جو مبارک ہو، وہ سال بھی آئے گا

2013ء کا ایک مختصر جائزہ

[تحریر: لال خان]
2013ء کا آخری سورج بھی شاید کسی بڑی سماجی تبدیلی کا نظارہ کئے بغیر ہی ڈوب جائے لیکن محنت کرنے والے اربوں جاں فشاں انسانوں کی امید کا سورج کبھی نہیں ڈوبے گا۔2013ء میں نجات کے لئے انسانیت کی جستجو کم ہونے کی بجائے اور بھڑکی ہے۔ طبقاتی استحصال اور سرمائے کے جبر سے آزادی حاصل کرنے کی یہ آرزو 2014ء میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی رگوں اور شریانوں میں دوڑنے والا برقی دھارابن کر ایک انقلابی طوفان کی شکل اختیار کر سکتی ہے جو ناگزیر طور پر گلیوں اور بازاروں، کھیتوں اور کھلیانوں، فیکٹریوں اور ملوں، شہروں اور دیہاتوں کو اپنی لپیٹ میں لینے کی طرف بڑھے گا ۔نسبتاً جمود کی دو دہائیوں کے بعد 2011ء دنیا بھر میں بڑی تحریکوں کا سال تھا۔اس سال سرمایہ دارانہ نظام کو مسترد کرتے ہوئے عالمی سطح پر تمام بر اعظموں میں بڑے عوامی مظاہرے ہوئے۔ دنیا بھر میں 900 سے زیادہ شہروں میں ’وال سٹریٹ پر قبضے‘ کی تحریک کی حمایت میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے کیمونسٹ مینی فیسٹو کے ان اختتامی الفاظ کی سچائی کو ثابت کر رہے تھے کہ ’’دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ!‘‘
تاہم یہ تحریکیں انقلاب کی منزل کو نہ پا سکیں۔ انقلابی قیادت کے فقدان کی وجہ سے حکمران طبقہ اپنے چہرے بدل کر نظام کو بچانے میں کامیاب رہا جبکہ دنیا بھر میں عمومی طور پر معاشی اور سماجی حالات پہلے سے کہیں بدتر ہو گئے۔2011ء اور 12ء کی طرح 2013ء میں بھی سرمایہ دارانہ نظام عالمی طور ایک شدید بحران کی زد میں رہا اور اب پہلے سے زیادہ گہری عالمی کساد بازاری کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سرمایہ داری کے سنجیدہ دانشور مستقبل قریب میں کسی بہتری اور معاشی بہالی سے ناامید دکھائی دیتے ہیں۔نوبل انعام یافتہ معیشت دان پال کروگ مین نے 17 نومبر 2013ء کو نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ’’پچھلے پانچ سالوں میں جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ ایک نیا معمول ہے۔یہ بحران ایک یا دو سال نہیں بلکہ کئی دہائیاں جاری رہے گا۔نظر تو یہی آرہا ہے کہ آنے والے لمبے عرصے تک معاشی بحران کے قوانین ہی معیشت پر لاگو رہیں گے۔‘‘

یونان میں معاشی کٹوتیوں کے خلاف مظاہرے اور ہڑتالیں جاری رہیں۔ زیر نظر تصویر میں فروری کی عام ہڑتال کے دوران کیمونسٹ پارٹی کے ارکان مارچ کر رہے ہیں

2013ء کا پورا سال یورپ کی ریاستیں محنت کشوں اور نوجوانوں کے احتجاجوں سے کانپتی رہیں۔ یورپی بورژوازی ان تحریکوں کو نہ تو براہ راست آمرانہ حکومتوں کے ذریعے کچل سکتی ہے اور نہ ہی موجودہ وقت میں فسطائیت (Fascism) کو بڑی سماجی بنیادیں میسر ہیں۔ محنت کشوں کے سامنے اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے راستے میں اصل رکاوٹ سوشل ڈیموکریسی اور روایتی ٹریڈ یونین قیادتیں ہیں۔ محنت کش طبقے سے غداری اصلاح پسندی کی خصلت میں شامل ہے۔ امریکہ میں بھی محنت کش اور نوجوان دونوں بڑی پارٹیوں سے بیزار اور لا تعلق نظر آرہے ہیں۔ وکی لیکس کے بعد ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات نے امریکی سامراج اور سرمایہ دارانہ سفارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے عیاں کر دیاہے۔
شرح نمومیں تیز رفتار گراوٹ، روپے کی قدر میں تیزی سے کمی اور انفرا سٹرکچر کی زبوں حالی سے ہندوستان کے مشہور زمانہ ’’معاشی معجزے‘‘ (Miracle Economic) کی چمک دمک ماند پڑ چکی ہے۔ نریندر مودی کا فسطائی ابھار بھارت کے پرولتاریہ کے لیے ایک تشویش ناک انتباہ ہے۔ مودی، ٹاٹا اور امبانی جیسے ہندوستان کے بڑے کارپوریٹ گھرانوں کا پسندیدہ لیڈر ہے۔انیل امبانی نے کچھ دن پہلے ایک محفل میں برملا کہا ہے کہ ’’مودی انسانوں کا دیوتا، لیڈروں کا لیڈر اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔‘‘ ہندوستان کے امیر ترین سرمایہ دار کے یہ الفاظ بھارت کے غریبوں کے خلاف اعلان جنگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔کانگریس کی سیکو لر شعبدہ بازی سے ہندو بنیاد پرستی اور رجعت کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ۔’’عام آدمی پارٹی‘‘ کی تمام تر نعرہ بازی کے باوجوددہلی میں اس کی حکومت بننے پر بڑے کاروباری حضرات کی طرف سے ملنے والے مبارکبادیں اس نئی سیاسی جماعت کی اصلیت کو بے نقاب کرتی ہیں۔آنے والے دنوں میں حکمران طبقے کے پے در پے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بھارت کی کمیونسٹ پارٹیوں کو اصلاح پسندی کی روش ترک کر کے طبقاتی بنیادوں پر سیاست کرتے ہوئے انقلابی سوشلزم کی راہ پر چلنا ہو گا۔

زائد پیداواری صلاحیت کو کھپانے کے لئے چین میں دیو ہیکل ’’کینشین تجربہ‘‘ کیا جارہا ہے اور ریاست مصنوعی طور پر شرح نمو کو برقرار رکھنے کے لئے انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔ زیر نظر تصویر ہزاروں گھروں پر مشتمل ایک ایسے شہر کی ہے جہاں کوئی نہیں رہتا

چین میں جاری بے چینی واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ اس سال کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کی منتقلی دس برس قبل کے مقابلے میں کہیں زیادہ پر انتشار تھی۔ آج چین میں عدم مساوات ساری دنیا سے زیادہ ہے۔ نیچے سے اٹھنے والی عوام کی تحریکیں اور محنت کشوں کی ہڑتالیں کمیونسٹ پارٹی (جو نہ کیمونسٹ ہے اور نہ ہی پارٹی)کی آمریت میں دراڑیں ڈال رہی ہیں۔چینی بیوروکریسی کینشین ازم کے مصنوعی طریقے سے معاشی شرح نمو کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن یہ عمل زیادہ دیر تک نہیں چل پائے گا۔ چین کا سماج درحقیقت ایک بڑے دھماکے کے لئے پک کر تیار ہو چکا ہے۔ نپولین نے کہا تھا ’’جب چین جاگے گا تو دنیا دہل جائے گی۔‘‘ چین، جاپان اور جنوبی کوریا کے درمیان سرحدی تنازعے (جن کی بنیاد معدنیات کے وسیع زخائر ہیں) اس خطے میں تباہ کن کشیدگی کو جنم دے سکتے ہیں۔اسی طرح امریکہ اور چین کے مابین متضاد اور نازک تعلقات، معاشی بحران میں شدت کے ساتھ فلپائن سے لے کر ولاڈیوسٹاک (روس) تک بڑے پیمانے پر ہل چل پیدا کر سکتے ہیں۔

مصر میں کروڑوں افراد کے مظاہروں نے اخوان المسلمون کی حکومت کا خاتمہ کر دیا

اگرچہ سی آئی اے کامنجھا ہوا اہلکار اور اوباما کا مشیر بروس ریڈل امریکی سامراج اور اخوان المسلمون کے درمیان موقع پرستی کی بنیاد پر دوبارہ ملاپ کرانے میں کامیاب ہو گیا تھا لیکن مورسی کو2011ء سے بھی کئی گنا بڑی عوامی تحریک نے اکھاڑ پھینکا۔ جرنل سیسی سے وابستہ مصری عوام کی امیدیں بھی جلد ہی ٹوٹ جائیں گی ۔ خانہ جنگی نے شام کو برباد کر ڈالا ہے ۔ طویل عرصے تک فریقین کا امتحان لیتی ہوئی یہ خون ریز جنگ شام کو ٹکڑوں میں تقسیم کر سکتی ہے۔شام پر حملہ کرنے سے پہلے ہی جنگ سے دستبرداری امریکی سامراج کی معاشی، سیاسی اور عسکری تنزلی کی غمازی کرتی ہے۔ لیبیا میں کشیدگی اور عدم استحکام مسلسل جاری ہے۔ جون میں شروع ہونے والے بڑے مظاہروں نے طیب اردگان کی مذہبی سرمایہ دارانہ حکومت کو ہلا کر رکھ دیا اور ترک سماج میں ہلچل تاحال جاری ہے۔بحرین، کویت، اردن اور مشرق وسطیٰ کے رجعتی حکمران عوامی تحریکوں کا شکار بننے سے خوفزدہ ہیں۔ اسرائیل فلسطین تنازعہ ایک رستا ہوا ناسور بن چکا ہے۔ دو ریاستوں پر مبنی حل اپنی موت آ پ مر چکا ہے۔ یہ واضح ہوچکا ہے کہ اس تنازعے کو سرمایہ دارانہ بنیادوں پر حل نہیں کیاجا سکتا۔ ایرانی ملا اشرافیہ، عوام کی بے چینی اور معاشی بحران کے پیش نظر سامراج سے مصالحت کی نئی روش اختیار کر چکی ہے تاہم اس مصالحت کے زیادہ عرصے تک چلنے کے امکانات کم ہیں۔

شاویز کی وفات کے بعد نکولس مادورو کی قیادت میں PSUV نے صدارتی اور بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی

شاویز کی موت کے بعد وینزویلا میں سوشلسٹوں کی انتخابی فتوحات اور لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کی حکومتوں کے ابھار نے اس براعظم میں انقلابی لہر کی پسپائی کے دعوؤ ں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان میں بنیاد پرستوں کی دہشت گردی اور سامراجی جارحیت کے ہاتھوں تباہی و بربادی مزید اذیت ناک ہو چکی ہے۔ کالا دھن سرطان کے ناسور کی طرح پھیل کر اب ریاست اور سماج کے تمام اعضاء میں سرائیت کر چکا ہے۔سیاستدانوں اور جرنیلوں سے لے کر افسر شاہی، ملاؤں اور لبرل دانشوروں تک، سب اس گھناؤنے کھیل میں ملوث ہیں۔جمہوری حکومت سے جمہوری حکومت تک اقتدار کی منتقلی نے رعایا کی ذلت اور محرومی میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے۔2013ء میں بھی ہر روز 1184 بچے بھوک اور غربت سے مرتے رہے، علاج نہ ملنے کے باعث ان گنت مائیں زچگی کے دوران جان گنواتی رہیں اور بزرگ وقت سے پہلے رخصت ہوتے رہے، لاکھوں لوگ خط غربت سے نیچے گر گئے، انسانیت سسکتی رہی۔۔۔اس ملک کے کروڑوں بدحال انسانوں کے کئے نیا سال کب چڑھے گا؟
دنیا میں کوئی خطہ بھی سرمایہ داری کے سماجی اور معاشی بحران کی تباہ کاریوں سے نہیں بچ سکتا۔ حکمران اشرافیہ اور سامراجی آقا اربوں انسانوں کو خوفناک اذیت اوربھیانک ذلت میں جھونک کر اربوں جمع کر رہے ہیں۔ ایسا نظام نہ تو جاری رہ سکتا ہے اور نہ ہی اسے جاری رہنے کا کوئی حق ہے۔ کسی ایک بھی بڑے ملک میں محنت کشوں کی انقلابی فتح کی صورت میں، دنیا کے عوام گھروں میں بیٹھ کر ٹیلی وڑن پر انقلاب دیکھنے تک محدود نہیں رہیں گے۔2014ء میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی نئی تحریکیں اس صبح کی طرف بڑھیں گی جو نسل انسانی کی نجات کا پیغام لے کر طلوع ہوگی ۔وہی سال مبارک ہوگا جس میں انسان سرمائے کی حاکمیت سے آزادی حاصل کرے گا!