علی وزیر کا نام آج ملک بھر میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ وہ تقریباً ایک سال قبل ابھرنے والی ’پشتون تحفظ موومنٹ‘ کے روحِ رواں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے پشتون عوام کی پکار کو پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلایا ہے۔ تمام تر مصائب اور آزمائشوں کے باوجود ان کی آج تک کی زندگی غریب اور محنت کش قبائلی عوام کے حقوق کی جدوجہد سے عبارت ہے۔ جبر و استحصال کے خلاف عوام کے بنیادی حقوق کی اسی طبقاتی جدوجہد کو پارلیمانی سیاست کے میدان میں لے جانے کے لئے وہ 2018ء کے عام انتخابات جنوبی وزیرستان کے حلقہ NA-50 سے بطور آزاد امیدوار لڑنے جا رہے ہیں۔ اس موقع پر قارئین کی بھرپور فرمائش پر ہم کچھ عرصہ قبل ’ایشین مارکسسٹ ریویو‘ (AMR) کے لئے اُن کی ایک خصوصی تحریر کا اردو ترجمہ شائع کر رہے ہیں۔
گزشتہ چند ماہ میں میری زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ لیکن جہاں اس عرصے میں اتنی تکالیف برداشت کرنی پڑیں اور دھمکیوں، شکوک و شبہات اور الزامات کا سامنا کرنا پڑا وہاں بے شمار محبت، حمایت اور عزت بھی ملی۔ فروری کے بعد سے جب ہم نے دہشت گردی کے بدترین متاثرین یعنی پشتون عوام کی تکالیف کی طرف توجہ مبذول کروانے کے لئے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تو مجھے عام پاکستانیوں کی طاقت اور صلاحیت کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ تبدیلی کے لئے ان کی تڑپ متاثر کن ہے اور اس پرامن اور خوشحال مستقبل کی نوید سناتی ہے جو ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لئے تعمیر کرنا ہے۔
پاکستان کے دوسرے بڑے نسلی گروہ کے تحفظ کا مطالبہ کرنے والے ایک پشتون سیاسی کارکن کے طور پر سب سے دلچسپ اور اطمینان بخش بات میں نے یہ جانی ہے کہ آج بھی پرامن احتجاج اور عوامی تحرک کے ذریعے سماج کو بدلا جا سکتا ہے اور حکومتوں میں کچھ بہتری لائی جا سکتی ہے۔ میں نے سیکھا ہے کہ حق ہمیشہ باطل پر فتح یاب ہوتا ہے ۔ امن ہی تشدد اور جنگوں پر غالب آتا ہے اور جھوٹ اور دھوکہ دہی پر سچ کو فتح نصیب ہوتی ہے۔
جدید ریاست کے اداروں کی پہلی اور بنیادی ذمہ داری ذات پات، رنگ و نسل اور عقیدے کی تفریق کے بغیر تمام شہریوں کی حفاظت اور فلاح ہونی چاہئے۔ یہی وہ کلیدی نکتہ ہے جس کے لئے ہماری تنظیم ’پشتون تحفظ موومنٹ‘ (PTM) یا پشتونوں کے تحفظ کی تحریک نے بنیادی مطالبات پیش کئے ہیں اور عوام کو متحرک کیا ہے تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہماری ریاست اپنی بنیادی ترین ذمہ داریاں پوری کرے۔
میں ذاتی طور پر جن آزمائشوں اور اذیتوں کا شکار رہا ہوں اُن سے بہترین طور پر واضح ہوتا ہے کہ کس چیز نے ہمارے مطالبات کو ابھارا ہے۔ پچھلی صد ی کے اواخر میں‘ میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا تھا جب میرے آبائی علاقے وانا (جو جنوبی وزیرستان ایجنسی کا مرکز ہے) میں طالبان سے وابستہ گروہوں نے پناہ لینے کی کوشش کی ۔ اس کے بعد سے ہمارا علاقہ عالمی دہشت گردی کا مرکز بنتا چلا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردوں کے کچھ مقامی سہولت کار بھی تھے لیکن آخری تجزئیے میں یہ ریاست تھی جو انہیں اس علاقے کو استعمال کرنے دینے سے روک نہیں سکی۔ جب میرے والد، جو احمدزئی وزیر قبیلے کے سردار تھے، نے دوسرے مقامی رہنماؤں کیساتھ مل کر ان دہشت گردوں کی موجودگی کی شکایت کی تو سرکاری حکام نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے انہیں خاموش کروا دیا۔ حکومت کئی سالو ں تک افغان، عر ب یا وسط ایشیائی جنگجوؤں کی موجودگی سے انکاری رہی۔
2003ء تک ان جنگجوؤں نے جنوبی اور شمالی وزیرستان میں اپنے قدم جما لیے تھے اور ایک مقامی امارت قائم کرنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ میرے بڑے بھائی فاروق وزیر، جو ایک مقامی سیاسی کارکن اور نوجوان رہنما تھے، اس طویل خونی مہم کا پہلا شکار بنے جس میں ہزاروں پشتون رہنماؤں، سیاسی کارکنان اور علما کو قتل کر دیا گیا۔ ان قاتلوں کو ہر قسم کی قانونی روک ٹوک سے کم و بیش مکمل استثنا حاصل تھا ۔ ان مارے جانے والوں کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے اپنے وطن میں خطرناک دہشت گردوں کی موجودگی پر سوالات اٹھائے تھے۔
2005ء میں جب میں جیل میں تھا، میرے والد، بھائیوں، کزنوں اور چچا کو ایک ہی حملے میں قتل کر دیا گیا۔ میرے جیل میں ہونے کی وجہ نوآبادیاتی وقتوں سے نافذ’ایف سی آر‘کا وہ سفاکانہ قانون تھا جو کسی فرد کے جرم کا سزاوار پورے قبیلے یا علاقے کو ٹھہراتا تھا۔ میں نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا تھا، نہ ہی مجھے منصفانہ قانونی کاروائی کا موقع دیا گیا ، نہ ہی کبھی کوئی سزا سنائی گئی۔ اس سب کے باوجود مجھے میرے پیاروں کے جنازوں میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ بعد کے سالوں میں میرے خاندان کے مزید چھ افراد کو قتل کر دیا گیا ۔ لیکن حکام کی جانب سے ان قاتلوں کو گرفتار کرنا تو دور کی بات ان جرائم کی تحقیقات تک نہیں کی گئیں۔ پاکستان کے سیاسی لیڈر اپنے ہم وطنوں کی ’قربانیوں ‘ کا ڈھنڈورا تو بہت پیٹتے ہیں لیکن ہم سے آج تک کسی نے اظہارِ ہمدردی نہیں کیا۔
ہمارے خاندان کے نمایاں افراد کے قتل کے بعدہمیں معاشی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت عسکریت پسندو ں کے ہاتھوں کو ہمارے پٹرول پمپوں کی مسماری روکنے میں ناکام رہی۔ بعد میں انہوں نے
ہمیں’ منافقین ‘قرار دیتے ہوئے ہماری عمارات کی اینٹوں سے بیت الخلا تعمیر کئے جس کا مقصد ہماری تذلیل کرنا تھا۔ وانا میں ہمارے سیب اور آڑو کے باغات پر زہریلے کیمیکل کا چھڑکاؤ کیا گیا اور ہمارے ٹیوب ویلوں کو مٹی سے بھر دیا گیا تاکہ ہمیں ان اندھیری قوتوں کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا جا سکے۔
2016ء میں وانا میں بم دھماکے میں ایک فوجی افسر کے جاں بحق ہو جانے کے بعد ہماری مارکیٹ کو ڈائنامائٹ لگا کر اڑا دیا گیا۔ حالانکہ مقامی حکام نے میرے سامنے اعتراف کیا تھا کہ یہ ایک حادثہ تھا اور ہم اس حادثے کے ذمہ دار نہیں تھے لیکن ’ایف سی آر‘کے کالے قانون کے تحت ہمارے روزگار کو برباد کر دیا گیا۔ مارکیٹ تباہ کرنے کے بعد حکومت نے مقامی افراد، جن میں زیادہ تر احمد زئی وزیر قبیلے کے لوگ تھے، کو ہماری مدد کے لئے چندہ کرنے سے بھی روک دیا۔ انہیں بتایا گیا تھا اس سے ایک ناقابل قبول مثال قائم ہو گی کیونکہ حکومت اپنے سزا یافتہ افراد کی مدد کسی کو نہیں کرنے دے سکتی۔
ان تمام سالوں کے دوران بھی عدم تشدد پر میرا یقین متزلزل نہیں ہوااور آج بھی میں پر امن سیاسی جدوجہد پر مکمل یقین رکھتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے 2008ء اور 2013ء کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا۔ میں کافی یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ2013ء کے انتخاب میں کامیاب رہا لیکن میری کامیابی کو گن پوائنٹ پر شکست میں بدل دیا گیا۔ طالبان کی جانب سے ووٹروں کو ڈرانے دھمکانے اور میرے حمایتیوں پر تشدد کے بعد میں صرف تین سو ووٹوں سے انتخاب ہار گیا۔
میں بخوبی آگاہ ہوں کہ ’PTM‘ کی مہم کے آغاز سے ہی ہماری تنقید بہت شدید اور براہ راست رہی ہے ۔ ہم کھل کر ذمہ داران کا نام لیتے ہیں اور ان طاقتوں کا نام لینے سے شرماتے نہیں ہیں جن پر تنقید تو دور کی بات باقی ماندہ سماج ، میڈیا اور سیاستدان جن کا نام لینے سے بھی ڈرتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہمارے مصائب سے ظاہر ہے کہ ہم پشتونوں پر جہنم گزری ہے۔ صرف اس بات پر غور کریں کہ پچھلے پندرہ سال کے دوران دہشت گردوں کے حملوں اور فوجی آپریشنوں میں دسیوں ہزار عام شہری ہلاک ہوئے اور لاکھوں افراد سالوں تک بے گھر رہے۔
تشدد کے اِس آتش فشاں کے بیچوں بیچ ہزاروں شہری غائب ہو چکے ہیں اور ہزاروں ماورائے عدالت قتل کا شکار ہوئے ہیں۔ہمیں پورے ملک میں مبینہ دہشت گردوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، چیک پوسٹوں پر ہمار ی تذلیل کی جاتی ہے اور آپریشنوں کے دوران ہمارے معصوم شہریوں کو تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا قبائلی معاشرہ ہونے کے ناتے پشتون اپنی مہمان نوازی، وعدے کی پاسداری اور شجاعت کے لئے مشہور ہیں۔ لیکن دہشت گردوں کے بدترین متاثرین ہونے کے باوجود ہمیں غلط طور پر ان کا ہمدرد بنا کے پیش کیا جاتا ہے۔
اب جبکہ ہم تبدیلی کے لئے احتجاج کر رہے ہیں اور ہمارا مطالبہ ہے کہ ریاست اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو پورا کرے تو ہم پر غداری کے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور ریاست کے دشمنوں کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ میں ریکارڈ کے لئے بالکل واضح کردوں ہمارا کوئی پاکستان مخالف تخریبی یا رجعتی ایجنڈا نہیں ہے۔ پاکستان میں نظام، سماج اور ریاست کی ایک بنیادی تبدیلی درکار ہے۔ ہم پاکستان، جنوب ایشیا اور دنیا بھر میں دہشت گردی کے بدترین متاثرین میں شامل ہیں اور ان مظالم سے نجات اور انصاف کی تلاش میں ہیں جنہیں ایک لمبے عرصے سے آج تک برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ملک کے لئے آگے بڑھنے کا بہترین اور واحد راستہ یہی ہے کہ اپنے قوانین اور اُس آئین کا احترام کرے جو ہمیں ایک سماجی معاہدے میں جوڑتا ہے۔ ہمارے ساتھ ان قوانین اور آئین سے ماورا سلوک سے وہ رشتے کمزور ہی ہوں گے جو مختلف رنگ و نسل کے 20 کروڑ لوگوں کو یکجا کرتے ہیں۔ ہم نے سرکار کے لئے ایک سنہری موقع پیدا کیا ہے کہ اپنے سکیورٹی سٹیٹ کے ماضی کو ترک کرے اور اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لئے فکرمند ایک نارمل ملک کے طور پر کام کرے۔ ہم صدق دل سے امید کرتے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں کے نسبتاً معقول افراد اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کو شیطانوں اور ان خطرات سے نجات دلائیں گے جن کے خلاف لڑائی کا انہوں نے حلف اٹھایا ہے ۔ میں جانتا ہوں کہ ہمارا پیش کردہ حل بہت سادہ ہے لیکن پاکستان کا مستحکم مستقبل صرف قانون کی حکمرانی میں مضمر ہے۔ ہم بس یہی چاہتے ہیں۔