| تحریر: لال خان |
27 دسمبر کو نوڈیرو میں محترمہ بینظیر بھٹو زرداری کی 8ویں برسی کے موقع پر ’آفیشل‘ پیپلز پارٹی نے ہر سال کی طرح جلسہ منعقد کیا۔ اس تقریب کی عمومی کاروائی ماضی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی لیکن سینئر سیاستدان اور قانون دان سمجھے جانے والے اعتزاز احسن کی تقریر کچھ غیر معمولی تھی۔ اعتزاز احسن صاحب نے اپنے خطاب میں پیپلز پارٹی کی بنیادی دستاویزات کے نعرے یاد دلائے۔ ان کا کہنا تھا کہ باقی نعرے تو لگائے جاتے رہے لیکن ’’سوشلزم ہماری معیشت‘‘ کا نعرہ فراموش کردیا گیا اور موجودہ پارٹی قیادت کو دوبارہ اس طرف لوٹنے کی ضرورت ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پچھلے تقریباً 35 سال سے ’’سوشلزم‘‘ کو پارٹی قیادت نے لفظ ممنوعہ بنا دیا ہے۔ اس عرصے میں پیپلز پارٹی کو تین بار اقتدار ملا، ایک اقتدار کی مدت بھی مکمل ہوئی لیکن پارٹی کے بنیادی منشور سے مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد پالیسیاں اپنائی گئیں۔ 1980ء کی دہائی سے ہی سوشلزم کو اس لئے ’’فرسودہ‘‘ گردانا گیا کہ پارٹی قیادت کے نزدیک اقتدار کا حصول امریکی سامراج کی حمایت، سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی پشت پناہی اورر یاست سے مصالحت کے ذریعے ہی ممکن تھا۔’’مصالحت‘‘ اور مفاہمت کی یہ سوچ آج تلک حاوی ہے اور سوائے اعتزاز احسن کے، 27دسمبر 2015ء کے جلسے میں قائم علی شاہ سے لے کر بلاول تک، کسی ’لیڈر‘ نے سوشلزم کا نام لینا گوارا نہیں کیا۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اعتزاز احسن صاحب کو سوشلزم اچانک کیوں یاد آنے لگا ہے؟ وہ پارٹی کی ٹاپ لیڈر شپ کا حصہ طویل عرصے سے ہیں، وزارت داخلہ سمیت دوسری اہم وزارتوں پر بھی فائز رہے، پارٹی کارکنان میں ان کا تاثر ایک دانشور کا ہے، لیکن ان تمام دہائیوں میں انہیں سوشلزم یاد نہیں آیا۔ اب بھی انہوں نے جب سوشلزم کا تذکرہ کیا تو ساتھ ہی واضح کر دیا کہ ان کی مراد ’’یورپی سوشلزم‘‘ ہے۔ مقصد سامراج اور ریاستی آقاؤں کے سامنے واضح کرنا تھا کہ انقلابی مارکسزم کا ذکر کرنے کی گستاخی نہیں کی بلکہ سرمایہ دارانہ نظام میں اصلاحات ، یعنی سوشل ڈیموکریسی کی بات ہو رہی ہے۔
سوشل ڈیموکریسی بنیادی طور پر ریاستی سرمایہ داری کا دوسرا نام ہے۔بالخصوص یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد کی تین دہائیاں سرمایہ داری کو چلانے کے اس طریقہ کار کا کلاسیکی عہد تھا۔اس وقت محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی انقلابی تحریکوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے اصلاحات کا سہارا لینا یورپی حکمران طبقے کے مجبوری تھی۔ لیکن سب سے اہم عنصر ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت جس ’’پوسٹ وار بوم‘‘ یا معاشی عروج سے گزر رہی تھی اس میں اتنی گنجائش موجود تھی کہ سرمایہ داروں پر ٹیکس لگا کر یا کچھ کلیدی ادارے نیشنلائز کر کے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ سویڈن سے لے کر برطانیہ تک، ان اصلاحات سے عوام کا معیار زندگی بلند ہوا اور اس کے نتیجے میں طبقاتی کشمکش کسی حد تک ماند بھی پڑی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سوشل ڈیموکریسی کی پارٹیوں نے یہ پالیسیاں دے کر یورپ کے عوام پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکوں یا انقلابی تحریک پھٹ پڑنے کے خوف نے انہیں یہ اقدامات کرنے پر مجبور کیا۔ دوسرے الفاظ میں یہ حاصلات یورپ کے عوام نے اپنی جدوجہد سے چھینی تھیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد کے ہی عہد میں بہت سے نوآبادیاتی ممالک نے براہ راست سامراجی جبر سے آزادی حاصل کی۔ لیکن ان ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام موجود رہااور اس بنیاد پر بالواسطہ شکل میں سامراجی اور طبقاتی استحصال نہ صرف جاری رہا بلکہ براہ راست نوآباد کاری سے بھی زیادہ شدت اختیار کر گیا۔ یہی نظام آج تک موجود ہے اور جب تک موجود ہے تب تک آئی ایم ایف جیسے سامراجی ادارے استحصال اور لوٹ مار کے طریقہ کار مرتب کر کے یہ کھلواڑ جاری رکھیں گے۔
لیکن آج کا یورپ بھی اس یورپ سے بالکل مختلف ہے جس کا ذکر اعتزاز احسن صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا ہے۔ یورپی ریاستیں آج سر تا پا، قرضوں میں ڈوبی ہیں، یونان سمیت کئی ممالک دیوالیہ ہیں یا اس سمت میں تیزی سے گامزن ہیں۔ وہ تمام سہولیات جو عوام نے پچھلے 70 سال میں طویل جدوجہد کے ذریعے حاصل کی تھیں ، اب چھینی جا رہی ہیں اور ’ویلفیئر اسٹیٹ‘ کو بتدریج منہدم کیا جارہا ہے۔ سویڈن اور برطانیہ میں یہ واردات قدامت پرست پارٹیاں کر رہی ہیں تو فرانس میں سوشل ڈیموکریٹ ’’سوشلسٹ پارٹی‘‘ فرانسوا اولاند کی صدارت میں ’آسٹیریٹی‘ جاری رکھے ہوئے ہے۔
یورپ کا مسئلہ یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جو معاشی توازن وہاں قائم کیا گیا تھا اسی کی بنیاد پر ہی سیاسی اور سماجی استحکام چل رہا تھا۔ نحیف بنیادوں پر کھڑا یہ ڈھانچہ 1974ء کے معاشی بحران کے بعد لرزنے لگا اور 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد زمین بوس ہو چکا ہے۔ معاشی توازن کے ٹوٹنے کے بعد سیاسی اور سماجی استحکام بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ احتجاج اور ہڑتالیں آج یورپ کا معمول ہیں۔ یونان میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے اور آنے والے دنوں میں نہ صرف یونان بلکہ دوسرے ممالک میں بھی یہ واقعات بلند پیمانے پر خود کو دہرائیں گے۔ ان ترقی یافتہ ممالک میں سوشل ڈیموکریٹ پارٹیوں کو مسلسل انتخابی شکست کا سامنا ہے۔ اتنی ذلت کا سامنا سوشل ڈیموکریسی کو شاید پچھلے 150 سال میں نہیں کرنا پڑا۔ اب پتا نہیں اعتزاز احسن صاحب اس ’’سوشلزم‘‘ کا اجرا پاکستان میں کیسے کروانا چاہتے ہیں جہاں معیشت عرصہ قبل ہی دیوالیہ ہو چکی ہے۔
1967ء میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی بنیاد سوشل ڈیموکریسی والے ’’سوشلزم‘‘ پر نہیں بلکہ انقلابی سوشلزم پر رکھی گئی تھی۔ پارٹی کی بنیادی دستاویزات آج بھی اس حقیقت کی گواہ ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ چوہدری اعتزاز احسن نے پارٹی کی بنیادی دستاویزات پڑھی ہوں گی۔ بنیادی دستور میں جاگیرداری کے مکمل خاتمے، سامراجی تسلط کے خلاف جنگ، تمام بڑی صنعتوں اور مالیاتی سیکٹر کی نیشنلائزیشن، ’’مفاہمت‘‘ اور اصلاح پسندی کی مذمت، اداروں میں محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول اور سرمایہ دارانہ ریاست کی جگہ مزدور ریاست کی تعمیر کا پروگرام واشگاف الفاظ میں پیش کیا گیا ہے۔ یہی انقلابی منشور اس حمایت کی بنیاد تھا جس سے عوام نے 1968-69ء کی انقلابی تحریک کے دوران پارٹی کو سرفراز کیا تھا۔
بنیادی منشور اور نظریات سے قیادت کا انحراف آج پیپلز پارٹی کی بدترین زوال پزیری اور عوام میں مسلسل سکڑتی ہوئی ساکھ پر منتج ہوا ہے۔ پارٹی پر براجمان کالے دھن کے ان داتاؤں، سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور ضیا الحق کی باقیات نے جس نہج پر پارٹی کو پہنچا دیا ہے وہاں سے دوبارہ بحالی کے لئے پارٹی کو اپنے اندر انقلاب برپا کرنا پڑے گا۔ لیکن موجودہ حکمران، چاہے وہ پارٹی قیادت کی صورت میں ہوں یا پھر پارٹی کے ’’بائیں بازو‘‘ کا ناٹک کر رہے ہوں، انہیں اکھاڑے بغیر یہ انقلاب برپا نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا پارٹی پر براجمان موجودہ ٹولے سے توقعات وابستہ کرنا محض خود فریبی ہے۔
1985ء میں پیپلز پارٹی کی زیادہ تر سرگرمیاں جلاوطنی میں تھیں۔ اس وقت پارٹی میں انقلابی سوشلزم کی آواز بلند کرنے والے مارکسسٹ کارکنان نے ایک پوسٹر نکالا تھا جس میں ضیاالحق کا ڈراؤنا چہرہ دونوں طرف سے مزدوروں کے گھونسوں میں جکڑا ہوا تھا۔ پوسٹر پر نعرہ درج تھا کہ ’’ایک سوشلسٹ پاکستان کے لئے ضیاالحق کو کچلنا ہو گا۔‘‘ یہ پوسٹر بہت مقبول ہوا تھا۔ پارٹی قیادت کے ایک کاسہ لیس نے اس کو بینظیر بھٹو کی ذاتی تخلیق کے طور پر پیش کرنے کے لئے دوبارہ ڈنمارک سے چھپوایا تھا، بس نعرے میں ایک تبدیلی کر دی کہ ’’ایک جمہوری پاکستان کے لئے ضیاالحق کو کچلنا ہو گا۔‘‘حسب توقع بینظیر نے یہ ’’جمہوری پوسٹر‘‘ بہت پسند فرمایا تھا کیونکہ سوشلزم سے پاک ہو چکا تھا۔ پھر ہم نے جمہوریت کے انتقام کے بارے میں سنا اور 2008ء کے بعد تفصیل سے دیکھ بھی لیا۔ دولت کی اس جمہوریت نے عوام کا جو حشر کیا ہے اس کے بعد لوگ اس اصطلاح سے ہی بیزار ہو گئے ہیں۔
آج جو ذلت اس سماج میں پنپ رہی ہے اتنی شاید 1967ء میں بھی نہ تھی۔پاکستان کے محنت کشوں اور عوام کی نجات کا واحد راستہ آج بھی انقلابی سوشلزم ہی ہے۔ اس جدوجہد کی ضرورت آج ماضی سے کئی گنا زیادہ ہے۔پیپلز پارٹی کی قیادت اگر ہمیشہ کی طرح اس سے منحرف ہے تو عوام کی نظر میں بھی ان کی کوئی وقعت نہیں ہے۔پارٹی کی زوال پذیری یونہی جاری رہی تو وقت، حالات، واقعات اور تحریکیں انقلابی قیادت اور نئی سیاسی روایت تراش لائیں گے۔
متعلقہ: