۔2012ء؛ ایک جائزہ

[تحریر: لال خان، ترجمہ: نوروز خان]
نسبتاً جمود کی لگ بھگ دو دہائیوں کے بعد 2011ء دنیا بھر میں بڑی تحریکوں کا سال تھا۔ جابر اور تباہ کن سرمایہ دارانہ نظام کو مسترد کرتے ہوئے عالمی پیمانے پر تمام بر اعظموں میں عظیم عوامی مظاہرے ہوئے جن کی مثال تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ملتی۔ دنیا بھر میں 900 سے زیادہ شہروں میں ’وال سٹریٹ پر قبضے‘ کی تحریک کی حمایت میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے کارل مارکس کے تناظر کوسچ ثابت کر رہے تھے جس نے آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے یہ معروف قول دیا تھا کہ ’’دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ‘‘۔
تاہم یہ تحریکیں انقلاب کی منزل کو نہ پا سکیں۔ سماجی اور معاشی تبدیلی کی خاطر اٹھے عوام سرمایہ داری کے دانشورں کی جانب سے ان تحریکوں کو سیاسی رنگ دینے پر دنگ تھے۔ انقلابی قیادتوں اور پارٹیوں کے فقدان کی وجہ سے حکمران طبقات اقتدار کے ایوانوں کے اندر اپنے نمائندوں کے چہرے بدلنے میں کامیاب رہے لیکن عوام کے لئے کچھ تبدیل نہیں ہوا۔ اگر کچھ ہوا ہے تو یہ کہ ان سماجوں میں عمومی طور پر معاشی اور سماجی حالات پہلے سے کہیں بدتر ہوئے ہیں۔ 2012ء میں سرمایہ دارانہ نظام عالمی طور ایک شدید بحران کی زد میں رہا اور اب پہلے سے زیادہ گہری عالمی کساد بازاری کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ’’یورپ، جاپان اور امریکہ میں شروع ہونے والا معاشی بحران،برآمدات کی طلب میں کمی، سرمائے کے بہاؤ اور اجناس کی قیمتوں میں بڑھتی بے یقینی کی صورت میں ترقی پذپر ممالک پر اثر انداز ہونا شروع ہوگیا ہے۔ یورو کے بحران میں شدت، امریکہ میں’’مالیاتی کھائی‘‘ (Fiscal Cliff) اور چینی معیشت کی تیز گراوٹ عالمی کساد بازاری کو جنم دے سکی ہے‘‘۔
یورپ میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی جدوجہد جاری ہے جس سے 2012ء میں ریاستیں کانپتی رہیں۔ اس برس 14 نومبر کو یورپ گیر عام ہڑتال کی کوشش کی گئی جو پرولتاریہ کے بڑھتے انقلابی شعور کی علامت ہے۔ یورپی بورژوازی ان تحریکوں کو نہ تو براہ راست آمرانہ حکومتوں کے ذریعے کچل سکتی ہے اور نہ ہی موجودہ وقت میں فسطائیت (Fascism) بڑی سماجی بنیادیں حاصل کر سکتی ہے۔ محنت کشوں کی جانب سے ان کی زندگیوں کو برباد کرنے والے اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے میں اصل رکاوٹ سوشل ڈیموکریسی اور روایتی ٹریڈ یونین قیادتیں ہیں۔ محنت کشوں سے غداری اصلاح پسندی کی خصلت میں شامل ہے۔ امریکہ میں اوباما کی فتح سے امریکی محنت کش اکتائے ہوئے اور لا تعلق نظر آئے۔ 2008ء کی خوش فہمیاں کب کی دم توڑ چکی ہیں۔
شرح نمومیں تیز رفتار گراوٹ، روپے کی قدر میں تیزی سے کمی اور انفرا سٹرکچر کی زبوں حالی سے ہندوستان کے بہت تشہیر شدہ ’’معاشی معجزے‘‘ (Economic Miracle) کی چمک دمک ماند پڑ چکی ہے۔ گجرات میں نریندر مودی کی بڑی فتح ہندوستانی پرولتاریہ کے لیے ایک تشویش ناک انتباہ ہے۔ مودی ٹاٹا اور امبانی برادران جیسے ہندوستان کے بڑے کارپوریٹ گھرانوں کا پسندیدہ لیڈر ہے۔ کانگریس کی سیکو لر شعبدہ بازی سے ہندو بنیاد پرستی اور رجعتیت کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ، بلکہ اس کے لیے کمیونسٹ اور بائیں بازو کی پارٹیوں کو اس جعلی تضاد کے غیر ضروری تماشے کا خاتمہ کرنے کے لئے طبقاتی بنیادوں پر سیاست کرتے ہوئے انقلابی سوشلزم کی راہ پر چلنا ہو گا۔
چین میں جاری بے چینی واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ اس سال کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کی منتقلی دس برس قبل کے مقابلے میں کہیں زیادہ پر انتشار تھی۔ آج چین میں عدم مساوات ساری دنیا سے زیادہ ہے۔ نیچے سے اٹھنے والی یہ تحریکیں کمیو نسٹ پارٹی کی آمرانہ یکجہتی میں دراڑیں ڈال رہی ہیں۔ آنے والے وقت میں چین میں دھماکہ خیز واقعات رونما ہوں گے اور طبقاتی جدوجہد کا لاوا پھٹ پڑے گا۔ نپولین نے کہا تھا ’’جب چین جاگے گا تو دنیا دہل جائے گی‘‘۔ چین، جاپان اور جنوبی کوریا کے درمیان سرحدی اور معدنیات کے تنازعے اور اس کے ساتھ پیانگ یانگ (شمالی کوریا) سے چھوڑے جانے والے راکٹ اس خطے میں تباہ کن کشیدگی کو جنم دے سکتے ہیں۔ امریکہ اور چین کے مابین متضاد اور نازک تعلقات تجارتی اور معاشی بحران میں شدت کے ساتھ مزید خطرناک ہو ں گے اور فلپائن سے لے کر ولاڈیوسٹاک تک بحر اوقیانوس میں بڑے پیمانے پر ہل چل ہو گی۔ اگرچہ سی آئی اے کامنجھا ہوا اہلکار اور اوباما کا مشیر بروس ریڈل امریکی سامراج اور اخوان المسلمون کے درمیان موقع پرستی کی بنیاد پر دوبارہ ملاپ کرانے میں کامیاب ہو گیا ہے لیکن مورسی کی فتح بہت تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ تیونس میں یہی کام برطانوی خفیہ ادارے MI-5 نے کیا ہے۔ ایسا دکھائی دے رہا ہے جیسے مذہبی بورژوا رد انقلاب کامیاب ہو گیا ہے لیکن امریکہ کی پشت پناہی والی ان حکومتوں کے خلاف ابھی سے ہی بغاوتیں شروع ہو چکی ہیں۔ خانہ جنگی نے شام کو برباد کر ڈالا ہے اور امریکی، یورپی، سعودی اور قطری مداخلت نے انتہائی رجعتی غنڈوں اور اسلامی بنیاد پرستوں کو مضبوط کیا ہے، طویل عرصے تک فریقین کو کریدتی ہوئی گھسم گھسے کی یہ خون ریز جنگ شام کو ٹکڑوں میں تقسیم کر ڈالے گی۔ لیبیا میں کشیدگی مسلسل جاری ہے۔ بحرین، کویت ، اردن اور مشرق وسطیٰ کے دیگر رجعتی حکمران عوامی تحریکوں کے ہاتھوں تختہ الٹے جانے سے خوفزدہ ہیں۔ اسرائیل فلسطین تنازعہ ایک رستا ہوا ناسور بن چکا ہے۔ دو ریاستوں پر مبنی حل اپنی موت مر چکا ہے۔ یہ واضح ہوچکا ہے کہ اس تنازعے کو سرمایہ دارانہ بنیادوں پر حل نہیں کیاجا سکتا۔ ایرانی ملا اشرافیہ نے اقتدار کی شروعات ہی سے اندرونی بغاوتوں کو کچلنے کے لیے بیرونی دشمنی کو استعمال کیا ہے۔ اسرائیل کے صیہونی رجعتی لیڈر بھی ایسا ہی کرتے آئے ہیں۔ اگرچہ ایران پر حملے کا بہت زیادہ امکان نہیں لیکن خلیج فارس میں کسی بھی جنگ سے ساری دنیا پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
جنوبی افریقہ سے مغرب تک تاریک بر اعظم لڑائی اور خون ریزی کے ہاتھوں تاراج ہے۔ جنوبی افریقہ میں کان کنوں کی ہڑتال اور نائیجیریا میں محنت کشوں کی تحریک افریقہ میں طبقاتی جدوجہد کی ایک نئی لہر کا پیش خیمہ ہیں۔ وینزویلا میں شاویز کی فتح اور لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کی حکومتوں کے ابھار نے اس براعظم میں انقلابی لہر کی پسپائی کے دعوؤ ں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں بنیاد پرستوں کی دہشت گردی اور سامراجی جارحیت کے ہاتھوں تباہی و بربادی مزید اذیت ناک ہو چکی ہے۔ منشیات کی تجارت اور اس کا کالا دھن سرطان کے ناسور کی طرح پھیل کر اب ریاست اور سماج کے تمام اعضاء میں سرائیت کر چکا ہے۔ میڈیا مالکان سے لے کر جرنیلوں اور بڑے بیورو کریٹس تک اور ملاؤں سے لے کر سیکو لر سیاست دان سب اس گھناؤنے کھیل میں ملوث ہیں۔
دنیا میں کوئی خطہ بھی سرمایہ داری کے سماجی اور معاشی بحران کی تباہ کاریوں سے نہیں بچ سکتا۔ حکمران اشرافیہ اربوں جمع کر رہے ہیں۔ اربوں انسان خوفناک اذیت اوربھیانک ذلت میں جھونک دیے گئے ہیں۔ ایسا نظام نہ تو جاری رہ سکتا ہے اور نہ ہی اسے جاری رہنے کا کوئی حق ہے۔ اسے اکھاڑ پھینکنا ہو گا۔ کسی ایک بھی بڑے ملک میں محنت کشوں کی انقلابی فتح کی صورت میں، باقی دنیا کے عوام گھروں میں بیٹھ کر ٹیلی وژن پر انقلاب دیکھنے تک محدود نہیں رہیں گے۔ ایک انقلابی فتح انہیں سڑکوں پر لے آئے گی جہاں وہ اس انقلابی تحریک میں شامل ہو ں گے جس کا مقصد نسلِ انسانی پر اس شرمناک جبر اور استحصال کا خاتمہ ہو گا۔