افسانہ: ’’پروفیسر‘‘

اگلے دن وہ کالج نہ جا سکا۔ اس نے ٹانگوں پر سرسوں کے تیل کی مالش کی، غرارے کئے اور گلے پر بھی تیل کی مالش کی۔ شام تک اس کی طبیعت کچھ بحال ہو چکی تھی۔ شام کو وہ ٹیوشن پڑھانے چلا گیا۔ اس دن وہ بچوں کو دیر تک پڑھاتا رہا۔ وہاں اس دن انہوں نے اسے کھانا بھی کھلا دیا۔ لیکن گھر واپس آنے تک اس کا گلا پھر سے بند ہو چکا تھا۔ سونے سے پہلے اس نے بچا ہوا ایک اپلا جلایا اور آرام سے دھونی رما کے سو گیا۔ اگلے دن کالج پہنچ کر پہلے تو اس کی اپنی’ کلاس لگ گئی‘ کہ اس نے چھٹی کیوں کی۔ احد نے کہا کہ اس کی طبیعت خراب تھی۔ لیکن سی ٹی آئیز کو تو چھٹی کی اجازت نہیں ہے۔ وائس پرنسپل صاحب نے نہایت مدبرانہ انداز میں اس کو تنبیہ کی۔ لیکن جناب ہمارے اپوائنٹمنٹ لیٹر میں تو لکھا تھا کہ ہم مہینے میں دو چھٹیاں کر سکتے ہیں؟ وہ اتفاقی چھٹیاں ہیں، استحقاقی نہیں!! جی؟ ؟ اس نے حیرت سے وائس پرنسپل کی جانب دیکھا۔ اس کو اس جرم کی پاداش میں اس دن چھ پیریڈ پڑھانے کو دے دیئے گئے۔ وائس پرنسپل بھی ضروری کام سے کہیں چلے گئے، ان کی جگہ بھی احد ہی کو پڑھانا پڑا۔
تھکن سے چور جب وہ گھر پہنچا تو مالک مکان کی بچی اس کے لئے نیاز کے چاول لے کر آگئی۔ وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگی، ’’ بھائی، ماما کہتی ہیں کہ آپ پروفیسر لگ گئے ہیں؟ کیا پروفیسر آپ کی طرح کے ہوتے ہیں؟ ‘‘ اس نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔ تم کیا جاننا چاہتی ہو، اس نے بڑے پیار سے پوچھا۔ بھائی میں تو سمجھتی تھی کہ پروفیسر بہت بوڑھے ہوتے ہیں، لیکن آپ تو بڑے پیارے ہیں۔ میں بھی بڑی ہو کر پروفیسر ہی بنوں گی۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں اس سے کہا کہ ضرور ایسا ہی کرنا۔ ۔ ۔ ’’لیکن بھائی، آپ خوش کیوں نہیں ہیں؟ میری ماما تو بہت خوش ہیں وہ کہتی ہیں کہ اب آپ کو اچھی ملازمت مل گئی ہے، اب آپ کے کمرے کا کرایہ بھی زیادہ ہو جائے گا اور ہمیں بھی خرچ کرنے کو زیادہ پیسے ملیں گے۔ اور مجھے نئے کپڑے بھی ملیں گے اور گڑیا بھی۔ ۔
آپ کواچھی ملازمت مل گئی ہے نا۔ وہ بڑے یقین سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔ اس لئے اس سے انکار نہ ہو سکا۔ یہ پلیٹ لے جاؤ اور امی سے بہت بہت شکریہ کہنا۔ ا س نے آگ جلائی اور چائے بنانے بیٹھ گیا۔ بچی کی باتیں اس کو تنگ کر رہی تھیں۔ کتنی آس تھی اس کونئے کپڑے اور گڑیا ملنے کی۔ کیا میں اس کی امیدوں پر یہ کہہ کر پانی پھیر دوں کہ مجھے تنخواہ چار ماہ کے بعد ملنی ہے؟ میرے مالک میں کیا کروں۔ ۔ ۔ ۔ میری تو تنخواہ بھی تقریباً مزدور کے برابر ہی ہے؟ اسی ادھیڑ بُن میں چائے پیتے پیتے ٹیوشن کا ٹائم ہو گیا۔ ٹیوشن پڑھانے کے بعد واپس آیا تو گلیوں میں کافی گہما گہمی تھی۔ چند قومی اور صوبائی سیٹوں کے خالی ہونے پر ضمنی الیکشن جو ہونے والے تھے۔ وہ اس ہجوم سے بچتا بچاتا کمرے میں پہنچا اور آکر سو گیا۔
اس سے چند دن بعد جب وہ پہلے تین پیریڈ لے کر سٹاف روم کے آگے سے گزر رہا تھا کہ سٹاف روم کے اندر سے ایک آواز سن کر اسے اپنے قدم روک دینے پڑے۔ یہ کوئی جانی پہچانی آواز تھی۔ اس نے کہا تھا ’’اوئے احد توُ کدھر؟ ‘‘ احد نے مڑ کر دیکھا تو یہ اس کا بچپن کا دوست سکندر تھا۔ سکندر نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔ سکندر نے پھر پوچھا، تم یہاں کہاں؟ احد نے جواب دیا کہ میں یہاں ٹیچر ہوں۔ سکندر نے کہا واہ! تم نے کب کیا پی سی ایس؟ تو احد نے اسے بتایا کہ وہ سی ٹی آئی ہے۔ سی ٹی آئی کا سن کر سکندر کے چہرے کے تاثرات ایک لمحے کے لئے تبدیل ہوئے، لیکن پھر اس نے کہا کہ چھوڑو اندر آجاؤ بیٹھتے ہیں۔ وہ اندر داخل ہوئے اور کرسیوں پر بیٹھ گئے سکندر نے پوچھا کہ پیریڈ تو نہیں۔ احد نے کہا کہ وہ تین کنزیکٹیو پیریڈ لے کر آرہا ہے۔ ابھی ایک پیریڈ کے لئے وہ فارغ ہے۔ سکندر نے کہا کہ چلو چل کر چائے پیتے ہیں۔ وہ کنٹین جانے کے لئے اُٹھے ہی تھے کہ سکندر جن سلیکٹیوں کے پاس پہلے بیٹھا تھا وہ بھی اٹھ کر ساتھ ہی چلنے لگے۔ سکندر نے انہیں کہا کہ آپ یہیں بیٹھیں مجھے میرا پرانا دوست ملا ہے ہم نے ذرا بات چیت کرنی ہے۔ لیکن وہ مصر ہو گئے کہ ہمیں بھی چائے پلواؤ۔ خیر سکندر نے ان سے کہا کہ ان کی چائے وہ یہیں بھیج دیتا ہے۔ ان میں سے ایک نے دوسروں کو آنکھ مارتے ہوئے کہا کہ سادی چائے!!؟ ساتھ کوئی کیک شیک بھی۔ ۔ ۔ سکندر نے کہا آپ بیٹھیں سب کچھ یہیں آجائے گا۔
کینٹین پہنچ کر ان میں خوب باتیں ہوئیں۔ سکندر، احد ہی کے گاؤں کا رہنے والا تھا۔ ان دونوں نے گاؤں ہی کے سکول سے میٹرک کیا تھا۔ دونوں ہی سکول کے لائق ترین لڑکوں میں سے تھے۔ سکندر نے بتایا کہ وہ گاؤں کے سکول سے میٹرک کرنے کے بعد شہر میں ایک نجی کالج میں داخل ہو گیا تھا۔ اس کالج کا بڑا نام ہے۔ یہاں لائق طلباء کو مفت میں تعلیم دی جاتی ہے۔ جن طلباء نے اسی فی صد سے زیادہ نمبر لئے ہوں انہیں مفت تعلیم ملتی ہے۔