افسانہ: ’’پروفیسر‘‘


اگلے دن فارغ پیریڈمیں وہ سکندر سے ملا اور اس سے خوب جھگڑا کہ تم نے مجھے کہاں پھنسا دیا۔ سکندر نے کہا کہ وہ ہوش کرے اور پریکٹیکل اور پروفیشنل اپروچ بنائے اپنی۔ ذرا سوچ کر بولے کہ وہ کہہ کیا رہا ہے۔ رات دس بجے تک کام کر کے میں تو مشین بن جاؤں گا۔ ۔ مجھے تو رات کو خواب میں بھی روبوٹ اور گھڑیاں ہی دکھائی دیتی رہیں۔ گھڑیاں ہی گھڑیاں وہ بھی اندر سے۔ ان کے مکینیکلز ان کے پرزے اور گراریاں۔ دائیں بائیں بس ٹِک ٹِک ٹِک ٹِک۔ ۔ ۔ گھومتی گھامتی۔ ۔ مجھے نظر آیا کہ میں بھی ان ہی میں سے ایک ہوں۔ بس چلتا چلا جا رہا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ لیکن تمہیں یہاں جو سیلری پیکیج مل رہا ہے وہ تو دیکھے۔ ذرا سوچے کہ کالج والے کتنے مہربان ہیں۔ کتنے انسان دوست ہیں۔ بھلا کسی غریب کو اتنی تنخواہ نصیب ہو سکتی ہے؟ کیا دیتے ہیں؟ کیا ہے انسان دوستی؟ ارے ایک کلاس کے دو لڑکے جتنی مہینے کی فیس دیتے ہیں وہ میری مہینے کی تنخواہ بنتی ہے۔ اور میں ساٹھ ساٹھ کی آٹھ کلاسیں پڑھا کر آرہا ہوں۔ کیا کرنے آتے ہیں وہاں طلباء؟ پڑھنے ہی آتے ہیں ناں؟ اور کون پڑھاتا ہے انہیں؟ ہم۔ ۔ ۔ اور یہ سارا سرمایہ کدھر جا رہا ہے؟ ۔ ۔ ۔ کیوں کدھر جا رہا ہے؟ اس کالج کے مالک نے سرمایہ لگایا نہیں؟ اس نے بلڈنگ نہیں دی آپ کو؟ فرنیچر نہیں دیا؟ یار کیسی بات کر رہے ہو؟ بلڈنگ تو کرائے کی ہے۔ ۔ اور فرنیچر۔ ۔ کہاں سے بن رہا ہے؟ یہاں ایک سے دو اور دو سے چار کیمپس کہاں سے بن رہے ہیں؟ کیا وہاں سے روپیہ آرہا ہے یا یہاں سے جا رہا ہے؟ کبھی آنکھیں کھول کر تو دیکھو۔ محنت تو پڑھانے پر ہو رہی ہے اور منافع وہ لے رہا ہے میں تو کبھی نہیں جاؤں گا اس جہنم میں دوبارہ۔ ۔ ۔ یار احد تم تو ہو ہی الو کے پٹھے۔ ۔ تم میرے بچپن کے دوست نہ ہوتے تو۔ ۔ میں پتا نہیں کیا کرتا۔ ۔ ارے یار!! یہاں گورنمنٹ کے ادارے میں بھی تو لڑکوں کو اتنا ہی پڑھاتے ہو۔ ۔ ملتا کیا ہے تمہیں یہاں۔ ۔ اس جہنم میں؟ ملتا کیا ہے۔ ۔ ۔ ملتا ہے۔ مجھے کم از کم یہ سکون تو ہے کہ میں اپنی گورنمنٹ کے لئے کام کر رہا ہوں۔ اور پھر آگے مجھے یقین ہے کہ میں پی سی ایس کر لوں گا۔ پکی جاب ہو جائے گی میری۔ ہاہاہا بھولے بادشاہ۔ ۔ ۔ کون سے سپنوں کی دنیا میں رہ رہے ہو؟ گورنمنٹ نے سی ٹی آئی کے تجربے سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ یہ لوگ کام بھی زیادہ کرتے ہیں اور تنخواہ بھی نہ ہونے کے برابر لیتے ہیں۔ اوپر سے ان کی تنخواہ بھی بینکوں میں رہتی ہے۔ گورنمنٹ کا فائدہ ہی فائدہ ہے۔ لہٰذا گورنمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ ریگولر سیٹیں بتدریج کم کر کے سی ٹی آئیز ہی سے کام چلایا جائے۔ اور مجھے ایک سوال کا جواب تو دو۔ ۔ تم نے کہا ہے کہ ہماری گورنمنٹ۔ ۔ کیا یہ گورنمنٹ واقعی تمہاری ہی ہے؟ گورنمنٹ بھی تو انہی کی ہے، جن کا یہ کالج ہے۔ پھر جب ملازمت ہی کرنی ہے تو یہاں کیا اور وہاں کیا؟ اور جب کام کرنا ہی ہے تو کیوں نہ اس کا پورا معاوضہ لیا جائے؟ سوچ لو۔ ۔ ۔ کام کرو گے تو یہ پیسے بھی ملیں گے۔ ۔ جو کہ تمہاری موجودہ آمدنی کا پانچ گنا ہے۔ ورنہ ایک سی ٹی آئی کی ایک ماہ کی تنخواہ تو ایک فقیر کی ڈیلی انکم کے برابر ہے۔ کس دنیا میں رہ رہے ہو؟ !!! احد کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ ۔ ۔ وہ لاجواب ہو چکا تھا۔
اڑھائی بجے کے بعد اس نے گھر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ باہر نکلا تو سامنے سے نعمان آرہا تھا۔ احد چاند گاڑی پر اچک کر بیٹھا تو اس نے کیا دیکھا کہ اس کی سیٹ کے ساتھ ایک ڈبہ پڑا تھا۔
نعمان! یہ ڈبے میں کیا ہے؟
ٹی وی ہے، ایل ای ڈی ٹی وی ہے۔ نیا خریدا ہے۔
کیا! تمہارے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے؟
باؤ جی! صبح کے وقت چھ لڑکیاں کالج لے کر جاتا ہوں۔ اس کے بعد کچھ مستقل سواریاں ہیں جیسے کہ آپ۔ پھر ہر ماہ تو پٹرول کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ کچھ اس سے بھی ہمیں فائدہ ہو جاتا ہے۔
فائدہ! وہ کیسے؟
’’دیکھیں جی ہم پٹرول کا کہہ کر سی این جی چلاتے ہیں۔ جیسے ہی پیٹرول کی قیمت بڑھتی ہے، ہم لوگ کرایہ بڑھا لیتے ہیں۔ ہر ماہ تیس چالیس ہزار مل جاتے ہیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جی۔ اس سال اماں اباحج کر کے آئے ہیں۔ میں نے ہی خرچا کیا تھا۔ لیکن باؤ جی! آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ کیا ہوا آپ کو؟ اور یہ جوتا بھی پھٹ گیا ہے۔ آپ کی تنخواہ تو ہم سے کہیں زیادہ ہو گی۔ تو اپنا کچھ خیال ہی رکھا کریں نا۔ جب اللہ نے اتنا دیا ہو تو نظر بھی آنا چاہیے۔ جس طرح کا حلیہ آپ نے بنا لیا ہے۔ اس سے نا شکری ہوتی ہے۔ اللہ رزق تنگ کر دیتا ہے۔ ‘‘ وہ ایک ہی سانس میں اتنی ساری باتیں کر گیا۔
نعمان نہیں! میری اتنی تنخواہ نہیں ہے۔
لیکن باؤ جی! ہمارے ماں باپ تو ہمیں ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ تم پڑھ نہیں سکے ورنہ نوٹوں میں کھیلنا تھا۔ ویسے تو اللہ کا شکر ہے، لیکن ایک سوچ کبھی کبھی ضرور ستاتی ہے کہ کاش ہم بھی پڑھ لکھ جاتے تو آپ کی طرح عزت سے روپیہ کماتے۔ پروفیسر، ساٹھ ستر ہزار روپیہ تنخواہ، رہنے کو بڑا مکان۔ اپنے تو بڑے ٹھاٹھ ہوتے باؤ جی۔ لیکن آپ تو۔ ۔ ۔ اتنی عزت دار جگہ پر ہیں۔
پروفیسر ی اور عزت دار جگہ ہونہہ! وہ سوچ میں پڑ گیا۔ ۔ ۔ یہ ضمنی الیکشن کے سلسلے میں وزیرِ اعلیٰ نے جو جلسہ کیا تھا۔ اس میں سب پروفیسروں، لیکچراروں اور سی ٹی آئیز کوجبری طور پر سٹیڈیم میں حاضری پر پابند کیا گیا تھا۔ صبح سات بجے سب کی سٹیڈیم میں حاضری لگنا تھی۔ سب کے سب سلیکٹی اور سی ٹی آئی صبح سات بجے وہاں پہنچ چکے تھے۔ کیوں کہ ڈی سی او صاحب کے سخت آرڈر تھے۔ وہاں یہ سب دس بجے تک کھڑے رہے۔ بہت سے سکولوں کالجوں کے پروفیسرزاور دیگر عملہ وہاں موجود تھا۔ لوکل گورنمنٹ کے دیگر ملازمین بھی جوق در جوق وہاں پہنچ چکے تھے۔ ہر طرح کا عملہ وہاں موجود تھا۔ ایک طرف پٹواری تھے تو دوسری طرف محکمہ صحت کے ملازمین۔ کہیں خاکروب تو کہیں چوکیدار غرض محمود و ایاز ایک ہی جگہ اکٹھے تھے۔