہے۔ تاہم کچھ مہم جو قسم کے جونیئرافسران کی جانب سے ایسی کسی کوشش کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا، اگرچہ یہ زیادہ ممکنہ تناظر نہیں ہے۔ لیکن ایسی کسی صورت حال میں برسر اقتدار آنے والی فوجی جنتا کے سامنے توانائی اور معیشت کے بحران سے لے کر دہشت گردی، بے روزگاری اور بدعنوانی تک، مسائل کا انبار ہوگا۔ سرمایہ داری کا ایسا کون سا نسخہ ہے جسے اب استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی؟ ایسی کسی بھی بوناپارٹ اسٹ طرز کی فوجی حکومت کو ناگزیر طور پر اس نظام کی بنیادوں پر وار کرنا پڑے گا۔
ایک لاغر اور ناکام ہوتی ہوئی جمہوری حکومت کے معاملات میں فوج کی مداخلت سیاسی اور ریاستی بحران کی شدت میں اضافے کی وجہ ہے۔ مذہبی دہشت گردی، فرقہ وارانہ قتل و غارت گری، مہنگائی، بدعنوانی اور سیاسی و ریاستی بحران اس متروک نظام کو لاحق لاعلاج اور جان لیوا مرض کی علامات ہیں۔ عدم استحکام اس ملک کا معمول بن چکا ہے۔ یہ اقتدار دھماکہ خیز واقعات سے مسلسل ہچکولے کھارہا ہے۔ عوام نے آمریتوں کی اذیتیں برداشت کی ہیں اور اب جمہوریت کے عذابوں سے بھی تنگ آچکے ہیں۔ اس ملک میں بسنے والی کروڑوں زندہ لاشوں کو اس زندگانی کی خواہش اور جستجو جو یہ نظام انہیں دینے سے قاصر ہے۔ روز روز کی اذیت سے نجات کی تلاش انہیں تاریخ کے میدان عمل میں اترنے پر مجبور کردے گی۔ حکمرانوں کی آپسی لڑائیاں اور بیان بازیاں بے معنی ہیں۔ اصل لڑائی تب شروع ہوگی جب دو طبقات انقلاب کے میدان میں آمنے سامنے آئیں گے!

متعلقہ:
جمہوریت کا بہروپ
جمہوریت کی کٹھنائیاں
’’پھیکی سیاہی‘‘