تو نے کب یہ سوچا ہے معصوم ہے کون اور قاتل کون
تو نے کب یہ دیکھا ہے کوئی چہرہ کیسا لگتا ہے
ایسے بھی ہوتے ہونگے جن سے سولی بھی شرماتی ہو
ایسے بھی جن سے دار کا تختہ سجا سجا سا لگتا ہے
جھوٹ کا عمامہ ہے کوئی یا پرچم ہے سچائی کا
تو کیا جانے کس کے منارۂ سر پہ کمند افگندہ ہے
وہ منصور کا حرفِ انا ہویا عیسیٰ کی شمعِ دعا
تجھ کو کیا نخچیر ترا کوئی مولا ہے یا بندہ ہے
درباروں سے ہو کر جب انصاف کا قاصد آتا ہے
سب کو خبر ہے بے گنہی کا اکثر جو انجام ہوا
میزانیں کن ہاتھوں میں تھیں جنبشِ ابرو کس کی تھی
کس پر اہلِ عدالت گرجے کس پر لطف اکرام ہوا
محفل محفل مقتل مقتل سب بسمل جلاد ہے کون
کوئی سمجھ کر بھی نہیں سمجھے کوئی اشارہ جانے ہے
نام ہے کس کا دام ہے کس کااور یہاں صیاد ہے کون
’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے‘
احمد فراز