امریکہ: معاشی بحران میں ڈوبے صدارتی انتخابات

[تحریر: عمران کامیانہ]

2008ء میں شروع ہونے والے معاشی بحران سے عالمی سرمایہ داری کے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ گزرتے وقت کے ساتھ مزید گہرے ہوتے ہوئے اس بحران کی وجہ سے جدید سرمایہ دارانہ ممالک میں حالات زندگی بد سے بد تر ہوتے جار ہے۔ امریکہ اور یورپ میں 2008ء کے بعد سے بے روز گاری، غربت، بے گھری میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے۔نام نہاد ’’بحالی‘‘، جس کا وعدہ سرمایہ دارانہ معیشت دان اور معذرت خواہان ٹھیک بحران کے آغاز سے کرتے آرہے ہیں، دور دور تک کہیں نظر نہیں آرہی۔ یہ ’’بحالی‘‘ دراصل ایک سراب ہے جو کٹوتیوں سے بدحال محنت کشوں اور نوجوانوں کو دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔لیکن جیساکہ ابراہم لنکن نے کہا تھا ’’آپ کچھ لوگوں کو ہمیشہ کے لئے اور سب لوگوں کو کچھ وقت کے لئے تو بیوقوف بنا سکتے ہیں، لیکن سب لوگوں کو ہمیشہ کے لئے بیوقوف نہیں بنا سکتے‘‘۔در حقیقت 2008ء میں خود بورژوا معیشت دان بھی اپنی مخصوص میکانکی اور تنگ نظر سوچ، اور سرمایہ دارانہ معیشت کی افرا تفری اور انارکی کے باعث صورتحال کی سنجیدگی سے نا آشنا تھے۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر معاشی و سماجی حالات سرمایہ دارانہ معاشی ماہرین کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کررہے ہیں فی الوقت بحالی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اور لمبے عرصے تک عالمی سرمایہ داری جمود کا شکار رہے گی۔
3اکتوبر 2012ء کو IMFکے چیف اکانومسٹ اولیور بلینکرڈ نے اپنے ایک بیان میں اعتراف کیا کہ 2018ء سے پہلے کسی قسم کی بحالی ممکن نہیں ہے۔اسی طرح 9اکتوبر کو شائع ہونے والی IMFکی ایک رپورٹ کے مطابق’’اگر درمیانی مدت کو نظر میں رکھیں تو اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں حکومتیں بھاری قرضے کے نیچے دبی ہوئی ہیں، عالمی معیشت کس طرح سے چل سکتی ہے اور ترقی پذیر معیشتیں بیرونی سے داخلی ذرائع پر منتقل ہو کر مستحکم بنیادوں پر کس طرح سے نمو پا سکتی ہیں‘‘۔اسی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بحالی کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرنے والی سب سے بڑی وجوہات میں یورو اور امریکی معیشت کا غیر یقینی مستقبل شامل ہیں۔انہی حالات کے پیش نظر IMFکی جانب سے 2013ء کے لئے ترقی یافتہ ممالک کی شرح نمو کا تخمینہ 2سے کم کر کے 1.5فیصد، اور ترقی پذیر ممالک کے لئے 6سے کم کر کے 5.6فیصد کر دیا گیا ہے۔
امریکہ میں 2012ء کے صدارتی انتخابات ایک انتہائی مشکل معاشی و اقتصادی صورتحال میں ہونے جا رہے ہیں۔ کل ریاستی قرضہ ستمبر 2012ء میں 16.15ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے جو کہ GDPکے 102فیصد سے زائد ہے۔امریکی ریاست جس شرح سے قرضہ لے رہی ہے اس حساب سے 2020ء تک یہ قرضہ دوگنا سے بھی زیادہ ہو جائے گا، یعنی 32ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر جائے گا۔اسی طرح بجٹ خسارہ جو 2008ء میں 454ارب ڈالر تھا2012ء میں 1.3ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔معاشی ماہرین کے مطابق امریکہ بہت تیزی سے اس مقام کی طرف گامزن ہے جہاں یونان، سپین اور اٹلی جیسی دوسری یورپی معیشتیں پہنچ چکی ہیں۔ ان حالات میں سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے بجٹ خسارے کو کم کرنے اور قرضے پر سود کی ادئیگی کے لئے ریاست محنت کشوں پر معاشی کٹوتیاں اور ریاست کے فلاحی اخراجات میں مسلسل کمی کر رہی ہے۔لیکن یہ آگ کو پٹرول سے بجھانے کے مترادف ہے۔اس سے قوت خرید میں مزید کمی واقع ہو گی جس سے معیشت سکڑے گی، مزید لوگ دیوالیہ ہوں گے اور اداروں کے بند ہونے کے ساتھ بیروزگاری مزید بڑھے گی جس سے بحران مزید گہرا ہوگا۔
کسی معاشی بحالی کا تناظر مستقبل قریب میں خارج از امکان ہونے کی وجہ سے عوام میں پائی جانے والی بے چینی کو کم کرنے کے لئے امریکی حکومت مسلسل جھوٹ پر مبنی اعداد وشمار سے کام لے رہی ہیں۔ امریکی عوام کی باراک اوباما سے وابستہ امیدیں بری طرح سے ٹوٹی ہیں اور وہ اپنی پچھلی الیکشن مہم کے دوران لوگوں سے کئے گئے وعدوں میں سے ایک بھی پورا نہیں کر پایا۔امن کے نام پر الیکشن لڑنے والے اس صدر کے دور میں امریکہ کا دفاعی بجٹ پچھلی پانچ دہائیوں میں سب سے زیادہ رہا ہے۔ سرکاری دعووں کے بر عکس، جن کے مطابق بے روزگاری میں کمی واقع ہو رہی ہے، صورتحال جوں کی توں ہے بلکہ مزید ابتر ہو رہی ہے۔ستمبر کے مہینے میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بے روز گاری کی شرح 7.8فیصد تھی، لیکن یہ اعشاریہ بے روزگاری کی خاص تعریف کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جاری کیا گیا ہے۔دنیا بھر میں ریاستیں خوفناک معاشی و سماجی حقائق کو چھپانے کیلئے ایسے حربے استعمال کرتی ہیں۔19اکتوبر کو ’’آر ٹی‘‘ (RT)میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں بے روزگاری پر ہونے والے سرکاری سروے میں صرف ان لوگوں کو بے روزگار قرار دیا گیا ہے جو سروے سے چار ہفتے پہلے تک روزگارکے لئے مختلف اداروں میں مارے مارے پھر رہے تھے۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ امریکی حکومت کی نظر میں بالغ آبادی کا صرف 5فیصد بے روزگار ہے، کیونکہ صرف اتنے ہی لوگ لیبر ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کئے گئے سروے سے پیشتر چار ہفتوں میں روزگار کے لئے درخواستیں جمع کروا رہے تھے‘‘۔اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ کام کرنے کے قابل ہر 10میں سے صرف 4امریکی شہری باروزگار ہیں اور 47لاکھ سے زائد امریکی شہری دو وقت کے کھانے کے لئے ریاستی امداد پر منحصر ہیں۔ 2010ء میں Food Stamps پر گزارہ کرنے والے امریکی شہریوں کی تعداد40لاکھ تھی۔معیشت کا تجزیہ کرنے والے آزاد ادارے ’’کیپیٹل اکانومکس‘‘ کے مطابق ’’اس وقت امریکہ میں بالغ آبادی کا 58.7فیصد با روزگار ہے جبکہ باقی 82لاکھ لوگ جو کہ تقریباً 41فیصد بنتے ہیں بے روزگار ہیں۔ تاہم بے روزگاروں میں سے صرف 8فیصد نوکریاں ڈھونڈ رہے ہیں اور باقی کے 33فیصد نہ صرف بے روزگار ہیں بلکہ کام ڈھونڈنے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے‘‘۔ان حالات میں چند ہزار نوکریاں اگر الیکشن مہم کے حصے کے طور پر پیدا بھی کی گئی ہیں تو وہ یقینااونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہیں جنہیں میڈیا اور ریاست ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔
2007ء کے بعد سے امریکہ میں بے گھر لوگوں کی تعدا د میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ریاست کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق 2007ء کے بعد سے قسطوں پر دئے گئے 80 لاکھ گھر بینکوں نے واپس لے لئے ہیں جبکہ معاشی بحران کے ’’اختتام‘‘ تک ایک کروڑ گھر مزید واپس لے لئے جائیں گے۔2008ء کے بعد سے اوسطاً 6000 گھروں سے ان کے مکینوں کو روزانہ بے دخل کیا جا رہا ہے۔ اس وقت سرکاری طور پر 35لاکھ امریکی بے گھر ہیں جبکہ اسی دوران 18لاکھ سے زائد گھر خالی پڑے ہیں۔
معاشی بحران نا گزیر طور پر اپنا اظہار سماجی بحران اور بیگانگی کی صورت میں کرتا ہے۔لیون ٹراٹسکی کے الفاظ کہ ’’انسانیت سرمایہ داری کی طویل ہوتی ہوئی موت کی اذیت میں مبتلا ہے‘‘ امریکی سماج کی موجودہ حالت زار کو جامع طور پر بیان کرتے ہیں۔آزاد منڈی کی نفسا نفسی، غیر یقینی صورتحال اور اس کے تحت پھیلنے والی بے روزگاری اور غربت نے امریکیوں کو بحیثیتِ مجموعی ذہنی طور پر بیمار اور نفسیاتی طور پر مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ سوویت یونین، کیوبا اور دوسرے مخالف ممالک کو پولیس سٹیٹ قرار دینے اور آزادی کا نعرہ لگانے والے سرمایہ داری کے معذرت خواہوں کے منہ پر یہ حقیقت ایک طمانچہ ہے کہ جیل میں قید آبادی (Incarceration Rate)کے لحاظ سے امریکہ دنیا میں پہلے نمبر پر آتا ہے۔2010ء میں 72لاکھ سے زائد امریکی شہری یا تو جیلوں میں بند تھے یا عارضی رہائی (Perole/Probation)پر پولیس کے زیرِ سایہ زندگی گزار رہے تھے۔یہ کل آبادی کا 3.1فیصد بنتا ہے۔ ہر ایک لاکھ میں سے 730امریکی شہری جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں۔حتیٰ کہ ریاستی جبر کے لئے مشہور چین جیسے ملک میں یہ تعداد 111ہے۔گزرتے وقت کے ساتھ منظرِ عام پر آنے والے بربریت پر مبنی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔مئی 2012ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جنگ میں مرنے والے امریکی فوجیوں کی قبریں کھود کر کانسی کے تمغے چوری کرنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔صرف امریکی ریاست مینیسوٹا کے ایک چھوٹے سے قصبے ازانٹی کے قبرستانوں سے اب تک 200سے زائد تمغے چوری ہو چکے ہیں۔
ذہنی بیماریوں کے لحاظ سے بھی امریکہ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔2011ء کے اعدادو شمار کے مطابق ہر 10میں سے ایک شہری باقاعدہ طور پر ڈپریشن کا مریض ہے۔ اس مرض میں مبتلا امریکی شہریوں کی تعداد پچھلی 2دہائیوں میں تین گنا ہو گئی ہے اور اس وقت دو کروڑ ستر لاکھ سے زائد امریکی کسی نہ کسی قسم کی Anti Depressentدوائی استعمال کر رہے ہیں۔ امریکہ اس قسم کی ادویات کی سب سے بڑی منڈی بن چکا ہے۔شادیوں کی شرح میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ سرمایہ داری کے زیرِ اثر بورژوا خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے لیکن زوال کا شکار نظام خاندان کو کوئی نئی شکل دینے سے قاصر ہے۔1960ء کے بعد سے شادیوں میں 20فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ صرف 2010ء میں شادی شدہ جوڑوں کی تعداد میں پچھلے سال کی نسبت 5فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
خود کشیوں کے رجحان میں بھی 2008ء کے بعد سے اضافہ ہوا ہے۔امریکہ میں اگرچہ خود کشیوں کے رجحان میں 1999ء کے بعد سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے لیکن 2008ء کے بعد یہ عمل مزید تیز ہوا ہے۔صرف 2008ء سے 2009ء کے درمیان خود کشیوں کی تعدادمیں 2.4فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ لاس اینجلس میں 2006ء میں689خود کشیوں کے مقابلے میں 2008ء میں 805خود کشیاں دیکھنے میں آئیں۔2008ء میں خود کشیاں کرنے والے کل افراد میں سے 14فیصد نے خالصتاً معاشی وجوہات کی بنا پر اپنی جان لی۔ایک اور تحقیق کے مطابق 2008ء سے 2009ء کے درمیان 83لاکھ بالغ امریکی شہری خود کشی کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے جو کہ کل بالغ آبادی کا 4فیصد بنتا ہے۔امریکہ اور افغانستان میں جنگ سے واپس آنے والے فوجیوں میں خود کشی کا رجحان عام شہریوں کے مقابلے میں دو گنا ہے۔
مذہب،’’ امریکی روایات‘‘ اور ’’آزاد منڈی کی جمہوری اقدار‘‘ کے نام پر امریکی عوام کو ہمیشہ سے ہانکا اور بیوقوف بنایا جاتا رہا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے ایک پوری نسل جوان ہو چکی ہے، جنہوں نے ’’سٹالنزم کے جرائم‘‘ تو نہیں دیکھے لیکن آزاد منڈی کی بربریت ضرور دیکھی ہے۔ حالات و واقعات انسان کو بہت کم عرصے میں وہ کچھ سکھاتے ہیں جو تھیوری بعض اوقات لمبے وقت میں بھی نہیں سکھا پاتی۔امریکی محنت کشوں اورنوجوانوں کا بڑا حصہ امریکی میڈیا اور دو پارٹیوں کی آمریت پر مبنی ’’جمہوریت‘‘کی منافقت سے بخوبی واقف ہے۔وہ جانتے ہیں کہ دونوں پارٹیوں کے ایجنڈے میں کوئی بنیادی فرق موجود نہیں ہے، ان کے آپسی اختلافات جعلی اور سطحی ہیں اورکارپوریٹ ٹی وی چینلوں پر چلنے والی دونوں پارٹیوں کے صدارتی امیدواروں کی بحث میراثیوں کے تماشے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتی۔ کسی ایک کی جیت یا ہار سے ان کی حالات زندگی میں کوئی سہولت پیدا نہیں ہوتی۔2008ء کے بحران کا تمام تر بوجھ امریکی محنت کشوں پر ڈالا جا رہا ہے جبکہ بڑے کارپوریٹ اداروں کے منافع آسمان سے باتیں کر ہے ہیں۔آکوپائی تحریک کوئی حادثہ یا چند منچلے نوجوانوں کی شرارت نہیں بلکہ امریکی سماج میں پک رہے تضادات کا واضح اظہار اور مستقبل میں ہونے والے بڑے واقعات کی چھوٹی سی جھلک ہے۔6نومبر 2012ء کو ہونے والے امریکی انتخابات ایسے حالات میں ہو رہے ہیں جب معاشی بحران سے نکلنے کی کوئی واضح صورت نظر نہیں آ رہی۔ یہ انتخابات جہاں امریکی سماج کے بڑے حصے کی توجہ سیاسی معاملات کی طرف دلائیں گے، وہیں ان کے بعد کا عرصہ امریکی عوام کو کچھ تلخ اسباق بھی سکھائے گا۔ اوباما اور رومنی دونوں ہی بنکوں اور بڑی کارپوریشنوں کے وظیفہ خوار ہیں۔ مٹ رومنی کو چندہ دینے والے اداروں میں گولڈ مین سیچز، بنک آف امریکہ، مارگن سٹینلے، جے پی مارگن اور سٹی گروپ جبکہ اوباما کو مائکروسافٹ، گوگل، ٹائم وارنراور جے پی مارگن کی مالی امداد حاصل ہے۔امریکی سیاست کے پیچھے کار فرما یہ اصل قوتوں کی یہ صرف ایک جھلک ہے، ’’اندر‘‘ کا گورکھ دھندہ بہت پیچیدہ ہے جس میں تیل اور اسلحے کی کمپنیوں سے لے کر خفیہ ایجنسیاں اور امریکی ریاست کے اندر کی قوتیں بھی شامل ہیں۔جنوری 2013ء میں کوئی بھی صدارتی دفتر سنبھالے اس کی اوقات ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہو گی، جس کی ڈوریاں وہاں سے ہلائی جائیں گی جہاں سے ہمیشہ ہلائی جاتی رہی ہیں۔
لیون ٹراٹسکی نے 1934ء میں اپنے ایک مضمون ’’اگر امریکہ کیمونسٹ ہو جاتا ہے‘‘ میں امریکی شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا ’’آج غیر آمادہ طور پر آپ کو مجبوراً ان سماجی تضادات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو غیر محسوس طریقے سے ہر سماج میں بڑھتے رہتے ہیں۔آپ نے ان آلہ جات کی مدد سے قدرت کو تسخیر کیا جو آپ کی اختراعی سوچ نے پیدا کئے اور اب یہ پایا کہ انہی آلوں نے آپ کو تباہ کردیا ہے۔ تمام تر امیدوں اور خواہشات کے برعکس آپ کی بے مثال دولت آپ کی بے مثال تباہی کا باعث بنی ہے۔ آپ کو اب اندازہ ہوا ہے کہ سماجی ترقی کا کوئی سادہ نسخہ نہیں ہوا کرتا۔لہٰذا یہ کہنامناسب ہو گا کہ آپ کو مجبوراً جدلیات کا سبق پڑھنا پڑ رہا ہے۔‘‘
دوسری جنگِ عظیم کے بعد آنے والے معاشی ابھار (Post War Boom) میں ریاستیں کینشین ازم اور ریاستی سرمایہ داری پر مبنی معاشی پالیسیاں لاگو کر رہی تھیں اورجنگ میں ہونے والی تباہی کے باعث معیشت میں نمو کی گنجائش موجود تھی۔1960ء اور 70ء کی دہائی میں ابھرنے والی کئی انقلابی تحریکیں سٹالنزم کی بھینٹ چڑھ کر زائل ہو گئیں۔یورپی صنعت جو جنگ میں بڑے پیمانے پر تباہ ہوئی تھی ابھی بحالی کے مرحلے میں تھی اور امریکی سرمایہ داری کو پوری دنیا میں کسی خاص مقابلے کا سامنا نہیں تھا۔1989ء میں دیوارِ برلن کے گرنے اور بعد میں سوویت یونین کے انہدام نے پوری دنیا میں سرمایہ داری کو نئی زندگی اور اعتماد دیا۔مشرقی یورپ، روس اور وسطی ایشیا میں نئی منڈیوں اور چین میں سرمایہ داری کی مکمل بحالی نے عالمی سرمایہ داری کو کسی بڑے بحران سے وقتی طورپر بچائے رکھا۔ان حالات میں میں طبقاتی کشمکش کا ماند پڑ جانا نا گزیر تھا، خصوصاً امریکہ میں۔لیکن فتح کے نشے میں بد مست بورژوازی نے نیو لبرل ازم اور ٹریکل ڈاؤن اکنامکس پر مبنی جو معاشی پالیسیاں اپنائیں انہوں نے سرمایہ داری کو گہرے بحران میں دھکیل دیا ہے اور طبقاتی تضادات کوبلند پیمانے پر ابھارا ہے۔جو حربے بحران سے نکلنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں وہ بحران کو ٹالنے کے لئے پہلے سے استعمال کئے جا چکے ہیں اور حکمران طبقات کے پاس فی الوقت نام نہاد بحالی کا کوئی لائحہ عمل موجود نہیں ہے، سوائے کٹوتیوں کے۔آنے والے عرصے میں کٹوتیاں اور معاشی حملے امریکی محنت کشوں کے حالات زندگی کومزید ابترکریں گے اور ان حالات میں وہ یقینابہت واضح اور جرات مندانہ نتائج اخذ کرتے ہوئے اپنی نمائندہ سیاسی قوت اور ایسے معاشی و سماجی نظام کی ضرورت کو محسوس کریں گے جو 1%کی بجائے 99%کے مفادات کو مدِ نظر رکھے۔سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئے بحران، امریکی سماج میں پائی جانے والے شدید انتشار اور طبقاتی تضادات کے زیرِ اثر ابھرنی والی محنت کشوں کی سیاسی پارٹی یقینی طور پر سوشل ڈیموکریسی کی روائتی غلاظت سے پاک ہوگی اور اسے ناگزیر طور پر بائیں جانب جھک کر انقلابی سوشلزم کا ایجنڈا اپنانا پڑے گا۔ آنے والا معروض یقیناً مارکسزم کے نظریات کے لئے زرخیز ثابت ہوگا اور امریکہ میں تیز ہوتی ہوئی طبقاتی جدوجہد پوری دنیا کے محنت کشوں، نوجوانوں اور انقلابیوں کی جدوجہد کو نئی شکتی عطا کرے گی۔

متعلقہ:
آکوپائی وال سٹریٹ تحریک کا ایک سال

اوباما بمقابلہ رومنی! کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟

۔9/11 کا آسیب