افسانہ: ’’پروفیسر‘‘

بریک ٹائم میں سب اکٹھے ہوئے تو سب اپنے اپنے گلے کا گلہ کر رہے تھے۔ اور سب کھسرپھسر کر رہے تھے کہ یہ کیا ہوا پہلے ہی ان کو زیادہ پیریڈز ملے ہیں۔ اور پھر ہمیں کلاسز میں بھیج دیتے ہیں خود مزے سے بیٹھ کر اخبار پڑھتے، گپیںھانکتے، لطیفے سناتے اور جگت بازی کرتے رہتے ہیں۔ سیاسیات کا ٹیچر کہہ رہا تھا کہ ہمارے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ سٹیٹ کا ٹیچر کہہ رہا تھا کہ اسکو اسلامیات دے دی گئی ہے۔ میرا تو اس سبجیکٹ میں مطالعہ بالکل محدود ہے میں تو صرف پیپر سے ایک دن پہلے پڑھ کر پاس کر ہوتا رہا ہوں۔ مجھے تو صرف میرے سبجیکٹ کے پیریڈ ملنے چاہیءں تھے۔ یہ کیا ہوا؟ مجھ سے اسلامیات نہیں پڑھائی جاتی۔ احد بولا۔ آج سے میرا بھی اسلامیات کا پیریڈ لگا دیا گیا ہے۔ میں۔ ۔ ۔ ۔؟ اس نے بُرا سا منہ بنا کر کہا۔ ساتھ ہی پیغام آگیا کہ اس وقت جو ٹیچر فری ہیں وہ گراؤنڈ میں جا کر دیکھیں کہ وہ لڑکے کیوں پھر رہے ہیں؟ ایک ٹیچر اٹھا اور چاروناچار چل پڑا۔ آپ کیوں بیٹھے ہو؟ سینئر ٹیچر نے احد سے پوچھا۔ ۔ جناب میں ابھی ابھی تین پیریڈ لے چکا ہوں۔ ۔ چار پیریڈ سے زیادہ بھی تم کو پیریڈ دیئے جا سکتے ہیں۔ یہ کہہ کر اس کو فارسی کی کلاس میں بھیج دیا گیا۔ اس پیریڈ میں وہ اپناگذشتہ لیکچر دوہراتا رہا، لڑکوں سے کھیلوں اور فلموں کے بارے میں گپیں ہانکیں اور واپس آ گیا۔ اس کے گلے نے اب مزید ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ ہولے ہولے قدم اٹھاتا سٹاف روم تک آپہنچا لیکن وہاں بیٹھنے کے لئے کرسی ندارد تھی۔ وہ تقریباً پانچ گھنٹوں سے کھڑا تھا۔ اس کو بھوک نے بھی بہت ستا رکھا تھا۔ اس نے چپراسی سے کچھ کھانے کو لا دینے کو کہا، مگر اس نے تو صاف انکار کر دیا اور کہا کہ اس نے پروفیسر صاحب کے بچوں کو لے کر آنا ہے۔ انہیں سکول سے چھٹی ہو چکی ہے۔ اگلی کلاس میں اس نے بہت مشکل سے لیکچر دیا، کچھ بول کر اور کچھ اشاروں سے اور کچھ کھانس کر۔ ٹھیک اڑھائی بجے وہ کالج سے باہر نکل کر چاند گاڑی دیکھنے لگا۔
چاند گاڑی والا شاہ رخ خان گیٹ کے آگے کھڑا سگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔ اسے دیکھ کراس نے ہاتھ ہلایا اور اسے دوستانہ انداز میں مسکرا کر دیکھا۔ احد نے بھی مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔ کیا ہوا باؤ جی؟ اس کے صرف ہونٹ ہلتے دکھائی دیئے تھے۔ حالانکہ اس نے کہا تھا کہ اس کا گلا خراب ہے۔ چاند گاڑی کا ڈرائیور جواب نہ مل پانے پر اس سے دوبارہ مخاطب ہوا، اس کے چہرے پر ناراضگی کے اثرات تھے۔ اس نے احد کے کندھے پر ہاتھ مارا۔ ۔ ۔ اور پیچھے مڑتے ہوئے احد کو دیکھا۔ احد نے اشارہ کر کے بتایا کہ وہ بولنے سے قاصر ہے۔ باؤ جی کوئی چائے شائے پینی تھی۔ پھر اس نے اپنی داستان شروع کر دی۔ جب وہ پہلے دن چاند گاڑی چلانے آیا تھا تو سواریوں کو بلانے سے جھجھکتا رہا۔ پھر ایک دو دن کی نامرادی کے بعد اس نے اپنی جھجھک دور کر لی۔ اور پہلے ہی دن اتنی آوازیں لگائیں کہ گلا بیٹھ گیا۔ باؤ جی سخت درد تھی۔ اماں نے دودھ پتی گرم گرم پلائی تھی۔ اور گلے پر گھی کی مالش بھی کی تھی۔ خدا کی قسم ایسے ایک دم فٹ ہو گیا تھا گلا۔ لیکن آپ کہاں آوازیں لگاتے رہے ہیں؟ میرا مطلب ہے ہوا کیا آپ کے گلے کو؟ ۔ ۔ ۔ ۔
اپنے کمرے میں پہنچ کراس نے ساڑھے چار کا الارم لگایا اور بے دم ہو کر چارپائی پر ڈھیر ہو گیا۔ وہ کب تک سوتا رہا اس کو ہوش ہی نہ رہا۔ الارم بجتا رہا اور وہ خواب دیکھتا رہا کہ وہ کلاس میں لیکچر دے رہا ہے، لیکن الارم کی آواز اسے جگانے میں ناکام رہی۔ گلے کی درد اور جسم کی تھکان نے اس کو بے سدھ کر رکھا تھا۔ جب وہ نیند سے بیدار ہوا توپانچ بج رہے تھے۔
اسے تو اس وقت ٹیوشن پر موجود ہونا چاہیئے تھا۔ قصاب کے بچوں کے امتحان نزدیک تھے۔ ہانپتاکانپتا وہ قصاب کے ہاں پہنچا تو وہاں قصاب صاحب کا پارہ ہائی ہو چکا تھا۔ کہنے لگے کہ ماسٹر صاحب! ہم آپ کو روپے بچوں کو پڑھانے کیلئے دیتے ہیں۔ اگر آپ اس طرح سے ٹائم ضائع کریں گے تو ہماری رقم کا کیا بنے گا۔ ہم لوگوں کو کوئی گورنمنٹ سے تنخواہ نہیں ملتی۔ ہم لوگ بڑی محنت اور خون پسینہ بہا کر یہ روپیہ کماتے ہیں۔ صبح صبح چار بجے اُٹھ کر بوچڑ خانے جانا پڑتاہے۔ اگر ہم لیٹ ہونا شروع ہو جائیں، تو ہو چکیں کمائیاں۔ وہ قصاب کا لیکچر سن کر خاصا شرمندہ ہوا۔ معذرت چاہتا ہوں جناب!میری طبیعت کچھ خراب تھی۔ آئندہ خیال رکھوں گا۔ ۔
اس نے سوچاکام بڑھتے جا رہے ہیں اور وقت ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ ماں کاخط بھی آچکا ہے۔ وہ سوچ رہا تھاکہ اس کے پاس جواب دینا تو درکنار پڑھنے کی فرصت بھی نہیں ملی تھی اب تک۔