کوئٹہ کا مجرم کون؟

| تحریر: لال خان |

دہشت گردی کے پے در پے واقعات کوئٹہ کو تاراج کر رہے ہیں۔ ہر نیا واقعہ پہلے سے زیادہ وحشیانہ ہوتا ہے۔ ریاست اور حکومت کی طرف سے دہشت گردی کی کمر توڑنے کے ہر دعوے کے بعد دہشت گردپورے ملک میں ہر جگہ بلاخوف و خطر دوبارہ انتقاماً حملہ کرتے ہیں۔ پچھلے کچھ مہینوں سے کوئٹہ اس وحشت کا مرکز بن چکا ہے۔ دہشت گردی کو روکنے کے لیے اربوں روپے کے آلات اور چیک پوسٹوں کو ان بنیاد پرست دہشت گردوں نے مذاق بنا دیا ہے۔ دہشت گردی کے ہرواقعے کے بعد ریاست کے سکیورٹی اداروں کی زد میں دہشت گرد آئیں یا نہ آئیں مگر سیکورٹی کے نام پرعوام کی زندگیاں مزید مشکل بنادی جاتی ہیں، جو پہلے ہی سے اس ناکام اور درندہ صفت نظام کے ہاتھوں معاشی و سماجی جبر کا شکار ہیں۔
terrorism-in-pakistan-failed-state کوئٹہ ایک دلکش جگہ ہے، جس کی منفرد اور پرسکون خوبصورتی کے نظارے دیکھنے بہت سے سیاح آیا کرتے تھے، جہاں چاروں طرف موجود سنگلاخ پہاڑ اور پہاڑی علاقے اسے ایک نایاب ارضیاتی عجوبے کی شکل دیتے ہیں۔ 1935ء کے زلزلے میں یہ فوجی علاقہ تباہ ہوگیا تھا لیکن جلد ہی اسے دوبارہ تعمیر کر دیا گیا۔ یہ چھوٹا سا شہر سیاحت کے لیے نہایت ہی خوشگوار تھا جس کی گلیاں صاف اور ماحول تر و تازہ اور صحت مند تھا۔ بہت عرصہ نہیں گزرا جب مختلف قومیتوں، مذاہب اور نسلوں کے لوگ یہیں پر قابل مثال بھائی چارے کی فضا میں رہتے تھے۔ لیکن بد قسمتی سے آج کوئٹہ ایک بے ہنگم پھیلتا ہوا شہر ہے، جس کی پرہجوم سڑکوں اور تعفن زدہ گلیوں کوہر وقت فرقہ وارانہ قتل و غارت اور دہشت گرد حملوں کا خطرہ رہتا ہے۔ آج اس شہر کو ایک خونریز، شدید اور پیچیدہ جنگ کا سامنا ہے۔
سوموار کو پولیس ٹریننگ کالج پر ہونے والے وحشیانہ حملے کی ذمہ داری ’لشکر جھنگوی‘ نے قبول کی جس میں چونسٹھ اہلکار ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ اس واقعے نے 08 اَگست کو سول ہسپتال میں ہونے والے خود کش حملے، جس میں 70 سے زائد لوگ قتل ہوئے تھے، کے زخموں کو دوبارہ ہرا کردیا اور کوئٹہ کے باسیوں کے خوف میں مزید اضافہ کردیا۔ اس فرقہ وارانہ دہشت گرد تنظیم کا نام ایک دیوبندی ملاں ’حق نواز جھنگوی‘ کے نام پر رکھا گیا ہے اور یہ پاکستان میں تیس سال سے جاری شیعوں کا قتل عام کرنے والی ایک اہم تنظیم ہے۔ اس نے سپاہ صحابہ کی بنیاد بھی رکھی جو ملک میں مذہبی قتل عام کا آغاز کرنے والی تنظیموں میں سے ایک تھی۔ پاکستان کے سابق فوجی جابر حکمران جنرل ضیاالحق کی جانب سے 80ء کی دہائی میں فرقہ وارانہ نفرت اور مذہبی بنیادپرستی کو پروان چڑھانے کی پالیسی نے ہی 1985ء میں سپاہ صحابہ کی تخلیق کی۔ اس جھگڑے نے اس وقت زیادہ خونی شکل اختیار کی جب ایک مدمقابل شیعہ بنیادپرست تنظیم’ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ‘ نے ان سنی تنظیموں کو چیلنج کیا۔ بہت سے مغربی صحافی اپنی سادہ لوحی میں تمام تر شیعہ مخالف فرقوں کو سنی سمجھتے ہیں، جبکہ ایسے بہت سے فرقے ہیں جو ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں، ان کو بھی نوآبادیاتی ذہنیت کے حامل مقامی لکھاری غلط نام سے’ سنی ‘کہتے ہیں۔ پہلے سے درجنوں سنی، شیعہ اور وہابی فرقے موجود ہیں جو تیزی سے مزید تقسیم در تقسیم ہو کر نئے نئے فرقے بنا رہے ہیں۔
تاہم 1996ء میں لشکر جھنگوی، ریاض بسرا کی قیادت میں سپاہ صحابہ سے الگ ہوگئی۔ لشکر جھنگوی، ملاعمر کے طالبان کے قریب ہورہی تھی جو امریکی حمایت سے افغانستان پر قبضہ کرنے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ طالبان اور لشکر جھنگوی کی بنیادیں ایک جیسی ہیں جو اسلام کے دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور برصغیر میں اسلامی احیا کی تحریک سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس نظریاتی قربت کی بنیاد پر طالبان نے ریاض بسرااور اس کے گروپ کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیں۔
دو دہائیوں کے بعد بھی افغانستان میں لشکر جھنگوی کے ٹریننگ کیمپ سرگرم عمل ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ کیمپ پاکستانی جرائم پیشہ افراد اور مافیا کے ان داتاؤں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ اگست 2001ء میں جنرل پرویز مشرف نے بہت سی مسلح تنظیموں پر پابندیاں عائد کردیں جن میں لشکر جھنگوی سرفہرست تھی۔ مئی 2002ء میں ریاض بسرا مارا گیا اور اس کے بعد اس گروپ نے القاعدہ کے ساتھ روابط استوار کیے۔ حالیہ دنوں میں داعش کے ساتھ اس کے رابطوں کے چرچے ہیں۔ لشکر جھنگوی کی بدنام زمانہ کاروائیوں میں امریکی صحافی ڈینیل پرل کا اغوا اور سرقلم کرنا، کراچی میں فرانسیسی انجینئروں پر حملہ آور اسلام آباد کے ایک گرجا گھر پر حملہ بھی شامل ہے۔ ان واقعات میں سینکڑوں معصوم انسان لقمہ اجل بن گئے۔
تاہم سب سے اہم سوال یہ ہے کہ تواتر سے ہونے والے ان دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے اصل مقاصد کیا ہیں؟ کون اس سے مستفید ہوتا ہے؟ حکومت اور اس کے وزرا اور فوج کے بیانات اور ٹویٹس سب ایک ہی نوعیت اور انداز کے ہیں۔ بیرونی مداخلت کے الزامات، جو اگرچہ جزوی طور پر درست ہیں، ان وحشیانہ کاروائیوں کی واحد وجہ نہیں ہیں۔ ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ’را‘ بلاشبہ خطے کے مختلف حصوں میں متعدد پراکسی جنگوں میں ملوث ہے۔ افغان حکومت کے اپنے مقاصد ہیں اوروہ تیزی سے اپنے دوست اور دشمن تبدیل کرتی رہتی ہے۔ لیکن یہ کسی حکومت یا ریاست کی طرح بھی نہیں ہے۔ سامراجی حملے کے پندرہ سال بعد بھی کوئی حقیقی ’افغان نیشنل آرمی‘ وجود نہیں رکھتی۔ یہ ایک ملغوبہ ہے، سامراجی احکامات کے زیر سایہ ایک نام نہاد ادارہ، جس کے پاس اپنا کوئی اختیار نہیں ہے۔ لیکن یہاں سے لگائے جانے والے ’بیرونی مداخلت‘ کے یہ الزامات نہ تو قابل اعتبار اور نہ ہی کافی ہیں۔ خطے کی زیادہ تر ریاستیں اس وقت اپنے اندرونی یکجہتی کے مسائل، معاشی بحران اور سامراجی دباؤ کی وجہ سے کسی بھی صورت میں براہ راست جنگ میں نہیں جا سکتیں۔
اپنے مفادات اور مقاصد کے لیے’ پراکسیوں‘ کے ذریعے جنگ کرنے کا طریقہ بظاہر عقلمندانہ اور مؤثر سمجھا جاتا ہے لیکن اب اس کے اثرات الٹ ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ معاشی ناکامیاں، اب ریاست کی فوجی اور سفارتی ناکامیوں میں منعکس ہورہی ہیں۔ عوام کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے ان حکمرانوں کی ’پراکسیوں‘ کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک خاص وقت میں یہ وفادار اور تابع ’پراکسیاں‘ اپنی حمایتی ریاستوں کے لیے وبال جان بن جاتی ہیں۔ جن سیاہ رجعتی قوتوں کو اپنی ’حکمت عملی‘ اور مقاصد کے لیے پرورش دی گئی وہ قوتیں آج انہی ریاستوں کو برباد کررہی ہیں جو خود کو ٹوٹ کر بکھرنے سے روکنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ نہ صرف یہاں بلکہ دنیا کے بہت سے حصوں میں یہی کچھ ہو رہا ہے، جہاں ریاستیں اپنی پالیسیوں کو لاگو کرنے کے لیے تخلیق کی گئی ان وحشی قوتوں کے ہاتھوں برباد ہورہی ہیں۔ امریکی سامراج نے بنیاد پرستی کی جن پراکسیوں کو دنیا بھر کے انقلابات اورمحنت کشوں کی تحریکوں کو خون میں ڈبونے، بالخصوص افغانستان کے انقلاب کو کچلنے کے لئے پروان چڑھایاتھا، وقت آج انہی ’اندھی بلاؤں‘ کو امریکی مفادات کے بالمقابل لے آیا ہے۔
ہاتھیوں کی لڑائی میں ہمیشہ گھاس پھوس کچلے جاتے ہیں۔ اس خطے کے عوام ہی ان جنگوں میں سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ جب تک محنت کش طبقہ تاریخ کے میدان میں نہیں اترتا، یہ ریاستیں ان کو برباد کرتی رہیں گی۔ ریاست کے پاس ان مذہبی دہشت گرد گروہوں، جنہیں اس نے خود ماضی میں تخلیق کیا تھا، کو ختم کرنے کی صلاحیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ ان اداروں کے پاس دہشت گردی کو ختم کرنے کا نہ تو ارادہ ہے نہ ہی جرات۔ بار بار دہشت گردی کے واقعات اور شکستوں نے ان کو گہری مایوسی اور نااہلی میں مبتلا کردیا ہے۔ عراق، لیبیا اور یمن اس وحشت کی مثالیں ہیں کہ کیسے ان تضادات کی وجہ سے ریاستیں بکھر رہی ہیں۔ اگرچہ اس طرح کے تناظر کے امکانات یہاں زیادہ نہیں ہیں، لیکن برصغیر کی پرانتشار ریاستوں، ان کے اندرونی تضادات اور گہرے بحرانوں کی موجودگی میں اس خطرے کو یکسر خارج از امکان بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ صرف عوام ہی اس دہشت گردی کی وحشت سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ جب وہ تاریخ کے میدان میں انقلابی بنیادوں پر طبقاتی جدوجہد کے لیے اتریں گے تو ہی امید اور نجات کے چراغ روشن ہوں گے۔