کراچی: اس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا؟

تحریر:پارس جان:-
بھلے دنوں کی بات ہے کہ جب کراچی پر امن سماجی سرگرمی سے بھرپور، خوشگوار انسانی جذبوں سے آراستہ ،مختلف قومیتوں، زبانوں اور نسلوں کے ہم آہنگ امتزاج سے سرشار خوبصورت اور پروقار شہر ہوا کرتا تھا۔ساحلِ سمندر پر واقع اس شہر کو پرولتاری ثقافت نے چار چاند لگا دیئے تھے۔ایک طرف اس کا موسم روحانی طمانیت کا باعث تھا تو دوسری طرف یہ مسلسل بڑھتے ہوئے روزگار کے مواقعوں کے باعث ملک بھر کے محنت کشوں کی امیدوں اور توجہ کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ملک کے طول و عرض سے دیہی معیشت کی زبوں حالی سے پریشان اور یکسانیت سے اکتائے ہوئے نوجوان ایک بہتر زندگی کے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے کراچی آتے اور پھر یہ شہر انہیں کبھی واپس نہ جانے دیتا۔مگر اب یہ سب باتیں کسی اور سیارے کی کہانیاں ،کسی اور جنم کی روداد اور ماضی بعید کی حکایات معلوم ہوتی ہیں۔اب تو بارود کی بو نے اتنا تعفن پھیلایا ہے کہ سانس لینا بھی محال ہوتا جا رہا ہے۔ہر سو بربریت کا ننگا ناچ جاری ہے۔شہر کی گلیوں میں خو ف و ہراس دندناتا پھر رہا ہے۔آدم بیزاری سماجی معمول پر حاوی ہو چکی ہے۔زبانوں کو اپنی سرحدوں اور قوموں کو اپنے تشخص کی بے دلیل لڑائی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ روزگار بڑھنے کی بجائے مسلسل سکڑ رہا ہے۔لوگ ہر وقت راہِ فرار تلاش کرنے میں مگن ہیں۔صرف گزشتہ تین ماہ میں 320 سے زائد لوگ لقمہ اجل بنا دیئے گئے۔اور آگ اور خون کا یہ کھیل کہیں ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا بلکہ آئے روز اس میں نئے کھلاڑی اور نئی ٹیمیں شامل ہو رہی ہیں۔ایم کیو ایم ،پی پی پی ،اے این پی ،مذہبی پارٹیوں کے بعد اب سندھ کی مخصوص سیاسی صورتحال کے پیشِ نظر سندھی قوم پرستوں کی بھی کراچی میں مداخلت بڑ ھ رہی ہے جس کی وجہ سے نسبتاً پر امن علاقوں میں بھی آنے والے دنوں میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہو گا اوروہ دن کب کے رخصت ہو چکے جب کراچی میں کشیدگی واقعتاً سیاسی ہی ہوا کرتی تھی۔
یہ سب کچھ چند ماؤف العقل اور مخبوط الحواس ملاؤں اور دانشوروں کی رائے کے مطابق لوگوں کے گناہوں کا نتیجہ یا خدا کا عذاب نہیں بلکہ اس کی ٹھوس سائنسی ،سیاسی ،اقتصادی اور معاشی وجوہات ہیں جن کو جانے،سمجھے اور پرکھے بغیر ان تمام مسائل کا نہ تو تجزیہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی حل پیش کیا جا سکتا ہے۔اول تو یہ کہ کراچی نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا سے کٹا ہوا نہیں ہے بلکہ گزشتہ تین چار عشروں میں کراچی میں ہونے والی اتھل پتھل عالمی طور پر ایک متغیر و متبدل صورتحال کی غمازی کرتی ہے۔چالیس سال قبل کرہ ارض پر جنت نظیر سمجھے جانے والے یورپ کو بھی اب دوزخی شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے تو کراچی جس میں ایک جنت بننے کے بے شمار امکانات ضرور موجود تھے مگر یہ چالیس سال قبل بھی ترقی اور تعمیر کی ابتدائی منازل میں تھا ،یہاں تہذیب سے بربریت کی طرف کا یہ سفر بھی عمومی طور پر عالمی معیشت اور سیاست کے بنیادی کردار میں ہونے والی دیو ہیکل تبدیلیوں کا شاخسانہ ہے۔اور عالمی معاشی نظام اور اس کے رکھوالوں نے اپنی بقا کے فیصلہ کن معرکے کے لیے اب جغرافیائی اور سٹریٹیجک وجوہات کی بنیاد پر اس خطے میں میدان لگایا ہوا ہے جس میں کراچی کا ایک مرکزی معاشی اور سیاسی کردار ہے اور آنے والے دنوں میں اس کی اہمیت کئی گنا بڑھ جائے گی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ماضی اور مستقبل کا اہم ترین معرکہ یہیں لڑا جانے والا ہے۔
کراچی میں جاری حالیہ بربریت کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک تو معیشت کی آئے روز بگڑتی ہوئی صورتحال اور بجلی اور گیس کے بحران کی وجہ سے کراچی میں آئے روز فیکٹریاں اور کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ڈاؤن سائزنگ اور ریسٹرکچرنگ کی پالیسیوں کے تحت خدمات کے شعبوں میں بھی وقتاً فوقاً مزدوروں کی بے دخلیوں اور جبری برطرفیوں کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔یوں بیروزگاری دن دوگنی اور رات چوگنی بڑھنا شروع ہو گئی ہے۔اور بیروزگاروں کی یہی فوج ظفر موج وہ بہترین خام مال ہے جس کو تمام قسم کے مجرمانہ اور انسانیت سوز عزائم کے لیے بآسانی استعمال کیا جا سکتا ہے۔جب ضروریاتِ زندگی کی اجناس کو بنانے والے کارخانے بند ہو جاتے ہیں تو ان کے خلا کو وحشت اور درندگی کے کارخانے پر کر دیتے ہیں۔اور صرف بیروزگاروں میں ہی ہیجان اور فرسٹریشن موجود نہیں ہے بلکہ جو لولا لنگڑا روزگار بچا بھی ہے اس سے وابستہ لوگوں کی مالی استعداد بھی بنیادی انسانی تقاضوں اور ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہو پا رہی ۔عالمی معاشی اداروں کے دباؤ اور ریاستی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے حکومت تمام سوشل سبسڈیز کو ختم کرنے پر مجبور ہے جس کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو جانے کے باعث کراچی کی سطح کی شہری زندگی آبادی کی اکثریت کے لیے ناممکن ہوتی جا رہی ہے۔بہت سارے لوگوں کو تنخواہیں وقت پر نہیں دی جاتیں یا کئی کئی ماہ دی ہی نہیں جاتیں لیکن مکانوں کا کرایہ بہر صورت ہر ماہ دینا پڑتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق کراچی کی آبادی کا نوے فیصد سے زائد کرائے کے ڈربے نما فلیٹوں میں رہنے پر مجبور ہے ۔اسی طرح بجلی ،پانی اور گیس نہ بھی آئیں تو ان کے بل ضرور آتے ہیں۔یوں فرسٹریشن اور اعصابی تناؤ اپنی انتہاؤں کو پہنچ رہا ہے ۔اور ایک بیمار سماجی معمول سے صحتمند سیاست ،تندرست اور خوشگوار زندگی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی ۔کراچی میں امن کی توقع رکھنا ایسے ہی ہے جیسے آگ میں پھول کھلنے کی خواہش کرنا۔لمحے بھر کے لیے ٹارگٹ کلنگ اور دیگر سیاسی تنازعات کو پسِ پشت بھی ڈال دیا جائے تو سٹریٹ کرائمز ،چوری چکاری ،اغوا ،قتل اور فسادات کی تمام اقتصادی وجوہات کراچی میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔
اس سیاسی معاشیات میں خطے کی عمومی صورتحال نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے۔بالخصوص امریکہ اور چینی بیوروکریسی کی سامراجی پراکسی جنگ اور اسی سے کسی حد تک منسلک ایران اور سعودی عرب کے مابین مفادات کی لڑائی ،بھارت اور روس سمیت دیگر علاقائی قوتوں کی مداخلت ان سب عوامل نے مل کر سماجی تانے بانے کو انتشار کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ایک جدیدسیکولر ریاست کی تشکیل سے نا اہل اور مختلف سامراجی قوتوں کے دلال حکمران طبقات اس بھڑکتے ہوئے دوزخ سے بھی مال بنانے میں مصروف ہیں اور مال بنانے کی یہ ہوس انہیں مسلسل باہمی خلفشار میں دست وگریبان رکھے ہوئے ہے۔یوں یہ اپنی لوٹ مار کے تحفظ اور بقا کے لیے مختلف سامراجی قوتوں کے لیے اپنی خدمات بیچنے اور وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔اس غلیظ کھلواڑ میں سیاستدان، تاجر، ملاں، جرنیل، جج اور میڈیا مالکان سب ملوث ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ ضعیف و مردار اور ناکام و نامراد ریاست اپنے تمام اداروں کے تقدس اور تشخص سمیت ایک اکائی کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے لیکن یہ تمام کوششیں اسے عوام کے سامنے مزید عریاں اور اندر سے زیادہ کھوکھلا کر رہی ہیں۔میڈیا اور ضمیر فروش لیڈروں کی مخلصانہ کاوشوں کے باوجود اب عدلیہ کا طبقاتی کردار بری طرح ایکسپوز ہو چکا ہے۔ ملی ترانے گانے والے کم رتبہ اور بے سرے فنکاروں کی فنکاریوں اور سیاستدانوں کی وفاداریوں کے باوجود اب کوئی بھی پاک فوج پر سلام بھیجنے کو تیار نہیں۔اور چونکہ پہلے سے اخلاقی طور پر شکست خوردہ مالیاتی سرمائے سے دیمک زدہ فوج اور خفیہ ایجنسیاں براہِ راست اقتدار پر آنے کی صلاحیت سے تاحال محروم ہیں اسی لیے وہ اپنے پالتو سیاستدانوں ،ملاؤں اور غنڈہ عناصر کے ذریعے سماج پر اپنا کنٹرول بحال کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔اور اپنی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے اور ساتھ ہی ساتھ مسلسل سکڑتی ہوئی معیشت میں سے زیادہ حصہ وصول کرنے کے لیے چینی بیوروکریسی کی آشیر باد سے مسلسل امریکی سامراج کے ساتھ مصنوعی ٹکراؤ کو جنم دے رہی ہیں۔ امریکی سامراج بھی اپنی تاریخ کے بدترین بحران کی کیفیت میں اپنے اثرو رسوخ کو نہ صرف برقرار رکھنے بلکہ بڑھانے کے لیے سفارتی سے لے کے فوجی تک تمام حربے استعمال کر رہا ہے اور وقتاً فوقتاً یہ مصنوعی ٹکراؤ تمام فریقین کے کنٹرول سے باہر ہو کر اس خطے میں کبھی نہ دیکھی گئی حقیقی جارحیت کا باعث بن جاتا ہے۔یوں افغانستان ،پشتونخواہ ،بلوچستان ،گلگت ،کراچی اور سندھ کے تمام مسائل کا سیاسی ماضی اور روایات جتنے بھی مختلف کیوں نہ ہوں ،اپنی تمام تر مخصوصیت کے باوجود حالیہ سیاسی ارتقا میں ان میں یہ تمام عناصر مشترک قدروں کی شکل میں موجود ہیں اور ان تمام مسائل کا حل بھی آخری تجزیے میں ایک مشترکہ سیاسی جدوجہد کا مرہونِ منت ہی ہو سکتا ہے۔
کراچی میں ایم کیو ایم تیس سالہ مافیائی اقتدار کی وجہ سے اب ریاست کے اندر ایک ریاست کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اسی وجہ سے ریاست کے ساتھ اس کے کئی مرتبہ سیاسی تعلقات میں نشیب و فراز دیکھنے میں آئے ہیں اور آتے رہیں گے۔یوں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے اور ریاست کے دوسرے دھڑوں سے اپنے مالیاتی مفادات اور سیاسی تسلط کو محفوظ رکھنے کے لیے اسے بیرونی قوتوں پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنا پڑتاہے۔مگر اتنا طویل عرصہ اقتدار میں رہنے کے باعث اور بالخصوص مشرف کے دس سالہ اقتدار میں ایم کیو ایم نے جو معاشی اور سیاسی بنیادیں حاصل کیں وہ آج خود ایجنسیوں کے لیے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ ایم کیو ایم کے امریکی سامراج کے ساتھ حد سے بڑھے ہوئے یارانے اور ریاستی ایجنسیوں کے چین کی طرف جھکاؤ کے عمل میں موجود بنیادی تضاد ہے جسے جتنا حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ اتنا ہی سلگ اور بھڑک رہا ہے۔ اس کا بہترین حل جو آصف علی زرداری کی ’مدبرانہ‘ قیادت میں نکالنے کی کوشش کی گئی تھی وہ امریکی وزارتِ خارجہ کی تصدیق شدہ شہرہ آفاق مصالحت کی پالیسی تھی۔ جس کے ذریعے مختلف نظریات اور رجحانات کے باوجود تمام سیاسی قوتوں کو شریکِ اقتدار بنا کر مصنوعی طور پر معاملات کو چلانے کی کوشش کی گئی تاکہ ایک جعلی امن کے ذریعے حکمران طبقے کی لوٹ مار جاری رکھی جا سکے اور تمام گدھ اپنا حصہ بقدرِ جسہ وصول کرتے رہیں۔مگر چونکہ پچھلے لمبے عرصے سے یہ تمام گدھ عوام کا گوشت نوچ نوچ کر اتنے توانا اور دیو ہیکل ہو چکے ہیں کہ اب ان کی ہوس کی تکمیل کے لیے درکار مالی گنجائش ہی مسدود ہو چکی ہے اور دوسری طرف معاشی بحران مسلسل بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اس نام نہاد مصالحت کے دور میں تاریخ کی سب سے بڑی قتل و غارت اور بربریت دکھائی دیتی ہے۔ سامراجی آقاؤں کے احکامات کے تحت آصف علی زرداری نے اگرچہ نائن زیرو جا کر جیئے الطاف کا نعرہ بھی لگا دیا مگر اس کے باوجود کراچی کی رئیل سٹیٹ پر قبضوں اور مارکیٹوں سے بھتوں پر پلنے والی معیشت کے درندہ صفت کارکنان کسی ایک جھنڈے تلے متحد ہونے یا کسی ایک نعرے کا بیک جنبشِ آواز جواب دینے کو کسی صورت آمادہ نہیں ہو سکتے۔دوسری طرف اے این پی، پیپلز امن کمیٹی ،پی پی آئی ،ایم کیو ایم حقیقی سمیت غیر سیاسی بنیادوں پر منظم جرائم پیشہ گروہوں کو بھی براہِ راست ریاستی سرپرستی حاصل ہونے کی وجہ سے ان کے مجرمانہ کردارکو ختم کرنا ناممکن دکھا ئی دیتا ہے۔

جوں جوں انتخابات (قومی ،صوبائی ،لوکل گورنمنٹ )قریب آتے جائیں گے یا ان پر گفتگو تیز ہوتی جائے گی تو یہ خونی تصادم بھی شدت اختیار کرتا چلا جائے گا۔یوں اس انتہائی پر انتشار مخلوط حکومت میں طاقتوں کے توازن میں ہر نئے بگاڑ کی صورت میں وقتاً فوقتاً مختلف جگہوں پر آپریشن ہوتے رہیں گے جیسے آجکل لیاری میں آپریشن کیا جا رہا ہے ۔مگر ہر آپریشن کی کوکھ سے پہلے سے زیادہ خونخوار اور وحشی بر آمد ہوں گے جن کو پھر یہی موت کے سوداگر اپنے مقاصد کے بعد اس وقت تک استعمال کرتے رہیں گے جب تک ان کابہتر متبادل نہیں مل جاتا۔
آئی ایس آئی پہلے ہی بلوچستان میں ایک شدید بحران کا شکار ہے اس کیفیت میں وہ بہت ساری مسلح بھتہ خور قوتوں کے ذریعے ایم کیو ایم کی معاشی ناکہ بندی کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہے مگر پھر ریاست کی کمزوری کی وجہ سے وہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ایم کیو ایم کے ساتھ فیصلہ کن لڑائی کھولی جا سکے اس لیے اسے بار بار ایم کیو ایم سے مصالحت کرنی پڑتی ہے۔یہی وجہ تھی کہ چند ماہ قبل چیف جسٹس نے بھی یہاں اپنی عدالت لگائی تاکہ ریاست کی ناکامی کے عمومی تاثر کو زائل کیا جا سکے۔مگرحال ہی میں ایم کیو ایم کی حمایت میں آنے والا افتخار محمد چوہدری کا بیان ریاست کی کمزوری اور خصی پن کو ثابت کرتا ہے اور دوسری طرف وہ کراچی کے محنت کش اور غریب عوام کے لیے بھی ایک واضح پیغام ہے کہ ان عدالتوں ،اسمبلیوں اور ریاستی اداروں کے ذریعے امن ،روٹی اور روزگار میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ایک مستحکم امن کے لیے عوام کو اپنی عدالتیں لگانی ہوں گی جن کے لیے ضروری ہے کہ ایک انقلابی ابھار کے ذریعے عوام اس موت کے خوف پر قابو پا لیں جس کا سامنا انہیں ہر روز کرنا پڑتا ہے۔ اور آنے والے دنوں میں اس کے امکانات روشن ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
ایم کیو ایم کراچی کے عوام کے سامنے اور بالخصوص ان اردو بولنے والے مہاجروں کے سامنے بالکل ننگی ہو چکی ہے جن کی نمائندگی کی وہ دعویدار ہے۔ مگر چونکہ دیگر تمام سیاسی پارٹیاں بھی انہی تمام جرائم ،بھتہ خوری اور درندگی میں ملوث ہیں اور خاص طور پر پیپلز پارٹی مسلسل نان ایشوز کی سیاست کے ذریعے اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کر رہی ہے۔جس کی وجہ سے عوام کے سامنے فی الفور کوئی متبادل نہیں ہے اور وہ اسی وحشت کو نہ چاہتے ہوئے بھی برداشت کرنے پر مجبور ہیں اور دوسری طرف کارپوریٹ میڈیا جو جعلی متبادل اور پاپولر قیادت پیش کر رہا ہے ان کے پاس عوام کی وسیع پرتوں کے لیے کوئی معاشی اور سیاسی پروگرام ہی نہیں ہے۔اسی لیے بحیثیتِ مجموعی ہمیں محنت کش عوام اس وقت سیاسی عمل میں دکھائی نہیں دیتے جس کی وجہ سے سیاسی افق پر مڈل کلاس کے مختلف سیاسی رجحانات حاوی دکھائی دے رہے ہیں۔حکمران طبقہ چونکہ خود براہِ راست سماج پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا چلا جا رہا ہے اور محنت کشوں کی مصر اور تیونس جیسی کسی عوامی سرکشی سے خوفزدہ بھی ہے تواس لیے وہ مڈل کلاس کو محنت کش طبقے کے خلاف قومی ،نسلی ،مذہبی ،لسانی اور دیگر تمام تعصبات کے ذریعے مسلح کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ محنت کش مڈل کلاس کی اس سیاست میں ملوث ہو کر اس حد تک تھک جائیں کہ وہ کسی بڑی عوامی سرکشی کی قیادت کے قابل ہی نہیں رہیں۔اور یوں فاشسٹ بنیادوں پر بڑے قتلِ عام کی جہ سے انہیں اتنا خوفزدہ اور ان کے احساس اور شعور کو اتنا مجروح کر دیا جائے کہ وہ اپنے بنیادی طبقاتی کردار سے ہی عاری ہو جائیں۔مگر اب یہ کھلواڑ اپنے منطقی انت کی طرف بڑھ رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ یونہی چلتا رہے گا اور محنت کش عوام محض تماشائی بنے اس مکروہ خونی ڈرامے کا نظارہ کرتے رہیں گے؟زیادہ تر مایوس اور بدگمان لوگوں کی آرا تو یہی ہوں گی مگر حقیقت اس کے بالکل متضاد ہے۔تاریخی عمل انتہائی سفاک اور بے رحم ہوا کرتا ہے۔وہ بعض اوقات ایسے سارے منظر نامے کو تبدیل کر دیتا ہے کہ جسے نام نہاد عظیم لوگ پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں۔تاریخی عمل کی معمولی سے فہم کی بنیاد پر بھی ہم یہ پیشن گوئی کر سکتے ہیں کہ جلد یا بدیر کراچی میں سب کچھ تبدیل ہونے والا ہے کیونکہ اس سیارے پر ہر طرف بڑے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔کراچی کی ملکیت کے دعویدار جتنا بھی شور مچاتے رہیں کراچی کے اصل مالکان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔اب محنت کش عوام زیادہ دیر سیاسی میدان سے باہر نہیں رہ سکیں گے ۔گزشتہ برس KESC اور PIA کی تحریکیں محض ٹریلر تھا فلم تو ابھی ریلیز ہونی ہے۔اور جب محنت کش میدانِ عمل میں اتریں گے تو پیپلز پارٹی کے اندر اور باہرسارا منظر نامہ ہی تبدیل ہو جائے گا۔ ان مذہبی ،نسلی اور لسانی فاشسٹوں کے پاس بے شمار اسلحہ تو ہو گا لیکن چلانے کے لیے درکار شکتی اور جرات اپنی موت آپ مر جائے گی۔طاقت کے تمام سرکاری اور نیم سرکاری ایوان لرز اٹھیں گے۔سامراجی ایجنٹوں کو بھاگنے کا راستہ بھی نہیں ملے گا۔ریاست اپنی تمام تر رعونت اور جلال سمیت ہوا میں معلق ہو جائے گی۔یہ پہلے بھی ہو چکا ہے اور یہ پھر ہو گااور اب کی بار بلند پیمانے پر ہو گااور محنت کش طبقے کو حتمی فتح ضرور نصیب ہو گی۔