سال 2019ء: افق پر منڈلاتے بحران اور انقلابی طوفان

تحریر: عمران کامیانہ

سال 2018ء کے اختتام اور نئے سال کے آغاز پر عالمی سرمایہ داری کے تضادات مسلسل شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ پوری دنیا ایک خلفشار کی لپیٹ میں ہے۔ 2008ء کے مالیاتی کریش سے سرمایہ داری اپنی تاریخی زوال پذیری کے جس نئے عہد میں داخل ہوئی تھی وہ مختلف اتار چڑھاؤ کیساتھ جاری ہے۔ کچھ سالوں کی جزوی ’بحالی‘ یا ٹھہراؤ کے بعد آنے والے دنوں میں معاشی گراوٹ کا عمل تیز ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پچھلے تقریباً دس سالوں کے دوران عالمی معیشت، سیاست اور سفارت میں مختلف کیفیات کے حامل عرصے آئے ہیں۔ لیکن نظام کے ارتقا کی عمومی سمت تنزلی کا شکار ہی رہی ہے۔ یوں ہر عہد مختلف مراحل اور کیفیات پر مشتمل ہونے کے باوجود سماجی ارتقا کے دھارے کے عمومی ابھار یا زوال کی غمازی کرتا ہے۔

سال 2019ء کے آغاز پر آئی ایم ایف نے ’قرضے کی تاریخ‘ کے عنوان سے عالمی قرضے پر تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جو خاصی دلچسپ بھی ہے۔ یہ رپورٹ 1950ء سے 2017ء تک 190 ممالک کے ڈیٹا پر مبنی ہے۔ جس میں ان ممالک کے حکومتی اور نجی قرضوں کو شامل کیا گیا ہے اور جو ’’دوسری عالمی جنگ کے بعد کے زمانے میں عالمی قرضے کی بے نظیر تصویر کشی کرتی ہے۔‘‘ رپورٹ کے مطابق 2017ء میں عالمی قرضہ 184 ہزار ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر کھڑا ہے جو عالمی جی ڈی پی کا 225 فیصد بنتا ہے۔ اس قرضے کو دنیا میں انسانوں کی تعداد پہ تقسیم کیا جائے تو ہر انسان 86 ہزار ڈالر (تقریباً ایک کروڑ انیس لاکھ روپے) کا مقروض ہے۔ امریکہ، چین اور جاپان دنیا کے مقروض ترین ممالک ہیں اور کُل عالمی قرضے کا نصف صرف ان تین ممالک کے مجموعی قرضے پر مشتمل ہے۔ جبکہ کُل عالمی پیداوار میں ان کا حصہ ان کے قرضوں سے کہیں کم ہے۔ 1950ء کے بعد نجی شعبے کا قرضہ تین گنا ہو چکا ہے اور یہ ’’عالمی قرضے میں اضافے کی قوت محرکہ ہے۔‘‘ 2008ء کے مالیاتی بحران کے بعد سے ابھرتی ہوئی معیشتوں (جن میں چین سرِ فہرست ہے) کے نجی شعبے کے قرضے میں اضافے کی شرح ترقی یافتہ معیشتوں سے بڑھ کے ہے۔ جبکہ کم آمدنی والے نام نہاد ترقی پذیر ممالک میں نجی قرضوں کا ہجم خاصا کم ہے۔ اگرچہ ان ممالک کے حکومتی قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 2017ء میں عالمی قرضے میں کچھ کمی (جی ڈی پی کا ڈیڑھ فیصد) کے باوجود 2009ء کی پچھلی بلند ترین سطح کے مقابلے میں دنیا آج 11 فیصد زیادہ مقروض ہے۔ رپورٹ کے مطابق ’’کئی ممالک میں مالیاتی پالیسیوں میں سختی (بشمول شرح سود میں اضافہ) لائی جا رہی ہے۔ جس سے قرضے کی کمی کے امکانات غیر یقینی ہیں… بڑھتے ہوئے کارپوریٹ اور حکومتی قرضے ایک مخفی ’فالٹ لائن‘تشکیل دے رہے ہیں۔ ہم عالمی مالیاتی بحران کے بعد ایک دہائی کے اختتام کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن ورثے میں ملنے والے بے حساب اور تشویشناک قرضے ابھی سروں پر منڈلا رہے ہیں۔‘‘ یہ بڑھتے ہوئے قرضے، جن میں بالخصوص 1980ء کے بعد تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا ہے، تاریخی متروکیت کی اُس موذی مرض کی علامات میں سے ایک ہیں جو سرمایہ داری کو لاحق ہے۔ اس گراف کا عمومی رجحان ایک سطحی نظر میں بھی واضح کر دیتا ہے کہ یہ عمل صدا جاری نہیں رہ سکتا۔لیکن سٹیرائڈز جیسے کردار کے حامل قرضوں کے زور پر سرمایہ داری کو چلانے کی حدود و قیود ہیں تو اِن قرضوں میں کمی کے لئے جو اقدامات اٹھائے جاتے ہیں وہ سماجی و معاشی تضادات کو مزید بھڑکا دیتے ہیں ۔ جیسا کہ 2008ء کے بعد کے پے درپے واقعات، جن میں احتجاجی و مزاحمتی تحریکیں، انقلابات، سیاسی اتھل پتھل اور معاشی بحرانات وغیرہ شامل ہیں، واضح کرتے ہیں۔’آسٹریٹی‘ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی سکڑاؤ کے تحت ساری معیشت ہی دھڑام ہونے لگتی ہے۔ شرح سود میں اضافہ، جو امریکی فیڈریل ریزرو کے پالیسی ریٹ میں اضافے کی وجہ سے پوری دنیا میں جاری ہے، قرضوں پر سود کی ادائیگی کو مشکل بنا دیتا ہے۔ بالعموم پوری دنیا میں ’مقداری آسانی‘ کی پالیسی اب ’مقداری سختی‘ میں بدل رہی ہے۔ یہ کیفیت ایک بار پھر اِس نظام کے بند گلی میں پھنس جانے کی غمازی کرتی ہے۔ پاکستانی سرمایہ داری بھی آج کل ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے جس کا تفصیلی جائزہ ہم نے اپنی دوسری تحریروں میں لیا ہے۔

امریکہ اور یورپ کی تمام بڑی معیشتیں پچھلے ایک یا دو سال کی نسبتاً بلند شرح نمو کے بعد سست روی یا جمود کا شکار ہو رہی ہیں۔ اٹلی کی معیشت دوبارہ باقاعدہ سکڑاؤ کا شکار ہو گئی ہے۔ مجموعی طور پر یورو زون کی معیشت کی شرح نمو 1.6 فیصد تک گر چکی ہے جو تقریباً ایک سال پہلے کی نسبت نصف ہے۔ یہی کیفیت مشرق میں بھی موجود ہے۔ جاپان کے جی ڈی پی کی شرح نمو 2018ء کی تیسری سہ ماہی میں صفر رہی ہے۔ چینی معیشت کی شرح نمو 2013ء کے بعد مسلسل کمی کا شکار ہے اور فی الوقت 6.5 فیصد پہ کھڑی ہے۔کوریا میں یہ 2 فیصد تک گر چکی ہے ۔ چین کے علاوہ دوسری ابھرتی ہوئی معیشتوں کا زوال تو کئی سال قبل ہی آشکار ہو گیا تھا۔ بالعموم 2019ء میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ’او ای سی ڈی‘ وغیرہ کے معاشی نمو کے اندازے 2018ء سے کم کے ہیں۔

معاشی سست روی کا ایک اور اظہار صنعتی دھاتوں کی قیمتوں میں تیز کمی سے بھی ہوتا ہے۔ مثلاً تانبے کی فی پونڈ قیمت جولائی 2018ء میں 3.20 ڈالر سے کم ہو کے اس وقت 2.62 ڈالر تک گر چکی ہے۔ سب سے بڑھ کے خام تیل کی قیمت، جو اکتوبر 2018ء میں 76 ڈالر فی بیرل تک بھی گئی، اِس وقت تیز گراوٹ کے بعد 45 ڈالر کے آس پاس منڈلا رہی ہے۔ اس سے نہ صرف تیل کی کمپنیوں کے منافعوں پر ضرب لگے گی بلکہ تیل کی معیشتیں بھی مزید خساروں کا شکار ہوں گی۔ لیکن سرمایہ داری کی صحت کا سب سے اہم اعشاریہ آخری تجزئیے میں شرح منافع ہی ہوتی ہے جو جرمنی، چین اور جاپان میں ایک بار پھر کمی کا شکار ہو رہی ہے۔ کارپوریٹ ٹیکسوں میں بڑے پیمانے کی چھوٹ اور تیل کی قیمتوں میں کمی وغیرہ سے امریکی سرمایہ داری کی شرح منافع پچھلے عرصے میں خاصی اوپر گئی ہے لیکن یہ رجحان مستقل نہیں ہے۔ عالمی سطح پر 2019ء میں منافعوں کی شرح میں تیز گراوٹ کا رجحان حاوی نظر آتا ہے۔ یوں گرتے ہوئے منافعوں، بڑھتے ہوئے قرضوں اور بڑی معاشی طاقتوں کے درمیان تجارتی جنگ جیسے عوامل کے تحت آنے والا سال ایک نئے معاشی بحران کے امکانات سے لبریز ہے۔

لیکن معیشت کے فوری مسائل سے ہٹ کے بھی سرمایہ داری کی زوال پذیری کا اظہار امریکہ جیسی سامراجی طاقتوں کے اپنے داخلی بحران میں ہوتا ہے۔ 2019ء کے آغاز پر امریکی حکومت کی حالت یہ ہے کہ مڈ ٹرم انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنی پارلیمانی اکثریت کھو چکا ہے۔ تادمِ تحریر اُس کا چیف آف سٹاف، اٹارنی جنرل، سیکرٹری دفاع اور محکمہ ماحولیات کا سربراہ‘ سب قائم مقام ہیں اور عارضی بنیادوں پہ کام کر رہے ہیں۔ کوئی سیکرٹری داخلہ نہیں ہے اور نکی ہیلی کے استعفے کے بعد اقوامِ متحدہ میں کوئی مستقل سفیر بھی نہیں ہے۔ ٹرمپ کے سابقہ کمپئین منیجر، نائب کمپئین منیجر، نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور ذاتی وکیل پہ مختلف جرائم کے مقدمات چل رہے ہیں۔ جبکہ کانگریس میں بجٹ منظور نہ ہو سکنے کی وجہ سے امریکی حکومت کے ایک چوتھائی ادارے ’شٹ ڈاؤن‘ کا شکار ہیں۔ 2008ء کے بعد امریکی سٹاک منڈیاں بدترین مندی کا شکار ہیں اور دسمبر میں تیز گراوٹ کے بعد سال 2018ء میں ’S&P 500‘ انڈیکس مجموعی طور پر 6.2 فیصد نیچے آگیا ہے۔ خود ٹرمپ کے اپنے مواخذے (Impeachment) کے امکانات موجود ہیں۔ موصوف کی غیر یقینی حرکات، بیانات اور فیصلوں، جن سے امریکہ کے اپنے اتحادی ممالک خاصے نالاں ہیں، کے پیش نظر ریاست کے مخالف اور زیادہ سنجیدہ حصوں کی جانب سے اُسے فارغ کیے جانے کی بھرپور کوشش خارج امکان نہیں ہے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت اور اُس کی حرکتیں امریکی سامراج کے بحران کی وجہ نہیں بلکہ اس کا اظہار ہیں۔ وہ ایک زوال پذیرسامراج کی مجسم شکل ہے۔ اور تاریخ کا ہر نظام اپنی زوال پذیری کے وقتوں میں ایسی ہی بظاہر اڑیل لیکن حقیقتاً مضحکہ خیز شخصیات کو جنم دیا کرتا ہے جس کی آج کے عہد میں ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ بھی بے شمار مثالیں مل سکتی ہیں۔

چین، جسے بہت سے حلقے ابھرتا ہوا سامراج قرار دیتے ہیں اور جو کسی حد تک درست بھی ہے، کی حالت بھی اندر سے خاصی پتلی ہے۔ 2019ء کا سال چین کے لئے تاریخی طور پر تین حوالوں سے علامتی اہمیت کا حامل ہے۔ اِس سال 1921ء میں چینی کمیونسٹ پارٹی کو جنم دینے والی 1919ء کی طلبہ تحریک کو سوسال، 1949ء میں عوامی جمہوریہ چین کے اپنے قیام کو 70 سال اور تیانمن سکوائر کے 1989ء کے واقعات کو تیس سال مکمل ہو رہے ہیں۔ برسراقتدار چینی کمیونسٹ پارٹی خاصے تذبذب کا شکار ہے کہ اِن سالگراؤں کو کیسے اور کس حد تک منایا جائے (اور تیانمن اسکوائر کے خونی واقعات کی یاد کو کیسے محو کیا جائے)۔ کیونکہ چین میں ایسے سرکاری دنوں اور مواقع کو احتجاجوں کے لئے استعمال کرنے کی بھی قدیم تاریخ رہی ہے۔ چینی ریاست کے خوف کی غمازی حالیہ کچھ مہینوں میں یونیورسٹیوں کے کمیونسٹ طلبہ (جو برسراقتدار کمیونسٹ پارٹی کے برعکس حقیقی معنوں میں کمیونسٹ ہیں) کی پنپتی ہوئی تحریک پر کریک ڈاؤن سے بھی ہوتی ہے۔ طلبہ میں بڑھتے ہوئے اِن باغی رجحانات اور سرگرمیوں سے خود چینی سماج کے اپنے تضادات کا اظہار بھی ہوتا ہے جو طبقاتی تفاوت کیساتھ شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ شی جن پنگ کی جانب سے کرپشن مخالف مہمات، معیشت پر مضبوط ریاستی گرفت کی باتیں، سوشلزم کی لفاظی اور چینی فوج کی کاروباری سرگرمیوں کو نکیل ڈالنے کی کوششیں بھی انہی تضادات کو دبانے کی سعی ہیں۔ اِس صورتحال پر اپنے مضمون ’’شی جن پنگ 2019ء کے بارے میں کیوں فکر مند ہے‘‘ میں اکانومسٹ دلچسپ تجزیہ کرتا ہے: ’’ماضی کی بازگشتوں سے بھرپور ایسے سال میں مسٹر شی جن پنگ کسی طور اپنے شکنجے کو ڈھیلا نہیں کر سکتے… اُلٹا وہ انتشار کو روکنے کی کوششوں کو دوگنا کر دیں گے… چین میں حب الوطنی کے لبادے میں اسٹیبلشمنٹ پر حملوں کی پرانی روایت رہی ہے۔ 1919ء اور 1989ء میں مظاہرین نے یہی کیا تھا۔ لہٰذا پارٹی چوکنی رہے گی کہ کہیں امریکہ کے خلاف عوامی غم و غصے کا رُخ مسٹر شی اور پارٹی کی طرف ہی نہ ہو جائے۔‘‘

یہ درست ہے کہ مغربی سرمایہ داری اپنے نامیاتی بحران کے تحت اپنا تاریخی غلبہ اور مقام بڑی حد تک کھو چکی ہے اور چین ایک نئی عالمی طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ اور بالخصوص امریکہ کو جو تیس سالوں کا بے نظیر معاشی عروج ملا تھا وہ آج چین کو نصیب نہیں ہو سکتا۔ یہ سرمایہ داری کے عروج کی بجائے زوال میں ابھرتا ہوا سامراج ہے اور اسی قدر خوفزدہ، نحیف اور منحصر بھی ہے۔

دوسری طرف یورپ کی اپنی ٹوٹ پھوٹ ہے۔ بریگزٹ کا معاملہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے اور یورپی حکمرانوں کے لئے دردِ سر بن کے رہ گیا ہے۔ ’ییلو ویسٹس‘ تحریک نے یورپی محنت کشوں اور نوجوانوں کی جدوجہد کے نئے مرحلے کی شروعات کا اعلان کیا ہے۔ اور یہ سب فرانس میں ہو رہا ہے جو جرمنی کی طرح نسبتاً مستحکم اور خوشحال یورپی ملک سمجھا جاتا ہے۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی بھی محض ایک قسط ہے۔ مصنوعی بنیادوں پر تعمیر کی گئی یورپی یونین اور یورو کی ٹوٹ پھوٹ آنے والے دنوں میں مزید بڑھے گی۔ لیکن یہ عمل سال لیتا ہے یا دہائیاں، اِس کا دارومدار کئی طرح کے علاقائی اور عالمی عوامل پر ہے۔

عالمی اور علاقائی طاقتوں کی جارحیتوں اور پراکسی جنگوں نے افغانستان سے لے کے یمن، لیبیا، عراق اور شام تک جس طرح پورے کے پورے سماجوں کو برباد کیا ہے‘ ان کی تعمیر نو اِس نظام میں ممکن نہیں ہے۔ اُلٹا یہ تنازعات زیادہ پیچیدہ ہی ہوتے گئے ہیں۔ کشمیر سے لے کے کردستان، کاتالونیا اور فلسطین تک قومی سوال بھی سلگ رہے ہیں اور قومی آزادی کی تحریکیں بھی جاری ہیں۔ لیکن پوری دنیا میں پسماندہ ترین ممالک سے لے کے ترقی یافتہ ترین خطوں تک‘ عام انسان کہیں بارود کی دہشت کا شکار ہیں، کہیں ریاستی جبر سے دوچار ہیں تو کہیں اِس نظام کی معاشی جارحیت اور تنگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ پھر مختلف ممالک میں دائیں بازو کے پاپولزم اور نیم فسطائی رجحانات کا ابھار ہے جو واضح کرتا ہے روایتی بائیں بازو کی زوال پذیری اور انقلابی متبادل کی عدم موجودگی سے رجعت نسبتاً وسیع سماجی بنیادیں حاصل کر کے کیسی وحشیانہ شکلیں اختیار کر سکتی ہے۔ لیکن یہ انتہائی دائیں بازو کی حکومتیں، جن کی ایک تازہ مثال برازیل میں بولسونارو کی جیت ہے، اندر سے بہت کھوکھلی اور خوفزدہ ہیں اور بیشتر صورتوں میں کسی بڑے پیمانے کے جبر کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ اُلٹا محنت کش طبقے کی مزاحمت کو کچلنے کی کوئی کوشش‘ طبقاتی جدوجہد کو بھڑکا سکتی ہے۔ ماحولیات کی تباہی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بھی آئے روز لرزا دینے والی رپورٹیں اور اعداد و شمار سامنے آ رہے ہیں۔

پاکستان پر مختصراً بات کی جائے تو معیشت کا بحران مسلسل گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کی کٹھ پتلی حکومت سے امیدیں وابستہ کرنے اور کروانے والے بہت سے وظیفہ خوار دانشور بھی اب شور مچاتے نظر آتے ہیں۔ سٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق جولائی کے بعد سے حکومتی قرضوں میں 2200 ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ اگلے تین سالوں میں 10 ہزار ارب اضافے کیساتھ یہ قرضے 36 ہزار ارب روپے تک پہنچ جانے کی پیشین گوئی کی جا رہی ہے۔ کئی ہزار ارب کے حکومتی واجبات اور 1000 ارب روپے سے بڑھ کے 1400 ارب روپے تک پہنچ جانے والے گردشی قرضے اِس کے علاوہ ہیں۔ پورے ملک میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ پھر سے جاری ہے۔ساتھ ہی معیشت کی شرح نمو نصف سے بھی کم ہو کے 3 فیصد سے نیچے گر جانے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ پچھلے پانچ مہینوں کے دوران بیرونی سرمایہ کاری میں 35 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ تقریباً اسی عرصے میں ٹیکس وصولی ہدف سے 175 ارب کم رہی ہے۔ 37 ارب ڈالر سے زائد کے تجارتی خسارے میں خاطر خواہ کمی کا کوئی امکان نہیں ہے اور پچھلے ایک سال کے دوران روپے کی قدر میں 33 فیصد کمی کے باوجود برآمدات میں صرف ایک فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ درآمدات میں کوئی کمی نہیں ہو پائی ہے۔ بنیادی شرح سود مسلسل اضافے سے 10 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ یہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر منفی 11 ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔ ’’دوست ممالک‘‘ سے ملنے والے ’’پیکج‘‘، جن پر سود بھی ادا کرنا ہو گا، تیزی سے خرچ ہو رہے ہیں یا ہو چکے ہیں ۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت روپے کی قدر میں مزید کمی، شرح سود میں مزید اضافے اور عوام پر باالواسطہ ٹیکسوں کی نئی بوچھاڑ کم و بیش یقینی ہے۔ جس سے افراطِ زر اور مہنگائی، جو اس وقت سرکاری طور پر بھی 6 فیصد سے اوپر جا رہی ہے، مسلسل بڑھتی جائے گی۔ موڈیز سمیت تمام کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں پاکستان کی درجہ بندی کو گرا رہی ہیں۔ منڈی شدید سکڑاؤ کا شکار ہے، لوڈ شیڈنگ کے دورانیے پھر سے طویل ہو رہے ہیں اور بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشی بحران ہر گزرتے دن کیساتھ زیادہ زوردار انداز سے عام لوگوں کی زندگیوں میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ اِن حالات میں ’’سادگی‘‘ کے بیہودہ ڈرامے کے بعد ’’احتساب‘‘ کی فلم بھی زیادہ عرصہ چلنے والی نہیں ہے۔ اِس کٹھ پتلی سیٹ اپ کے اندر پہلے سے کئی دراڑیں موجود ہیں جو آنے والے دنوں میں بڑھتے ہوئے بحران کیساتھ بڑی ٹوٹ پھوٹ پر منتج ہو سکتی ہیں۔ نیچے سے مہنگائی و لوڈ شیڈنگ جیسے کسی فوری مسئلے یا نجکاری و ڈاؤن سائزنگ وغیرہ کے حملوں کے خلاف تحریکیں ابھرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔

سرمایہ داری اپنے داخلی تضادات کے تحت آج متروکیت کی جس نہج پر پہنچ چکی ہے وہاں مسائل کو حل کرنے کی بجائے مزید گھمبیر اور پیچیدہ ہی کر سکتی ہے۔ اِس نظام کے پالیسی ساز ایک مسئلہ حل کرنے کی کوشش میں کئی نئے مسائل کھڑے کر دیتے ہیں۔ یہ کیفیت اِس نظام اور طرزِ پیداوار کے اپنی تاریخ حدود تک پہنچ جانے (بلکہ کئی حوالوں سے انہیں عبور کر جانے) کی غمازی کرتا ہے۔ اسی تناظر میں لیون ٹراٹسکی نے 1938ء کے ’عبوری پروگرام‘ میں سرمایہ دارانہ نظام کی حالت نزع کو بیان کرتے ہوئے لکھا تھا، ’’ایسی باتیں سراسر جہالت یا شعوری مکاری کی پیداوار ہیں کہ سوشلزم کے لئے تاریخی حالات ابھی پک کے تیار نہیں ہوئے ہیں۔ پرولتاری انقلاب کے معروضی حالات نہ صرف پک کے تیار ہو چکے ہیں بلکہ اب تو گلنے سڑنے لگے ہیں۔ سوشلسٹ انقلاب کے بغیر اگلے تاریخی مرحلے میں ساری انسانی تہذیب کے تباہ و برباد ہو جانے کا خدشہ ہے۔ سارا دارومدار اب پرولتاریہ‘ بالخصوص اِس کے انقلابی ہراول دستے (پارٹی) پر ہے۔ انسانیت کا تاریخی بحران سمٹ کے انقلابی قیادت کا بحران بن چکا ہے۔‘‘