[تحریر :لال خان، ترجمہ: نوروز خان]
دسمبر1971ء میں پاکستان کے دولخت ہونے کے اصل ذمہ داران کا تعین کرنے کی لا متناہی بحث نے حقیقی سوال کو الجھانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ افراد، اداروں اور حادثاتی واقعات کو دوش دے کر اس تقسیم میں ریاست اور نظام کے کردار کی پردہ پوشی کی جاتی رہی ہے۔ مختلف رجحانات رکھنے والے بورژا دانشور اپنے تجزیوں میں اس واقعہ کو مختلف رنگ دیتے ہیں۔ مذہبی شاؤنسٹ عناصر شازشی تھیوریوں (Conspiracy Theories) کا سہارا لیتے ہیں جبکہ آزاد خیال دانشوروں (Liberals) کی جانب سے اس سارے عمل کی وجہ کو قومی جبر تک محدود کر دیا جاتا ہے۔
مشرقی بنگال کی علیحدگی نے ثابت کر دکھایا کہ مذہب کی بنیاد پر ایک جدید قومی ریاست تشکیل نہیں دی جا سکتی خصوصاً جب ایک ہزار میل سے زیادہ کی جغرافیائی دوری ہو۔ 1947ء کی خونی تقسیم میں پنجابی اور بنگالی وہ بڑی قومیتیں تھیں جنہیں بے رحمی سے چیر ڈالا گیا۔ دھنی ثقافت اور برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت سے بھری تاریخ کو مذہب کے نام پر دو لخت کر دیا گیا اور 1946ء کے انقلاب کو مقامی خصی بورژوازی کی غداری کی وجہ سے شکست ہو گئی۔ بر صغیر کی رسمی آزادی کے بعد بھی سامراجی لوٹ مار اور استحصال جاری رہا۔ پاکستان کا قیام ایک قومی ریاست کی بجائے مختلف قومیتوں پر مشتمل ریاست کی صورت میں عمل میں آیا جنہیں مذہب کی متروک بنیاد پر مصنوعی طریقے سے اکٹھا کیا گیا تھا۔ پاکستان کا نومولود حکمران طبقہ جلد ہی سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کو حل کرنے اور سماج کو ترقی دینے میں اپنی ناکامی کوبھانپ گیاتھا۔ اس مشکل صورتحال میں اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے انہوں نے بے رحم طبقاتی استحصال اور ننگے قومی جبر کو استعمال کیا۔
مشرقی بنگال کی مسلمان اشرافیہ نے بہت پر جوش انداز میں مذہبی ریاست کی حمایت تھی تاہم بنگال کے عوام کو فوراً ہی پنجابی اکثریت رکھنے والے مغربی پاکستانی کی حکمران اشرافیہ کے امتیازی سلوک اور لوٹ مار کا سامنا کرناپڑا۔ قومی محرومی کے اس احساس کے نتیجے میں سابقہ مشرقی پاکستان میں 1950ء کی دہائی کے اوائل سے ہی قومی استحصال اور جبر کے خلاف جدوجہد کا آغاز ہو چکا تھالیکن قومی جبر کا احساس صرف بنگال تک محدود نہیں تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک صورتحال خطر ناک حد تک بگڑ چکی ہے اور آج کے پاکستان میں قومی سوال ایک ناسور بن گیا جو سماج کو غیر مستحکم کر تا چلا جارہا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات آج ایک جدید اور متحد قومی ریاست تشکیل دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ لیکن قومی جبر ہی ریاست کے ظلم کی واحد شکل نہیں بلکہ مذہب، نسل، جنس اور سب سے بڑھ کر طبقاتی بنیادوں پر ظلم و جبر، کمزور اور متعفن پاکستانی سرمایہ داری کے بحران کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جارہا ہے۔
1947ء کے بعد وجود میں آنے والی یکجا ریاست کے ابتدائی چوبیس برسوں کے دوران مشرقی پاکستان میں زبان اور قومی جبر کے سوال پر ہونے والے احتجاج، جدوجہد اور فسادات کی خبریں بڑے پیمانے پر میڈیا میں آتی رہیں لیکن مشرقی بنگال میں طبقاتی جدوجہد کی تحریکوں کو شعوری طور پر چھپایا گیا کیونکہ یہ میڈیا مالکان کے مفادات کے لیے خطرہ تھا۔ پاکستان کی تقسیم کے21سال بعد شروع ہونے والی عوامی تحریک قومی سوال نہیں بلکہ طبقاتی بنیادوں پر شروع ہوئی تھی۔ اس عوامی بغاوت کا نکتہ آغاز پولیس کی جانب سے مغربی پاکستان کے شہر راولپنڈی میں ایک جلوس پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک طالب علم کا قتل تھا۔ پاکستان کے عوام اگر کبھی متحد ہوئے ہیں تو وہ 6 نومبر 1968ء سے25 مارچ 1969ء کے بیچ کے 139دن تھے جب ملک کے دونوں حصوں میں ایک انقلابی طوفان برپا تھا۔ چٹا گانگ سے پشاور تک انقلابی سوشلزم کا ایک ہی نعرہ گونج رہا تھا۔ ابتداء میں مشرقی پاکستان میں تحریک کی قیادت قوم پرست عوامی لیگ کے پاس نہیں تھی بلکہ ماؤسٹ نظریات رکھنے والا پراناسوشلسٹ قائد عبدالحمید خان بھاشانی تحریک کی رہنمائی کر رہا تھا۔ لیکن ایوب خان سے قریبی مراسم رکھنے والے چینی لیڈروں کے دباؤ میں اسے تحرک کے عروج پر اس سے علیحدہ ہونا پڑا۔ بعد ازاں جلد ہی تحریک قومی بنیادوں پر بھٹکنا شروع ہو گئی۔
عوامی جذبات کی لفاظی کرنے والے بورژوا سیاستدان مجیب الرحمٰن کی قیادت میں عوامی لیگ 1970ء کے انتخابات میں مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کی قریباً تمام نشستیں جیت گئی۔ خدائی کے نشے میں ڈوبے مغربی پاکستان کے ریاستی آقا مجیب سے سودے بازی کرنے میں ناکام ہو گئے جو ایک بڑی ریاست کے اقتدار کو حاصل کرنے کے لیے بہت سی گنجائشیں دینے کو تیار بھی تھا۔ لیکن نیچے سے اس پر بہت زیادہ دباؤ تھا۔ اس کی قوم پرستانہ لفاظی سے بنگالی نوجوانوں اور عوام کی شروع ہو چکی تحریک میں اب سمجھوتہ کرنے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ قومی آزادی کی تحریک رفتار پکڑ چکی تھی اور دن بدن تیز تر ہوتی جا رہی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب لوگ بغاوت کر دیں تو پھرریاستی قوت جتنی بھی طاقت ور ہو، وہ بندوق کے زور پر عوام کو شکست نہیں دے سکتی۔ 1971ء میں پاکستانی ریاست سے آزاد کرائے گئے علاقوں میں پولیس، افسر شاہی اور عدلیہ وغیرہ جیسے پرانے اداروں کا خاتمہ کر کے ان کی جگہ محنت کشوں، نوجواں اور غریب کسانوں کی پنچائتوں یا سوویتوں نے لے لی تھی۔ قومی آزادی کی تحریک تیزی سے طبقاتی جدوجہد کی جانب لوٹ رہی تھی۔ تبدیلی کے اس زلزلے نے دہلی سے اسلام آباداور واشنگٹن سے لندن تک اقتدار کے ایوانوں کو لرزا کے رکھ دیا تھا۔ مغربی بنگال میں بائیں بازو کی بہت بڑی قوت کی موجودگی میں مشرقی بنگال میں ایک سوشلسٹ تبدیلی ہندوستانی سرمایہ داری کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوتی۔ متحدہ سوشلسٹ بنگال سارے برصغیر میں انقلابی تحریکوں کو جنم دیتا۔ ہندوستانی بورژوازی خوفزدہ تھی۔ ہندوستانی فوج کے مشرقی پاکستان پر حملے کی وجہ نہ صرف بنگالی عوام کے ہاتھوں مہلک طور پر گھائل پاکستانی فوج کو شکست دینا تھا، بلکہ ان کا حقیقی مقصد جے ایس ڈی اور مکتی باہنی میں شامل بائیں بازو کے عناصر کی جانب سے تشکیل دی گئی سوویتوں (عوامی پنچائتوں) کو کچلنا تھا۔ امریکی سامراج کا ساتواں بحری بیڑہ پہلے ہی خلیج بنگال میں موجود تھا اورہندوستانی فوج کی انقلاب کو شکست دینے میں ناکامی کی صورت میں بننے والے سامراج مخالف حالات سے نمٹنے کے لیے مرین فوجی تیار تھے۔
مارکسسٹ لینن اسٹ قیادت کے فقدان کی وجہ سے انقلاب ناکام ہو گیا، سرمایہ داری کوبچا لیا گیااوربنگلہ دیش ایک ’’آزاد‘‘ سرمایہ دارانہ ملک کی شکل میں وجود میں آیا۔ لیکن سرمایہ دارانہ بنیادوں پر آزادی کے اکتالیس برس بعد بھی بنگلہ دیش شدید سماجی اور معاشی بحران کی گرفت میں ہے۔ عوام انتہائی غربت، اذیت اور محرومی کا شکار ہیں۔ نام نہاد آزادی سے عام لوگوں کے حالاتِ زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ وہ بدتر ہوئے ہیں۔ سماجی شعور رکھنے والا ہر شخص مشرقی بنگال کے عوام کی آزادی کی حمایت کرے گا لیکن یہ آزادی سرمایہ دارانہ بنیادوں پر سماج کے حقیقی مسائل کو حل کرنے میں ناکامی کی ایک اور مثال ہے۔ محنت کش عوام کو طبقاتی جدوجہد کی فتح کے ذریعے ایک انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے جو انہیں طبقاتی استحصال کے عذاب اور بورژوا نظام و ریاست کے جبر سے آزاد کرائے۔ حقیقی آزادی کے حصول کے لیے معاشی اور سماجی مکتی پانا ناگزیر ہے۔
متعلقہ:
بنگلہ دیش: انقلاب کی جانب بڑھتے قدم
بنگلہ دیش: فیکٹری میں آتشزدگی سے ہونے والی ہلاکتیں اور مزدور تحریک