امریکہ: دوست یا دشمن؟

[تحریر: لال خان]
امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے حالیہ دورہ پاکستان نے بڑی اور چھوٹی سرمایہ دارانہ معیشت کے درمیان حاکمیت اور محکومی پر مبنی تعلقات کی حقیقت کو ایک بار پھر عیاں کر دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پاک امریکہ تعلقات کی پیچیدگیاں اور تضادات بھی کھل کر سامنے آئے ہیں۔ سرمایہ دارانہ دنیا میں مستقل دوست یا دشمن جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ بدلتے ہوئے قومی مفادات خارجہ پالیسی کا تعین کرتے ہیں۔ اس نظام میں ہر رشتہ ہر تعلق آخری تجزئے میں مالی اور مادی مفادات پر مبنی ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر قوم داخلی طور پر دو ’’قوموں‘‘ پر مشتمل ہوتی ہے۔ بورژوا تجزیہ نگاروں اورخود ساختہ ماہرینِ ’’عالمی تعلقات عامہ‘‘ کے تبصروں کے برعکس کوئی بھی قوم ایک یکجا اکائی نہیں ہوتی بلکہ حاکم اور محکوم طبقات پر مشتمل ہوتی ہے۔ جن قومی مفادات کا ڈھنڈورا شب و رز میڈیا پر پیٹا جاتا ہے وہ دراصل حکمران طبقے کے مفادات ہوتے ہیں۔ اس نظام کی سیاست میں دو اقوام کے درمیان تعلقات سے مراد بھی دراصل ان کے حکمران طبقے کے باہمی معاملات ہی ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کی سیاست اور سفارتکاری اس نظام کی معاشی حالت پر منحصر ہوتی ہے جس کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔ معاشی بحران ناگزیر طور پر سیاسی و سفارتی بحرانوں کو جنم دیتا ہے۔
امریکہ اور پاکستان، دونوں کی معشیتیں اس وقت شدید معاشی بحران اور عدم استحکام کا شکار ہیں جس پر قابو پانے کے لئے دونوں ممالک کے حکمران اور ریاستیں سفارتی پالیسیاں بدل کر نئے راستے نکالنے میں کوشاں ہیں۔ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک کی معیشتیں تو خیر کبھی مستحکم ہو ہی نہیں پائیں لیکن امریکہ اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین مالیاتی اور اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کا ریاستی قرضہ اس وقت 16 ہزار ارب ڈالر (جی ڈی پی کا 100 فیصد) سے تجاوز کر چکا ہے، جبکہ خفیہ یا غیر اعلانیہ قرضے اورذمہ داریاں (Liabilities) شامل کی جائیں تو یہ رقم 59 ہزار ارب ڈالر تک جا پہنچتی ہے۔ یہ اتنا قرضہ ہے کہ پورے امریکہ کو کئی بار بیچ کر بھی نہیں چکایاجاسکتا۔ اس معاشی بحران کے امریکی سیاست، سفارت کاری اور خارجہ پالیسی پر گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ عراق اور افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا ظاہر کرتا ہے کہ تاریخ کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی سلطنت اندر سے کھوکھلی اور لاغر ہوتی جارہی ہے۔
پاکستان کی معیشت پچھلی کئی دہائیوں سے دیوالیہ پن کی کھائی کے دہانے پر جھول رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے زیر اثر پاکستانی معیشت کی نبض کو چالو رکھنے کے لئے آئی ایم ایف اور دوسرے سامراجی اداروں سے مزید قرضے درکار ہیں۔ پرانے قرضوں پر سود کی ادائیگی برقرار رکھنے کے لئے یہ نئے قرضے امریکی سامراج کی آشیر آباد کے بغیر نہیں مل سکتے کیونکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی ادارے سامراج ہی کا آلہ کار ہیں۔ چنانچہ امریکی اطاعت ہمارے حکمرانوں کے لئے مستقل اور لازم پالیسی کا درجہ رکھتی ہے۔ ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج، قومی سالمیت اور خودمختیاری جیسے نعرے بیہودہ مذاق ہیں۔ ماضی میں ڈرون حملوں کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنوں میں امریکہ مخالف لفاظی سے بھرپور تقریریں کرنے والے عمران خان کی جان کیری سے خفیہ ملاقات، طاقت کے اصل سرچشمے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
لیکن استحصال کے اس نظام کو جاری رکھنے اور نیو لبرل معاشی پالیسیوں پر اتفاق کے ساتھ ساتھ امریکہ اور پاکستان کے حکمرانوں میں کئی معاملات پر تصادم اور تضادات بھی موجود ہیں۔ امریکی ذرائع ابلاغ، پالیسی ساز ادارے اور انتظامیہ کے اہم اراکین پچھلے لمبے عرصے سے پاکستان کے کچھ ریاستی اداروں خصوصاً آئی ایس آئی سے ناراض چلے آرہے ہیں۔ امریکی سامراج کے یہ نالاں دھڑے پاکستان کی امداد بند کرنے پر زور بھی دے رہے ہیں لیکن فی الوقت امریکی سامراج کے فیصلہ کن پالیسی ساز حصے یہ اقدام اٹھانے سے گریزاں ہیں۔ داخلی طور پر مالی بحران اورتضادات کا شکار امریکی سامراج ان نازک حالات میں پاکستان جیسے ’حلیف‘سے براہ راست دشمنی ’افورڈ‘ نہیں کرسکتا۔
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے فوراً بعد سے ہی یہاں کے حکمرانوں کا جھکاؤ امریکہ اور مغربی سامراج کی جانب تھا۔ پاکستان نے انگریزوں کے براہ راست اقتدار سے آزادی حاصل کی تھی، ان کے نظام سے نہیں۔ ہر نظام معیشت کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جو اس نظام کے تحت چلنے والی ریاستوں کی سفارتی اور عسکری پالیسیوں کے تعین میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جہاں برطانوی سامراج کا سورج ہر طرف غروب ہورہا تھا وہاں عالمی افق پر امریکہ کا ظہور دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت اور عالمی سرمایہ داری کے ’پولیس مین‘ کے طور پر ہوا۔ عالمی منڈی اور معیشت پر سامراجی غلبے اور اس منڈی کا حصے بننے کی پاکستانی حکمرانوں کی مجبوری کے تحت امریکی سامراج کی اطاعت پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی جزو بن گئی۔ امریکہ کی خوش نودی کے لئے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے نومبر 1949ء میں سفارتی طور پر پہلے سے طے شدہ سوویت یونین کا سرکاری دورہ منسوخ کر کے مئی 1950ء میں امریکہ جانے کو ترجیح دی۔ اس کے بعد کے سالوں میں ہندوستان کا جھکاؤ سوویت یونین کی طرف بڑھتا گیا جبکہ پاکستان خطے میں امریکہ کا ’اتحادی‘ بن گیا۔ دوسری طرف پاکستان اور ہندوستان کے باہمی تعلقات میں بھی کشیدگی بڑھتی رہی۔ امریکہ نے ہندوستان کے خلاف کبھی بھی کھل کر پاکستان کی سفارتی حمایت نہیں کی۔ پاکستان کے مطیع حکمرانوں سے امریکہ نے ہمیشہ ایک مغرور آقا جیسا سلوک ہی روا رکھا۔ سرد جنگ کے اس عرصے میں امریکی حکمرانوں کے مسلسل ہتک آمیز رویے کے باعث پاکستان ریاست کے کچھ دھڑوں نے چین سے تعلقات بڑھانے شروع کئے لیکن پاکستان پر امریکہ کا سیاسی اور معاشی اثرو رسوخ غالب رہا۔ سرمایہ داری اور جاگیرداری سے بیزاری کے ساتھ ساتھ امریکی سامراج سے نفرت بھی پاکستان میں بھڑکنے والے 1968-69ء کے انقلاب کے عوامل کا اہم جزو تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں بائیں بازو کی معاشی پالیسیوں کے پیش نظر پاک امریکہ تعلقات کشیدہ ہوتے چلے گئے۔ بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے ضیا الحق کی زیر نگرانی شروع کئے گئے ’’آپریشن فئیر پلے‘‘ کو سی آئی اے کی آشیر آباد حاصل تھی۔
اسی دوران افغانستان میں برپا ہونے والے ثور انقلاب نے واشنگٹن کے ایوانوں میں ہل چل مچا دی۔ چنانچہ امریکی سامراج نے اس خطے میں بڑے پیمانے پر مداخلت کا آغاز کیا اور سی آئی اے کی تاریخ کا سب سے بڑا خفیہ آپریشن شروع کیا گیا۔ آج امریکی سامراج جس دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اس خطے کو تاراج کر رہا ہے وہ اس کی اپنی ہی تخلیق ہے۔ سعودی خفیہ ایجنسیوں اور آئی ایس آئی کی مدد سے اسلامی بنیاد پرستوں کو تربیت اور مالی و عسکری امداد دے کر افغانستان میں بائیں بازو کی حکومت کے خلاف ڈالر جہاد برپا کرنے کا عمل جولائی 1979ء میں ’’آپریشن سائیکلون‘‘ کے تحت شروع کیا گیا تھا۔ اس جہاد کی فنڈنگ کے لئے اس خطے میں پوپی کی کاشت، منشیات کی تیاری اور سمگلنگ کا وسیع نیٹ ورک بچھایا گیا۔
سی آئی اے کے گھاگ افسر اور صدراوباما کے مشیر بروس ریڈل نے اپنی نئی کتاب ’’ڈیڈلی ایمبریس‘‘ میں انکشاف کیا ہے کہ آئی ایس آئی کے کل ملازمین کی تعداد جو 1978ء میں دوہزار تھی، 1988ء میں ڈالر جہاد کے اختتام تک 40 ہزار سے تجاوز کر چکی تھی اور افغانستان سے سوویت فوجوں کے انخلا تک آئی ایس آئی ایک منجھی ہوئی منظم خفیہ ایجنسی بن چکی تھی جس کا سالانہ بجٹ اس دور میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ تھا۔
سوویت فوجوں کے انخلا، افغان انقلاب کی پسپائی اور خاص طور پر 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد اس خطے میں امریکی سامراج کی دلچسپی کم ہوگئی۔ انہوں نے اس طرف توجہ تقریباً ختم کر دی اور ’مجاہدین‘ کی امداد بھی بند کردی گئی۔ اسی مقام پر اسلامی بنیاد پرستوں کے مختلف دھڑوں اور امریکی سامراج کے درمیان ٹکراؤ کاآغاز ہوا۔ دو رجعتی قوتوں کی یہ لڑائی پچھلی دو دہائیوں سے اس خطے کو تباہ و برباد کررہی ہے۔
افغانستان میں جہاں چین، روس، ہندوستان، ایران اور دوسری علاقائی اور عالمی سامراجی ریاستوں کے مالی اور سٹریٹیجک مفادات کی جنگ جاری ہے وہاں پاکستانی ریاست کے کچھ دھڑوں اور امریکی سامراج کے درمیان بھی شدید تصادم موجود ہے۔ مذاکرات ناکام ہوکر نئے تضادات اور خون ریزی کو جنم دیتے ہیں اور اس لڑائی سے تھک کر پھر سے مذاکرات کا نیا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کو مکمل طور پر اپنے تسلط میں رکھنے کی امریکی کوششیں پاکستانی ریاست کے کچھ دھڑوں کے مفادات پر کاری ضربیں لگاتی ہیں۔ افغانستان میں جاری اس گریٹ گیم میں کئی کھلاڑی شامل ہیں جس سے صورتحال پیچیدہ ہوتی چلی جارہی ہے اور خونریزی بڑھ رہی ہے۔ امریکی سامراج نہ تو افغانستان میں مزید جنگ کرنے کے قابل ہے اور نہ ہی مکمل انخلا کے بعد اس خطے میں اپنے مفادات پر لگنے والی ٹھوکریں برداشت کرسکتا ہے۔ جب تک یہ نظام قائم رہے گا سامراجی جارحیت کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گی۔ پاکستان میں نحیف سرمایہ داری کی پیداوار کالے دھن کی معیشت پر پلنے والی رجعتی قوتیں دہشت گردی کا بازار گرم کئے رکھیں گی۔ پاکستان اور افغانستان کے عوام کو برباد کرنے والی ان خون ریزیوں نے اس نظام کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ یا تو اس خطے سے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ کر سامراجی جکڑ کی زنجیریں توڑنی ہوں گی یا پھر پورے معاشرے کو اس بربریت کی آگ میں جھلسنا پڑے گا!

متعلقہ:
افغانستان :انقلاب سے رد انقلاب تک
وزیرستان: جدیدیت کی جانب لانگ مارچ
افغانستان؛ خاک میں لتھڑاہوا،خون میں نہلایاہوا
ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ: ہوئے تم دوست جس کے۔ ۔ ۔