امریکی سامراج: ماضی، حال اور مستقبل

’’امریکی سامراج وہ دیو ہے جس کے پاؤں مٹی سے بنے ہوئے ہیں‘‘ لیون ٹراٹسکی

[تحریر: عمران کامیانہ]
بورژوا دانشور عام طور پر کمزور ریاستوں پر طاقتور ریاستوں کے غلبے کو سامراجیت کا نام دیتے ہیں۔ ’’ڈکشنری آف ہیومین جیوگرافی‘‘کے مطابق سامراجیت ’’ایک غیر مساوی علاقائی تعلق ہے‘‘ جس کے زیر اثر ’’ایک ریاست، کسی دوسری ریاست پر اپنا تسلط قائم کرتی ہے۔‘‘ وکی پیڈیا پر سامراجیت کی یہی تعریف موجود ہے۔ عمومی طور پر یہ تعریف درست تسلیم کی جاسکتی ہے اور سامراجیت کے مظہر کی اساس کو بیان کرتی ہے لیکن انسانی سماج اور اس کی حرکیات اتنی سادہ نہیں ہوتیں۔ سرمایہ دارانہ سماج میں جدید سامراج کے ظہور اور موجودہ عہد میں مختلف سامراجی طاقتوں کے دنیا پر تسلط، اسکی معاشی بنیادوں اور سیاسی مضمرات کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کرنے کے لئے ہمیں مارکسزم کے جدلیاتی طریقہ کار کو استعمال کرنا پڑے گا۔

سامراجیت (Imperialism) کیا ہے؟
لینن نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’سامراجیت: سرمایہ داری کی آخری منزل‘‘ میں سامراجیت کو سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقا کی خاص منزل سے تعبیر کیا تھا۔ یعنی بورژوا نقطہ نظر کے برخلاف سامراجیت کسی خاص طرز کی خارجہ پالیسی نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقا کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ لینن نے وضاحت کی تھی مارکس کے عہد کے چھوٹے کاروبار انیسویں صدی کے آغاز تک ادغام (Mergers) کے نتیجے میں بڑی کارپوریشنوں میں تبدیل ہوچکے ہیں جو پوری منڈی پر حاوی ہیں۔ ادغام کا یہ عمل ابھی مکمل نہیں ہوا بلکہ مسلسل جاری ہے جس میں بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگل رہی ہے اور بڑی کارپوریشنیں آپس میں مل کر دیوہیکل کاروباری اجارہ داریوں میں تبدیل ہورہی ہیں۔ سرمایہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتاچلا جارہا ہے اور منڈی کی مقابلہ بازی پر مبنی سرمایہ داری اب اجارہ دارانہ سرمایہ داری میں تبدیل ہوچکی ہے۔
’’سامراجیت کو مختصر ترین الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ یہ سرمایہ داری کی اجارہ دارانہ منزل (مرحلہ) ہے۔ قومی سطح پر ادغاموں، دیوالیہ پن اور اجارہ داری کے رجحان کی وجہ سے جہاں مقابلہ بازی کم ہوئی ہے وہاں عالمی سطح پراس میں شدت آئی ہے۔ کاروباروں کو (عالمی سطح پر) اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ریاست کی منظم قوت اور وسائل درکار ہیں۔‘‘(لینن)
آج ہم سامراجیت کے اسی عہد میں رہ رہے ہیں جہاں عالمی سطح پر بڑی کاروباری اجارہ داریوں یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالی مفادات کے پیش نظر سامراجی ممالک کی ریاستیں کھربوں ڈالر فوجی اخراجات کی مد میں مختص کرنے پر مجبور ہیں۔ ان مالی مفادات میں تیسری دنیا کے معدنی وسائل، سستی قوت محنت، منڈیاں اور ’’حلقہ اثر‘‘ میں اضافہ شامل ہیں۔ عام طور پرکسی ریاست کے سامراج میں تبدیل ہونے کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب اس سے وابستہ اجارہ داریاں سرمایہ برآمد کرنا شروع کر دیتی ہے۔ سرمایہ صنعتی بھی ہوسکتا ہے او ر مالیاتی بھی۔ یہاں سرمائے اور ’’اجناس‘‘ کے مابین تمیز بہت ضروری ہے، بہت سی معیشتیں مختلف ممالک کو اجناس برآمد کرتی ہیں لیکن انہیں سامراج نہیں کہا جا سکتا۔
سرمائے کی برآمدگی کا یہ عمل پیداواری قوتوں کے دیوہیکل حجم، زائد پیداوار اور پیداواری صلاحیت کے بحران، منڈی کی محدودیت اور بطور نظام سرمایہ داری کی متروکیت کو واضح کرتا ہے۔ زائد پیداوار کو کھپا کر شرح منافع کو برقرار رکھنے کے لئے دنیا کے مختلف خطوں اور ممالک کو سیاسی اور عسکری طور پر اپنے حلقہ اثر میں لانے کا نام ہی سامراجیت ہے۔ لیکن دنیا کے زیادہ سے زیادہ خطوں پرتسلط کی تگ و دو مختلف سامراجی قوتوں میں لامحالہ طور پر تضادات کو جنم دیتی ہے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں انہیں تضادات کا نتیجہ تھیں جن میں برسرپیکار ہر ملک کی ریاست وسیع تر منڈیوں اور خام مال کے حصول کے لئے اپنی بورژوازی کی جنگ لڑ رہی تھی۔ پہلی عالمی جنگ میں امریکہ کا کردار نسبتاً محدود تھا۔ اس عہد میں امریکی صنعت اور معیشت کی ترقی نے اسے ایک ابھرتا ہوا سامراج بنا دیا تھا۔ 1929ء کا ’’عظیم مالیاتی بحران‘‘ امریکی منڈی کی محدودیت کی علامت تھی جس سے نکلنے کی ناکام کوشش کنشین معاشی پالیسیوں کو اپنا کر کی گئی لیکن قلیل المدت بحالی کے بعد بحران بڑھ گیااور دوسری عالمی جنگ ہی امریکی معیشت کو اس بحران سے نکال پائی۔

دوسری عالمی جنگ کے نتائج
دوسری عالمی جنگ کے اختتام نے ایک نئے عہد کا آغاز کیا۔ جرمنی کو شکست دینے کے بعد سوویت یونین ایک مضبوط معاشی اور عسکری قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ برطانیہ، جرمنی، جاپان وغیرہ جیسی ماضی کی سامراجی طاقتیں معاشی بدحالی یا جنگی شکست کی وجہ سے بطور سامراج ختم ہوگئیں یا پھر انکا اثرو رسوخ محدود ہوگیا اور انہیں سوویت یونین کے خلاف اس سرمایہ دارانہ بلاک میں شامل ہونا پڑا جسکی باگ ڈور اب امریکہ کے ہاتھ میں تھی۔ ماضی کی سامراجی طاقتوں کی طرح نوآبادیاتی عہد میں اپنائے جانے والے براہ راست تسلط کے طریقہ کار بھی متروک ہوگئے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سوویت یونین ایک سامراجی طاقت تھی؟ اس سوال کے تفصیلی جواب کے لئے ہمیں لامحالہ طور پر سوویت یونین کی ریاستی نوعیت پر بحث کرنا پڑے گی، لہٰذا موضوع سے ہٹنے کی بجائے اس سوال کا جواب نفی میں دے کر اتنی وضاحت ہی کی جاسکتی ہے کہ سوویت یونین کی کئی دہائیوں پر مشتمل سٹالن اسٹ زوال پزیری کے باوجود اس کی معیشت منصوبہ بند تھی۔ منصوبہ بند معیشت کی قوت محرکہ چونکہ منافع کی بجائے انسانی ضرورت کی تکمیل ہوتی ہے لہٰذا ایسی معیشت فطری طور پر ہی سامراجی ریاست کو جنم نہیں دے سکتی۔ سرمایہ دارانہ بلاک کے مقابلے میں سوویت بیوکریسی اگرچہ اپنے عسکری اور سیاسی حلقہ اثر کو بڑھانے میں ہمیشہ سرگرم رہتی تھی لیکن اس کے باوجود سوویت یونین کو کم از کم معاشی لحاظ سے ’’سامراج‘‘ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

یالٹا کانفرنس: ونسٹن چرچل، روز ویلٹ اور جوزف سٹالن

دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر فاتحین (امریکہ، سوویت یونین اور برطانیہ) کے درمیان دنیا کی بندر بانٹ کے لئے کئی معاہدے طے پائے۔ اس عمل کا آغاز اگرچہ نومبر 1943ء میں منعقد ہونے والی تہران کانفرنس سے ہی ہوگیا تھا لیکن باضابطہ معاملات جنگ کے اختتام پر ہونے والے ’پوٹس ڈیم‘ اور ’یالٹا‘ معاہدوں میں طے پائے۔ یالٹا کانفرنس فروری 1945ء میں منعقد ہوئی جس میں ونسٹن چرچل(برطانوی وزیر اعظم)، فرینکلن ڈی روزویلٹ (امریکی صدر) اور جوزف سٹالن شریک تھے۔ پوٹس ڈیم معاہدہ کلیمنٹ ایٹلی(برطانوی وزیر اعظم)، ہیری ٹرو مین (امریکی صدر) اور جوزف سٹالن کے درمیان اگست 1945ء میں طے پایا۔ دوسری عالمی جنگ کے اواخر میں اپنے ’اتحادیوں‘، یعنی امریکہ اور برطانیہ کے اسرار پر سٹالن تیسری انٹرنیشنل (کامنٹرن) کو مئی 1943ء میں ہی تحلیل کر چکا تھا۔ اب سوویت بیوروکریسی نے ان معاہدوں کی رو سے ’امن برائے بقائے باہمی‘ کو باقاعدہ طور پر اپنی خارجہ پالیسی کا حصہ بنا لیااور یوں لینن ازم کے بنیادی نظریات کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے محنت کش طبقے سے بدترین غداری کی مرتکب ہوئی۔ ’امن برائے بقائے باہمی‘ کے ’نظریے‘ کی رو سے دنیا سوشلسٹ اور سرمایہ دارانہ بلاکوں میں تقسیم ہوچکی تھی اور دونوں اطراف کی بقا کے لئے ’امن‘ ضروری تھا اور یہ امن ایک دوسرے کے سیاسی معاملات اور جغرافیائی حدود میں عدم مداخلت کے ذریعے ممکن تھا۔ دنیا بھر کی ’’کیمونسٹ پارٹیوں‘‘ کی قیادت نے ماسکو میں بیٹھے اپنے آقاؤں کی اس پالیسی کو من و عن تسلیم کرلیا اوردوسری عالمی جنگ کے بعدسے لے کر
سوویت یونین کے انہدام تک ’بوقت ضرورت‘ درجنوں انقلابات کوانقلاب کے ’’قومی جمہوری مرحلے‘‘ اور Two Stage-ism کے فرسودہ نظریات کی بلی چڑھا دیا گیا تاکہ عالمی سطح پر ’طاقتوں کا توازن‘بگڑنے نہ پائے۔ سٹالن ازم کی ان نظریاتی غداریوں اور جرائم کی سزا کئی نسلوں نے بھگتی اور عالمی سرمایہ داری کو دوسری عالمی جنگ کے بعد سانس لے کر اپنا وجود قائم رکھنے کے سنہری مواقع میسر آئے۔

امریکی سامراج کا ابھار
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ حتمی طور پر دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی سامراجی طاقت بن کر ابھرا۔ جنگ عظیم کی خوفناک تباہی نے عالمی سرمایہ داری کو پہلے کبھی نہ دیکھا گیا معاشی عروج عطا کیا۔ بڑھتی ہوئی عالمی تجارت (Globalization) اور تعمیر نو کے ذریعے بلند ترین شرح منافع اور شرح نمو حاصل کی گئی۔ جنگ کا سب سے زیادہ فائدہ امریکی سرمایہ داری کو ہوا کیونکہ
*جنگی تباہی نے زائد پیداواری قوتوں کا خاتمہ کیا، منڈی میں نئی گنجائش پیدا ہوئی اور 1929ء میں شروع ہونے والا عظیم مالیاتی بحران (Great Depression) اختتام پذیر ہوا۔
*یورپی صنعت کی تباہی کے بعد امریکہ سرمایہ داروں کو کئی دہائیوں تک عالمی منڈی میں کسی مقابلہ بازی کا سامنا نہیں تھا۔
*جنگ باقاعدہ طور پراگرچہ امریکی سرزمین تک نہیں پہنچی تھی اور امریکا کا صنعتی انفراسٹرکچر تباہی سے محفوظ رہا لیکن جنگ عظیم کے تمام عرصے میں امریکہ میں حالت جنگ کے قوانین نافذ رہے جنہیں استعمال کرتے ہوئے امریکہ سرمایہ داروں نے محنت کشوں کا ہر ممکن حد تک استحصال کیا اور بڑے پیمانے پر قدر زائد حاصل کی۔
*امریکی جنگی صنعت کو اسلحے کی بڑی منڈی میسر آئی اور شرح منافع آسمان سے باتیں کرنے لگی۔ جنگ کے دوران اس صنعت میں اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہوئی کہ کچھ عرصے کے لئے امریکہ میں بیروزگاری تقریباً ختم ہوگئی۔
*جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد امریکی بینکوں نے یورپی ممالک کو بڑے پیمانے پر قرضے دیے۔ سود سمیت ان قرضوں کی واپسی 1980ء کی دہائی تک جاری رہی۔
سرد جنگ کے واقعات کی بنیاد پر سوویت ’کیمونزم‘ اور سرمایہ داری کا تقابلی جائزہ کرنے والے ’دانشور‘ مندرجہ بالا نکات کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ بالشویک انقلاب پہلی عالمی جنگ سے تباہ حال اور تکنیکی طور پر انتہائی پسماندہ ملک میں رونما ہوا تھاجس کے فوراً بعد انقلابی حکومت کو پانچ سال تک رجعتی سفید فوج کے ساتھ داخلی محاذ پر برسر پیکار رہنا پڑا جسے ایک درجن سے زائد سرمایہ دارانہ ممالک (امریکہ سمیت) کی مالی، افرادی اور فوجی امداد حاصل تھی۔ دوسری عالمی جنگ میں بھی سوویت یونین سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان اٹھانے والا ملک تھا جبکہ اس دوران امریکہ جغرافیائی طور پر کسی جنگ سے متاثر نہیں ہوا۔

سرد جنگ کی مشہور تصویر جس میں دو امریکی جیٹ طیارے ایک سوویت بمبار کے قریب سے تنبیہی پرواز کرتے ہوئے گزر رہے ہیں

سرد جنگ کا عہد
دوسری عالمی جنگ کے بعد افسر شاہانہ زوال پزیری کے باوجود منصوبہ بند معیشت کے زیر اثر سوویت یونین اور مشرقی یورپ نے انسانی تاریخ کی تیز ترین رفتار سے ترقی کی۔ سرمایہ داری نے مغرب میں جو انفراسٹرکچر صدیوں میں تعمیر کیا تھا، معاشی منصوبہ بندی کے تحت اسے دہائیوں میں تعمیر کیا گیا۔ 1950ء اور 60ء کی دہائیوں میں سوویت معیشت جس رفتار سے ترقی کر رہی تھی اس کے پیش نظر بورژوا ماہرین معیشت غیر اعلانیہ طور پر اپنی شکست تسلیم کرچکے تھے۔ خود امریکی پالیسی سازوں کو یقین تھا کہ 1980ء کی دہائی کے آخر تک سوویت یونین کا جی ڈی پی امریکہ سے بڑھ جائے گا۔ سوویت بیوروکریسی کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ سوویت پریمیر نکیٹا خروشیف نے نومبر 1956ء میں مغربی سفارتکاروں سے خطاب کرتے ہوئے ببانگ دہل کہا تھا ’’آپ مانیں یا نہ مانیں تاریخ ہمارے ساتھ ہے۔ ہم تمہیں دفن کردیں گے!‘‘

نکیٹا خروشیف

جنگ عظیم کے بعد عالمی افق پر ابھرنے والی دو بڑی طاقتیں مختلف ہی نہیں، دومتضاد معاشی نظاموں کی نمائندگی کرتی تھیں اور دونوں کے مابین چپقلش ناگزیر تھی۔ متضاد مفادات رکھنے والی دو عالمی طاقتوں کے درمیان عالمی سطح پر سیاسی، سفارتی و عسکری تناؤ اور مسابقت کو ’’سرد جنگ‘‘ کہا جاتا ہے جس کا باقاعدہ آغاز مشرقی یورپ میں امریکی مارشل پلان کے نفاذ سے ہوا۔ نتیجتاً دنیا نظریاتی، سیاسی، معاشی اور عسکری حوالے سے دو بلاکوں میں تقسیم ہوگئی۔
عسکری طور پر سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے لئے یورپی سرمایہ دارانہ ممالک اور امریکہ نے اپریل 1949ء میں ’’نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی‘‘ کے تحت NATO کی بنیاد رکھی۔ مئی 1955ء میں مغربی جرمنی نیٹو میں شامل ہوگیا جس کے جواب میں سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں اس کی اتحادی ریاستوں نے اسی سال وارسا میں مغربی سامراج کے خلاف ایک دفاعی معاہدے کے تحت ’’وارسا پیکٹ آرگنائزیشن‘‘ قائم کی۔

جنوبی ویت نام کا فوجی افسر ایک شہری کو کیمونسٹ ہونے کے جرم میں سر عام گولی سے اڑا رہا ہے

ویت نام جنگ
سرد جنگ کا عہد دو عالمی بلاکوں کے درمیان چھوٹے بڑے بالواسطہ یا بلا واسطہ عسکری تنازعات سے بھرپور تھا۔ بڑے تنازعات میں ویت نام جنگ سر فہرست ہے۔ 1954ء میں ویت من (کیمونسٹ گوریلا فوج) اور فرانسیسی سامراج کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت ویت نام کو جرمنی کی طرح عارضی طور پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ شمالی ویت نام کیمونسٹوں کے کنٹرول میں تھاجبکہ جنوبی ویت نام میں مغرب (امریکہ اور فرانس) کی کٹھ پتلی ’’عبوری‘‘حکومت قائم کی گئی۔ معاہدے کے تحت 1956ء میں عام انتخابات کے تحت نئی حکومت قائم کر کے ملک کو دوبارہ متحد ہوجانا تھا۔ امریکی کٹھ پتلی حکومت کو پتا تھا کہ انتخابات میں کیمونسٹ بھاری مارجن سے جیت جائیں گے چنانچہ 1955ء میں جنوبی ویت نام میں کیمونسٹوں کا قتل عام شروع کر دیا گیا جس کے جواب میں ویت من نے 1957ء میں کٹھ پتلی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ جنگ میں امریکہ کی براہ راست شمولیت 1965ء میں ہوئی۔ ہمیشہ کی طرح امریکی بحری جہازوں پر جعلی حملہ کروا کے اسے جنگ کا جواز بنایا گیا۔ ویت نام جنگ میں براہ راست مداخلت معاشی عروج کے دوران امریکی سامراج کے پاگل پن اور حد سے زیادہ بڑھی ہوئی خود اعتمادی کا نتیجہ تھی۔ گوریلا طرز جنگ، ویتنامی عوام کی نفرت، کیمونسٹ فوجوں کو سوویت یونین کی جانب سے بڑے پیمانے پر اسلحے اور خفیہ معلومات کی فراہمی نے امریکی فوج کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ گھبراہٹ اور مایوسی کے عالم میں امریکہ نے ویتنام میں خطرناک ترین کیمیائی ہتھیاروں (ایجنٹ اورنج) کا استعمال کیا جن کے اثرات سے تین نسلوں کے بعد آج بھی ویتنامی بچوں میں ذہنی و جسمانی معذوری اور مہلک بیماریاں عام ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق تیس لاکھ سے زیادہ ویتنامی آج بھی ان کیمیائی ہتھیاروں کے مضر اثرات کا شکار ہیں۔ وزن کے اعتبار سے ویتنام پر دوسری جنگ عظیم سے زیادہ بم گرائے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکی عوام کو یہ احساس ہونے لگا کہ ان کے اربوں روپے اور ہزاروں امریکی جوانوں کے ساتھ ساتھ لاکھوں بے گناہ ویتنامی شہری امریکی حکمران طبقے کے سامراجی پاگل پن کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ امریکہ کے اندرجنگ مخالف مظاہروں میں شدت آتی جارہی تھی اور امریکی عوام میں ریاست کی جارحانہ اور سامراجی پالیسیوں کے خلاف غم و غصہ بڑھ رہا تھا۔ ان مظاہروں کی وجہ جہاں ویت نام کے عوام کے ساتھ انسانی ہمدردی اور جڑت کے جذبات تھے وہاں یہ احتجاج خود امریکہ میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نفرت اور بڑھتی ہوئی بے چینی کا اظہار تھا۔ ویت نام کی جنگ کے خلاف امریکی محنت کشوں کی تحریک خود امریکہ کے اندر انقلابی صورتحال کی جانب تیزی سے بڑھنا شروع ہو گئی۔ جنگ مخالف تحریک کے ساتھ ساتھ امریکہ میں سیاہ فاموں کی تحریک بھی عروج پر تھی جس میں وہ اپنے لیے بنیاد ی شہری حقوق کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اپریل 1968ء میں جب سیاہ فام امریکیوں کے راہنما مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا قتل ہوا توامریکہ کے سو سے زیادہ شہروں میں بڑے پیمانے پراحتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ اس وقت 70 ہزار فوجیوں کے ذریعے حالات کو قابو کرنا پڑا۔ اس کے ساتھ ہی طلباء تحریک کا بھی آغاز ہو گیا اور انہوں نے یونیورسٹیوں پر قبضے شروع کر دیے۔ اس کے بعد محنت کشوں کی ہڑتالوں کا بھی آغاز ہو گیا۔ 1946ء کے بعد 1969-70ء کے سالوں میں امریکہ میں سب سے زیادہ ہڑتالیں ہوئیں۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد صدر بننے والا لنڈن بی جانسن اگلے انتخاب کی دوڑ سے دستبردار ہو گیا اور اس کا نائب صدر1969ء کے صدارتی انتخابات میں رچرڈ نکسن سے بری طرح ہار گیا۔ بعد ازاں رچرڈ نکسن بھی مختلف وجوہات کی بنا پر 1974ء میں مستعفی ہونے والا واحد امریکی صدر بنا۔

سقوط سائیگون کی یہ تصویر پوری دنیا میں امریکی سامراج کی تذلیل کا باعث بنی جس میں امریکی اہلکار اور ان کے ہمدرد کیمونسٹ فوجوں کے شہر میں داخلے کے بعد فرار ہو رہے ہیں

داخلی اور خارجی محاذوں پر قابو سے باہر ہوتے ہوئے حالات کے پیش نظر امریکی ریاست کو ویت نام سے پسپائی اختیار کرنی پڑی، 1973ء میں امریکہ اپنی شکست تسلیم کرنے پر مجبور ہوا اور امریکی فوجوں کا انخلا شروع ہوا۔ 1975ء میں سائیگون پر کیمونسٹوں کے قبضے کے ساتھ جنگ باقاعدہ طور پر اختتام پذیر ہوئی۔ اس جنگ میں 58220 امریکی فوجیوں سمیت 8 لاکھ سے زائد افرادامریکہ کی براہ راست جارحیت کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔ جبکہ 1961ء سے 1975ء تک امریکہ کی کٹھ پتلی جنوبی ویتنامی ریاست کے قتل عام (پراجیکٹ فونکس)، کمبوڈیا اورلاؤس میں ہونے والی ہلاکتوں کو بھی شامل کیا جائے تو اس تنازعہ کی قیمت 22لاکھ سے زیادہ انسانی زندگیوں کو چکانی پڑی۔ 700 ارب ڈالر (ڈالر کی موجودہ قدر کے مطابق) ایک ہاری ہوئی جنگ میں جھونک کر دنیا بھر کے عوام کی نفرت مول لینے کے بعد امریکی سامراج نے کچھ عرصے تک براہ راست فوجی جارحیت سے گریز کرنے کی پالیسی اپنائی۔ جنگ کا سب سے زیادہ فائدہ اسلحہ ساز کمپنیوں، ان کمپنیوں سے کمیشن لینے والے سیاستدانوں اور جنگ کے دوران منشیات کی سمگلنگ سے اربوں ڈالر کمانے والے امریکی جرنیلوں کو ہوا۔

سٹالن ازم کا رد انقلابی کردار
تیسری دنیا کے ممالک کے لئے سوویت معاشی ماڈل پرکشش تھا۔ ان ممالک کی بورژوازی ’’قومی جمہوری انقلاب‘‘ کے فرائض ادا کرنے کے قابل نہیں تھی۔ سرمایہ دارانہ استحصال اور مغربی سامراج کی لوٹ مار کی وجہ سے وسیع تر آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھی (آج بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں) چنانچہ سماج میں پائی جانے والی بے چینی کا ریاست اور فوج کے اندر سرایت کر جانا ناگزیر تھا۔ سرد جنگ کے دوران ہمیں تیسری دنیا کے ممالک میں بائیں بازو کے کئی ’کو‘ نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں ہمیں بائیں بازو کی فوجی بغاوتوں کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں (ایتھوپیا 1974ء، مصر 1952ء، لیبیا 1969ء وغیرہ)۔ پرولتاری بوناپارٹ ازم کے اس مظہر کے نتیجے میں قائم ہونے والی ریاستوں اور ان پر براجمان فوجی جنتا کے سامنے سرمایہ داری کے متبادل کے طور پرسوویت یونین کا سٹالن اسٹ ماڈل موجود تھا۔ ٹیڈ گرانٹ نے ایسی ریاستوں کو ’’مسخ شدہ مزدور ریاستیں‘‘ قرار دیا تھاجہاں سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے منصوبہ بند معیشت تو نافذ کردی گئی لیکن اقتدار مزدور طبقے کے ہاتھ میں نہیں تھا۔ سوویت بیوروکریسی امریکہ کے مقابلے میں اپنے جغرافیائی اور عسکری مفادات کو تقویت دینے کے لئے ایسی ریاستوں کی پشت پناہی کرتی تھی تاہم محنت کش طبقے کی ایسی کسی بھی تحریک کو زائل کرنے کی پوری کوشش کی جاتی تھی جو ماسکو کے قابو سے باہر ہو اور سرمایہ داری کو اکھاڑ کر ایک صحت مند مزدور ریاست کو جنم دے سکے۔ یہ فریضہ ’کیمونسٹ پارٹیوں‘ کی قیادتیں بخوبی سرانجام دیتی تھیں جن کی حیثیت سوویت یونین کی خارجہ پالیسی کے آلہ کاروں سے زیادہ نہیں تھی۔ ایسے میں 1960ء کی دہائی میں سوویت یونین اور چین کی بیوروکریسی کے اختلافات کے نتیجے میں ہونے والی پھوٹ نے عالمی سطح پر کمیونسٹ پارٹیوں کو ماسکو نواز اور پیکنگ نواز دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ درحقیقت دونوں دھڑے ہی سٹالنسٹ زوال پذیر نظریات پر عمل پیرا تھے۔ اس سے عالمی مزدور تحریک مزید کمزور ہوئی اور بہت سی انقلابی تحریکوں میں کمیونسٹ سرمایہ داروں سے لڑنے کی بجائے ایک دوسرے سے بر سر پیکا ر رہے، یہاں تک کہ ایک دوسرے کے خلاف سرمایہ دارانہ قوتوں کا بھی ساتھ دینے لگے۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں ہمیں پوری دنیا میں انقلابی تحریکیں ملتی ہیں۔ فرانس (مئی 1968ء)، اٹلی (1969ء)، پاکستان (1968-69ء)، میکسکو (1968ء) کی تحریکوں کو اگر درست نظریات اور قیادت میسر آتی تو ان ممالک سے سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے عالمی منظر نامے کو یکسر تبدیل کیا جاسکتا تھا۔ لیکن کیمونسٹ پارٹیوں کی قیادتیں ماسکو اور چین میں بیٹھے اپنے آقاؤں کی ڈکٹیشن پر عمل درآمد کرتے ہوئے مرحلہ وار انقلاب، ’پر امن تبدیلی‘، ’جمہوریت‘ اور باہمی اختلافات کی غلط پالیسیوں کے باعث سرمایہ داری کو اکھاڑنے کے تمام تر مواقع گنواتی چلی گئیں۔ درحقیقت امریکی سامراج اور سوویت بیوروکریسی کو ایک دوسرے زیادہ خطرہ محنت کش طبقے کی ایسی تحریکوں سے تھا جونومبر 1917ء کے بالشویک انقلاب کی طرز پر سرمایہ داری کا خاتمہ کے ایک صحت مند اور جمہوری مزدور ریاست قائم کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ ایسی کوئی بھی تبدیلی دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے سامنے سٹالن ازم اور سرمایہ داری، دونوں کا متباد ل پیش کر سکتی تھی چنانچہ سرد جنگ کے دونوں فریقین کے مفادات کے خلاف تھی۔

سی آئی اے کی بربریت
دنیا بھر میں امریکی سامراج کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے 1947ء میں CIA کا قیام عمل میں لایا گیا جبکہ 1948ء میں ’’خفیہ آپریشن ونگ‘‘ قائم کیا جس کا مقصد دنیا بھر میں امریکہ مخالف اور بائیں بازو کی حکومتوں اور سیاسی عناصر کو سبوتاژ کرنا تھا۔ اس مقصد کے لئے معاشی پابندیوں، پراپیگنڈا، فاشسٹ اور دائیں بازو کی قوتوں کی پشت پناہی، رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنے کے لئے تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کی خریداری، آمرانہ یا ’جمہوری‘کٹھ پتلی حکومتوں کا قیام اور بوقت ضرورت براہ راست فوجی مداخلت جیسے طریقوں کا استعمال کیا گیا۔ دنیا کی دوسری بڑی خفیہ ایجنسیوں کی طرح سی آئی اے بھی ریاست کے اندر ایک ریاست ہے۔ دنیا بھر میں سی آئی اے کے مظالم کی فہرست بہت طویل ہے جو شائد مکمل طور پر امریکی ریاست کے خاتمے کے بعد ہی منظر عام پر آئے گی۔ امریکی سامراج کا یہ سب سے موثر آلہ کار اب تک کروڑوں معصوم انسانوں کے قتل کا ذمہ دار ہے۔ سرد جنگ کے دوران سی آئی اے کی چند ایک کاروائیاں بطور مثال یہاں پیش کی جارہی ہیں۔

ایران (1953ء)
فوجی کو کے ذریعے محمد مصدق کی جمہوری حکومت کا خاتمہ جس نے برطانوی آئل کمپنیوں کو قومی تحویل میں لے لیا تھا۔ مصدق حکومت کے خاتمے کے بعد رضا شاہ کی آئینی بادشاہت کو جابرانہ آمریت میں تبدیل کر دیا گیا اور ایرانی خفیہ پولیس SAVAK کے ذریعے سیاسی مخالفین کو برے طریقے سے کچلا گیا۔

گوئٹے مالا (1954ء)
فوجی کو کے ذریعے جیکوب آربینز کی جمہوری حکومت کا خاتمہ جس نے امریکی راک فیلر گروپ کی ’یونائیڈفروٹ کمپنی‘کو قومی تحویل میں لینے کی دھمکی دی تھی۔ اس کمپنی کے مالکان میں سی آئی اے کا ڈائریکٹر ایلن ڈولس بھی شامل تھا۔ آربینز حکومت کے بعد آنے والے امریکی کٹھ پتلی آمروں نے اگلے 40سالوں میں ایک لاکھ سے زائد سیاسی مخالفین کو قتل کیا۔

کیوبا (1961ء)
ؓؓؓؓؓBay of Pigs کا مشہور زمانہ واقعہ جس میں ’آپریشن مونگوز‘ کے نام سے کیوبا سے تعلق رکھنے والے1500 سے زائد امریکی ایجنٹوں کو فیڈل کاستروحکومت (جو کہ 1959ء کے انقلاب کے ذریعے بیٹسٹا کی امریکی کٹھ پتلی حکومت کو اکھاڑ کر قائم ہوئی تھی) کے خلاف کاروائیاں کرنے اور عوام کو ابھارنے کے لئے بھیجا گیا۔ یہ آپریشن بری طرح ناکام ہوا جس کے بعد سی آئی اے کے ڈائریکٹرایلن ڈولس کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔

برازیل (1964ء)
فوجی کو کے ذریعے جووا گولارٹ کی جمہوری حکومت کا خاتمہ جس کے بعد جنرل کاسٹیلوبرانکو کی سربراہی میں قائم ہونے والی آمریت کے دوران کیمونسٹوں کو ڈھونڈ کر قتل کرنے کے لئے خصوصی ’ڈیتھ سکواڈ‘ قائم کئے گئے جنہیں سی آئی اے نے تربیت دی تھی۔

انڈونیشیا (1965ء)
سوئیکارنو کی ’غیر جانب دار‘ حکومت کا خاتمہ کر کے جنرل سوہارتو کی سربراہی میں فوجی آمریت مسلط کی گئی۔ صرف 1965ء اور 1966ء کے دو سالوں میں 10لاکھ سے زائد کیمونسٹوں کو قتل کیا گیا۔ یوں سوویت بلاک سے باہر دنیا کی سب سے بڑی کیمونسٹ پارٹی (PKI) کو عملی طور پر کچل دیا گیا۔

آپریشن Chaos
امریکہ میں ویت نام جنگ کے خلاف مظاہرے کرنے والے طلبہ اور طلبہ تنظیموں پر نظر رکھنے کے لئے سی آئی اے کے ایجنٹ سکولوں کالجوں میں بطور ’طالب علم‘ بھرتی کئے گئے جن کا مقصد جنگ مخالف سیاسی کارکنان پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں میں پھوٹ ڈالنا تھا۔ اس آپریشن کے دوران 1000 سے زائد طلبہ تنظیموں کو نشانہ بنایا گیا۔

سیلواڈور ایاندے

چلی(1973ء)
فوجی کو کے ذریعے سلواڈور ایاندے کا قتل اور جمہوری حکومت کا خاتمہ۔ سلواڈور ایاندے دنیا کے پہلے مارکسسٹ تھے جو بورژوا طرز انتخاب کے ذریعے منتخب ہو کر صدر بنے تھے۔ برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے امریکی کمپنیوں کو قومی تحویل میں لینے کا اعلان کیا تھا۔ ایاندے حکومت کے خاتمے کے بعد بدنام زمانہ جنرل پنوشے کی سربراہی میں کٹھ پتلی آمرانہ حکومت قائم کی گئی۔ جنرل پنوشے کے سیاہ دور میں بائیں بازو کے ہزاروں سیاسی کارکنان اور ٹریڈ یونین رہنماؤں کو قتل کیا گیا۔

آسٹریلیا(1975ء)
گورنر جنرل جان کیر کے ذریعے وزیر اعظم ایڈورڈ وٹلم کی بائیں بازو کی جموری حکومت کا خاتمہ۔

انگولا(1975ء)
ویت نام جنگ میں شکست کے بعد اپنی عسکری برتری ثابت کرنے کے لئے انگولا میں سوویت یونین کے خلاف پراکسی جنگ شروع کی گئی۔ اس بے مقصد جنگ میں تین لاکھ سے زائد شہری ہلاک ہوئے۔

پاکستان (1977ء)
فوجی کو کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کی بائیں بازو کی حکومت کا خاتمہ اور قتل۔ ’’آپریشن فیئر پلے‘‘ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ضیاالحق کو سی آئی اے کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ یہ آپریشن دراصل سی آئی اے کی ایما پر ہی شروع کیا گیا تھا۔

افغان ڈالر مجاہدین امریکی صدر ریگن سے ملاقات کر رہے ہیں

افغانستان (1979ء)
ثور انقلاب کے بعد افغانستان میں قائم ہونے والی بائیں بازو کی حکومت کو گرانے کے لئے جولائی 1979ء میں ’آپریشن سائیکلون‘ شروع کیا گیا جس کے تحت پاکستانی آئی ایس آئی کے مدد سے افغانستان میں ڈالر جہاد کا آغاز کیا گیا۔ اپنے ہی بنائے گئے ’مجاہدین‘ کے خلاف 2001ء میں ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا آغاز کر کے افغانستان پر حملہ کیا گیا۔ امریکہ کی سامراجی پالیسیوں کے نتیجے میں پورا خطہ آج تک عدم استحکام کا شکار ہے اور لاکھوں معصوم انسان اس سامراجی جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

ایل سلوا ڈور (1980ء)
عوام میں مقبول پادری اوسکار رومیرو امریکی صدر جمی کارٹر سے اپیل کرتا ہے کہ امریکہ عوام دشمن فوجی حکومت کی امداد بند کرے۔ پادری کو قتل کروا دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ملک میں خانہ جنگی شروع ہوجاتی ہے۔ سی آئی اے عوامی بغاوت کو کچلنے کے لئے فوجی حکومت کو اسلحہ اور خفیہ معلومات فراہم کرتی ہے۔ 1992ء تک جاری رہنے والی اس خانہ جنگی میں 60 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

ایران عراق جنگ کے دوران ایک ایرانی فوجی گیس ماسک پہنے ہوئے ہے

ایران عراق جنگ (1980-88ء)
امریکی ایما پر شروع ہونے والی آٹھ سالہ جنگ کے دوران ایران کے خلاف عراقی افواج کو اسلحہ، تربیت، مالی مدد اور خفیہ معلومات کی فراہمی جاری رکھی گئی۔ اس جنگ کے دوران اسلحہ ساز کمپنیوں نے دونوں فریقین کو اسلحہ بچ کر بھاری منافعے کمائے۔ صدام حسین نے امریکہ ہی کے فراہم کردہ ’کیمیائی ہتھیار‘اندرونی بغاوتوں کو کچلنے کے لئے استعمال کئے۔ آٹھ سال جاری رہنے والی اس جنگ میں مجموعی طور پر ایک ہزار ارب ڈالر کا مالی نقصان ہوا جبکہ دس لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

پاناما (1989ء)
اپنے ہی مسلط کردہ آمر جرنل مینول نوریگا کو ہٹانے کے لئے پاناما پر حملہ کیا گیا۔ نوریگا 1966ء سے امریکہ کا اتحادی تھا اور سی آئی اے کی شراکت سے منشیات کے دھندے میں ملوث تھا لیکن 1980ء کے بعد اس کی بڑھتی ہوئی من مانیاں امریکی آقاؤں کے لئے قابل قبول نہ تھیں۔

’’مالی جارحیت‘‘
دوسری عالمی جنگ کے بعد آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا قیام ’’یورپ کی تعمیر نو‘‘ کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ تاہم روز اول سے ہی ان مالیاتی اداروں نے مختلف سامراجی طاقتوں خاص کر امریکہ کی بی ٹیم کا کردار ادا کیا ہے۔ ان اداروں کو اگر سامراج کی ’’مالیاتی فوج‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ طریقہ واردات بالکل سادہ ہے۔ امداد کے نام پر تیسری دنیا کے ممالک کو قرضے دئے جاتے ہیں۔ اگر کوئی حکومت ’’امداد‘‘ لینے سے انکار کرے تو اوپر بیان کئے گئے طریقوں کی مدد سے اسے ہٹا کر کٹھ پتلی حکومتیں نافذ کی جاتی ہیں۔ قرضے جب ناقابل واپسی سطح تک پہنچ جائیں تو شرائط سخت کر دی جاتی ہیں۔ شرائط میں قومی اداروں کی نجکاری، کرنسی کی قدرمیں کمی اور عوام کو دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ سر فہرست ہوتا ہے۔ سامراجی اجارہ داریاں کوڑیوں کے بھاؤ قومی ادارے خرید کر ہوشربا منافع کماتی ہیں اور بڑے پیمانے پر سرمایہ ملک سے باہر بھیجا جاتا ہے۔ نتیجتاً ریاستوں کی آمدن کے ذرائع ختم ہوجاتے ہیں، ملکی کرنسی کیقدر میں مزیدکمی واقع ہوتی ہے، قرضوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اورملکی معیشت کا ان مالیاتی اداروں پر انحصار بڑھ جاتا ہے جس کے بعد قرضوں کی شرائط سخت تر کردی جاتی ہیں اور آخر کار ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں عوام کی بجائے سامراجی اداروں کے کنٹرول میں ہوتی ہیں۔ مالی جارحیت اور دہشتگردی کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک کو اپنا مطیع بنانے کا یہ طریقہ سرد جنگ میں ’’اقوام متحدہ‘‘ کی زیر سرپرستی شروع ہوا تھا جو آج تک جاری و ساری ہے۔

سرد جنگ کا سوویت پراپیگنڈا پوسٹر جو سامراجی امداد کی حقیقت کو واضح کرتا ہے

افریقہ اس عمل کی اہم مثال ہے۔ 1960ء کی دہائی میں مختلف نوآبادیاتی طاقتوں کے آزادی کے وقت افریقہ خوراک میں نہ صرف خود کفیل تھا بلکہ برآمد بھی کرتا تھا۔ 1966ء سے 1970ء کے درمیان افریقہ سے غذائی اجناس کی برآمدات 13لاکھ ٹن سالانہ تھیں۔ آئی ایم ایف نے مختلف افریقی ممالک کو قرضے دے کر یہ شرط ماننے پر مجبور کیا کہ کسانوں کو دی جانے والی سبڈی کا خاتمہ کیا جائے، جس کے نتیجے میں افریقی غذائی اجناس کی قیمتیں بڑھ گئیں، مقامی کاشتکار منڈی سے باہر ہوتے چلے گئے اور خوراک و زراعت سے وابستہ عالمی اجارہ داریاں افریقی منڈی پر قابض ہو گئیں۔ آج غذائی قلت اور قحط افریقہ میں معمول بن چکے ہیں۔ 1982ء میں چلی اور 1999ء میں ارجنٹینا کی معیشتوں کا انہدام بھی آئی ایم ایف کے مشہور ’’کارناموں‘‘ میں شامل ہے، دونوں ممالک میں امریکہ کی کٹھ پتلی فوجی حکومتوں نے آئی ایم ایف کی زیر نگرانی انتہائی ڈھٹائی اور ریاستی جبر کے ذریعے نیو لبرل معاشی پالیسیاں لاگو کی تھیں جس کا نتیجہ غربت، بیروزگاری اور افراط زر میں تیز ترین اضافے اور بالآخر معاشی انہدام کی صورت میں برآمدہوا۔

سرمایہ داری کے جزائر
بائیں بازو کی طاقتوں کو کچلنے کے لئے ننگی طاقت اور جبر کے ساتھ ساتھ ’نظریاتی‘ طریقے بھی اپنائے گئے۔ مشرق بعید میں سوویت یونین اور چین کے اثر و رسوخ کو قابو میں رکھنے کیلئے 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں سرمایہ داری کے جزیرے تعمیر کئے گئے اور ’مثالی‘ سرمایہ دارانہ ریاستیں تعمیر کی گئیں۔ ایسے ممالک میں قومی جمہوری انقلاب کے فرائض امریکی سامراج نے خود اداکیے۔ زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیرداری کا خاتمہ کیا گیا اور جدید صنعتی انفراسٹرکچر تعمیر کیا گیا۔ چار ایشین ٹائیگر (ہانگ کانگ، سنگا پور، تائیوان اور جنوبی کوریا) اسی پالیسی کی پیداوار یا باقیات ہیں۔ آج پاکستان کو ’ایشین ٹائیگر‘ بنانے کے دعویدار مداری اس حقیقت سے بے بہرہ ہیں کہ جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک میں جدید سرمایہ داری سرد جنگ کے عہد میں بڑے پیمانے کی سامراجی سرمایہ کاری، ریاست کی جانب سے سخت قسم کی معاشی منصوبہ بندی، مزدوروں کے بدترین استحصال اور امریکی جرنل ڈاگلس میکارتھر کے فوجی بوٹوں کی ٹھوکروں کے ذریعے تعمیر کی گئی تھی۔ اس وقت خود امریکی سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام عروج کے دور سے گزر رہا تھا تاہم اب نہ صرف سامراجی قوت تاریخی طور پر کمزور ہے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام بھی ایک گہرے بحران سے گزر رہا ہے۔

اسرائیل کی ’’پیدائش‘‘
اسرائیل کے قیام کی داغ بیل اگرچہ برطانوی سامراج نے 1917ء کےء بالفور ڈیکلریشن کے تحت ڈالی تھی تاہم دوسری عالمی جنگ کے بعد اسرائیل کے بارے میں برطانیہ کے کئی تحفظات تھے، لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے سامراجی قوتوں کو ایک گماشتہ ریاست کی ضرورت تھی تا کہ تیل کی دولت سے مالا مال خطے کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم رکھ کر اس دولت کو لوٹا جا سکے۔ جس طرح ہندوستان کی آزادی کی تحریک کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر کے خونی بٹوارے کے ذریعے یہاں جنگوں اور تنازعات کے بیج مستقل بنیادوں پر بو دیے گئے تا کہ نومولود ریاستیں ہمیشہ سامراجی قوتوں کے مطیع رہیں اور طبقاتی کشمکش کو مذہبی اور قومی بنیادوں پر زائل کیا جاتا رہے، اسی طرز پر مشرقِ وسطیٰ میں طبقاتی جڑت کو توڑنے کے لیے صیہونی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مصر میں جمال عبدالناصر اور بائیں بازو کے دوسرے رجحانات کے ابھار کے دوران اس صیہونی ریاست کا انقلاب دشمن کردار واضح ہے۔ یہاں بھی سٹالنسٹ زوال پذیری کا ردِ انقلابی کردار اہمیت کا حامل ہے جب اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک سٹالنسٹ سوویت یونین تھا۔ ٹراٹسکی نے بہت پہلے پیش گوئی کی تھی کہ یہودیوں کے لیے علیحدہ ریاست کا قیام ان کے لیے ایک جیل خانہ ثابت ہو گالیکن سٹالنسٹ بیوروکریسی کے نظریاتی دیوالیہ پن کے باعث نہ صرف اس ریاست کے وجود کو تسلیم کیا گیا بلکہ اسرائیل کی نومولود ریاست کو تعمیر کرنے کا کردار بھی وہاں کے ’’بائیں بازو کے قائدین‘‘ نے ادا کیا جو اس ریاست کی ابتدائی دو دہائیوں تک برسرِ اقتدار رہے۔ اس عہد میں بھی امریکہ کی مالی اور فوج امداد اسرائیلی ریاست کے لیے بڑے پیمانے پر موجود رہی اور آج اسرائیل خود ایک طاقتور عسکری قوت ہے اوربعض اوقات اپنے آقاؤں کی مرضی کے خلاف من مانیاں کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ موجودہ عہد میں اسرائیل دراصل کمزور ہوتے ہوئے امریکی سامراج کی بڑی کمزوری بن چکا ہے۔
مشرق وسطیٰ پر اسرائیل کا وجود ایک کینسر ہے اور اس نے پورے خطے کو پچھلی چھ دہائیوں سے مسلسل عدم استحکام میں ملوث کررکھا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں اسرائیلی جارحیت ایک معمول ہے اوریہ ریاست اب تک چھ بڑے اور درجنوں چھوٹے تنازعات کا باعث بن چکی ہے جن میں لاکھوں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ اپنی تمام تر تاریخ کے دوران اسرائیلی ریاست اپنی حدود کو بڑھانے میں مصروف رہی ہے، یہ عمل امریکی آشیرآباد کے ساتھ اب تک جاری ہے اور فلسطینی آبادیوں کو مسمار کیا جارہا ہے۔ اسرائیل، شام میں جاری خانہ جنگی کا بھی اہم فریق ہے اور سعودی عرب اور قطر کے ساتھ مل کر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف کاروائیاں کر رہا ہے۔ موجودہ خانہ جنگی میں اسرائیل اب تک شام میں فوجی تنصیبات پر کئی ہوائی حملے بھی کر چکا ہے۔ گو کہ بشار الاسد خود بڑے پیمانے پر سرمایہ دارانہ پالیسیوں کو لاگو کر رہا تھا اور اس کی عوامی حمایت کم ہوتی جا رہی تھی جس کے باعث عرب انقلابات کے دوران اس کے خلاف بھی عوامی تحریک کا آغاز ہوا، لیکن سامراجی قوتوں نے اس تحریک کی آڑ میں اپنے عوام دشمن ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مذہبی بنیاد پرستوں کے ذریعے اس تحریک کو خانہ جنگی میں ڈبو دیا۔ اب شام کے عوام مسلسل دو عوام دشمن قوتوں کی لڑائی میں پس رہے ہیں۔

اسلامی بنیاد پرستی کی ’ایجاد‘
’اسلامی ممالک‘ خاص کر مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک میں بائیں بازو کے رجحانات اور حکومتوں کو سبوتاژ کرنے کے لئے اسلامی بنیاد پرستی ’ایجاد‘ کی گئی۔ صدر آئزن ہاور کے عہد میں امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ جان فاسٹر ڈیلس کو جدید اسلامی بنیاد پرستی کا بانی یا موجد کہاجاسکتا ہے۔ مصر میں جمال عبدالناصر اور مشرق وسطیٰ میں بائیں بازو کے دوسرے پاپولسٹ رہنماؤں کا ابھار عالمی سامراج کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجارہا تھا۔ سویز کنال کے تنازعے پر مصر کے ہاتھوں برطانیہ اور فرانس کی شکست کے بعد امریکی پالیسی ساز شدید تشویش میں مبتلا تھے۔ چنانچہ سیکولر عرب قوم پرستی اور ’بے دین کیمونزم‘ کا راستہ روکنے کے لئے اسلامی بنیاد پرستی اور Political Islam کو پروان چڑھایا گیا۔ ترقی پذیر ممالک میں سماجی بدحالی بڑے پیمانے پر پسماندگی اور نفرت کو جنم دیتی ہے۔ سماج کی یہی پسماندہ پرتیں رجعتی نظریات کی علمبردار بنتی ہیں جنہیں انقلابی تحریکوں کو سبوتاژ یا کچلنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سامراج اور تیسری دنیا کے ممالک کی ریاستیں آج بھی رجعتی عناصر کی پشت پناہی میں مصروف ہیں تاکہ بوقت ضرورت انہیں استعمال کیا جاسکے۔

کرنل قذافی اور جمال عبدالناصر

سرد جنگ کے دوران مصر اور شام جیسے ممالک میں بائیں بازو کی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کے لئے’اخوان المسلمون‘ جیسی بنیاد پرست تنظیموں کا استعمال کیا گیا۔ فلسطینی تحریک آزادی کو سبوتاژ اور تقسیم کرنے کے لئے حماس جیسے جہادی گروہوں کو پروان چڑھایا گیا۔ انڈونیشیا میں سراکت الاسلام اور نہدۃالعلماء جیسی بنیاد پرست تنظیموں نے لاکھوں کیمونسٹوں کے قتل عام میں ریاست کے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ افغانستان میں ثور انقلاب کو کچلنے کے لئے ڈالر جہاد کا آغاز کیا گیا اور اس رجعتی جنگ کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے سی آئی اے نے اسلامی بنیاد پرستوں کو منشیات کی تیاری اور سمگلنگ کا فن سکھایا۔ اس جہاد کے سیاسی فرنٹ کے طور پر جماعت اسلامی جیسی رجعتی سیاسی جماعتوں کو مالی امداد کے ذریعے مضبوط کیا گیا۔ آج کل شام میں بشار الاسد کے خلاف جاری خانہ جنگی میں ان مذہبی درندوں کو استعمال کیا جارہا ہے۔ غرضیکہ اسلامی بنیاد پرستی اور امریکی سامراج ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور ان کا حتمی مقصد استحصالی نظام کی حفاظت اور تسلسل ہے۔

سوویت یونین کے انہدام کے بعد
سوویت یونین کا انہدام جہاں عالمی سامراج کے لئے تاریخ کا سب سے بڑا خوشگوار ’’سرپرائز‘‘ تھا۔ عالمی مزدور تحریک کو شدید دھچکا لگا۔ کیمونسٹ پارٹیاں ٹوٹ کر بکھرنے لگیں اور بڑے بڑے ’’کیمونسٹوں‘‘ نے راتوں رات لبرل ازم کا کلمہ پڑھ کر واشنگٹن کو اپنا قبلہ بنا لیا۔ 1989ء سے پہلے سی آئی سمیت سامراج کا کوئی بھی خفیہ ادارہ یا ’’تھنک ٹینک‘‘ یہ گمان بھی نہیں سکتا تھا کہ ان کا سب سے بڑا دشمن اس قدر آسانی سے اور اتنی جلدی داخلی طور پر ٹوٹ کے بکھر جائے گا۔ بورژوازی خوشی سے پاگل ہورہی تھی۔ پوری دنیا انہیں پلیٹ میں رکھے لذیذ کھانے کی طرح معلوم ہونے لگی تھی جو خود بخوچ چل کر ان تک پہنچ گئی تھی۔ ’’تاریخ کے خاتمے‘‘ کا اعلان اس عہد میں سامراج کے اعتماد اور دنیا پر اپنے پنجوں کی جکڑ اور بھی مضبوط کرنے کے عزم کی غمازی کرتا ہے۔ یورپی بورژوازی نے یورپ کو یکجا کر کے یورپی یونین کی بنیاد رکھی اور بعد ازاں مشترکہ کرنسی یورو کا اجراء کیا گیا۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد ا مریکی ریاست نے اپنی عوام کو ’امن‘اور خوشحال مستقبل کے جھوٹے خواب دکھائے۔ انہیں بتایا گیا کہ سرد جنگ کے دوران ’’دفاع‘‘ پر خرچ ہونے والے اربوں ڈالر اب ان کی فلاح و بہود پر خرچ کیے جائیں گے۔ لیکن پرانی عادتوں سے چھٹکارا پانا اتنا آسان نہیں ہوتا!آج کے عہد میں جنگ سرمایہ داری کی بنیادی ضرورت بن چکی ہے۔ جنگی بجٹ میں اضافہ جاری رکھا گیا۔ عالمی سطح پر کسی مخالفت کی عدم موجودگی میں امریکی سامراج خود کو ہر قسم کی جارحیت کے لئے آزاد محسوس کر رہا تھا۔ اسی دوران11ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کا واقعہ پیش آیا۔ اس دہشتگردی کے ذمہ داران کا تعین ہماری بحث کا موضوع نہیں۔ اس واقعے سے متعلق درجنوں سازشی تھیوریاں آج تک گردش کر رہی ہیں۔ مختصراً اتنا ہی کہا جاسکتا ہے اتنے بڑے پیمانے کی منظم دہشت گردی ’’اندر‘‘ کی شمولیت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اس تمام تر بحث سے قطعہ نظر ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس واقعے کا سب سے زیادہ فائدہ امریکی سامراج کو ہوا اور اسے دنیا میں نئی جارحیتوں کے جواز میسر آئے۔

افغان جنگ
افغانستان میں ثور انقلاب کو کچلنے اور بعد میں سوویت یونین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکنے کے لئے اسلامی بنیاد پرستوں کو امریکی سامراج نے ہی پروان چڑھایاتھا۔ رد انقلابی ڈالر جہاد کی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے سی آئی اے نے اپنا پرانا طریقہ کار استعمال کیا اور آئی ایس آئی کی مدد سے ’’مجاہدین‘‘ کو منشیات کی پیداوار اور سمگلنگ کے منافع بخش کاروبار سے متعارف کروایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس رد انقلابی جنگ کو جاری رکھنے اور آگے بڑھانے کے لئے آئی ایس آئی کو مضبوط کیا گیا۔ آئی ایس آئی کے کل ملازمین کی تعداد جو 1978ء میں دوہزار تھی، 1988ء میں ڈالر جہاد کے اختتام تک 40ہزار سے تجاوز کر چکی تھی اور افغانستان سے سوویت فوجوں کے انخلا تک آئی ایس آئی ایک منجھی ہوئی منظم خفیہ ایجنسی بن چکی تھی جس کا سالانہ بجٹ اس دور میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ تھا۔ ہزاروں عرب جنگجوؤں کے ساتھ ’جہاد‘ کے لئے افغانستان آنے والے اسامہ بن لادن کو بھی اسی دور میں سی آئی اے نے بھرتی کیا تھا۔ سرد جنگ کے اواخر تک مذہبی جنونیوں کو پروان چڑھانے کی یہ پالیسی شدت اختیار کر چکی تھی کیونکہ امریکی سامراج کو خود سوویت یونین کے انہدام کی توقع نہیں تھی اور وہ اسلامی بنیاد پرستی کو لمبے عرصے تک سوویت یونین کے خلاف استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ بڑھتے ہوئے داخلی بحران کے پیش نظر سوویت یونین کو 1988ء میں افغانستان سے اپنی فوجیں نکالی پڑیں۔ دسمبر 1991ء میں سوویت یونین تحلیل ہو گیا اور اپریل 1992ء میں نجیب اللہ کی حکومت زمین بوس ہوگئی جس کے بعد اس خطے میں امریکہ کی دلچسپی بڑی حد تک کم ہوگئی لیکن اس وقت تک جن رجعتی قوتوں کو اس نے پیدا کیا تھا وہ بڑی حد تک خود مختیار ہو چکی تھیں اور انہیں پاکستانی ریاست میں نئے آقا میسر آچکے تھے۔
طالبان امریکہ اور آئی ایس آئی کی آشیرآباد سے ہی 1996ء میں برسر اقتدار آئے تھے لیکن ان کے ساتھ امریکہ کے تنازعات تب شدت اختیار کر گئے جب افغانستان میں گیس پائپ لائن کا ایک منصوبہ امریکی کمپنی یونوکول کی بجائے ارجنٹائن کی کمپنی بریڈاس کو دے دیا گیا۔ معاملات کو ہاتھ سے نکلتا ہوا دیکھ کر’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر چڑھائی کر دی گئی جس کے نتیجے میں یہ خطہ تاریخ کے بدترین عدم استحکام کا شکار ہوچکا ہے۔ افغان تنازعے میں کئی فریق ملوث ہیں اور یہ روز بروز پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ 2010ء میں کیے گئے زمینی سروے کے مطابق افغانستان کے مختلف علاقوں میں قدرتی گیس، لوہے، کاپر، لیتھیم، کوبالٹ اور سونے سمیت کئی دوسرے معدنیات کے بڑے زخائر موجود ہیں جن کی مالیت ہزاروں ارب ڈالر ہے۔ امریکہ سمیت کئی علاقائی گدھ اس بیش بہا معدنی دولت پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر سال افغانستان سے اربوں ڈالر کی منشیات دنیا بھر میں سمگل کی جاتی ہیں۔ منشیات کے اس نیٹ ورک میں طالبان کے کئی گروہ ملوث ہیں جو بوقت ضرورت اپنی وفاداریاں بدلتے رہتے ہیں۔ اس جنگ میں کوئی بھی قابل اعتماد نہیں ہے اور امریکہ بری طرح پھنس چکا ہے۔ طالبان سے قطر میں ہونے والے مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام ہوچکے ہیں۔ آخری تجزیے میں امریکہ طالبان سے نہیں بلکہ پاکستانی آئی ایس آئی کے ساتھ نبرد آزما بھی ہے اور ساتھ ہی دونوں بہترین دوست بھی ہیں۔ دونوں قوتوں کے مالیاتی تضادات افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کو بھی تاراج کر رہے ہیں۔ امریکہ نہ تو اس جنگ کو جاری رکھ سکتا ہے اور نہ مکمل انخلا کی صورت میں اپنے مفادات پر ضرب کاری برداشت کرنا چاہتا ہے۔

عراق جنگ
عراق میں امریکہ کی جارحیت کے محرکات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ صدام حسین کو ایران کے خلاف استعمال کے لئے امریکہ ہی نے مالی اور عسکری امداد کے اس خطے میں بدمعاشی کرنے کے قابل بنایا تھا۔ رفتہ رفتہ وہ امریکی قابو سے باہر ہوتا چلا گیا اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے مفادات کے لئے خطرہ بن گیا۔ چنانچہ اسے ٹھکانے لگانے کے لئے 2003ء میں تیل کی دولت سے مالا مال عراق پر ’’آپریشن عراقی لبریشن‘‘ (OIL) کے نام سے جارحیت کا آغاز کیا گیا۔ عراق میں ’’بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں‘‘ کو جواز بنایا گیا اور اس سلسلے میں کارپوریٹ میڈیا نے عالمی رائے عامہ استوار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہ ہتھیار تو آج تک نہیں مل سکے لیکن امریکہ نے اس جنگ میں دنیا کے مہلک ترین ممنوع ہتھیاروں کا استعمال کیا جس کے اثرات عراق میں کینسر کے کئی گنا زیادہ واقعات کی شکل میں رونما ہورہے ہیں۔ ویت نام کی طرح عراق پر امریکی چڑھائی بھی معاشی عروج کے دوران سامراج کے بڑھے ہوئے پاگل پن کا نتیجہ تھی۔ دسمبر 2003ء میں امریکی فوج کے ہاتھ لگنے کے بعد جعلی عدالتی ٹرائل کے بعد دسمبر 2006ء میں صدام حسین کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ 2011ء میں پورے خطے کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے بعد امریکی فوجیں عراق سے نکل گئیں۔ عراق پر امریکی جارحیت کے نتیجے میں نیٹو ممالک کے پانچ ہزار فوجیوں سمیت ساڑھے چھ لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ عراق ابھی تک سیاسی اور سماجی خلفشار کا شکار ہے، فرقہ وارانہ تفریق بڑھ رہی ہے اور بم دھماکے معمول بن چکے ہیں۔ آئیے اب دیکھتے ہیں اس جنگ کا سب سے زیادہ مالی فائدہ کس نے اٹھایا۔ فہرست بہت طویل ہے، چند مثالیں یہاں پیش کی جارہی ہیں:
*عراق پر امریکی جارحیت کے بعد ’’جنگ کی نجکاری‘‘ کا مظہر پہلی پر بڑے پیمانے پر نظر آیا۔ کرائے کے فوجی فراہم کرنے والی بلیک واٹر جیسی نجی ’’سیکیورٹی کمپنیوں‘‘ نے کم از کم 72ارب ڈالر کمائے اور امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد بھی کما رہے ہیں۔
*جارج بش کے نائب صدر ڈک چینی کی تیل سے وابستہ کمپنی ’ہیلی برٹن‘ نے 40ارب ڈالر کمائے۔
*عراق کی ’تعمیر نو‘ کے لئے ملنے والے ٹھیکوں میں سے 60ارب ڈالر صرف کرپشن کی نظر ہو کر امریکی سیاستدانوں، ریاستی عہدی داروں، جرنیلوں کی جیبوں میں پہنچے۔
*مشہور اسلحہ ساز کمپنی ’’جرنل ڈائنیمکس‘‘ کے اثاثے جنگ کے آغاز کے بعد سے دو گنا ہوچکے ہیں۔
*تیل اور تعمیر کے کاروبار سے وابستہ بہت سی سامراجی اجارہ داریاں ایسی ہیں جن کی شرح منافع میں اصل اضافے جنگ کے ’’باقاعدہ اختتام‘‘ کے بعد شروع ہوئے ہیں۔ ایکسون، شیورون، برٹش پٹرولیم اور شیل جیسی کمپنیوں کو تین دہائیوں کے بعد عراقی تیل کی دولت سے ’مستفید‘ ہونے کا موقع ملا ہے۔
لینن نے درست کہا تھا کہ ’’جنگیں خوفناک ہوتی ہیں لیکن یہ خوفناک حد تک منافع بخش بھی ہوتی ہیں۔‘‘

2008ء کا عالمی مالیاتی بحران
سرد جنگ کے دوران دو عالمی طاقتوں کے باہمی تضاد نے سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی پالیسیوں کے بہت سے تضادات پر پردہ ڈال رکھا تھا۔ اب یہ تضادات کھل کر سامنے آنے لگے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہونے والے معاشی ابھارکے بعد (جو 1973ء تک جاری رہا) اب یہ مجموعی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کا دور تھا۔ 1980ء کی دہائی میں اپنائی جانے والی نیو لبرل پالیسیوں نے زائد پیداوار کے بحران کو شدید تر کر دیا تھا لیکن سوویت یونین کے انہدام اور چین میں سرمایہ داری کی بحالی نے وقتی طور پر سرمایہ داری کو آکسیجن فراہم کر کے دھڑام ہونے سے بچائے رکھا۔ مشرقی یورپ میں نئی منڈیوں اور چین کے ہنر مند مزدور طبقے کی انتہائی سستی قوت محنت کے باعث شرح منافع برقرار رہی۔ 1970ء سے منجمد چلی آرہی امریکی محنت کش طبقے کی اجرتوں کے پیش نظر منڈی کو مصنوعی طور پر سرگرم رکھنے کے لئے قرضوں (Credit Financing) کا طریقہ اختیار کر کے مصنوعی اقتصادی عروج حاصل کیا گیا۔ سرمایہ داری کو اس کی فطری حدود سے بہت آگے تک کھینچا گیاجس کا نتیجہ 2008ء میں امریکی بنکوں کے انہدام کی شکل میں برآمد ہوا۔ لیہمن برادرز کا دیوالیہ پن اس مالیاتی بحران کا نقطہ آغاز تھا جو اس وقت امریکہ اور یورپ سمیت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور جس سے نکلنے کا کوئی نسخہ بورژوا معیشت دانوں کے پاس نہیں۔ ماضی کے معاشی بحرانوں کی طرح یہ منڈی کے چکر اورمعمول کے اتار چڑھاؤ کا حصہ نہیں ہے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کانامیاتی بحران ہے اور عالمی سرمایہ داری اپنے آپ کو بحران سے پہلے کے مقام پر بحال کرنے کے قابل نہیں رہی ہے۔
دوسرے الفاظ میں امریکی سامراج جس نظام کی نمائندگی کرتا ہے وہ نظام زوال کا شکار ہوچکا ہے اور یہ زوال اپنا اظہار سرمایہ دارانہ نظام کے اداروں کے بحران کی شکل میں کررہا ہے۔ پوری دنیا میں ریاستیں ٹوٹ پھوٹ کا شکارہو کر داخلی اور خارجی طور پر بڑے پیمانے کے جبر کی صلاحیتوں سے محروم ہوتی جارہی ہیں۔ امریکی سامراج کی بات کریں تو 1960ء اور 1970ء کی دہائی کے ’’سنہرے دن‘‘ اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ یہ وہ عہد نہیں ہے جب ’’کیمونزم‘‘ کے خطرے کے پیش نظر دنیا کے مختلف ممالک میں چڑھائی کر کے ’’جمہوریت‘‘ نافذ کر دی جاتی تھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تمام کوششوں کے باوجود امریکی سامراج، لاطینی امریکہ میں وینزویلا، بولیویا اور ایکواڈور میں بائیں بازو کی حکومتوں کا بال بھی بیکا نہیں کر پایا۔ مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک میں آئے روز اٹھنے والی تحریکیں بھی امریکی سامراج کے لئے درد سر بنی ہوئی ہیں اور وہ ان میں براہ راست مداخلت کا خطرہ مول لینے کے قابل نہیں ہے۔ امریکی سامراج کی کمزوری کا سب سے بڑا ثبوت شام میں جاری خانہ جنگی میں براہ راست مداخلت سے ہچکچاہٹ ہے۔ شام پر فوجی چڑھائی تو درکنار ابھی تک امریکہ ’’نو فلائی زون‘‘ کا نفاذ نہیں کر سکا اور شامی باغیوں کو بھاری اسلحہ فراہم کرنے سے بھی کترا رہا ہے۔ اسے ڈر ہے کہ مذہبی جنونیوں کو فراہم کیا جانے والا اسلحہ واپس امریکہ کے خلاف بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ یورپی ممالک کے تمام تر دباؤ کو روس نے انتہائی رعونت سے جھٹکا ہے اور وہ بشارالاسد کی مالی اور فوجی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایک طرف ایران، روس اور دوسری طرف سعودی عرب، امریکہ اور اسرائیل کی شدید ہوتی ہوئی اس پراکسی جنگ میں اب تک ایک لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تنازعے میں شریک فریقین کے تضادات شدید ہیں اور مستقبل قریب میں اس خون ریزی کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ کسی قسم کی نام نہاد جنگ بندی یا امن معاہدہ عارضی ثابت ہوگا۔
وکی لیکس، بریڈلے میننگ اور اب ایڈورڈ سنوڈن کے ہاتھوں انتہائی اہم اور خفیہ رازوں کا افشاں ہونا امریکی ریاست کی داخلی ٹوٹ پھوٹ کا واضح اظہار ہے۔ سنوڈن کے معاملے میں روس کا امریکہ کی طرف رویہ انتہائی ہتک آمیز تھااور تمام تر چیخ و پکار کے باوجود اسے امریکہ کے حوالے نہیں کیا گیا، الٹا روسی اہلکاروں نے امریکہ کے بارے میں ایسے بیانات جاری کیے جن کا لب لباب یہ تھا کہ ’’آپ اپنی اوقات میں رہیں۔‘‘ اسی طرح وینزویلا اور ایکواڈور کی جانب سے کھلے عام سنوڈن کو سیاسی پناہ دینے کی آفر امریکی سامراج کی عالمی سطح پر تذلیل سے کم نہیں تھی۔ ایکواڈور کی بائیں بازو کی حکومت نے تجارتی معاہدوں کی منسوخی کی امریکی دھمکیوں کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ کو انسانی حقوق کے منصوبوں کے لئے 23 ملین ڈالر امداد کی پیشکش کر کے امریکی سامراج کے منہ پر طمانچہ رسید کیا۔

چینی سامراج
اکیسویں صدی کے آغاز پر چین ایک ابھرتے ہوئے سامراج کی شکل میں عالمی منظر نامے پر نمودار ہوا ہے۔ چین اور امریکہ کا باہمی تعلق بہت متضاد نوعیت کا ہے۔ دونوں سامراجی قوتیں مکمل طور پر ایک دوسرے کی حلیف یا حریف نہیں ہیں، نہ ہی ہو سکتی ہیں۔ امریکی ریاستی بانڈز کا سب سے بڑا خریدار چین ہے جس کے ذریعے سے اس نے امریکی کرنسی کو مصنوعی سہارا فراہم کیا ہوا ہے۔ امریکہ، چین کا 1200 ارب ڈالر سے زائد کا مقروض ہے اوراوسطاً سات کروڑ پچاس لاکھ ڈالر روازنہ سود کی شکل میں چین کو ادا کرتا ہے۔ اسی طرح چین میں امریکی کمپنیوں کی بڑی سرمایہ کاری بھی موجود ہے۔ دوسری طرف چینی مصنوعات کی سب سے بڑی منڈی امریکہ ہے اور چین ہر سال ساڑھے تین سو ارب ڈالر سے زائد کی مصنوعات امریکہ کو برآمد کرتا ہے۔ لیکن معاشی طور پر ایک دوسرے پر منحصر دونوں سامراجی طاقتوں کے درمیان تضادات بھی موجود ہیں۔ ان سامراجی تضادات کی واضح مثال بلوچستان ہے جہاں چینی سامراجی کی بڑھتی ہوئی مداخلت امریکہ کے لئے ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ بلوچستان میں موجود معدنیات کے لامحدود ذخائر پر دونوں ممالک کی کمپنیوں کی نظر ہے۔ اس کے علاوہ گوادر پورٹ اور خلیج ہورمز جیسے اہم ترین سٹریٹجک مقام پر چینی تسلط بھی امریکہ کے لئے ناقابل قبول ہے۔ دونوں سامراجی طاقتوں کا یہ تنازعہ بلوچستان میں جاری پراکسی جنگ کی شکل میں اپنا اظہار کر رہاہے جس میں ہزاروں معصوم انسان اب تک ہلاک ہوچکے ہیں۔ چینی اور امریکی سامراج کے درمیان اس طرح کے تنازعات افریقہ اور لاطینی امریکہ میں بھی موجود ہیں لیکن تمام تر تضادات کے باوجود چین اور امریکہ کے حکمران طبقات کے مفادات سرمایہ دارانہ نظام سے وابستہ ہیں اور وہ کسی بھی قیمت پر اس نظام کا تسلسل چاہیں گے۔

امریکہ کا اقتصادی بحران اور امریکی سامراج کا مستقبل
اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں امریکہ کی فوجی تنصیبات کی تعداد 800 سے زیادہ ہے اوراتنی بڑی فوجی مشینری کو چلانے کے لئے سات سو ارب ڈالر سالانہ خرچ کیے جارہے ہیں۔ داخلی طور پر امریکہ کا اقتصادی بحران بڑھتا جارہاہے۔ امریکہ کاریاستی قرضہ جی ڈی پی کے 100 فیصد (16 ہزار ارب روپے) سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ تمام تر ذمہ داریاں (Liabilities) شامل کی جائیں تو کل امریکی قرضہ 59 ہزار ارب روپے سے زیادہ بنتا ہے۔ 2007ء سے امریکہ کے قومی قرضے میں 3.8 ارب ڈالر روزانہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ بجٹ خسارہ 1500ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ کے سامراجی سیٹ اپ کو قائم رکھنے کی سکت سرمایہ داری میں ختم ہوتی جارہی ہے۔ لیکن اس صورت میں ہم امریکی سامراج کی ’پر امن‘ موت کی پیش گوئی نہیں کر سکتے۔ ایک درندہ بڑھاپے میں زیادہ خونخوار ہو جاتا ہے۔ سرمایہ داری جس بحران کا شکار ہے اس کے پیش نظر سامراجی قوتیں آنے والے دنوں میں دنیا کے ایک ایک انچ پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے درندوں کی طرح باہم برسر پیکار ہوں گی، ایسا ہو بھی رہا ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پیداوار سامراجیت خود بخود ختم نہیں ہوں گے انہیں انقلابات کے ذریعے اکھاڑنا پڑے گا۔
امریکہ میں 2008ء کے بعد بیروزگاری کی شرح 42 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ 35 لاکھ امریکی بے گھر ہیں اور 2008ء کے بعد سے 80لاکھ گھر بینکوں نے ضبط کر لئے ہیں۔ مالی بحران کے دوران عام آدمی کی حالت جہاں بدتر ہوئی ہے وہاں امریکی اجارہ داریوں اور ان کے مالکان کی آمدن میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں طبقاتی خلیج بڑھی ہے۔ بڑھتی ہوئی معاشی بدحالی، مسلسل عدم استحکام اور سماجی نفسا نفسی نے ذہنی بیماریاں، جرائم اور خودکشیوں کو امریکی طرز زندگی کا حصہ بنا دیا ہے۔ خود کشی کی سب سے زیادہ شرح محاذ جنگ سے واپس آنے والے فوجیوں میں ہے اور اوسطاً 22فوجی ہر روز خود کشی کر رہے ہیں۔ امریکہ معاشی طور پر غیر ہموار ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ انہی طبقاتی تضادات نے 2011ء میں ’آکو پائی وال سٹریٹ‘ تحریک کو جنم دیا تھاجس کی حمایت میں دنیا بھر کے 900 سے زائد شہروں میں ایک ہی دن مظاہرے ہوئے تھے۔ 2008ء سے پہلے امریکی میں ایسی کسی تحریک کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ یہ تحریک فی الوقت بظاہر آگے نہیں بڑھ رہی لیکن معاشی کٹوتیاں اور سرمایہ داری کا بحران ختم ہونے والا نہیں۔ بدتر ہوتے ہوئے معاشی حالات، گرتی ہوئی آمدن اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری امریکہ کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو ایک بار پھر جھنجوڑے گی اور وہ تاریخ کے میدان عمل میں کودنے پرمجبور ہوں گے۔ دنیا بھر کے محنت کشوں کی طرح امریکی سامراج نے امریکی عوام کا بھی بدترین استحصال کیا ہے، مذہب، قوم پرستی اور جمہوریت کے نام پران کے شعور کو مجروح کیا ہے، مالیاتی طور پر انہیں مفلس اور مغلوب رکھا گیا ہے۔ بے روزگاری کے ستائے ہوئے امریکی جوانوں کو سرمائے کی جنگوں کا ایندھن بنایا گیا ہے۔ امریکی سامراج اور اس کے نظام کے خلاف سب سے بڑی اور فیصلہ کن بغاوت امریکہ کے محنت کش اور نوجوان ہی برپا کریں گے اورنسل انسانی کو دیے گئے ایک ایک زخم کا بدلہ امریکی حکمران طبقے سے لیں گے۔ آزاد منڈی کی بربریت نے امریکہ کو سماجی عبرت کدہ بنایا ہے، امریکی محنت کش اسے سرمایہ داری کا قبرستان بنائیں گے۔ امریکہ میں برپا ہونے والا انقلاب عالمی سرمایہ داری کو ہلا کے رکھ دے گا اور لیون ٹراٹسکی کے الفاظ میں ’’امریکہ وہ بھٹی ہے جس میں پک کر نسل انسانی کا مستقبل تیار ہوگا۔‘‘